شکریہ سندھ حکومت

اقبال خورشید  منگل 12 جنوری 2016

ایک خوفناک جھٹکا لگا، ہم دہل گئے۔ وہ ایک تاریک سڑک تھی، جس پر سیوریج کا پانی کھڑا تھا، اور پانی کے نیچے ایک گڑھا چھپا تھا۔ گاڑی کا اگلا ٹائر گڑھے میں چلا گیا تھا۔ انجن کا نچلا حصہ زور سے زمین سے ٹکرایا۔

’’یہ ہے تمھارا کراچی!‘‘ اس نے جھنجھلا کر اپنی نئی گاڑی کے اسٹیرنگ پر ہاتھ مارا۔ ’’یہ ہے روشنیوں کا شہرMy foot!‘‘۔

میں چپ رہا۔ کہتا بھی تو کیا کہتا۔ وہ آٹھ برس بعد فیصل آباد سے آیا تھا۔ اپنی چمکتی دمکتی گاڑی میں۔ سب دوست ہوٹل پہنچ گئے۔ ہم نے ٹریٹ کا مطالبہ کر دیا۔ وہ اپنی بڑی سی گاڑی میں ہمیں لیے نکلا۔ سب کا موڈ خوش گوار تھا۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ گاڑی میں نصب جدید ساؤنڈ سسٹم سے نشر ہوتی موسیقی دل بہلا رہی تھی کہ اچانک اس نے بریک دبا دیا۔ ہم اس کی جانب متوجہ ہوئے۔ وہ یوں آنکھیں پھاڑے سڑک کی سمت دیکھ رہا تھا، جیسے کوئی بھوت سامنے آن کھڑا ہو۔ ہم نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا۔ وہاں ایک اسپیڈ بریکر تھا۔ ایک بہت بڑا اسپیڈ بریکر۔

’’یہ کیا شے ہے؟‘‘ وہ چلایا۔ ہم ہنس دیے، اور پردیسی کہہ کر اسے چھیڑنے لگے۔ اس نے برے برے منہ بناتے ہوئے اس دیو ہیکل اسپیڈ بریکر کو احتیاط سے عبور کیا۔ تھوڑا آگے بڑھے، تو ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک روبرو تھی۔ اس سے گزرتے سمے ٹائروں نے یوں آواز کی، جیسے مسلسل پٹاخے پھٹ رہے ہوں۔ پھر ہم ٹریفک جام میں پھنس گئے۔ کئی منٹ بعد اس اسپاٹ سے نکلے، تو اندازہ ہوا کہ ٹریفک جام کا سبب غلط سمت سے آنے والی گاڑیاں تھیں۔

اب اس کا موڈ دھیرے دھیرے بگڑنے لگا۔ منزل تک پہنچنے کے لیے ہمیں ایک ایسے علاقے سے گزرنا پڑا، جس کی فضا دھوئیں سے بھری ہوئی تھی۔ یہ دھواں کچرا کنڈی سے اٹھ رہا تھا۔ دھوئیں زدہ سڑک پر ڈھکن سے محروم دو گٹروں نے ہمارا استقبال کیا۔ بہ مشکل اس چیستان سے نکلے تھے کہ سیوریج کے پانی سے بھرا ایک راستہ سامنے آن کھڑا ہوا۔ اسٹریٹ لائٹس موجود تو تھیں، مگر اس سمے ہاتھ باندھے خاموش کھڑی تھیں۔ اچانک زور دار جھٹکا لگا۔ اس نے جھنجھلا کر ہاتھ اسٹیرنگ پر مارا۔ ’’یہ ہے تمھارا کراچی!‘‘

میں چپ رہا۔ کہتا بھی تو کیا کہتا۔ دوکروڑ آبادی والے اس شہر میں ایسے علاقے انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں، جہاں دو کلومیٹر کے دائرے میں کوئی گٹر نہ کھلا ہو، کسی کچرا کنڈی سے دھواں نہ اٹھ رہا ہو، کوئی سڑک خستہ حالی کا شکار نہ ہو، اسٹریٹ لائٹس روشنی سے محروم نہ ہوں، سیوریج کا پانی نہ کھڑا ہو، تعفن نہ ہو۔ دو کلومیٹر کے علاقے میں کہیں نہ کہیں آپ کو یہ داغ مل جائیں گے۔ عروس البلاد کہلانے والے اس شہر میں کئی علاقے تو ایسے، جہاں قدم قدم پر بدصورتی آپ کی منتظر۔ جہاں ہولناک اسپیڈ بریکر ہیں، گڑھے ہیں، کھلے ہوئے مین ہول ہیں، وحشت ہے۔ اسٹریٹ کرائم ہے۔

صاحبو یہ ہے روشنیوں کا شہر، پاکستان کا صنعتی حب، آرٹ اور کلچر کا مرکز، قائد اعظم کا آبائی وطن۔ وہ شہر جو کبھی پاکستان کا دارالحکومت تھا، وہاں آج دور دور تک حکومت نامی شے نظر نہیں آتی۔ ادارے جمود کا شکار۔ ترقی پر چپ کا تالا پڑا ہے۔ ہر جگہ گندگی کے ڈھیر۔ ہر جگہ خستہ حالی۔ ٹریفک بڑھتا جاتا ہے، سڑکیں جوں کی توں، ان کی کشادگی اپنی موت آپ مر گئی۔ آبادی گنجان ہوتی گئی، محلے سکڑتے گئے۔

اس بدحالی کا ذمے دار ہر وہ ادارہ، ہر وہ گروہ، جو کراچی کا اسٹیک ہولڈر ہونے کا دعویٰ دار۔ سب نے اس کی تباہی میں حصہ ڈالا۔ ضرب عضب کے تحت اگر کراچی آپریشن شروع نہ ہوتا،کچھ بااثر لوگوں پر ہاتھ نہ ڈالا جاتا، تو جو تھوڑا بہت امن نظر آرہا ہے، یہ بھی نہ ہوتا۔ وہی خوف کی فضا ہوتی، وہی چپ ہوتی۔ خیر، بات ہورہی تھی شہر کی، کراچی کی، جسے اس حال تک پہنچانے کا اصل سہرا سندھ حکومت کے سر، جس کی غفلت، بے پروائی اور لاتعلقی نے ایسے عفریت کو جنم دیا، جس نے شہر کو نگل لیا۔

کراچی بدقسمت ہے۔ اور اس کی بدقسمتی کی داستان طویل ہے۔ پہلے دارالحکومت کا تاج چھینا گیا۔ ایک عرصے وفاق کی زیرنگرانی تھا، پھر سندھ کو سونپ دیا گیا۔ لمحۂ حال پر نگاہ ڈالیں۔ آج جو پارٹی پنجاب میں حکومت بناتی ہے، وہ لاہور کو ماڈل شہر بنانے کے جتن کرتی ہے، ن لیگ کی مثال سامنے۔ کے پی کے کی سرکار، چاہے نتائج حاصل نہ کرسکے، مگر پشاور کی بہتری کی کوششیں کرتی نظر آتی ہے، بلوچستان میں اقتدار حاصل کرنے والی جماعت چاہے کوئٹہ کو پیرس نہ بنا سکے، مگر اس کی بھلائی کا سوچتی ضرور ہے۔ سبب واضح ہے، ان جماعتوں کا ووٹ بینک ان شہروں سے وابستہ ہے۔

اب ذرا سندھ پر توجہ مرکوز کیجیے۔ جو یہاں برسوں سے حکم راں، انھیں کراچی کی بھلائی سے کوئی غرض نہیں۔ کیوں کہ یہ شہر اُنھیں منتخب نہیں کرتا، یہ انھیں اقتدار کے ایوان تک نہیں پہنچتا، تخت پر بیٹھنے کے بعد اُن کے ہاتھ مضبوط نہیں کرتا۔ گو اُن کے محلات کراچی میں بھی ہیں، صوبائی اسمبلی بھی ادھر، مگرایک معنوں میں وہ اس شہر کے لیے اور یہ شہر ان کے اجنبی ہے۔ ایک دوست نے ٹویٹ کیا: ’’سندھ حکومت کے ایسے عہدے دار انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں، جنھوں نے کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈالا ہو۔‘‘ ایک حد تک بات درست۔ جب اُن کا ووٹ ہی یہاں نہیں، تو انھیں اس کی ترقی سے بھلا کیا غرض۔ افسوس ناک حقیقت تو یہ ہے کہ جہاں ان کا ووٹ بینک، انھیں اُن علاقوں کی بھی پروا نہیں۔ آج لاڑکانہ کا کیا حال ہے؟ خیرپور اور موئن جودڑو کی گلیوں میںکتنا فرق؟ تھر کس اذیت میں ہے؟

عوام کوطاقت کا مرکز ٹھہرانے والوں کے عہد میں انسانی جان ارزاں ہوئی۔ کبھی ہمارے بچے بھوک سے مرتے ہیں، اورکبھی علاج کی سہولت نہ ہونے کے باعث زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ درس گاہیں اطاق بن گئیں، ہر محکمے میں کرپشن، ہر موڑ پر کرب، مگر سرکار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ان کی مسکراہٹ قائم۔ ان کا پروٹوکول جوں تو توں۔

زور دار جھٹکا لگا۔ ہم دہل گئے۔ اس نے جھنجھلا کر اسٹیرنگ پر ہاتھ مارا۔ ’’یہ ہے تمھارا کراچی!‘‘

میں چپ رہا۔ میں کہتا بھی تو کیا کہتا۔ اُسے کیسے بتاتا کہ اب یہ روشنیوں کا شہر نہیں۔ اب اس کی رگوں میں بدعنوانی کا زہر دوڑتا ہے، اس کے جسم پر خستہ حالی کے زخم ہیں، پھیپھڑے دھوئیں سے بھر گئے، آنکھیں تاریک ہوچکی۔ ذہن تعفن زدہ۔ میں اسے کیسے بتاتا کہ اس شہر کو گہن لگ گیا ہے۔ یہ ایک موذی مرض میں مبتلا ہے۔ یہ دھیرے دھیرے مر رہا ہے۔

’’کچھ بولو بھی، ویسے تو بڑے تجزیہ کار بنے پھرتے ہو۔‘‘ اُس کی جھنجھلاہٹ طنز میں بدل گئی۔

میں نے کاندھے اچکائے۔ ’’بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ شکریہ سندھ حکومت!‘‘

اس نے قہقہہ لگایا۔ ہماری ایک جانب بڑے سے بل بورڈ پر ایک حکومتی عہدے دار کی تصویر تھی، دوسری جانب اندھیرے میں مزار قائد دمک رہا تھا۔ اور آگے ایک گڑھا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔