آج کی فکر کافی ہے

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 9 جنوری 2016

ہر قوم کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں اجالے کاراستہ اور تاریکی کاراستہ ۔ دو امکانی تقدیریں ہوتی ہیں، اجلے کی تقدیر اور تاریکی کی تقدیر ۔یاد رہے قسمت ہر دروازے پر رک کو پو چھتی ہے کہ کیا عقل اندر ہے ۔

یہ 1871 کی بات ہے کہ ایک نوجوان نے اپنی میز سے کتاب اٹھائی اور اس میں سے تیس الفاظ پڑھے جنہوں نے اس کے مستقبل پرگہرا اثر ڈالا وہ نوجوان مانٹریال جنرل اسپتال میں طب کا طالب علم تھا اور وہ پریشان تھا میں اپنے آخری امتحان میں کیسے پاس ہوسکوں گا پھرکیاکروں گا کہاں جاؤں گا کیسے پر یکٹس چلاؤں گا اورکیسے روزی کماسکوں گا ۔

اس نے جو تیس الفاظ پڑھے تھے انھوں نے اسے اپنے زمانے کا مشہور ترین ڈاکٹر بننے میں مدد دی، اس نے شہرہ آفاق جانز ہاپکنز اسکول آف میڈیسن کی تنظیم کی وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں طب کا پروفیسر مقرر ہوا اوریہ بلند ترین اعزاز ہے جو بر طانیہ میں طب کے کسی شخص کو حاصل ہو سکتا ہے، اسے سرکا خطاب دیا گیا اور جب اس انتقال ہوا تو 1466 صفحات پر مشتمل دو جلدوں میں اس کی داستان حیات مرتب کی گئی ۔

اس کا نام سر ولیم آسلر تھا جوالفاظ اسے نے پڑھے تھے وہ ٹامس کارلائل کے تھے وہ الفاظ یہ تھے ’’ زندگی کا مقصد یہ دیکھنا نہیں کہ دوردھند لکوں میں کیا نظر آتا ہے بلکہ جو سامنے موجود ہو ا سے سر انجام دینا ہے‘‘ سر ولیم آسلرنے ہیل یونیورسٹی کے طلبا کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مجھ جیسا آدمی جو چاریونیورسٹی میں پروفیسر رہ چکا ہو ایک مقبول کتاب کا مصنف ہوکے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے وہ مخصوص اوصاف کے دماغ کا مالک ہوگا اس نے پرزور الفاظ میں اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ میرے عزیزاور قریبی دوست جانتے ہیں کہ میرا دماغ بالکل اوسط درجے کا ہے ۔

پھر اس کی کامیابی کا رازکیا تھا اس نے خود ہی وضاحت کرتے ہوئے کہا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’ میں دن روک کمروں میں رہتا ہوں ‘‘ اس سے اس کاکیامطلب تھا۔ دراصل ہیل یونیورسٹی میں تقریر کرنے سے چند مہینے پیشتر سرولیم آسلر نے ایک عظیم بحری جہاز پر بحر اوقیانوس عبور کیا تھا۔ اس جہاز کا کپتان عرشہ جہاز پرکھڑے ہوکر ایک بٹن دبا دیتا مشینری کھٹکھٹاتی اور آنا ً فاناً جہاز کے مختلف حصے ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجاتے اور ’’ دن روک ‘‘ کمروں میں تبدیل ہوجاتے ۔

ڈاکٹر آسلر نے ہیل یونیورسٹی کے طلباء کوخطاب کرتے ہوئے کہا تم میں سے ہر ایک اس عظیم بحری جہاز سے کہیں بڑھ کر ایک عجیب وغریب مشین ہے جو زیادہ طویل سفر پرگامزن ہے جو بات میں تم پر واضح کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم اپنی مشینری کو اپنے اختیار میں لانا سیکھو، تاکہ ’’ دن روک ڈبوں ‘‘ میں رہ سکو جوکہ دوران سفر میں امن وسلامتی کے بہترین ضامن ہیں، عرشہ جہاز پر چڑھ کرکم ازکم اتنا اطمینان ضرورکرلو کہ بڑی دیواریں تومناسب کام کررہی ہیں۔

اپنی زندگی کے ہر موڑ پر بٹن دبا کر اطمینان کرلوکہ ماضی مرحوم کل کے آہنی دروازے بند ہوچکے ہیں اور ایک دوسرا بٹن دباکر مستقبل کے آہنی دروازے گراد و اور پھر تم صحیح سلامت ہو، آج کے لیے صحیح سلامت ۔ ماضی کو بند کردو گڑے مردوں کو دفن ہی رہنے دو گذشتہ کل کو فرامو ش کردو جس نے بیوقوفوں کو عدم کے گرد آلو د راستے پر لگا دیا ہے۔ آیندہ کل کا بوجھ گزشتہ کل سے ملاکر اٹھایاجائے تو مضبوط ترین انسان کے قدم بھی ڈگمگا جائیں گے مستقبل کو بھی اتنی ہی مضبوطی سے بند کردو جس قدر ماضی کوکیا تھا۔

مستقبل آج ہے کیا ڈاکٹرآسلرکی تقریر کا یہ مطلب ہے کہ ہمیں مستقبل کے لیے تیار ہو نے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے نہیں ہرگز نہیں ، لیکن اپنی اس تقریر میں انھوں نے یہ کہا تھا کہ مستقبل کے لیے تیار ہونے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی ساری ذہانت ، قوت ، توانائی اور جو ش وخروش کو آج کے کام کو بہترین طریقے سے سرانجام دینے کے لیے صرف کردینا چاہیے ۔

یہ ہی ایک واحدامکانی طریقہ ہے جس سے ہم مستقبل کے لیے تیارہوسکتے ہیں ۔ ڈاکٹر آسلر کی ہیل یونیورسٹی میں کی گئی وہ ہی تقریر آج سب پاکستانیوں کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ آؤ ہم اپنی ساری ذہانت، قوت ، توانائی اور جوش وخروش کو آج کے کام کو بہترین طریقے سے سر انجام دینے کے لیے صرف کردیں ۔

ہم سب کے لیے آج کا کام ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی ،کرپشن ، بدعنوانی کے خاتمے کا ہے جس نے ہم سب کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے جس نے ہم سب کی خوشحالی، ترقی،آزادی، سلب کررکھی ہے جس نے آپ کو اور مجھے اپنے معصوم پیاروں کے لاشے اٹھانے پر مجبورکردیا ہے پاکستانیوں کل کی کوئی فکر نہ کرو وہ اپنی فکر آپ کر لے گا آپ کے لیے صرف آج کی فکرکافی ہے اٹھو اپنے لیے اپنے پیاروں کے لیے اس جنگ کا سپاہی بننے کے لیے جو ہمارے لیے لڑی جارہی ہے، ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے ہمار ی زندگی کو جہنم بنا کر رکھا ہے ہمار ی خاموشی ہمار ا سب سے بڑا جرم ہے، آؤ سب سے پہلے ہم اپنے بدترین دشمن خوف کو مارڈالیں۔

یاد رہے یہ خوف ہی اصل میں ہمارا قاتل ہے ہم سب نے خوشحالی، ترقی،آزادی، سکون کے خواب دیکھے ہیں ہم اپنے خوابوں کے ساتھ یہ بدترین سلوک کیوں کررہے ہیں، کیاآپ نے یہ کبھی سوچا ہے کہ خوشیاں یاغم، دکھ یاسکھ ، خوشحالی یا غربت ، آزادی یا غلامی ،زندگی یا موت یہ سب کچھ ہمارے اپنے فیصلوں کے مرہون منت ہوتے ہیں ۔

یہ آپ کی اپنی خواہش یامرضی ہوتی ہے کہ آپ کن حالات میں اپنی زندگی بسرکرتے ہیں ہر انسان کے اندر الہ دین کے چراغ کاجن بیٹھا ہوا ہوتاہے جو آپ کی ہر خواہش پوری کرسکتا ہے، بس اسے صرف حکم دینے کی دیر ہوتی ہے، پھر دیکھیں وہ کس طرح آپ کا ہر حکم  بجالاتا ہے ۔اگر آپ اپنے موجودہ حالات سے خوش ہیں اور اسے تبدیل ہی نہیں کرناچاہتے تو پھر اور بات ہے لیکن اگر آپ ان عذابوں کی وجہ سے اذیت میں ہیں تو پھر آئیں اپنے خادم جن کوحکم دینے میں دیرنہ کریں۔

پھر دیکھیں کس طرح آنا فاناً آپ کو ان عذابوں سے نجات ملتی ہے، آپ ہی وہ واحد شخص ہیں جو اپنے گردو پیش کی ہرچیزکو بدل سکتے ہیں، آؤ اٹھو ہم سب اس جنگ کے سپاہی بن جائیں جو ہمارے اپنے لیے لڑی جارہی ہے ۔آئیں! ہم سب اپنے آپ پر اعتما دکریں ہم سے زیادہ دلیر، بہادر انسان دنیا میں دوسراکوئی نہیں یہ بھی یاد رہے قاتلوں اور  بدعنوانوں سے زیادہ اورکوئی بزدل نہیں ہوتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔