ایران و سعودی عرب اور نئے امتحان

جاوید قاضی  پير 11 جنوری 2016
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

ایک دنیا ہے کہ ماڈرنزم کے زماں و مکاں سے پار ہوکر پوسٹ ماڈرن ہونے کے زینوں پر قدم رکھ رہی ہے ٹھیک اس وقت خلیج و فارس ایک ایسے تضاد کو یقینی طور پر جنم دے چکا ہے جس کا دیرپا تصفیہ جب تک نہ ہوتب تک اس بات کا خدشہ رہے گا کہ پوسٹ ماڈرن دور میں جاتا ہوا یورپ و امریکا بھی اس دلدل میں پھنس جائے۔

عین اس وقت دنیا اپنی تاریخ کے پہلے اور خطرناک ماحولیاتی تباہی کے خطروں سے بھی دوچار ہے یہ خطرے کسی اور نے نہیں بلکہ ماڈرن دور کے انسان نے جب ایک طرف ایجادات کی بھرمار تو کی، آدمی کے معیار زندگی کو بہت بلند تو کیا لیکن اس کے سارے توانائی کے ذرائع اور اس کا بے دریغ استعمال Fossil Fuels سے تھا یعنی تیل، کوئلہ و گیس وغیرہ سے اور اب اس پر انحصار کم کر کے ایک ایسی توانائی کے ذرائع ڈھونڈنے کی طرف چل نکلا ہے جس سے آلودگی کم ہو جیساکہ شمسی وغیرہ میں بنیادی نقطہ یہ ہے کہ دھرتی ایک ہے مگر رنگ فرقے، نسل و مذاہب لاتعداد ان سب کو افہام و تفہیم میں رکھنے کے لیے انصاف چاہیے اس لیے دنیا خود ایک فیڈریشن کا جب تک روپ اختیار نہیں کرے گی تب تک یہ خطرات وجود رکھیں گے۔ ساتھ یہ دھرتی صرف انسانوں کی کیوں، یہ دھرتی خدا کی اور مخلوق کی بھی ہے۔

خلیج و فارس کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ یہاں مذہب و ریاست الگ نہیں ہوسکے تو خود دوسری جنگ عظیم کے بعد جو سرد جنگ کے سیاہ و سفید نے عرب دنیا کو بادشاہوں کے حوالے کردیا، اور ساتھ تیل کی رسد یورپ و امریکا کو یقینی بنانے کے لیے ان ممالک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔

اب بھی دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کردہ ملک رشیا ہے تو دوسرے نمبر پر سعودی عرب لیکن تیل کے ذخائر سعودی عرب کے پاس سب سے زیادہ ہیں۔ امریکا کے اپنے ذخائر اب اتنے ہیں کہ اسے اب تیل منگوانے کی پہلے جتنی ضرورت بھی نہیں۔ بحث کو آگے پھیلاتے ہوئے یہ بات بھی رکھ دوں۔ خلیج و فارس میں نقشوں کی دوسری جنگ کے بعد کی گئی غیر فطری تقسیم سیسب سے بڑی متاثر قوم کرد رہی۔

دنیا میں ماڈرن ریاستیں تھیں مگر خلیج و فارس میں نہیں۔ یہاں کے لوگوں کو جمہوریت میسر نہیں تھی۔ اس خطے کے کسی بھی ملک کا جمہوریت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ چاہے جمال ناصر کا مصر ہو یا حافظ اسد کا شام، یا وہ ایران ہو یا عراق، سعودی عرب کا تو بہت پرانا تعلق تھا بادشاہت سے نیز خود دوسری عرب ریاستوں کا۔

جن ریاست میں جمہوریت نہیں ہوتی تو پھر سمجھ لیجیے کہ ایسی ریاستوں میں ماڈرن ریاستوں کے تقاضے پورے کرنے والے آئین بھی نہیں ہوا کرتے جب آئین نہیں ہوا کرتے تو سمجھ لیجیے آزاد عدلیہ بھی نہیں ہوا کرتی اور جب آزاد عدلیہ نہیں تو پھر سمجھ لیجیے ایسی ریاستیں اپنے عام شہریوں کے بنیادی حقوق کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھتیں اور جب ایسی ریاستیں جب ایسا کچھ نہیں دیا کرتیں تو لازم ہے کہ یہ اقربا پروری کا بدترین شکار ہوں گی اور اس طرح اندر سے ٹوٹنا پھوٹنا شروع کردیتی ہیں یہی وجہ تھی یہاں اسپرنگ انقلاب آئے اور چونکہ سیاسی پارٹیاں نہیں تھیں، ایسے انقلاب نتائج نہ دے سکے۔ یہاں پر مذہبی انتہا پرستوں نے ایسی سیاسی جماعتوں کے خلا کو بھرنے کی کوشش کی۔ بات داعش تک پہنچی، القاعدہ ماضی ہوا، اور اس طرح دنیا میں Islamo Phobia پھیلنے لگا جس کا شکار خود یورپ و امریکا ہے اس سارے بحران میں دنیا میں دوسری جنگ عظیم جیسی ورلڈ لیڈر شپ نہیں۔ ایک انسان پرست کوئی سربراہ ہے تو وہ کینیڈا کا وزیراعظم ٹیوڈر ہے۔

ایسی ریاستیں اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے پھر ایسے بیانیے (Narrative) کو جنم دیتی ہیں جس سے نام نہاد وطن پرستی جنم لیتی ہے جس کا انحصار دوسری قوم اور ملک سے نفرت ہوتا ہے اور ایسے بیانیہ کے انکاری کو غدار کہا جاتا ہے۔ اور پھر ایسی ریاستیں اپنے شہریوں میں ڈر کو پیوست کرتی ہیں۔

ہم نے دیکھا کہ جنرل ضیا الحق نے بھی اپنی آمریت کو تقویت دینے کے لیے مذہب کا سہارا لیا توخود اس وقت سامراج نے بھی سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے مسلکی فکر کو پروان چڑھایا۔ ہم نے دیکھا کہ ہندوستان کے مودی جب اپنے ملک میں بحران کا شکار ہوتے ہیں تو اس وقت بھی جنگ کی فضا کوہوا دیتے ہیں تاکہ داخلی بحران کا کسی اور طرف رخ کردیا جائے اور یہی کام ہم بھی کرتے ہیں تاکہ ملک میں جمہوریت قدم نہ جما سکے۔

شام کو آمریت اندر سے کھوکھلا کر بیٹھی اور لبنان کا حشر آپ نے دیکھا۔ دونوں ریاستوں میں شیعہ اثر زیادہ ہے اور ان کی حمایت ایران کرتا ہے۔ اور ان کے مخالفین کی حمایت سعودی عرب کرتا ہے۔ بحرین میں بھی اس طرح اور یمن میں بھی ایران و سعودی عرب Proxy War ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے ہیں اور یہ Proxy جنگ تو پاکستان میں ان دو ممالک کے درمیان سالوں سے لڑی جا رہی ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں یورپ و امریکا میں سعودی عرب نے ایسے نظریے کو مدارس میں پڑھایا ہے جس سے ان کی سوچ پھیلے یہ اور بات ہے کہ اسلام کا اصل مغز پھر بھی نہیں پڑھاتے کہ اسلام میں بادشاہت ممنوع ہے؟

اس مخصوص مذہبی سوچ نے ہمارے وجود کو خطرے میںڈال دیا اور ہمیں کہیںسے بھی وارا نہیں کھاتا کہ ہم اس دلدل میں پھنسیں اور سعودی عرب کے اٹھارہ اتحادی والی فہرست میں رہیں۔ ہمیں توانائی کے شدید بحران کا آیندہ دنوں میں سامنا ہوگا اور ہمارے لیے ہمارا پڑوسی ملک ایران ہمارے لیے قریب تر ہوناچاہیے۔

خود یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ ایسی جنونی و انتہا پرست سوچ کیوں پیدا ہوئی ہے۔

جب ہٹلر جرمنی میں ظہور پذیر ہو رہا تھا تو اس وقت جرمنی دنیا کی بدترین افراط زر کی زد میں تھا۔ تب پوری قوم کو یرغمال کرنے میں ہٹلر کامیاب گیا اور ان کوجنگی جنونیت دی۔ شام ایران نے جو اقربا پروری کی مثال قائم کی تھی اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی اور پھراس کے خلاف بغاوت ہوئی وہ انقلاب شیعہ ملا اپنے قبضے میں کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ تو ان زمانوں میں CIA اور KGBبھی عمل میں رہے۔ ٹھیک ہے چلی میں بھی معاشی بحران تھا لیکن اس بحران کو ہوا دینے میں ایلندے کو مٹانے میں CIA نے پنوشے کے ساتھ الحاق بنایا۔ یہی کام بھٹو کے خلاف CIA نے ضیا الحق سے مل کے کیا اور یہ بھی ٹھیک بات ہے کہ بھٹو نے 1977 کے انتخابات میں دھاندلی بھی کروائی تھی۔ اس طرح کا آپریشن CIA نے 1975 میں شیخ مجیب کے خلاف بھی کھیلا۔

خلیج و فارس کے اس تضاد میں کیسے ممکن ہے کہ اسرائیل ہاتھ باندھے ہوئے بیٹھا ہو۔ امریکا جب ایران سے دشمنیاں کم کر رہا تھا۔ اس سے نہ تو اسرائیل خوش تھا نہ سعودی عرب اور اب بھی عین ممکن ہے اسرائیل بھی اس جنگ ایران کے خلاف سعودی عرب کا اتحادی نہ بن جائے۔

بہت سے تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ جنگی جنون اپنے داخلی بحران سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے ہے۔ تیل کی قیمت 120 ڈالر فی بیرل سے گر کر 34 ڈالر تک پہنچی ہے۔ سعودی عرب اپنی بجٹ کے لیے 80 فیصد آمدنی تیل کے فروخت کمائی ہوئی رقم سے لیتا ہے۔ خود تیل کی پیداوار سعودی عرب کے مجموعی پیداوار کے 40 فیصد کے برابر ہے۔

خدشہ یہ ہے کہ تیل کی قیمت 39 ڈالر سے بھی کم ہوکے 20 ڈالر فی بیرل تک پہنچے تو اس طرح سعودی عرب ایک بہت بڑے بحران میں پھنسے گا۔ جب 2015 میں اوسطاً تیل فی بیرل 60 ڈالر تھا تو بھی سعودی عرب نے زرمبادلہ کے ذخائر سے 70 ارب ڈالر گنوا چکا تو ساتھ ساتھ دس سالوں میں یہ پہلی مرتبہ تھا کہ اس نے اپنی بجٹ میں 20 فیصد کا خسارہ رکھا اور اگر تیل فی بیرل 30 ڈالر کے درمیان رہا تواس مرتبہ بجٹ خسارہ 40 فیصد ہوگا، 15 ارب ڈالر رزرمبادل کے ذخائر سے اور جائیں گے؟ 52 ارب ڈالر کی تیل پر دی ہوئی سبسڈی یا خوراک کی چیزیں جو 80 فیصد باہر سے آتی ہیں ان پر سبسڈی اگر واپس لے گا تو لوگ خفا ہوں گے، خطرات پیدا ہوں گے۔

ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے دنیا اور عرب خطہ بھی مسائل کا شکار ہوئے ہیں ، بارشیں کم ہوگئیں، زیر زمین پانی کی سطح اور نیچے جا رہی ہے۔ ماحولیاتی تناطر میں سعودی عرب کی زراعت کے لیے خطرات پیدا ہوگئے ہیں تو خود گرمی اور بڑھ رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا اس طرح سعودی عرب و ایران اور ایسی تمام ریاستوں کو اسی طرح کا آئین دے جس طرح دنیا نے دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی اور جاپان کو دیا تھا۔ اور جب تک دنیا کی تمام ریاستیں ایک دوسرے کے لیے امن پیدا نہیں کرتیں تب تک دنیا ان خطرات میں پھنسی رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔