جینا اِسی کا نام ہے، خود کلامی کا اسرار

اقبال خورشید  جمعـء 15 جنوری 2016
سچ تو یہ ہے، آپ اُس دنیا میں نہیں جیتے جو آپ کے اردگرد، بلکہ اس دنیا میں سانس لیتے ہیں، جو آپ کا ذہن تخلیق کرتا ہے۔ ذہن ہی تعین کرتا ہے کہ زندگی ایک گیت ہے یا ایک المیہ۔ فوٹو: رائٹرز

سچ تو یہ ہے، آپ اُس دنیا میں نہیں جیتے جو آپ کے اردگرد، بلکہ اس دنیا میں سانس لیتے ہیں، جو آپ کا ذہن تخلیق کرتا ہے۔ ذہن ہی تعین کرتا ہے کہ زندگی ایک گیت ہے یا ایک المیہ۔ فوٹو: رائٹرز

آپ نے امریکی ادیب، Fredric Brown کی لازوال کہانی ”دستک“ تو سنی ہوگی، جو دنیا کے خاتمے کی عجب منظر کشی کرتی ہے،

”دنیا کا آخری انسان کمرے میں تنہا بیٹھا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی“۔

اس تحیر خیز سطر نے کتنی ہی کہانیوں کو جنم دیا۔ اِسے سینکڑوں زاویوں سے لکھا گیا۔ آئیں! آج پھر یہ کہانی لکھتے ہیں،

”دنیا کا آخری انسان کمرے میں تنہا بیٹھا تھا، مگر وہ تنہا نہیں تھا“۔

کیا آپ چونک گئے؟ مگر کیوں؟ اِس لیے کہ دنیا کے آخری انسان کا تنہا نہ ہونا ذہن میں سوال پیدا کرتا ہے؟ تجسس بڑھتا ہے؟ مگر اِس میں حیرت کا کوئی پہلو نہیں۔ سچ تو یہ ہے، آپ کبھی تنہا نہیں ہوتے۔ کبھی نہیں۔ نہ تو دنیا کا پہلا انسان تنہا تھا، نہ ہی آخری انسان کو تنہائی میسر آئے گی۔

کوئی ہمیشہ آپ کے ساتھ ہوتا ہے، ایک آواز ہر پل سنائی دیتی ہے، کوئی سائے سے زیادہ قریب ہے۔ صبح بیدار ہوتے ہی اُس سے سامنا ہوتا ہے، دوران سفر وہ ہم سفر۔ کوئی آپ کے ساتھ ساتھ دفتر جاتا ہے۔ کھانے کی میز پر آپ اُسے سنتے ہیں، چپ ہوں تو وہ گفتگو پر مائل، رات بستر پر جانے تک اس کے جملے تعاقب کرتے ہیں۔

اِن پُراسرار آوازوں کا ماخذ، جو کبھی پیچھا نہیں چھوڑتیں، آپ کا ذہن ہے۔ ذہن، جو ہمہ وقت ساتھ ہے، جو ہمہ وقت خیالات سے بھرا رہتا ہے۔ اچھے بُرے، ماضی اور مستقبل کے گرد گھومتے خیالات۔ اندیشوں اور امیدوں سے لبریز خیالات۔

نیورو سائنس کے مطابق ایک دن میں انسانی ذہن میں 70 ہزار خیالات جنم لیتے ہیں۔ یعنی فقط ایک گھنٹے میں 3 ہزار۔ آپ کا ذہن کسی بندر کے مانند ایک سے دوسری، دوسری سے تیسری شاخ پر جھولتا رہتا ہے۔ ایک منٹ میں 50 درخت عبور کرلیتا ہے۔ ان خیالات میں بیشتر ماضی کے بارے میں، بیشتر سے اذیت جڑی ہوتی ہے۔

آپ کا ذہن ایک سڑک، جس سے گاڑیاں گذر رہی ہیں۔ مسلسل، ایک کے بعد ایک۔ یہ عمل اس پل شروع ہوتا ہے جب آپ بیدار ہوتے ہیں۔ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک گہری نیند میں نہیں چلے جاتے۔ سچ تو یہ ہے، آپ اُس دنیا میں نہیں جیتے جو آپ کے اردگرد، بلکہ اس دنیا میں سانس لیتے ہیں، جو آپ کا ذہن تخلیق کرتا ہے۔ ذہن ہی تعین کرتا ہے کہ زندگی ایک گیت ہے یا ایک المیہ۔ اسے قبول کیا جائے یا راہ فرار اختیار کی جائے۔

ہم سب نے وہ کہانی سنی ہے، جس میں کھڑکی میں کھڑے دو آدمیوں میں سے ایک کو فقط کیچڑ دکھائی دی، دوسرے کو ستارے۔ ایک دن میں 70 ہزار خیالات۔ ہر پل بدلتا منظر، زندگی آپ کے اختیار میں نہیں۔ کہنے کو تو ذہن جسم کے اندر، مگر سچ یہ ہے کہ انسان اپنے ذہن میں قید اور ذہن بے سمت دوڑے جارہا ہے۔ یہ Myth نہیں، حقیقت ہے کہ انسان فقط اپنے ذہن کا 10 فیصد استعمال کرتا ہے۔ کیوںکہ ذہن ہمہ وقت الجھا رہتا ہے۔ مسلسل توانائی خرچ کرتا ہے، اگر کوئی اِسے 10 فی صد بھی اپنی چاہ سے برت لے، تو آسمان میں چاند کے مانند روشن نظر آئے۔

انسانی معراج ذہن پر گرفت میں پنہاں۔ خیالات کے منہ زور گھوڑے کو الف کرنا سورماﺅں کی پہچان۔ خیالات دو طرح کے ہوتے ہیں۔ وقتی یا عارضی خیالات، جو کسی منظر، آواز یا مہک سے اچانک پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی رفتار راکٹ سی۔ آتے ہیں، گذر جاتے ہیں۔ یہ درد سر نہیں۔ البتہ جن مناظر، آوازوں اور تجربات سے احساس جڑ جائے، وہ ذہن کے ٹیپ ریکارڈ میں محفوظ ہوجاتے ہیں۔ بار بار سنائی دیتے ہیں۔

اگر صبح ایک گاڑی آپ پر کیچڑ اچھالتی ہوئی چلی گئی تو رات تک یہ سانحہ اذیت میں مبتلا رکھے گا۔ اگر سہ پہر کسی باعث غصے میں بھر گئے تو کئی روز تک خوشی آپ کے دل میں داخل نہیں ہوسکے گی۔ جو شخص آپ کا موبائل چیھنے گا، اُس کا چہرہ مکروہ یاد کی صورت کئی روز ستائے گا۔ حسد، غصہ، صدمہ، اندیشہ، خود ترسی، یہ احساسات خیالات کی پریشان کن ریل گاڑی کو جنم دیتے ہیں۔ جو ذہن کی سڑک سے وقفے وقفے سے گزرتی ہے۔ آپ لمحہ حال سے بیگانے ہوجاتے ہیں۔ خیالات کے غلام بن جاتے ہیں۔ ڈنر کے وقت دھیان خوراک سے زیادہ اُس شخص پر، جس سے دفتر میں تلخ کلامی ہوئی۔ بیٹے کی رپورٹ کارڈ دیکھتے ہوئے اپنے جاب انٹرویو کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں۔ دوستوں کی محفل میں ذہن اس ٹریفک جام میں اٹکا ہے، جس سے واپسی میں سامنا ہوگا۔ گوتم بدھا نے کہا تھا،

”انسان اپنے خیالات کا مجموعہ ہے!“

سوچیے ذرا، ایک دن میں 70 ہزار خیالات، آپ تو زنجیر میں قید ہیں۔ ایک المیہ اور، انسانی ذہن مسرت پر مبنی خیالات جلد بھول جاتا ہے، حادثات برسوں یاد رکھتا ہے۔ وہ خیالات جو احساسات سے جنم لیں، خود کلامی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور یہ خود کلامی بڑی پُر اسرار ہوتی ہے۔ اس میں جادو، صوفی کہتے ہیں، ذہن میں گونجتیں آوازیں ہی زندگی کو رنگ عطا کرتی ہیں۔ تو یہ ضروری کہ اِن پر آپ کا اختیار ہو، ورنہ یہ زندگی کے کینوس پر فقط سیاہی پینٹ کرے گی۔ آوازوں پر قابو پائیں۔ ذہن کی شاہراہ پر دوڑنے والی گاڑیاں خود منتخب کریں۔

منفی خود کلامی بڑی طاقتور ہوتی ہے۔ آپ کو اداسیوں کی کھائی میں دھکیل دے گی۔ آپ ”شاید“، ”اگر“ اور ”کاش“ میں پھنس جائیں گے۔ کہیں آج بھی اُس بدتمیز سے سامنا نہ ہوجائے، شاید اِس بار بھی بجلی کا بل زیادہ آئے۔ بارش ہوگئی تو گھر کیسے پہنچوں گا؟ لگتا ہے باس ناراض ہے، اس بار بھی بچوں کو گھمانے نہیں لے جاسکا، میں ایک ناکام شخص ہوں مجھ میں اعتماد میں کمی ہے“۔

خودکلامی میں جادو ہے۔ Shad Helmstetter کی مشہور زمانہ کتاب What to Say When you Talk To Yourself نہ صرف اس عمل پر روشنی ڈالتی ہے، بلکہ خود کلامی کے جن کو قابو کرنے کے لیے چند مفید تکنیک بھی فراہم کرتی ہے۔ ”جینا اسی کا نام ہے“ کا مقصد بھی یہی۔ ”خودکلامی کا اسرار“ اِس کا پہلا باب، جو آپ کو اُس شخص کے بارے میں چوکنا کرتا ہے، جو آپ کے سر میں گھسا بیٹھا، جو خوشیوں سے زیادہ اندیشوں کی جگالی کرتا ہے۔ امکانات کے بجائے خدشات میں دلچسپی رکھتا ہے اور یوں ایک زہریلی خود کلامی کا جنم ہوتا ہے۔ اور دہرانے کے عمل سے یہ خود کلامی عادت بن جاتی ہے۔ ایک ہولناک عادت۔
ابھی بہت دیر نہیں ہوئی۔ آپ اِس دشمن پر قابو پاسکتے ہیں۔ Eckhart Tolle اور Michael A. Singer جیسے لوگ آپ کی راہ نمائی کریں گے، میں بھی اس یاترا میں آپ کے ساتھ ہوں۔ منزل شاید دور ہو، مگر یقین کیجیے، وہ گیانیوں کی ایک حسین وادی ہے۔

کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

iqbal khursheed

اقبال خورشید

اقبال خورشید فکشن نگار، صحافی اور کالم نویس ہیں۔ اُن کے نوویلا ”تکون کی چوتھی جہت“ کو محمد سلیم الرحمان، ڈاکٹر حسن منظر، مستنصر حسین تارڑ اور مشرف عالم ذوقی جیسے قلم کاروں نے سراہا۔ انٹرویو نگاری اُن کااصل میدان ہے۔ کالم ”نمک کا آدمی“ کے عنوان سے روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔