شہر گزرا ہے کن عذابوں سے؟

رئیس فاطمہ  اتوار 10 جنوری 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

میر تقی میر نے مدتوں پہلے کہا تھا:
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

لیکن کراچی وہ بدقسمت شہر ہے جس کو گرمی، بارش، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، کچی آبادیاں، بھتہ خوری، بلڈرز مافیا، چائنا کٹنگ، تجاوزات، کچروں کے ڈھیر، ٹینکر مافیا کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ مافیا نے مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ یہ شہر ایک کھنڈر بن چکا ہے۔ ہر طرف انتظامیہ اور پولیس کی ملی بھگت سے عوام پر جو مظالم توڑے جا رہے ہیں۔

ان کا ادراک وہی کر سکتے ہیں جو کراچی میں رہنے کا عذاب بھگت رہے ہیں۔ مستزاد یہ کہ پورے پاکستان کے گاؤں گوٹھوں سے نقل مکانی کرنیوالے آ گئے۔ ان میں جرائم پیشہ افراد بھی یہاں آئے۔ جس سے شہر میں جرائم میں اضافہ ہوا۔ گھروں میں کام کرنے والی بعض خواتین بھی چوری چکاری میں ملوث ہوئیں۔ شہر میں خواتین کی غیراخلاقی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا۔

بہت عرصے سے کچھ کرم فرماؤں کا مطالبہ تھا کہ حکومت سندھ نے شہریوں کو اچانک چنگ چی اور چھ نشستوں والے سی این جی رکشوں کی بندش سے جس اذیت سے دوچار کیا ہے۔ اس کی طرف میں کچھ توجہ کروں۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اس جانب توجہ نہ کر پائی کہ گزشتہ دنوں جو قیامت مجھ پہ ٹوٹی ہے ابھی تک اس سے باہر نہیں آ سکی ہوں، جب کہ کوشش پوری کر رہی ہوں کہ میرے احباب کا مشورہ بھی یہی ہے کہ خود کو تنہائیوں میں نہ گم کر دوں۔ بہرحال وہی بات ہے کہ:

داغ رہنے کے لیے ہوتے ہیں رہ جائیں گے
وقت کا کام گزرنا ہے گزر جائے گا

ہم جب لاہور جاتے تھے تو وہاں ٹیکسی نظر نہیں آتی تھی۔ صرف تانگے پر گزارا ہوتا تھا۔ جب کہ کراچی پر دوسرے شہروں والے اس لیے رشک کرتے تھے کہ یہاں بس، رکشہ، ٹیکسی ہر سواری وافر مہیا تھی، چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے فاصلے کے لیے ہر سواری موجود۔ پھر حکومتی سطح پر صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ اور پولیس والوں کے گٹھ جوڑ سے پہلے رکشوں اور ٹیکسیوں میں سے میٹر غائب کیے گئے پھر بلڈر مافیا کے تعاون اور حکومتی اہل کاروں کی ملی بھگت سے سرکلر ریلوے کی پٹریوں کو اکھاڑ کر بیچ دیا گیا۔ کہیں انھیں زمین کے نیچے دبا دیا گیا اور ان پر تعمیرات کر دی گئیں۔

گلشن اقبال میں حسن اسکوائر کے آس پاس 13-D کا علاقہ خاص طور پر اس کا شکار ہوا۔ کراچی میٹرو پولیٹن سٹی ہے لیکن بدقسمتی سے جو صوبائی حکومتیں یہاں برسر اقتدار رہیں انھیں آپسی لڑائی اور اقتدار کی کشمکش سے فرصت نہیں تھی۔ اقتدار کسی کے پاس اور فنڈز کسی دوسرے کے پاس۔ جیسے ایک میان میں دو تلواریں یا دو سوکنیں۔ یہی کراچی کی قسمت ہے اور رہے گی۔

لیکن اس وقت جس عذاب کی طرف میں حکام کی توجہ دلانا چاہ رہی ہوں۔ اسے سندھ کی صوبائی حکومت کو فوری حل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ یہ ایک جینوئن مسئلہ ہے۔ عام طور پر عقل مندوں کے دیس میں ہوتا یہ ہے کہ بارش کے آثار دیکھ کر سامان ہٹا لیا جاتا ہے۔ لوڈ شیڈنگ سے نمٹنے کے لیے UPS یا جنریٹر لگوا لیے جاتے ہیں۔

اچانک بجلی چلی جانے کی صورت میں موم بتیاں اور چارجر کا انتظام کر لیا جاتا ہے۔ لیکن ہماری سندھ حکومت ہر لحاظ سے ’’اندھیر نگری چوپٹ راج‘‘ کی منہ بولتی تصویر ہے۔ پہلے تو جنوبی حصے سے چنگ چی رکشوں کی غیر قانونی آمد کو روکا نہیں گیا۔ پہلے بڑی بسیں ختم کی گئیں اور چھوٹی ویگنوں کو سڑکوں پہ دوڑا دیا گیا۔

گرین بسیں باوجود منافع کے خسارے میں دکھا کر انھیں بند کرا دیا اور پھر چنگ چی رکشوں نے شہر پر یلغار کی اور چوراہوں کو اپنا اڈہ بنا لیا تب بھی کسی کو ہوش نہ آیا، عام آدمی کو تھوڑے فاصلے پر دس روپے میں جانے کی سہولت ملی تو چھ سیٹوں والے سی این جی رکشوں نے طویل فاصلوں پر کم کرایہ میں لے جانا شروع کیا۔ کسی حد تک ان رکشوں نے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل تو کیا… لیکن پھر کیا ہوا؟ اچانک گہری نیند سے جھرجھری لے کر بیدار ہونے والی کم عقل انتظامیہ نے بیک جنبش قلم ان رکشوں پہ پابندی لگا دی کہ یہ رکشے شہر میں ٹریفک کے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔

ہونا یہ چاہیے تھا کہ پہلے ان رکشوں کو چورنگیوں سے دور رکھنے کی ہدایت کی جاتی۔ دوسرے مرحلے میں بڑی بسیں اور سرکلر ریلوے چلائی جاتی (یہ محض ایک خواب ہے) تیسرے مرحلے میں چھ سیٹوں والے سی این جی رکشوں کو روٹ پرمٹ دیے جاتے۔ جب بڑی بسیں مختلف روٹس پر چلنے لگتیں تب چنگ چی رکشوں کو بند کرنے کی کوئی تاریخ دے دی جاتی۔ تا کہ رکشہ چلانے والے اچانک مصیبت کا شکار نہ ہوں۔ اور مقررہ تاریخ سے پہلے کوئی اور متبادل روزگار ڈھونڈ لیں۔

ٹرانسپورٹ کے حوالے سے سب سے زیادہ اذیت کا شکار گلشن معمار والے ہیں۔ وہاں کے مکینوں نے فون کر کے اور ای میل کے ذریعے اپنی شکایات مجھ تک پہنچائی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے گلشن معمار میں A-25 اور 4-L نمبر کی بسیں اور ویگنیں چلا کرتی تھیں جو معمار کے آخری سیکٹر تک آتی تھیں جو لوگ بیس سال سے یہاں رہ رہے ہیں ان میں سے بیشتر کے پاس ذاتی سواری نہیں ہے۔ لیکن 4-L بس چونکہ بالکل آخری بلاک تک آتی تھی اس لیے مسئلہ زیادہ گمبھیر نہیں تھا۔

پھر چھ سیٹوں والے سی این جی رکشوں نے مسائل اور حل کر دیے۔ لیکن اچانک رکشوں کی بندش سے وہاں کے مکین بے حد پریشان ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ 4-L نمبر کی بسوں نے پولیس والوں کی مٹھی گرم کر کے اپنی بسوں کو ٹاور سے سہراب گوٹھ تک محدود کر لیا ہے۔ ہماری اندھی بہری گونگی ٹرانسپورٹ اتھارٹی نے یہ بھی زحمت گوارا نہیں کی کہ جن بسوں کا جو بھی روٹ پرمٹ ہے وہ اس کی پابندی بھی کر رہی ہیں یا نہیں؟ چنگ چی اور چھ سیٹرز رکشوں کی بندش تو پلک جھپکنے میں ہو گئی، رشوت خور ٹریفک پولیس اہل کاروں کی چاندی ہو گئی کہ ہر بس والا اپنے مقررہ گلشن معمار کے روٹ کی پابندی کرنے کے بجائے درمیان سے ہی واپس جا رہا ہے۔ کیا خوب تماشا ہے۔

نہ سائیں کی آنکھ کھلتی ہے نہ پابندی لگانے والوں نے سوچا کہ اس پابندی سے ایک طرف تو ہزاروں لوگ سفری مشکلات کا شکار ہوں گے اور دوسری طرف ہزاروں گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوں گے۔

چوری چکاری، وارداتیں بڑھیں گی کہ پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے لیے ایندھن تو فراہم کرنا ہی ہے خواہ قتل کر کے کرو یا وارداتیں کر کے۔ غربت تمام جرائم کی ماں ہے۔ لیکن آنکھیں بند کر کے رکشوں پہ پابندی لگانے والوں کو ان مسائل سے کیا واسطہ۔ وہ تو لینڈ کروزر اور پجیرو کے مسافر ہیں۔ وزیر اعظم صرف بیرونی دوروں کے تمام شوق پورے کریں گے کہ تیسری بار وزیر اعظم بنے ہیں۔ قدرتی آفات اپنی جگہ لیکن چھ سیٹرز رکشے بند کرنے سے پورے شہر کے عوام اذیت سے دوچار ہیں۔ مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کو بھی کراچی صرف الیکشن کے موقع پہ یاد آتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔