مسئلہ کشمیر کے تصفیے کے امکانات پیدا ہو رہے ہیں

غلام محی الدین  اتوار 10 جنوری 2016
ماہِ دسمبر کے آخری دنوں میں غیر معمولی سفارتی سرگرمیاں نظر آئیں ۔  فوٹو : فائل

ماہِ دسمبر کے آخری دنوں میں غیر معمولی سفارتی سرگرمیاں نظر آئیں ۔ فوٹو : فائل

31 جنوری 2010ء کو 12 سالہ وامق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض فوج کی فائرنگ سے شہید ہوگیا تھا۔ بھارتی ریاستی کارندے اس کی چچی زمرودہ ملک کو زبردستی بھارتی یوم آزادی کی تقریب میں شریک کرنے کے لیے راشٹرپتی بھون (صدارتی محل) میں لے آئے تھے۔

مقصد یہ تھا کہ دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ مقبوضہ کشمیر میں شہید ہونے والوں کے گھر والے بھارت کے وفادار ہیں۔ اس تقریب میں شہید کے ورثا کو پانچ لاکھ روپئے کی امدادی رقم دی جانی تھی۔ جب اس وقت کی بھارتی صدر پریتھبھاپاٹل کا زمرودہ ملک سے آمنا سامنا ہوا تو وہ پُرزور اور غصیلے لہجے میں بھارتی صدر سے مخاطب ہوکر کہنے لگیں، ’’ہمیں کوئی انصاف نہیں ملا، ہم اپنے معصوم بچوں کا خون 5 لاکھ روپے میں نہیں بیچیں گے‘‘۔

اس موقع پر حریت کانفرنس کی ایک رہنما زمرد حبیب جو حریت پسندوں کو فنڈ (رقوم) پہنچانے کے الزام میں 5 سال تہاڑ جیل میں قید کی سزا بھگت کر واپس آئیں تھیں، وہ بھی وہیں موجود تھیں، جب بھارتی صدر ان کے قریب پہنچیں تو انہوں نے کہا ’’ہم آزادی چاہتے ہیں‘‘ بھارتی صدر نے پوچھا ’’کس قسم کی آزادی‘‘؟ تو زمرد حبیب کا جواب تھا ’’ویسی ہی آزادی جیسی آپ نے انگریزوں سے حاصل کی تھی۔‘‘

یہ دو مثالیں مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورتحال کی تصویر کشی کرتی ہیں۔ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی تمام بھارتی کوششوں کا ہمیشہ اُلٹ نتیجہ برآمد ہوا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔

جموں و کشمیر دنیا کا وہ بدقسمت خطہ ہے جسے انگریزوں نے وہاں کے شہریوں سمیت ڈوگرا راجہ کو بیچ دیا تھا۔ تب سے لے کر آج تک کشمیر کے عوام کو وہ جمہوری حقوق حاصل نہیں ہوسکے جو دنیا بھر میں لوگوں کی غالب اکثریت کو حاصل ہیں۔ کشمیر پر پاک بھارت تصادم برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔

بھارت نے بزور کشمیر کو اپنا حصہ بنانے کے لیے 27 اکتوبر 1947ء کو کشمیر میں اپنی فوج اتار دی تھی جس کے بعد پاکستان کو بھی میدان میں آنا پڑا اور کشمیر کے کچھ حصہ کو بھارتی اور ڈوگر استبداد سے آزادی حاصل ہوئی۔ اس تصادم کے نتیجے میں خود بھارت نے اقوام متحدہ میں جاکر اس بات کا وعدہ کیا کہ کشمیر کا فیصلہ استصواب رائے کے ذریعے کشمیر کے عوام کی امنگوں کے مطابق کیا جائے۔

اس بات کے پیچھے بھی بھارت کی یہ بدنیتی تھی کہ اس وقت کشمیر کے صرف 7 فیصد لوگ ووٹر کے طور پر رجسٹر تھے اور یہ 7 فیصد جموں کے ہندو تھے۔ یوں بھارت کا ارادہ تھا کہ اگر اس حالت میں استصواب ہوجائے تو ووٹ کے دھونگ کے ذریعے کشمیر کو ہتھیایا جاسکتا ہے۔ کشمیر پر دونوں ملکوں کے درمیان تین دفعہ ٹکراؤ ہوچکا ہے لیکن مسئلہ جوںکا توں ہے۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی برادری اپنا مثبت کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔

سال 2015ء بھی مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے لیے کوئی مثبت پیغام نہیں لایا۔ پاکستان کے منصوبہ سازوں کی عاقبت نااندیشی کے باعث اب حالت یہ ہوچکی ہے کہ بھارت کی طرف سے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار ہوجائے تو پاکستان میں حکومت خوشیاں منانے لگتی ہے حالانکہ اس معاملے میں بھارت جارح اور قابض فریق ہے۔

گذشتہ برس کا آخری مہینہ اس لئے اہم رہا کہ پاک بھارت تناؤ کی کیفیت بظاہر اچانک ختم ہوئی اور بھارت نے جامع مذاکرات کے آغاز پر آمادگی ظاہر کر دی۔ گزشتہ برس کے دوران کشمیر کے معاملے نے ایک مرتبہ پھر گمنامی کے اندھیروں سے نکل کر عالمی سطح پر اہمیت اختیار کی۔ اس کی وجہ کشمیری عوام کی مسلسل جدوجہد اور بے مثال قربانی ہے۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے وزیراعظم نواز شریف کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کرلی اور 26 مئی 2014ء کو اس تقریب میں شریک ہوئے۔ بظاہر خوشگوار آغاز کے نتیجہ میں دونوں وزراء اعظم میں تحائف کا تبادلہ بھی ہوا۔

25 اگست، 2014ء کو پاک بھارت سیکرٹری سطح کی بات چیت کا دور طے تھا جسے بھارت نے اس لیے ختم کردیا کہ دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے کشمیری حریت پسند رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔ یوں 2014ء سے ہی دونوں ملکوں کے درمیان روابط کی حالت پست ترین سطح پر پہنچ چکی تھی۔ نومبر 2014ء میں سارک سربراہ اجلاس میں دونوں ملکوں کے وزراء اعظم موجود تھے لیکن انہوں نے ملنا مناسب نہیں سمجھا۔

مارچ 2015ء میں بھارتی سیکرٹری خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے اپنے پاکستانی ہم منصب عزیز احمد چودھری سے سارک کے معاملات کے سلسلے میں ملاقات کی۔ جولائی 2015 میں روس کے شہر اوفا میں پاک بھارت وزراء اعظم کی ملاقات کو دونوں ملکوں کے درمیان حالات کو معمول پر لانے کے حوالے سے اہم ترین واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک گھنٹہ طویل ملاقات کے بعد ایک مشترکہ علامیہ بھی جاری ہوا جس پر دونوں ملکوں میں شدید تنقید کی گئی۔ قبل ازیں بھارتی وزیراعظم جب بنگلہ دیش کے دورے پر ڈھاکہ پہنچے تو انہوں نے بنگلہ دیش کی علیحدگی کو بھارت کا کارنامہ قرار دے کر دونوں ملکوں کے درمیان نئی محاذ آرائی کا آغاز کردیا تھا۔

2014ء کے آخر میں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی صورتحال خاصی بگڑچکی تھی۔ اکتوبر 2014ء میں بھارتی وزیردفاع ارون جیٹلی نے سرحدی کشیدگی کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتے ہوئے سخت کارروائی کی دھمکی دی تھی جس کے جواب میں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی ممکنہ پاکستانی ردعمل سے خبردار کیا۔ 12 اکتوبر کو مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے اقوام متحدہ کو ایک خط کے ذریعے کشمیر کے معاملے میں مداخلت کی اپیل کی جسے نظر انداز کردیا گیا اور کہا گیا کہ تنازعہ کو دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے طے کیا جائے۔

اس دوران لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی فائرنگ مسلسل جاری رہی لہٰذا ستمبر 2015ء میں ڈی جی رینجرز میجر جنرل عمر فاروق معمول کی ملاقات کے لیے بھارت گئے اور دونوں جانب سے فائر بندی کے احترام پر اتفاق ہوگیا۔ بھارت کے وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے پاکستانی وفد کو یقین دلایا کہ بین الاقوامی سرحد پر بھارت کی جانب سے فائرنگ میں پہل نہیں کی جائے گی۔

کشمیر پر پاک بھارت مذاکرات کے حوالے سے بڑا بریک تھرو گزشتہ برس کے آخری مہینے میں ہوا جب بھارت کی وزیر خارجہ سشماسوراج پاکستان آئیں، یوں دوطرفہ مذاکرات میں دو سال طویل تعطل کے بعد ایک مرتبہ پھر بات چیت کا آغاز ہوگا جس کا آدھی صدی گزر جانے کے باوجود کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ سشما سوراج پارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان آئیں تھیں۔

پاک بھارت تعلقات میں 2015ء کا ماہ دسمبر سب سے زیادہ ہنگامہ خیز ثابت ہوا کیونکہ 25دسمبر کو اپنے دورہ روس و افغانستان سے واپسی پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اچانک پاکستان آنے کا ارادہ ظاہر کر دیا اور وزیراعظم نوازشریف کی نواسی کی شادی میں شرکت کی۔

اب دونوں ممالک کے خارجہ سیکرٹری مذاکرات کے معاملات کو باہم مل بیٹھ کر حتمی شکل دیں گے۔ یہ بات سامنے آچکی ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ کے دورے کو یقینی بنانے کے لیے دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیر 6دسمبر 2015ء کو بنکاک میں ملے تھے جہاں سشما سوراج کے دورے کے امور طے ہوئے۔ ایسا ممکن ہے کہ پاکستان کے ساتھ روس کے تعلقات میں بہتری کے تناظر میں روسی قیادت نے بھی بھارتی وزیراعظم سے کہا ہو کہ نئے بین الاقوامی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان سے معاملات بہتر بنائیں۔ اب ان مذکرات کے نتیجے میں کیا پیش رفت ہوتی ہے؟ اس کے لیے مزید انتظار کرنا ہوگا۔

لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر خون بہتا رہا
٭2 جنوری:بھارتی فائرنگ سے طفروال کے علاقے میں 13 سالہ لڑکا شہید ہوگیا۔ ٭5 جنوری: اس علاقے میں بھارتی فائرنگ سے 4 شہری شہید ہوگئے جن میں ایک 18 سالہ نوجوان عظیم بھی شامل تھا۔ ٭14 فروری: راولا کوٹ سیکٹر میں بھارتی فائرنگ سے ایک 60 سالہ شخص شہید ہوگیا۔ ٭11اپریل:بھارت نے الزام لگایا کہ پاکستانی ڈرون بین الاقوامی سرحد کے پار جاسوسی کرتا پایا گیا ہے۔٭یکم مئی: شکر گڑھ سیکٹر میں بھارتی فائرنگ سے ایک شخص شہید ہوگیا۔

٭30مئی: بھارتی پولیس نے ایک پاکستانی کبوتر ’’گرفتار‘‘ کرلیا جس کے پروں پر انگریزی زبان میں شکر گڑھ اور نارووال تحریر تھا۔ اس کے پروں پر کچھ ہندسے بھی لکھے ہوئے تھے۔ بھارتی انٹیلی جنس کا دعویٰ تھا کہ یہ کبوتر جاسوسی کے لیے استعمال کیا جارہا تھا۔ بعدازاں اس کبوتر کو رہا کردیا گیا۔٭5 جولائی: بھارتی سرحدی فوج نے 11 سالہ لڑکے سمیر کیانی کو پاکستانی حکام کے حوالے کردیا جو غلطی سے لائن آف کنٹرول پارکرگیا تھا۔٭15 جولائی: پاک فوج نے بھمبھر آزاد کشمیر میں ایک بھارتی ڈرون طیارہ مار گرایا جو فضائی فوٹو گرافی کے مشن پر تھا۔ بھارتی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج کیا گیا۔

بھارت نے پاکستانی دعویٰ ماننے سے انکار کیا جس پر 27 جولائی کو آئی ایس پی آر نے تصاویر اور ویڈیو جاری کردی جس میں بھارتی ڈرون پاکستانی علاقے میں داخل ہوتا ہوا دیکھا جاسکتا تھا۔ ڈرون پر ASCOM کے الفاظ بھی نمایاں تھے جبکہ بھارت کی سرحدی چوکی کا فضائی نظارہ بھی تصاویر میں دیکھا جاسکتا تھا۔ بھارتی حکام نے ان ثبوتوں کو بھی مسترد کردیا۔٭16 جولائی: سیالکوٹ کے نزدیک چپراڑ سیکٹر میں بھارتی فائرنگ سے 5 پاکستانی شہری شہید ہوگئے۔٭20 جولائی: اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کے گروپ نے لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب حالات کا جائزہ لیا۔ مبصر گروپ نے فائرنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقے کا تفصیلی دور کیا جوکہ پاکستان کی جانب تھا۔ مبصر گروپ کے لوگ بھارتی مقبوضہ علاقے سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے پاکستان پہنچے اور چپراڑ کے تمام متاثرہ مقامات کا معائنہ کیا۔

٭25 جولائی: آزاد کشمیر کے چیری کوٹ سیکٹر میں بھارتی فائرنگ سے محمد وسیم نامی شہری شہید ہوگیا۔٭4 اگست: ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی فائرنگ سے سکھیل گاؤں کے دو شہری شہید ہوگئے جن کے نام 14 سالہ عاطف اور 22 سالہ محمد عدنان بتائے گئے۔٭7 اگست: مظفر آباد کے ہلن سیکٹر میں کھلونا بم سے ایک بچہ شہید ہوا۔٭9 اگست: ایل او سی پر جنڈروٹ سیکٹر میں بھارتی فائرنگ سے 28 سالہ فریدہ شدید زخمی ہوئی جس کا 11 اگست کو سی ایم ایچ راولپنڈی میں انتقال ہوگیا۔

٭14 اگست: ننیرہ پیر کے مقام پر بھارتی فائرنگ سے منیرہ اختر نامی خاتون شہید ہوگئی۔٭15 اگست: کوٹلی میں بھارتی فائرنگ سے دو افراد شہید ہوئے۔٭17 اگست: نکیال سیکٹر میں بھارتی فائرنگ سے ایک خاتون شہید۔ ٭18اگست: نکیال سیکٹر میں ایک شخص شہید۔٭21 اگست: اقوام متحدہ کے مبصرین نے سچیت گڑھ اور چارواہ سیکٹروں میں بھارتی گولہ باری سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ ٭22اگست: بٹل سیکٹر میں بھارتی فوج کی فائرنگ سے ایک شخص شہید ہوگیا۔٭28 اگست: سیالکوٹ سیکٹر میں بھارتی فائرنگ اور گولہ باری سے 8 شہری شہید جبکہ 22 خواتین سمیت 50 افراد زخمی ہوگئے۔

٭29اگست: اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین نے متاثرہ دیہات کا دورہ کیا۔بھارت کی مسلسل گولہ باری اور فائرنگ کے نتیجے میں 50 دیہات سے لوگوں کو نقل مکانی کرکے ڈالو والی، ہرپال برالوالی اور پنور نامی دیہات میں قائم کیمپوں میں پناہ لینا پڑی۔ اس گولہ باری سے 50 ہزار سے زائد لوگوں کو گھر بار چھوڑنا پڑا۔

٭15 ستمبر: ایل او سی کے بٹل سیکٹر میں بھارتی فائرنگ سے پاک فوج کا ایک جوان شمس خان شہید ہوگیا۔٭17ستمبر: نکیال سیکٹر میں بھارتی فائرنگ سے 3 شہری شہید ہوگئے۔٭18 ستمبر: ایل او سی پر بھارتی فائرنگ سے 25 سالہ خاتون شہید ہوگئی۔٭26 اکتوبر: شکر گڑھ سیکٹر میں بھارتی فائرنگ سے دو شہری شہید ہوگئے۔بھارتی اعدادو شمار کے مطابق اس برس کے دوران پاکستانی فائرنگ سے 13بھارتی فوجی اور 18عام شہری ہلاک ہوئے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ ہمیشہ بھارتی فائرنگ کے جواب میں کارروائی عمل میں لائی گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔