بھارت کی اندرونی سیاست

نصرت جاوید  بدھ 31 اکتوبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

1984ء کے اکتوبر سے بھارت کی اندرونی سیاست کے بارے میں مسلسل لکھتے رہنے کے بعد میں نے 2005ء کے نومبر میں اور منزلوں کا رُخ کرلیا۔

دو سال گزرنے کے بعد ٹیلی وژن کی نذر ہو گیا۔ لکھنے پڑھنے کی مشقت سے تھوڑی مہلت پائی۔ سرخی پائوڈر لگا کر اپنے بھاشنوں کے ذریعے سماج سدھار کی مہم میں شامل ہو گیا۔ آج کل بھارت کی اندرونی سیاست کو کبھی کبھار نیٹ پر وہاں کے کچھ اخبارات پڑھ کر جان لیتا ہوں یا چند ایسے ٹی وی پروگراموں کی ریکارڈنگ دیکھ کر جن کا انٹرنیٹ کی دنیا میں بہت زیادہ تذکرہ ہو رہا ہوتا ہے۔

بھارت کی اندرونی سیاست سے اس واضح لاتعلقی کے باوجود گزشتہ جمعہ جب خبر آئی کہ وہاں کے وزیر خارجہ نے استعفیٰ دے دیا ہے تو فوراً میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ سلمان خورشید ان کی جگہ لے سکتے ہیں۔ میں نے اپنے اس خیال کو فوراً اپنے ٹویٹ اکائونٹ پر بھی لکھ ڈالا۔ اسے پڑھ کر نئی دہلی میں مقیم چند بھارتی اور غیر ملکی صحافی دوستوں نے میری تصحیح کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ زیادہ تر دوستوں کا خیال تھا کہ چونکہ اب بھارت کے انتخابات میں صرف 18 ماہ باقی رہ گئے ہیں، اس لیے نئے وزیر چنتے ہوئے من موہن سنگھ اپنی ٹیم کو Young Look فراہم کرنے کی کوشش کریں گے۔

اہم وزارتوں پر وہ لوگ لگائے جائیں گے جن کا نئے انتخابات کے بعد کانگریس ہی کی حکومت بن جانے کے بعد پالیسی سازی میں اہم کردار ہو گا۔ اسی ضمن میں کچھ دوست بڑی شدت سے اس خیال کا اظہار کرتے بھی پائے گئے کہ راہول گاندھی بھارت کے نئے وزیر خارجہ ہو سکتے ہیں۔ ایسا ہونا یوں بھی ممکن دِکھ رہا تھا کہ آیندہ انتخابات جیتنے کے بعد سونیا گاندھی اب راہول ہی کو وزیر اعظم بنانے کا قطعی ارادہ کر چکی ہیں۔ من موہن سنگھ کی کابینہ میں 18 مہینے تک وزارتِ خارجہ چلانے کی وجہ سے راہول حکمرانی اور جہاں بانی کے امور کو روز مرہ کے تجربات سے زیادہ بہتر طریقے سے جان سکتے تھے۔

مگر پھر خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ من موہن سنگھ اور بہت سارے دوسرے رہ نمائوں کے پر زور اصرار کے باوجود سونیا گاندھی اپنے بیٹے کو وزیر بنوانے پر تیار نہیں ہو رہیں۔ شاید ان کا ارادہ ہے کہ آیندہ انتخابات کے قریب راہول گاندھی کو کانگریس کا کلی اختیارات والا صدر بنا دیا جائے۔ سونیا کے ظاہری اور خفیہ ارادوں کے اس اظہار کے بعد بھارت کے وزیر تجارت آنند شرما کرشنا کی جگہ لینے کے لیے سب سے زیادہ مقبول پائے گئے۔ میرا ذہن مگر سلمان خورشید کے نام پر اٹکا رہا۔

میں یہ کالم خود ستائشی کے لیے نہیں لکھ رہا کہ بالآخر میرا سوچا نام ہی کامران ٹھہرا۔ میرے دل ودماغ میں کچھ اور نوعیت کے خیالات اُٹھ رہے ہیں۔ سوچ رہا ہوں کہ انھیں لکھوں یا نہیں کیونکہ مجھے شبہ ہے کہ آپ کو یہ سب بہت بور محسوس ہو سکتا ہے اور اس کی ٹھوس وجہ بھی ہے۔ ہمارے ملک میں ٹیلی وژن کے اتنے فروغ کے بعد ذہن نہیں کھلے ہیں۔ بلکہ میرا دُکھ تو یہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ سکڑ گئے ہیں۔ میرے والدین کی نسل صرف اخبارات پڑھ کر عالمی امور کو میرے بچوں کی نسل سے بہت بہتر سمجھتی تھی۔

لوگوں کی سیاسی تربیت کے نام پر شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک میرے جیسے اینکر پرسن تو اس قوم کو کنوئیں کے مینڈک بنا رہے ہیں۔ ایک ہفتہ اسی سوال کا جواب ڈھونڈنے میں ضایع کر دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کے بعد اسلم بیگ اور اسد درانی جیسے جرنیلوں پر مقدمے چلائے جائیں گے یا نہیں۔ کیا نواز شریف نے واقعی آئی ایس آئی کے اشارے پر یونس حبیب کی جانب سے ملنے والی رقم لی تھی یا نہیں۔ ان دونوں سوالات کا ٹاک شوز میں مسلسل ذکر کے باوجود ابھی تک کوئی تسلی بخش اور قطعی جواب نہیں ملا ہے۔ معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے بجائے اب ہماری توجہ اس جانب مبذول ہو گئی ہے کہ امریکی امیگریشن والوں نے عمران خان کو نیویارک جانے والے طیارے سے اُتار کر کیا پوچھا تھا۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ امریکی امیگریشن والے ان سے تحریک انصاف کی ’’ڈرون پالیسی‘‘ سمجھتے رہے۔ میری موٹی عقل میں یہ دعویٰ اُتر کر ہی نہیں دے رہا ۔

ڈرون حملوں پر عمران خان کے خیالات کو جاننے کے لیے انھیں کینیڈا کے ایک ایئرپورٹ پر روک کر پوچھ تاچھ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ پاکستان میں موجود امریکی سفارتخانے میں ایک پورا شعبہ صرف اس کام کے لیے مختص ہے کہ اُردو اخبارات میں شایع شدہ مواد اور ٹی وی ٹاک شوز میں زیادہ مقبول موضوعات پر نگاہ رکھتے ہوئے ان کا تجزیہ واشنگٹن تک پہنچایا جائے۔ عمران بھائی تو صرف اُردو نہیں بولتے۔ بی بی سی، گارڈین اور سی این این کے رپورٹروں کو آکسفورڈ والی انگریزی میں جوابات دیتے ہیں۔ مشرا نام کا ایک بڑا لکھاری ہوتا ہے۔

اس کی چند کتابیں بھی بڑی مشہور ہیں۔ صرف چند ہفتے پہلے اسی مشرا نے امریکا میں پڑھے لکھے اور دانشور سمجھے جانے والے لوگوں میں سب سے مقبول ہفت روزہ New Yorker کے لیے عمران خان کی ذات اور اندازِ سیاست پر ایک بھرپور خاکہ لکھا تھا۔ عمران خان کے خیالات جاننے کے لیے ان کا کینیڈا کے ایک ایئرپورٹ پر ایک گھنٹے سے بھی کم وقفے کا انٹرویو کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ معاملہ یقینا کچھ اور ہے۔ کم از کم یہ پیغام دینا تو ضرور مقصود ہے کہ ’’تبدیلی کے نشان‘‘ کے امریکا میں مقیم پاکستانی متوالے ذرا احتیاط برتیں۔ ضرورت پڑی تو تحریک انصاف حتیٰ کہ شوکت خانم کے لیے چندہ جمع کرنے والوں کو ’’ڈاکٹر فائی‘‘ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ اب یہ نہ پوچھئے گا کہ یہ کون صاحب ہیں۔ بس اتنا بتانا کافی ہے کہ صدر کلنٹن کے دنوں میں امریکی وزارت خارجہ اور کانگریس کے بڑے اہم لوگ ان ڈاکٹر صاحب سے کشمیر کا مسئلہ ’’سمجھنے‘‘ کی کوشش کیا کرتے تھے۔

تاہم میں اب سلمان خورشید کی تعیناتی کی طرف لوٹتا ہوں۔ اس تعیناتی کو سمجھنے کے لیے یاد کیجیے کہ چند ماہ پہلے امریکی وزیر خارجہ نے بھارت کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے دوران ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں انھوں نے انکشاف کیا کہ ان کے دورے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ بھارت کو ایران سے تیل خریدنے سے روکا جائے۔ جب صحافیوں نے کہا کہ اس طرح بھارت میں تیل بہت مہنگا اور کم یاب ہو جائے گا تو ہیلری کلنٹن کہہ اُٹھیں کہ ’’سعودی عرب جو ہے۔‘‘

امریکی وزیر خارجہ کے اس دورے کے چند ہی دنوں بعد سلمان خورشید بھارت کے وزیر خارجہ نہ ہوتے ہوئے بھی سعودی عرب گئے اور وہاں سیکیورٹی امور کو دیکھنے والے لوگوں سے ملے۔ ان کی ایسی ملاقاتوں کے بعد ابو جندال نام کا ایک مجاہد یا دہشت گرد جو بھی کہہ لیجیے بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔ اب سے تین ہفتے پہلے اسی طرح کی ایک اور شخصیت بھی سعودی عرب نے بھارت کے حوالے کی ہے۔ سلمان خورشید کی تعیناتی میری ناقص رائے میں ان کی سعودی عرب کو موہ لینے والی گفتگو کا انعام ہے۔ میری بات پر یقین نہ آئے تو بس وہ الفاظ یاد کر لیجیے جو بھارت کے نئے وزیر خارجہ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے فوراً بعد پاکستان کے غیر ’’مستحکم سیاسی حالات‘‘ کے بارے میں ادا کیے ہیں۔ آپ سارے مجھ سے کہیں زیادہ سمجھ دار ہیں۔ آگے کی کڑیاں خود ملا لیجیے۔ میری ٹی وی اسکرین پر ابھی ابھی ایک پروگرام نمودار ہوا ہے۔ اس میں رانا ثناء اللہ اور انعام اللہ نیازی اکٹھے بیٹھے ہوئے ہیں۔ مجھے ان دونوں کی خوش گفتاری کا لطف لینے دیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔