نجی سیکیورٹی ایجنسیاں جرائم میں غیر معمولی اضافے کا سبب بن گئیں!

رحمت علی رازی  اتوار 10 جنوری 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

معاشروں کی حفاظت کا کام شہری پولیس اور ریاستی افواج کی ذمے داری ہوتی ہے لیکن فی زمانہ یہ کام پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنیاں سلامتی معاون کے طور پر سرانجام دے رہی ہیں۔ آج اگر ہر مفید کاروبار پھیل کر کارپوریٹ بزنس کی شکل اختیار کر چکا ہے تو اس کے پسِ پردہ کلیدی محرکات کسی نہ کسی نوع کی خفیہ دہشت گردی ہے جس نے اس کاروبار کے مافیا بننے کی راہ ہموار کی ہے۔

ابھی ہم صحت یاتی دہشت گردی، تعلیمی دہشت گردی، غذائی دہشت گردی اور معاشی دہشت گردی کی زخم خوردگی کے اندازے بھی نہیں لگا پائے تھے کہ ہمیں سلامتی دہشت گردی نے لحن و لہو کر کے رکھ دیا ہے‘ عالمی دہشت گردی کے عفریت نے پاکستان کو بری طرح اپنے نرغے میں جکڑ رکھا ہے‘ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے اپنے ڈھالے ہوئے ہتھیار ہی خودکار اسلحہ بن کر غیروں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔

ایسے حالات میں ہماری ناتجربہ کار پولیس کو اپنی بساط سے بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور حکومتِ پاکستان کو مجبوراً یہ کام رینجرز، ایف سی اور آرمی سے کروانا پڑ رہا ہے تاہم اس حقیقت کے باوجود پاک فوج گلی محلوں اور کمرشل دفاتر میں حفاظتی انتظامات کا بیڑا نہیں اٹھا سکتی‘ اس کام کے لیے یقینا نجی محافظت کا طریقہ کار ہی کارگر ہے‘ اس طرح تحفظ ِ عامہ کی ذمے داریاں سنبھالنے کے لیے پرائیویٹ گارڈز پولیس اور دیگر سرکاری حفاظتی اداروں کے خاموش معاون کے طور پر کام کرتے ہیں۔ نجی محافظ رکھنے کا رواج صدیوں پرانا ہے مگر آج کے افراتفریائی دور میں پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنیاں بنا کر انہیں قانونی طور پر قواعد و ضوابط میں لایا گیا ہے اور یہ صرف پاکستان ہی میں نہیں دنیا کے جملہ ممالک میں رواج پذیر ہے۔

ذاتی محافظوں کے جہاں فوائد ہیں وہاں نقصانات بھی یقینی ہیں۔ پاکستان میںشروع کے تین عشروں کے دوران اس بارے میں کوئی قانون سازی نہیں کی گئی اور کوئی بھی صاحب ِ استطاعت یا طاقتور آدمی اپنی صوابدید سے جسے چاہتا اسلحہ تھما کر اپنا محافظ بنا لیتا مگر اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ذاتی محافظ رکھنے والے حضرات پاکستان میں بھی چوکنے ہو گئے جسکے نتیجہ میں حکومت کو 1984ء کے کمپنی ایکٹ کا سہارا لینا پڑا مگر اس قانون میں ترمیم کے ذریعے قواعد و ضوابط تو طے نہ ہو سکے تاہم نجی سیکیورٹی کمپنیوں کا کاروبار ضرور متعارف ہو گیا جن کی رجسٹریشن کمپنی آرڈیننس کے تحت ہونا شروع ہوئی۔

سیکیورٹی کمپنیوں کی رجسٹریشن کی اولین اتھارٹی سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن ہے جو رسمی کارروائی پوری کرنے کے بعد وزارتِ داخلہ کو این اوسی کی سفارش کرتا ہے‘ این او سی کے اجراء کے لیے تین سے چار ماہ یا اس سے بھی زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔ این او سی کے اجراء کے بعد ہر کمپنی اس ضابطہ کی پابند ہے کہ وہ لائسنس حاصل کرنے کے لیے اپنے صوبہ کے ہوم سیکریٹری سے رابطہ کرے مگر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ زیادہ تر کمپنیاں اس عمل سے صرفِ نظر کرتی ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ ملک میں لائسنس یافتہ کمپنیوں کی تعداد معدودے چند ہے جب کہ لاتعداد کمپنیاں ایسی ہیں جو صرف این او سی کی بنا پر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جب تک کوئی سیکیورٹی کمپنی اپنے متعلقہ صوبہ کی حکومت سے صوبائی آرڈیننس/ رولز کے تحت اجازت نامہ حاصل نہیں کر لیتی وہ کسی بھی صورت میں وہاں کاروبار کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ بغیر لائسنس کام کرنیوالی نام نہاد سیکیورٹی کمپنیوں میں بعض ایسی بھی ہیں جنھوں نے پولیس، رینجرز، ایئر فورس اور پاک فوج کی وردیوں سے مشابہت رکھنے والی گارڈز کی وردیاں بنوا رکھی ہیں حالانکہ رجسٹریشن کے وقت انہیں پابند بنایا جاتا ہے کہ وہ محافظوں کی وردیاں ایسی نہیں بنوائیں گے جو افواجِ پاکستان یا دیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی وردیوں سے تشبیہ رکھتی ہوں۔

اس طرح کی مشکوک اور جعلی کمپنیوں کے پاس لائسنس تو درکنار سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کا لیٹر اور وزارتِ داخلہ کا این او سی تک نہیں ہوتا۔ این او سی کی اصل فیس 10 ہزار روپے ہے مگر وزارتِ داخلہ کے کارندے 15 سے 20 ہزار روپے لے کر اسے جعلی ڈگریوں کی طرح فروخت کر رہے ہیں۔ 2013ء سے پہلے سیکیورٹی کمپنی رجسٹرڈ کروانا پستول کا لائسنس لینے سے بھی زیادہ آسان تھا‘ سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کا سازبازی عملہ بوگس دستاویزات پر ہی چند ہزار کی رشوت کے عوض رجسٹریشن لیٹر جاری کر دیتا تھا حالانکہ بنیادی رجسٹریشن کے لیے سیکیورٹی کمپنی کے مالک سے سات طرح کے دستاویزات سیٹ ایس ای سی پی کو درکار ہوتے ہیں جن میں ایک کاغذ کی کمی کی صورت میں بھی اسے رجسٹریشن نہیں دی جا سکتی‘ نہ ہی وزارتِ داخلہ کو این او سی کی سفارش کی جا سکتی ہے۔

یہ ایس ای سی پی ہی کی مہربانیاں ہیں کہ آجکل للّو پنجو حضرات بھی سیکیورٹی ایجنسیوں کا بورڈ لگاکر بیٹھے ہیں۔ بہت سے کمپنی مالکان جو لاکھوں کروڑوں کماتے ہیں ایک ہی بار 10 ہزار ادا کر کے این او سی حاصل کر لیتے ہیں جب کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ یا آئی سی ٹی (اسلام آباد) کے چیف کمشنر آفس کو 25 ہزار روپے لائسنس فیس اور سالانہ رینیوول فیس کے 5 ہزار روپے ادا کرنے سے کتراتے ہیں۔ ہم تو اس بات پر ہی ورطۂ حیرت میں ہیں کہ بوگس سیکیورٹی کمپنیوں کو این او سی کا اجراء کیسے کر دیا جاتا ہے جب کہ اس عمل سے قبل تمام انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنیوالی ایجنسیوں کی کلیئرنس ضروری ہے‘ یقینا یہاں بھی نوٹوں کی چمک ہی سب بگڑے کام سنوارتی ہے۔

اس وقت پاکستان میں کام کرنیوالی سیکیورٹی ایجنسیوں کی تعداد ایک ہزار سے اوپر ہے۔ وزارتِ داخلہ سے جنھوں نے این او سی حاصل کر رکھے ہیں وہ پانچ سو کے لگ بھگ ہیں۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں گارڈ مہیا کرنیوالی کمپنیوں میں صرف 200 لائسنس یافتہ ہیں جب کہ 300 کمپنیاں این او سی پر ہی تِیاپانچا کر رہی ہیں۔ تقریباً چھ سات سو کے قریب ایسی کمپنیاں بھی محو ِکار ہیں جن کے پاس این او سی تک نہیں ہے یعنی ایس ای سی پی کے پاس ایسی کمپنیوں کا ریکارڈ تک نہیں۔ سیکیورٹی کمپنی چلانے کا کاروبار اتنا منفعت بخش ہے کہ یہ سیکٹر اب ایک کارپوریٹ بزنس میں تبدیل ہو چکا ہے۔

کارپوریٹ بزنس کو ہم اپنے لفظوں میں مافیا کا نام دیتے ہیں جس میں صرف طاقت کا راج ہوتا ہے۔ اس نجی بزنس میں قانون کی عملداری کم ہی ہوتی ہے اور اثرو رسوخ کے ذریعے قواعد و ضوابط اور میرٹ کی دھجیاں اُڑائی جاتی ہیں۔ ہمارے نجی سیکیورٹی کمپنیوں والے امریکا بہادر کو دعائیں دیتے نہیں تھکتے جس کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کی وباء پھیلی‘ پاکستان میں نجی محافظت کا کام اسی وقت پنپنے لگ گیا تھا جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ افغانیوں کی پاکستان میں دَراندازی کی وجہ سے پرویز مشرف کو چند ریٹائرڈ فوجیوں نے مجبور کیا کہ نجی سیکیورٹی کمپنیوں کی ڈیمانڈ میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ وہ آرڈر پورے نہیں کر پا رہے‘ اسلیے ضروری ہے مزید قانون سازی کر کے سیکیورٹی کمپنیوں کا ضابطۂ عمل طے کیا جائے۔

1988ء کے انتظامی آرڈیننس کو ناکافی و نامکمل سمجھتے ہوئے جنرل مشرف نے 2003-4ء میں اس ضمن میں قواعد و ضوابط متعین کیے۔ اب یہ ضابطے اسلیے بیکار ہو چکے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم نے وفاق کو مکمل طور پر معذور کر کے رکھ دیا ہے اور سیکیورٹی ایجنسیاں بھی صوبائی قانون کی پیروی کرنے کی پابند ہیں۔ صوبوں میں بھی اس تناظر میں کوئی خاص قانون سازی عمل میں نہیں لائی گئی جس سے فائدہ اٹھا کر کمپنیوں کے مالکان این او سی پر ہی کاروبار کر رہے ہیں۔

پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنیوں کے 98 فیصد مالک ریٹائرڈ فوجی (صوبیدار، میجر، بریگیڈیئر، کرنل، جنرل وغیرہ) ہیں مگر انھوں نے جتنے بھی فری لانس گارڈ ماہوار تنخواہ پر رکھے ہوئے ہیں ان میں ریٹائر فوجی ایک یا دو فیصد سے زیادہ نہیں۔ بیروزگاری کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی گارڈ کی نوکری کرنے پر مجبور ہیں جنہیں بمشکل 7 سے 10 ہزار روپے ماہانہ ادا کیے جاتے ہیں جب کہ ان سے 12 سے 14 گھنٹے ڈیوٹی (کبھی کبھی ڈبل ڈیوٹی بھی) خلافِ قانون لی جاتی ہے۔ ملکی قانون تو یہ ہے کہ آپ 8 گھنٹے سے زائد کسی ملازم سے ڈیوٹی نہیں لے سکتے اور 13 ہزار روپے ماہانہ سے کم کسی بھی ملازم کو تنخواہ نہیں دے سکتے مگر اس ملک میں قانون تو بنایا ہی توڑنے کے لیے جاتا ہے۔

قانون توڑنے کا حق بھی صرف تگڑے اور طاقتور ہی کو ہے جو قانون کو دو ہی صورتوں میں توڑتا ہے: غریب کو نقصان پہنچانے کے لیے یا خود کے فائدہ کے لیے۔ یہ شکایات تو عام سننے میں آتی رہتی ہیں کہ سیکیورٹی ایجنسیوں والے مختلف حیلوں بہانوں اور کاریگریوں سے غریب گارڈوں کے پیسے کھا جاتے ہیں۔ وردی دھلا کر استری کروانے اور بوٹ پالش کروانے کا خرچہ بھی ہر گارڈ کو اپنی جیب سے دینا پڑتا ہے۔

انہیں اتوار اور عید و تہوار پر بھی چھٹی کی اجازت نہیں نہ ہی طعام و قیام کی سہولت۔ کئی پوائنٹس (جہاں گارڈ تعینات ہوتے ہیں) تو کالاپانی کی سزا سے کم نہیں ہوتے جہاں پینے کے پانی اور رفعٔ حاجت تک کی سہولت تک نہیں ہوتی۔ کچھ نجی محافظوں کی یہ بھی شکایت ہے کہ کئی بار جب اگلی شفٹ والا گارڈ غیرحاضر ہوتا ہے تو مجبوراً انہیں ڈے نائٹ ڈیوٹی کرنا پڑتی ہے اور بعض اوقات تو سیکیورٹی منیجر کو فون کرنے کے باوجود وہ اضافی گارڈ اگلی شفٹ کے لیے نہیں بھیجتا‘ اس صورت میں ایک ہی گارڈ کو کئی کئی روز تک ڈبل شفٹ سنبھالنا پڑتی ہے اور رات کو گھڑی دو گھڑی اونگھنے کی وجہ سے یا تو سپروائزر اسے جرمانہ کر دیتا ہے یا پولیس والے تشدد اور گالی گلوچ کرتے ہیں۔ نجی محافظوں کے ساتھ پولیس کا رویہ بھی انتہائی شرمناک ہے جو چوری چکاری کی صورت میں سب سے پہلے گارڈ کو ملزم ٹھہراتے ہیں۔

ڈکیتی کی صورت میں بھی گارڈ ہی کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ اس نے ڈاکوؤں سے ملی بھگت کر رکھی ہے۔ پولیس والے کئی بار رات کو آ کر گارڈ کو تنگ کرتے ہیں اور اسے باہر پہرہ دینے کی بجائے اندر بیٹھنے کی تلقین کرتے ہیں‘ یقینا وہ ایسا اسی وقت کرتے ہیں جب انھوں نے خود کہیں واردات کرنی ہو یا وارداتیوں کو ڈھال دینی ہو۔ اکثر اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ واردات پولیس والے خود کرواتے ہیں مگر اس کا ملبہ اس علاقے یا پوائنٹ کے پرائیویٹ گارڈ پر ڈال دیتے ہیں۔

گارڈ اگر چھٹی مانگ کر بھی کرے تو اس کی تمام چھٹیوں کے پیسے کمپنی والے کاٹ لیتے ہیں‘ اس لحاظ سے تو وہ یومیہ اجرت پر ہی ملازمت کرتے ہیں۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ صوبائی حکومتوں کو ایک یونیفارم پالیسی بنانے پر زور دے جس میں نجی محافظوں کی ڈے نائٹ ڈیوٹی کو 8 گھنٹے کی تین شفٹوں میں منقسم کیا جائے اور ایک شفٹ کی ماہانہ تنخواہ دیگر ملازمین کی طرح کم ازکم 13 ہزار روپے مقرر کی جائے۔ اگر کسی گارڈ سے 12 گھنٹے ڈیوٹی لی جائے تو کمپنی کو پابند بنایا جائے کہ وہ اسے ڈیڑھ شفٹ کے حساب سے مہینے کے 19 ہزار 500 روپے ادا کرے۔ غریب آدمی کا چولہا جلتا رہے‘ اسلیے گارڈ کو اتنا فائدہ ضرور دیا جائے کہ اس کی ایک مہینہ میں چار نہیں تو کم از کم دو چھٹیاں ضرور رکھی جائیں جن کے پیسے اس کی تنخواہ سے نہ کاٹے جائیں۔

نجی کمپنیوں کے رولز میں یہ بات بھی شامل کی جائے کہ گارڈ کی وردی کی دھلائی، استرائی اور بوٹ پالش کا ہفتہ وار لاؤنس کمپنی کے ذمہ ہونا چاہیے جب کہ گارڈ روم، رہائش (اگر ممکن ہو سکے) اور کھانا گارڈ کو ہائر کرنیوالے مالکان کے ذمہ ہونا چاہیے۔ سب سے بڑھ کر ضروری یہ ہے کہ ہر گارڈ کی انشورنس ہونی چاہیے کیونکہ یہ ایک ایسی پر خطر جاب ہے جس میں ہر وقت موت کے منہ میں کھڑے ہو کر ڈیوٹی کرنا پڑتی ہے۔

اپنی جان داؤ پر لگا کر دوسروں کے جان و مال کی حفاظت کرنیوالے کی جان کی قیمت طے ہونی چاہیے جو اس کی موت کے بعد نامزد وارثان کو ملنی چاہیے۔ اس کے علاوہ زخمی ہونے کی صورت میں میڈیکل کا خرچ اور معذوری کی صورت میں ایک مختص رقم بھی بہرحال بہت ضروری ہے۔ تعلیم کی قدر و منزلت کو برقرار رکھنے کے لیے کمپنیوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ بھرتی کرتے وقت اس بات کو مدِنظر رکھیں کہ ریٹائرڈ  فوجی کے علاوہ ان افراد کو گارڈ رکھا جائے جو ریٹائر پولیس اور رینجرز سے تعلق رکھتے ہوں‘ اس کے علاوہ ان افراد کو بھی بطورِ گارڈ بھرتی کیا جا سکتا ہے جو اسلحہ چلانے کے ماہر ہوں۔

بہ ایں ہمہ کمپنی کو چاہیے کہ گارڈ کے ساتھ باقاعدہ دستاویزی کارروائی کے ذریعے کنٹریکٹ ملازمت کا معاہدہ طے کرے جس کو عدالت سے رجسٹرڈ کروایا جائے تا کہ جو 7 فیصد ای او بی آئی اس کی کمائی سے گورنمنٹ کے کھاتہ میں جاتا ہے‘ اس کے فوائد بھی اسے مقررہ معیاد کے بعد مل سکیں۔ اگر سیکیورٹی کمپنیاں یہ سمجھتی ہیں کہ ایسے قوانین سے ان کے مفادات کو ٹھیس لگتی ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ گارڈ کو دیے جانے والے فیوض کی مناسبت ہی سے کلائنٹ کو اپنا پیکیج بتائیں۔

اگر ان کے کلائنٹس کو اس پر اعتراض ہو تو وہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے کیونکہ جو نجی محافظ رکھنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں وہ کوئی غریب لوگ نہیں ہوتے‘ وہ گارڈ کے لیے 30 ہزار تک کا پیکیج آسانی سے برداشت کر سکتے ہیں۔ اس تذبذب کو مصفیٰ کرنے کے لیے یہ حکومتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اس پیکیج کی اماؤنٹ اور طریقہ کار طے کریں اور ایسے قواعد بنائیں جو گارڈ، کمپنی اور مالک کے حق میں ہوں اور کسی کی حق تلفی بھی نہ ہو۔

عام طور پر نجی محافظوں کا استحصال اس طرح کیا جا رہا ہے کہ سیکیورٹی کمپنیاں ضرورتمند سے ایک گارڈ کے بدلے 16 سے 20 ہزار روپے وصول کرتی ہیں جب کہ گارڈ کو 7 سے 9 ہزار روپے (فوجی کو 10 ہزار ) دیتی ہیں جو موصولہ رقم کا نصف یا اس سے بھی کم بنتا ہے۔ گارڈ کی جان کے بدلے پکڑی ہوئی آدھی رقم کھا جانا سراسر زیادتی اور حق تلفی ہے بلکہ ظلم ہے۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ سیکیورٹی کمپنیاں اثر و رسوخ کے ذریعے بڑی بڑی سائٹس کے حفاظتی کنٹریکٹس 25 سے 30 ہزار روپے فی گارڈ پر حاصل کر لیتی ہیں مگر گارڈ بیچارے کو وہی آٹھ نو ہزار روپے میں 12 سے 14 گھنٹے کے بدلے دیتی ہیں۔

اس رقم سے آدھی کا وہ کھانا کھا جاتا ہے اور آدھی کرایوں بھاڑوں میں اُڑ جاتی ہے۔ جو کمپنیاں لائسنس کے بغیر ہیں اور صرف این او سی پر کام کر رہی ہیں ان کے ذاتی اخراجات کچھ بھی نہیں‘ صرف ایک منیجر، ایک سپروائزر اور ایک آفس بوائے کا خرچہ (یہ بھی ساری کمپنیاں نہیں کرتیں)۔ ایک گارڈ کا کہنا ہے کہ ان کا سپروائزر اچھی سائٹ پر ڈیوٹی لگانے کے 500 روپے لیتا ہے‘ اگر وہ کسی کو سوتے میں چھاپہ مار کر پکڑ لے تو بھی 500  لے لیتا ہے‘ وردی نہ پہننے کا جرمانہ بھی تنخواہ سے کاٹ لیتا ہے جو اس کی اپنی جیب میں جاتا ہے۔

اسی طرح منیجر مختلف داؤ پیچ سے چھٹیوں اور 28 یا 31 کے مہینوں کا بہانہ لگا کر تنخواہ دیتے وقت ہزار بارہ سو روپے منہا کر لیتا ہے‘ اسطرح 100 گارڈوں سے اسے سیدھا ایک لاکھ کے ایڑگیڑ میں فائدہ ہوتا ہے۔ وردی یا بوٹ واپس کرنے پر آفس بوائے دھلائی اور پالش کے پیسے کاٹ لیتا ہے جو منیجر اسے اکیلے میں دے دیتا ہے۔ ان تینوں کرداروں کے پیچھے ایک سامری بابا ہوتا ہے جو ایک ریٹائر میجر یا کرنل ہوتا ہے جو کبھی منظرعام پر نہیں آتا اور ایک ڈان کی طرح ایکٹ کرتا ہے۔ وہ صرف کلیکشن لینے مہینہ میں ایک یا دوبار دفتر آتا ہے‘ وہ بھی اس وقت جب کوئی گارڈ یا غیر آدمی دفتر میں موجود نہ ہو۔

یہ میجر یا کرنل اکثر بڑی بڑی پارٹیوں سے ملنے میں مشغول رہتا ہے جو آرمی کا چینل استعمال کر کے بڑے بڑے کنٹریکٹ حاصل کرتا ہے۔ ایک ہمارے محترم ریٹائرڈ کرنل صاحب کا کہنا ہے کہ مالی طور پر سیکیورٹی کمپنیوں کو نجی گارڈوں کے مقابلے میں آؤٹ کر دیا گیا ہے اور سیکیورٹی کمپنیوں پر مالی بوجھ زیادہ ہے جس سے پرائیویٹ گارڈ مبرا ہیں‘ انھوں نے جو اخراجات گنوائے ہیں ملاحظہ فرمائیں: اگر کمپنی ایک گارڈ کو 15000 روپے تنخواہ پر رکھے تو قوانین کے مطابق 7 فیصد سوشل سیکیورٹی، 7 فیصد ای او بی آئی (ایمپلائیز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن) جو ایکٹ 1976ء اور رولز 1978ء کے مطابق اولڈ ایج بینیفٹ پنشن مہیا کرتا ہے۔

انوائس پر 6 فیصد وِد ہولڈنگ ٹیکس اور 16 فیصد جنرل سیلز ٹیکس معہ 8000 روپے ماہوا جو فی گارڈ حکومت کو ادا کرنا پڑتے ہیں‘ اس کے بعد چھٹیوں کا عوضانہ مبلغ 2000 روپے، رہائش فی کس 1500 روپے، ٹرانسپورٹ 1000 روپے، ہتھیار انشورنس اور یونیفارم وغیرہ 1500 روپے، کمپنی اخراجات 1000 روپے اور منافع 1000 روپے ڈال کر کل 30 ہزار روپے بنتے ہیں‘ یعنی شہری سے 30 ہزار روپے وصول کرنے پر گارڈ کو 15000 روپے اور کمپنی کو محض ایک ہزار یا دو ہزار روپے بچتے ہیں۔

کرنل صاحب کے مطابق یہ اخراجات قوانین کی رو سے ناقابلِ تردید ہیں‘ اب کلائنٹ کی صوابدید ہے کہ وہ مسلح گارڈ کسی کمپنی سے 30 ہزار روپے میں لے یا پھر اسی گارڈ کو 16000 روپے ماہانہ دے کر نجی طور پر رکھ لے‘ دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ زیادہ ثانی الذکر کی غیرقانونی پریکٹس جاری ہے جس سے سیکیورٹی کمپنیاں ختم ہو رہی ہیں۔

کرنل صاحب نے جو اعداد  و شمار سامنے رکھے ہیں ہمیں ان سے یہی تاثر ملتا ہے کہ انھوں نے اُلٹے سیدھے ہندسے جمع کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ 30 ہزار روپے کلائنٹ سے وصولنے کے بعد بھی سیکیورٹی کمپنی کو محض ایک یا دو ہزار ہی بچتے ہیں۔ انھوں نے کمپنیوں کو اسلیے معصوم ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ وہ خود کمپنی چلاتے ہیں جب کہ اصل حقائق یہ ہیں کہ کمپنی مالکان اس نفع بخش دھندے کے ذریعے ہر مہینے لاکھوں کروڑوں کماتے ہیں اور گورنمنٹ کو راکھ بھی نہیں دیتے‘ نہ ہی انھوں نے کبھی گارڈ کی فلاح پر ایک روپیہ خرچ کیا ہے۔ جہاں تک گارڈ کو 15000 روپے تنخواہ دینے کی بات کی ہے تو ہمارے علم کے مطابق اس میںکوئی صداقت نہیں کیونکہ پاکستان کی کوئی سیکیورٹی کمپنی اپنے کسی گارڈ کو اتنی رقم ادا نہیں کرتی۔ 95 فیصد محافظوں کی تنخواہ 7 ہزار سے 9 ہزار روپے تک ہے۔

10 ہزار روپے صرف ریٹائرڈ فوجیوں کو ادا کیے جاتے ہیں‘ ان کی تنخواہ بھی 12 ہزار تک تب پہنچتی ہے جب ان کی سروس ایک ہی کمپنی میں 6 سے 8 یا 10 سال ہو جائے۔ 14 سے 16 ہزار صرف ان محافظوں کو ملتے ہیں جنھیں ملٹی نیشنل کمپنیاں نجی طور پر رکھ لیتی ہیں‘ ان گارڈوں کا فوڈ الاؤنس اور ریزیڈنس الاؤنس بھی مالکوں کے ذمے ہوتا ہے۔

ریٹائرڈ فوجی گارڈوں کے لیے گورنمنٹ کی طرف سے جو بڑھاپے کے فوائد اور پنشن کا پیسہ ملتا ہے وہ بھی ملی بھگت کر کے سیکیورٹی کمپنیاں ہڑپ کر جاتی ہیں حالانکہ گارڈ کی تنخواہ سے ہر ماہ اس ضمن میں 7 فیصد رقم کٹتی ہے۔ انوائس پر 6 فیصد وِد ہولڈنگ ٹیکس اور 16 فیصد جنرل سیلز ٹیکس بھی ان کمپنیوں کو دینا پڑتا ہے جو لائسنس یافتہ ہوتی ہیں‘ پھر 2 ہزار چھٹیوں کا عوضانہ کیسا‘ جب کسی گارڈ کو اتوار اور عید کی چھٹی بھی کمپنی کی طرف سے نہیں ملتی؟ اسلحہ کی انشورنس بھی صرف لائسنس یافتہ کمپنیاں ہی ادا کرتی ہیں۔

اس کے علاوہ جو یونیفارم کے ماہانہ 1500 اخراجات کرنل صاحب نے گنوائے ہیں وہ بھی صحیح نہیں۔ جو یونیفارم گارڈ پہنتے ہیں اس کے کپڑا اور سلائی کی کل قیمت بھی 1500 سے کم ہے‘ اور وہ وردی سال میں پچاسیوں گارڈوں کو دی جاتی ہے جو پیسے مارے جانے کی وجہ سے وردیاں واپس کر جاتے ہیں۔ جس اسلحہ کی انشورنس کی بات ہو رہی ہے وہ اسلحہ تو ایسا ہوتا ہے جو کباڑ سے خریدا جاتا ہے اور مرمت کے بعد بھی چلنے کے قابل نہیں ہوتا۔ آپ کسی بھی کمپنی گارڈ سے پمپ ایکشن یا ماؤزر ہاتھ میں لے کر چیک کر لیں وہ فائر کرنے کے قابل ہی نہیں ہوتا‘ اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ گارڈ بھی اتنے اناڑی ہوتے ہیں کہ فائرکرنا تک نہیں جانتے‘ اکثر کو تو صحیح ڈھنگ سے بندوق اٹھانا بھی نہیں آتی۔

نئے بھرتی ہونیوالے گارڈوں کا اصل شناخت نامہ کمپنیاں بحق خود محفوظ کر لیتی ہیں اور ایسے محافظوں کو کمپنی کا آفس بوائے میچنگ نمبر کی وردی اپنے ہاتھوں سے پہنا کر اپنے ہاتھوں سے بیلٹ کستا ہے اور چھوٹے بڑے بوٹوں کے تسمے کھینچ تان کر انہیں مکمل تیار کر کے دولہا بناتا ہے اور ہاتھ میں ایک خراب رائفل اور تین کارتوس تھما کر کہتا ہے کہ ڈکیت خواہ ڈاکہ ماریں یا کسی کی جان لیں تم نے گولی نہیں چلانی‘ بس ہر وقت بندوق ہاتھ میں ایسے پکڑ کر رکھنی ہے کہ دیکھنے والا یہ محسوس کرے کہ چڑیا کے پر مارنے پہ بھی یہ آدمی فائر کر دیگا۔ اب اس بھولے گارڈ کو کون سمجھائے کہ جو بندوق اس نے حفاظت کے لیے تھام رکھی ہے وہ تو اس لائق ہی نہیں کہ فائر کر سکے۔

کلائنٹ اور کمپنی نے گارڈ کے حقوق پر کمپرومائز کر کے ایسی ٹوٹی پھوٹی اور غیر رجسٹرڈ کمپنیوں کو سراٹھانے کا موقع فراہم کر دیا ہے جن کے گارڈ وقت آنے پر پولیس کی طرح دم دبا کر بھاگ جاتے ہیں۔ دھرنوں کے دوران جب 300 بلوائی پی ٹی وی کے اندر گھس گئے تھے تو انہیں دیکھ کر جو گارڈ ڈیوٹی پوائنٹ چھوڑ کر کمروں میں چھپ گئے تھے وہ بھی کسی ایسی پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنی ہی کی وردی میں ملبوس تھے۔ وہ اسلیے بھاگ گئے تھے کہ ان کی اپنی کمپنی نے انہیں ایسے کرنے کی ہدایات جوائننگ کے دن سے دے رکھی تھیں کیونکہ ان کی انشورنس نہیں تھی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ نجی سیکیورٹی ایجنسیاں عوام کو تحفظ دینے کی بجائے جرائم میں غیر معمولی اضافے کا سبب بن رہی ہیں لہٰذا آل پاکستان سیکیورٹی ایجنسیز ایسوسی ایشن (اپسا ) کو اس بات پر خصوصی دھیان دینا چاہیے کہ کوئی سیکیورٹی کمپنی لائسنس کے بغیر کام نہ کرے‘ دوسرا یہ کہ ان کے کام کرنے کے لیے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی معاونت سے ایک لیگل فریم ورک تیار ہونا چاہیے اور سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن یہ یقینی بنائے کہ کوئی بھی ایسی ایجنسی جسکے کاغذات پورے نہ ہوں یا جوکاغذی کارروائی میں فیل ہو جائے اسے رجسٹریشن نہ دی جائے‘ نہ ہی اسے این اوسی کے لیے وزارتِ داخلہ کو بھجوایا جائے۔ تیسرا یہ کہ صوبائی حکومتیں ایسے سخت قوانین مرتب کریں کہ ہر زید بکر اٹھ کر سیکیورٹی ایجنسی بنا کر نہ بیٹھ جائے۔

ان کے لیے حکومت کی طرف سے قواعد و ضوابط اور رولز آف بزنس طے ہونے چاہئیں جن میں یہ بھی طے ہو کہ کوئی بھی گارڈ آئی ایس آئی‘ آئی بی اور اسپیشل برانچز کی جانچ پڑتال کے بغیر بھرتی نہیں ہو سکے گا۔ نجی سیکیورٹی کمپنیوں کو لائسنس جاری کرنے سے پہلے پولیس‘ ایف آئی اے‘ سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن اور پاک فوج کے اعلیٰ حکام پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے جو ان کمپنیوں کو لائسنس دیتے ہوئے اور لائسنس کی توسیع کے وقت ان کا مکمل آڈٹ کروائے اور ان کے گارڈ بھرتی کرنے کے لیے بھی بورڈ تشکیل دیا جائے‘ اس کے باوجود بھی کوئی اگر سیکیورٹی کمپنی قانون کی خلاف ورزی کرے تو اسے مستقل طور پر بلیک لسٹ کر دیا جائے۔

اگر ایسا ہو جائے تو جرائم پیشہ عناصر جو سیکیورٹی کمپنیوں میں بھرتی ہو کر من پسند وارداتیں کرتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی ہو گی اور شہریوں کے جان و مال بھی محفوظ ہو جائینگے۔ کچھ نام نہاد پرائیویٹ سیکیورٹی ایجنسیوں کا دہشت گردی کے حوالے سے کیا کردار رہا ہے اور نیشنل ایکشن پلان کے بعد وزارتِ داخلہ اور پولیس کی طرف سے کیا پلان مرتب کیا گیا ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ بلیک واٹر اور داعش کے پاکستان میں پاؤں رکھنے میں ان کمپنیوں کا کتنا ہاتھ ہے اس کا ذکر اگلے کالم میں کرینگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔