جینا مرنا … سب ختم!!

شیریں حیدر  اتوار 10 جنوری 2016
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

جیسا کہ ہم سنتے آئے ہیں کہ اللہ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے، پھر بھی ہم سوچتے ہیں کہ کسی شخص کے بیمار ہونے میں یا کسی کے مرجانے میں اللہ کی کیا مصلحت ہو سکتی ہے، موت تو بر حق ہے، ہر ذی روح نے ایک نہ ایک دن اپنی جان اللہ کے حوالے کرنا ہو تی ہے کہ اس کا وعدہ اس سے اس کی پیدائش سے بھی پہلے مقرر ہو جاتا ہے۔

بیماری میں کیا مصلحت ہو سکتی ہے اس کا تجربہ کئی بار ہوا کہ چھوٹی موٹی بیماری اللہ کو یاد کرنے کا بہانہ تو بن ہی جاتی ہے مگر اس کے علاوہ بڑی بیماری میں مبتلا ہونے والوں کے بھی کئی ٹوٹے ہوئے ناطے دوبارہ جڑ جاتے ہیں۔  بیماری اگرچہ انسان کو چڑچڑا کر دیتی ہے مگر بیمار آدمی کا دل اس حد تک نرم ہو جاتا ہے کہ وہ دوسروں کی چھوٹی موٹی غلطیوں کو نظر انداز کرنا سیکھ جاتا ہے، اسی طرح بیمار کے قرابت داروں کے دلوںمیں بھی بیمار کے لیے ہمدردی اور محبت کا جذبہ جاگ جاتا ہے۔ بڑی بیماری میں مبتلا ہو جانے والے کے لیے تو اعزا واقارب کے علاوہ ان لوگوں کا دل بھی پسیچ جاتا ہے جن کا بیمار سے کوئی واسطہ بھی نہ ہو۔

ہر خاندان میں کوئی نہ کوئی ایسے رشتہ دار ضرور ہوتے ہیںجو یا تو آپ کو برداشت نہیںکر سکتے یا آپ ان کو برداشت نہیں کر سکتے۔اس کے اسباب کوئی بھی ہوں مگر بہت سے تعلق ایسے بوجھ بن جاتے ہیں کہ انھیں اپنے کندھوں پر ڈھوتے ڈھوتے کندھے جھکنے لگتے ہیں، انھیں اتارنا مجبوری بن جاتا ہے ۔ تکلیف بھی وہاں سے ہی ملتی ہے جہاں سے توقع نہیں ہوتی، غیروں کی تو پروا ہی نہیں ہوتی، اپنوں کے رویے مار دیتے ہیں، کسی چھوٹی سی بات سے آپسیں تعلقات میں ایسی گرہیں بندھ جاتی ہیں کہ کھلے نہیں کھلتیں ۔

سالہا سال گزر جاتے ہیں، خونی رشتوں کے مابین شادیوں اور مرنے کے مواقع پر بھی ملنے کی پابندی کے عہد کیے جاتے ہیں مگر ہوتا کیا ہے کہ جب واقعی کسی کے ساتھ مشکل درپیش ہوتی ہے تو ان خونی رشتوں کی کشش جاگ اٹھتی ہے، دلوں پر جو میل وقت نے فاصلوں کی صورت جما دی ہوتی ہے وہ دو آنسوؤں میں ہی بہہ جاتی ہے، جھجک جو دوریوں کے باعث پیدا ہوتی ہے وہ دور ہو جاتی ہے، مگر وہ چند سال جو عذاب کی مانند دو گھرانوں پر گزرے ہوتے ہیں وہ عمر بھر کے لیے یاد رہتے ہیں۔

کبھی بھلائے نہیں بھولتے، اس پر مستزاد آپس میں براہ راست تعلقات نہ ہونے کا فائدہ وہ عناصر اٹھاتے ہیں جن کے مفادات ان دو گھرانوں کی دوری سے وابستہ ہوتے ہیں۔ہم پنجابی لوگوں میں عام روایت ہے کہ لڑنے کا اور روٹھنے کا کوئی وقت مقرر ہے نہ وجہ مگر راضی نامے کے لیے کوئی وجہ ہونا لازم ہے۔ جھگڑا اور اختلاف ہم بلا واسطہ کر لیتے ہیں مگر صلح صفائی کے لیے مصالحتی کمیٹی درکار ہوتی ہے، وقت ہوتا ہے جب کسی کا بیٹا سہرا باندھ کر اپنی بارات روانہ ہونے کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔

اس وقت اچانک یاد آتا ہے کہ فلاں فلاں رشتہ دار ناراض ہے اور دعوت بھجوانے کے باوجود نہیں آیا، اس وقت ’’سہریاں والا‘‘ مشن پر روانہ ہوتا ہے اور گھر گھر جا کر ترلے کر کے ان رشتہ داروں کو منا کر لاتا ہے جو اندر خانے اپنے تہبند ، قمیصیں اور پگڑیاں تیار رکھ کر بیٹھے ہوتے ہیں اور جی چاہنے کے باوجود مدعو کیے جانے پر شادی میں شرکت نہیں کرتے کہ برادری میں ناک نیچی نہ ہو جائے، سہرا باندھے ہوئے منانے کے لیے آنیوالا ان کی شان کا شملہ مزید اونچا کر دیتا ہے۔

اسی طرح ایک موقع ہوتا ہے جب کسی کی وفات ہو جاتی ہے، اس وقت وہ سب لوگ جنھوں نے ’’جینے مرنے پر بھی ملنا‘‘ ختم کیا ہوتا ہے، وہ سر نیہوڑائے، شرمندہ شرمندہ سے کچھ قریبی رشتہ داروں کی معیت میں داخل ہوتے ہیں اور ایک ناراض گروپ کی صورت بیٹھ جاتے ہیں، مرنے والے کے لواحقین میں سے کوئی ان سے نہیں ملتا، وہ کسی کو پرسہ نہیں دیتے، انھیں کوئی لفٹ نہیں کرواتا، وہ مرگ کے گھر سے بنا کھائے پئے رخصت ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد سرد سے تعلقات کا آغاز ہو جاتا ہے۔

ہم بھی کبھی کسی سے ناراض ہوں تو دل چاہتا ہے کہ کوئی بیچ میں پڑے اور کوشش کر کے ہمارے ٹوٹے ہوئے تعلقات بحال کروائے، خود سے کسی سے ناراضی ختم کر لینا ہماری انا کو گوارا نہیں ہوتا۔ انا کی بلند دیواریں دلوں میں تو نہیں ہوتیں مگر ہم انھیں ظاہر میں تان لیتے ہیں، غبار بڑھتا جاتا ہے اور اس کی دھند میں سب مبہم دکھتا ہے۔

اس کی سب سے اہم وجہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی بات کرے اور اسے کوئی نہ سمجھے تو وہ اپنی مرضی کے معانی پہنا لیتا ہے، نہ وہ کسی دوسرے کی دلیل سننے کو تیار ہوتا ہے نہ صفائی۔ ہمارے ہاں جھگڑوں کی اہم ترین وجوہات یہ ہیں ۔ سب سے بڑی وجہ، طلاق کے باعث کسی شادی کا ٹوٹنا ہے جو اللہ کے نزدیک بھی جائز کاموں میں انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے کیونکہ اس سے ایک میاں بیوی کا رشتہ یا ایک گھر نہیں ٹوٹتا بلکہ دو خاندان تقسیم ہو جاتے ہیں۔

نہ صرف دو خاندان آپس میں ناراض ہوتے ہیں بلکہ ان دونوں خاندانوں کے بیچ ایسے الجھاؤ پیدا ہوتے ہیں کہ ان میں سی کسی سے بھی کوئی تعلق نہیں رکھ پاتا، چند ماہ قبل کالج کے زمانے کی ایک سہیلی سے بڑی تفصیل سے ملاقات ہوئی، وہ ذہنی امراض کی اسپیشلسٹ ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ عصر حاضر میں بڑھتی ہوئی ذہنی بیماریوں کا سبب کیا سمجھتی تھی وہ!! بہت سے طبی اسباب کو بیان کرنے کے بعد اس نے کہا کہ کسی دور میں کہا جاتا تھا کہ بندہ بندے کا دارو ہوتا ہے مگر بد قسمتی سے آج کل کے دور میں ایسا نہیں رہا۔ حسد کی آگ میں لکڑی کی طرح جلنے والے دوست، احباب اور رشتہ دار بہت سی ذہنی بیماریوں کا سبب بن گئے ہیں ۔

’’ تو کیا ان سے قطع تعلق کر لیا جائے، جب کہ قطع رحمی کوگناہ کبیرہ کہا گیا ہے !! ‘‘ میں نے اس سے سوال کیا ، ذہن میں قطع رحمی کی بابت احادیث یاد آ رہی تھیں ۔’’ ناخن سے گوشت جدا نہیں ہو سکتا ، اسی طرح خونی رشتوں سے تو تعلق نہیں توڑا جا سکتا… ‘‘ اس نے کہا، ’’ مگر ان میں سے اگر کوئی رشتے اس حد تک باعث تکلیف بن جائیں کہ زندگی کو عذاب بنا دیں ، صحت کے لیے خطرہ بن جائیں ، اس سے رابطہ رکھنا ہر وقت ذہنی کوفت اور اذیت میں مبتلا رکھے تو تعلق اور لا تعلقی کے بیچ کا راستہ اختیار کیا جائے ‘‘

’’ ایسا کیسے ممکن ہے؟ ‘‘ میں نے ہنس کر پوچھا تھا۔

’’ جیسے کسی بھی بیماری میں ہم صحت کی خاطر ہم کسی بھی چیز سے پرہیز کرتے ہیں، دل کے مریض چکنائی کو چھوڑتے ہیں، شوگر کے مریض گندم اور میٹھے کو چھوڑتے ہیں، جوڑوں کے درد میں مبتلا لوگ ٹھنڈی اور بادی اشیاء سے پرہیز کرتے ہیں، وغیرہ وغیرہ

’’ ہک ہاہ!!‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لی، ’’ کہنا آسان ہے مگر کرنا مشکل پیاری ‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔