لوگ بے وقوف ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 13 جنوری 2016

مجھے لگتا ہے لوگ بے وقوف ہیں، نہیں مجھے لگتا نہیں، مجھے یقین ہے کہ لوگ بے وقوف ہیں، مجھے ذرا وضاحت کرنے دیں کہ لفظ بے وقوف سے میری مراد کیا ہے اگر آپ کم جانتے ہیں تو آپ جاہل ہیں۔ اس لیے آپ عمل نہیں کرتے اور اگر آپ زیادہ جانتے ہیں اور عمل نہیں کرتے تو آپ بے وقوف ہیں۔ ان دونوں باتوں سے بہت بڑا فرق ہے، آپ اپنی جہالت کی وجہ سے تو مستثنیٰ ہو سکتے ہیں کیونکہ جاہل، جہالت کے ہاتھوں مجبور و بے بس ہوتا ہے لیکن جب آپ کو کسی چیز کا علم ہو جاتا ہے اور آپ پھر بھی اس پر عمل نہیں کرتے اور اس علم کو استعمال نہیں کرتے تو آپ بے وقوف ہیں اور آپ کو قطعاً معاف نہیں کیا جا سکتا۔

ڈیکارٹ نے کہا تھا ’’میں سوچتا ہوں اس لیے میں موجود ہوں‘‘ ہم سب صرف وہی ہیں، جو ہم سوچتے ہیں۔ اس لیے جیسا سماج ہو گا، ویسے ہی لوگ ہوں گے اور ویسی ہی سوچ ہو گی، انسان وہ واحد جانور ہے، جس پر اس کے ارد گرد کے ماحول کا فوری اثر ہوتا ہے۔

برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے کچھ عرصے قبل لکھا تھا کہ ’’اسلام آباد میں سیاست دان پاکستان پر کنٹرول کے لیے ایک دوسرے سے بر سرپیکار ہیں، تاہم ان رہنماؤں کی شعلہ بیانی میں پاکستان کو درپیش بحران یا ان سے نکالنے کا کوئی اشار ہ نہیں‘‘ جب کہ ماہر اقتصادیات ثاقب شیرانی نے کہا تھا کہ ’’سیاست دان طویل مدت سطح پر نہیں سو چ رہے وہ انتخابی سائیکل سے آگے نہیں سوچتے، تو پھر ظاہر ہے کہ ہمارے مسائل کیسے حل ہوں گے یہ بات تو یقینی ہے کہ ابھی تک کوئی بھی ایسی آٹومیٹک مشین ایجاد نہیں ہوئی ہے کہ آپ اس میں اپنے سارے مسائل ڈال دیں پھر بٹن دبا دیں اور تھوڑی ہی دیر بعد ڈالے گئے تمام مسائل خود بخود حل ہو چکے ہوں۔

مسائل کوشش سے حل ہوتے ہیں اور کوشش نیت سے ہوتی ہیں ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر بیٹھنے سے کبھی کچھ نہیں ہوتا یا صرف دعاؤں، خواہشوں، دعوؤں، وعدوں اور تقریروں سے کبھی کچھ نہیں بدلا ہے اور نہ ہی ہماری زندگی میں کبھی بھی کوئی ایسا دن آنا ہے کہ ہم صبح سو کر اٹھیں گے اور ہمارے سارے مسائل حل ہو چکے ہوں گے، نہ لوڈ شیڈنگ ہو گی، نہ گیس کی قلت اور نہ ہی پانی کی کمی ہو گی، ملک سے کرپشن، بدعنوانی، بدامنی، دہشت گردی اور انتہاپسندی کا خاتمہ ہو چکا ہو گا۔ تعلیم عام اور معیاری سب کو مفت مل رہی ہو گی، صحت کی تمام سہولیات بالکل مفت سب کو میسر ہو رہی ہوں گی، ہمارا ہر کام سرکاری اداروں میں منٹوں میں اور بغیر رشوت یا سفارش ہو رہا ہو گا۔

ٹریفک بالکل سسٹم سے چل رہا ہو گا، ٹرانسپورٹ کی سہولیات مثالی ہو چکی ہوں گی۔ ایسا کبھی بھی اور ایسا کچھ بھی نہیں ہونے والا ہے، ہاں البتہ ان تمام چیزوں کے لیے آپ کو ہمیشہ کی طرح تاریخ پہ تاریخ ملتی رہیں گی، ایک تاریخ کے بعد ایک اور تاریخ اور اس پر ایک اور تاریخ اور پھر ایک اور نئی تاریخ اور بالآخر ایک روز آپ انتظار کرتے کرتے، ابدی نیند سونے چلے جاتے ہیں اور باقی رہنے والے ایک نئی تاریخ کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔

اب اس صورتحال میں کوئی شخص اپنے نصیبوں کو کوستا رہے تو اس سے بڑا عقل کا دشمن کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا یا پھر یہ ہے کہ ہمارے ملک میں عقل ہی مر چکی ہے، اس لیے کہ اگر ہمارے محلے میں کوئی شخص ایم بی بی ایس کیے بغیر کلینک کھول کر بیٹھ جاتا ہے تو ہم اس پر چیخ و پکار شروع کر دیتے ہیں اور اس کی کلینک بند کروا کے ہی دم لیتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی تعمیراتی شعبے میں تعمیرات کی ڈگری حاصل کیے بغیر کام شروع کر دیتا ہے، تو ہم شور شرابا مچا دیتے ہیں اور دوسری طرف ہم ملک چلانے کے لیے ووٹ دیتے وقت اپنے نمایندوں میں کوئی مہارت، تجربہ، تعلیم، عقل و دانش نہیں دیکھتے ہیں۔

انہیں پرکھتے نہیں ہیں اور بغیر سوچے سمجھے ملک کے اور اپنے تمام معاملات ان کے حوالے کر دیتے ہیں اس امید پر کہ وہ ہمیں اور ملک کو نہ صرف بحرانوں سے نکالیں گے بلکہ ہم کو درپیش تمام مسائل سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا دلوا دیں گے اور ہوتا یہ ہے کہ ہم جب ووٹ دے چکے ہوتے ہیں، انتخابات ختم ہو گئے ہوتے ہیں اور ہمارے منتخب نمایندے جب اسلام آباد پہنچتے ہیں تا کہ پارلیمنٹ کو زینت بخشیں تو انہیں کئی ذہنی صدموں سے دوچار ہونا پڑ جاتا ہے کیونکہ یہ لوگ اکثر و بیشتر اوسط درجے کے ہوتے ہیں، ان میں عقل و دانش، سمجھ بوجھ اور فکر کی صلاحیت سرے سے مفقود ہوتی ہے۔

ہمارے نمایندوں کو ان قانونی و آئینی اور قومی مسائل سے دوچار ہونا پڑ جاتا ہے، جو انہیں اب تک پیش نہیں آتے تھے اور جو ان کی سمجھ سے بالاتر ہوتے ہیں پھر ہمارے نمایندے گھبرا کر پریشان ہو کر چکرا کر وہی سب کچھ کرنا شروع کر دیتے ہیں جو ہم 68 سالوں سے دیکھتے آ رہے ہیں اور ملکی مسائل و عوامی مسائل حل تو ہونا دور کی بات ہے بلکہ وہ پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ الیکشن سے پہلے ملک اور قوم کے غم میں نڈھال ہونے والے پھر اپنے اور اپنے پیاروں کے غم میں نڈھال ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور ہم ووٹ دینے والوں کو وہ نڈھالی کے عالم میں تقریباً بھول چکے ہوتے ہیں۔

Adwin Arlington Robinson کی ایک نظم میں ایک کردار ہماری ذاتی اور سیاسی بحران کا تجزیہ کر رہا ہے۔ ہمارے ایک ایسے سیاسی فرد کا جس پر بہت سے لوگوں کی زندگیوں کا انحصار ہے، وہ مایوسی کے عالم میں کہتا ہے ’’ہم ایک ایسے شخص کے رحم و کرم پر ہیں کہ اگر ستارے ڈوب گئے تو وہ پھر بھی مسکرائے گا‘‘ اپنے آپ کو اس وقت بار بار پیٹنے کو دل کرتا ہے جب ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ایک ہی غلطی بار بار کر رہے ہیں آج پاکستان کو دیکھ کر صدیوں پہلے افلاطون کی کہی گئی بات یاد آ جاتی ہے۔

اس نے کہا تھا کہ ’’یہ بڑی بدقسمتی ہو گی کہ ہم عقل سے نفرت کرنے والوں میں شمار ہو جائیں، مجھے ڈر ہے کہ ہمارے نام نہاد لیڈر ہمیں مسلسل ان لوگوں میں دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر دماغ کے بجائے پیٹ سے سو چتے ہیں۔‘‘ یا پھر کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہمیں اپنے آپ سے نفرت ہو گئی ہے اور ہم اپنے آپ کو مسلسل سزا دینے کے لیے یہ ہی سب کچھ کر رہے ہیں اور اسی طرح مسلسل لگا تار کرتے چلے آ رہے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔