کنڈ ملیر سے ہنگلاج ماتا کے مندر تک

اعظم طارق کوہستانی  ہفتہ 16 جنوری 2016
کند ملیر سے تھوڑی ہی دور صرف کالی ماتا کے مندر کے علاوہ ہنگلاج وادی اور اس کے اطراف میں 10 ایسے مقامات ہیں جہاں ہندو یاترا اور پوجا کرتے ہیں۔

کند ملیر سے تھوڑی ہی دور صرف کالی ماتا کے مندر کے علاوہ ہنگلاج وادی اور اس کے اطراف میں 10 ایسے مقامات ہیں جہاں ہندو یاترا اور پوجا کرتے ہیں۔

ہماری تو رات سے ہی طبیعت خراب تھی اور اس نئے ایڈونچر پر جانے کا دل بھی نہیں کر رہا تھا۔ لیکن جب سب نے ہامی بھر لی تو چار و ناچار ہمیں بھی جانے کے لئے خود کو ذہنی طور پر تیار کرنا پڑا۔ کنڈ ملیر ہم پہلے کبھی نہیں گئے تھے۔ اس لیے ایک نئی جگہ کا بھی سوچ کر بھی دل کو ڈھارس ہوئی اور جانے کے لیے کَسی ہوئی کمر مزید کَس لی۔

رات کو دفتر میں ہی رُکنے کا ارادہ کیا، لیکن یہاں یا جوج ماجوج کے چیلے زندہ تھے۔ 2 صاحبان کو کھانا لینے بھیجا گیا، دونوں پرہیزی کھانے والے، ہمارے لیے بھی وہی اُٹھا لائے ہم سے جتنا ہوسکا اُتنی ہی اُن کی تواضع کی۔ یہ تواضع ایک الگ قسم کی ہی ہوتی ہے جس کی جڑیں محمد علی کِلے اور محمد عامر جیسے باکسروں سے ملتی ہیں۔ صبح سویرے کنڈ ملیر کی طرف محو سفر ہونا تھا اس لیے جلدی سونے کے لیے لیٹ گئے لیکن سرکولیشن کے 3 ساتھیوں کی اُلّوؤں سے کوئی دور کی رشتہ داری تھی اس لیے وہ جاگے رہے اور ہمیں جگائے رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ جس میں وہ کسی حد تک کامیاب رہے۔

گاڑی میں قدم رکھا تو معلوم ہوا سب سے آخر میں پہنچنے والے ہم ہی تھے۔ کھسیانے سے ہو کر ہم نے چُپکے سے بیٹھنے کی کوشش کی لیکن پوری گاڑی نے ہم سب کو دیکھ کر ایسا شور مچایا کہ ہم کھسیانا ہونا بھول کر جھینپ سے گئے۔ گاڑی چل پڑی، ہماری منزل کنڈ ملیر تھی لیکن نماز اور ناشتے کے لیے ہمیں بلوچستان میں داخل ہوتے ہی ’’حب‘‘ پر رُکنا تھا۔

باجماعت نماز اور عبداللہ بھائی سے نوک جھونک کرتے ایک بھرپور قسم کا ناشتہ کیا۔ گھر میں صبح سویرے ناشتہ کرنا محال ہے۔ سچ میں یہ ایک دلچسپ صبح تھی۔ سفر کی صبح کا الگ ہی مزہ ہے۔ اب آگے کا سفر شروع ہوا۔ ایک دلچسپ بات بتاتے چلیں ہمارے ملک کے زیادہ تر پسماندہ علاقوں کے حوالے سے ہمارے تصور بہت عجیب سے ہیں، ایک تو یہ تصور آتا ہے کہ جیسے ہی آپ بلوچستان یا سندھ کے علاقے میں داخل ہوں گے۔ چند نقاب پوش آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیں گے اور آپ سے تمام سامان چھین کر اور بقول چند لوگوں کے تن کے کپڑے بھی اُتار کر لے جاتے ہیں۔

یہ اور اس قسم کے سیکڑوں خیالات ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ لیکن اُن واقعات کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کا مقصد ایک بے نام سا خوف آپ میں سرایت کروانے کے مترادف ہے۔ یہی کام تھوڑی اُونچی سطح پر ہمارے دشمن ممالک سر انجام دیتے ہیں۔ کراچی، بلوچستان اور سوات جیسی جگہوں کو دہشت گردوں کے ٹھکانے قرار دے کر سیاحوں کو پاکستان میں آنے سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔

ہماری بس براستہ مکران کوسٹل ہاے وے کنڈ ملیر کے ساحل کی طرف رواں دواں تھی۔ ہمارا سفر کچھ سوتے اور کچھ جاگتے جاری تھا۔ ایسے میں احسن دانش بھائی نے ’’آر جے نوید‘‘ کی مرچیں لگادیں۔ مرچیں لگنی تھیں کہ سب اُٹھ بیٹھے، نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہوگئی اور محفل زعفرانِ زار بن گئی۔

اس سڑک کے متعلق سنا ہے کہ ایران سے بذریعہ لانچ سمندری راستے سے ایرانی پٹرول اور ڈیزل پاکستان میں اسمگل کیا جاتا ہے، اور ملک بھر میں ترسیل کے لیے اسی شاہراہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم کرکے اس کے سدِباب کی کوشش کی گئی ہیں۔ تمام ہی اہم مقامات پر چیکنگ کی جاتی ہے لیکن لانے والے قیامت کا ذہن رکھتے ہیں۔ شہر قائد میں جگہ جگہ سڑک کنارے یہ ایرانی پیٹرول قدرے ارزاں قیمت پر مل جاتا ہے جو کہ معیاری نہ ہونے کہ وجہ سے استعمال کرنے والے کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا حشر نشر دیتا ہے۔ یہی جگہ جگہ چیک پوسٹیں، فوج اور رینجرز کی موجودگی کی وجہ سے یہاں لوٹ مار کے واقعات کافی کم ہیں اور امن امان ہے۔

ہمارے ڈرائیور نے قسم کھائی تھی کہ وہ گاڑی کچھوے کی چال چلائے گا، ہم نے اُسے خرگوش بننے کی دعوت دینی چاہی لیکن پھر یہ سوچ کر چپ بیٹھے رہے کہ کہیں اِس کی بھی خرگوش کی طرح آنکھ لگ گئی تو مستقبل میں خرگوش اور کچھوے کی جگہ ہماری مثالیں دی جانے لگیں گی۔ ہم مثال تو بننا چاہتے ہیں لیکن بُری مثال نہیں۔

چاروں جانب نظریں دوڑائیں تو بیابان اور چٹیل میدان دور دور تک نظر آرہا تھا۔ چمکیلی دھوپ اور بنا کسی ساربان کے اُونٹ بہت بھلے لگ رہے تھے۔ کراچی جیسے گنجان شہر میں رہنے والوں کو یہ جگہ اُسی طرح دلکش اور خوب صورت لگ رہی تھی جیسے یہاں کے لوگوں کو شہر کی بڑی بڑی عمارتیں، پُل اور انڈر پاسز حیرت میں ڈالتے ہیں۔

مکران کوسٹل ہائی وے شاید پاکستان کی خوبصورت ترین شاہراہ ہے جہاں وقت اور فاصلے کی ساری پیمائشیں ختم ہوجاتی ہیں اور راستہ فیول اور پانی سے ناپا جاتا ہے۔ راستے میں کہیں صحرا، کہیں بیاباں، کہیں پہاڑ، تو کہیں سمندر، کہیں کہیں نخلستان۔ پہاڑوں کی قدرتی سنگ تراشی سے بنی اشکال قدرت کی صناعی بیان کررہی تھی۔
عنیقہ ناز اپنے ایک بلاگ میں لکھتی ہیں،

’’انور مقصود صاحب کے بارے میں سنتے ہیں کہ وہ بھی مصوری سے شغف فرماتے ہیں اور ان کی تصاویر کی بڑی مانگ ہے۔ یہ بھی کہیں پڑھا کہ ایک دفعہ جناب ضیاء الحق صاحب نے انور مقصود سے ان کی پینٹنگز کے بارے میں دریافت کیا۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ میری پینٹنگز آپ دیکھ نہیں پائیں گے۔ مزید استفسار پہ کہا کہ میری ماڈلز بہت غریب ہوتی ہیں۔ اتنی غریب کہ ان کے پاس پہننے کو کپڑے بھی نہیں ہوتے۔ کیا بلوچستان اتنا ہی غریب ہے یا پسماندہ؟‘‘

ایک روسی ادیب کا کہنا ہے کہ تمام خوشحال خاندانوں کی کہانیاں ایک جیسی ہوتی ہیں اور غریب خاندانوں کی الگ الگ۔ اسی طرح تمام ترقی یافتہ جگہوں کے سفر کی کہانیاں ایک جیسی ہوتی ہیں اور پسماندہ جگہوں کا جب بھی قصد کریں، الگ داستانیں بنتی ہیں۔ خاص طور پہ ایسی جگہیں جو معاشی اور اس کے ساتھ آنے والی معاشرتی تبدیلیوں سے گذر رہی ہوں۔

ہمارے ایک ساتھی شہود عاقل بتانے لگے کہ جس سڑک پر ہم سفر کررہے ہیں، اسی سڑک سے محمد بن قاسم کا لشکر گزرا تھا۔ جب ہم اپنی منزل کے قریب پہنچے تو ہمیں دائیں جانب ہنگلاج مندر اور ہنگول نیشنل پارک کی طرف جانے والا راستہ دکھائی دیا تو دوسری جانب محمد بن قاسم کے سپاہیوں کی قبروں کی جانب نشاندہی کرنے والا بورڈ نظر آیا۔

اب ہم کنڈ ملیر پہنچ چکے تھے۔ صاف شفاف اور نیلگوں سمندر تا حد نظر پھیلا ہوا تھا۔ صاف ستھرے ساحل کو دیکھ کر یقین نہیں آتا تھا کہ یہ پاکستان کا حصہ ہے۔ سی ویو کا حال ہم دیکھ چکے ہیں، اس لیے یہ جگہ غیر معمولی نظر آرہی تھی۔ کنڈ ملیر کے اس ساحل پر ہم خوب گھومے پھرے، نہائے اور کیا خوب نہائے۔۔۔ منیب ذیشان ڈبکیاں لیتے ہوئے بہت خوش دکھائی دے رہے تھے اور پھر پانی میں اُس کا چشمہ نکل گیا اور باوجود کوشش کے نہیں ملا۔

ہم نے بھی اُنہیں مشورہ دیا کہ یہ چشمہ مچھلیوں کو صدقہ کردو اُن میں سے کسی کی نظر کم ہوئی تو چشمہ پہن کر تمہیں بہت دعائیں دیں گی۔ اس بات سے منیب کو کچھ ڈھارس بندھی کہ چشمہ رائیگاں نہیں گیا، کسی کے تو کام آیا اور اسی خوشی میں سب نے مل کر ایک بڑی لہر کے ساتھ ڈبکی لگائی۔

3 بجے کے بعد سے ساحل پر فیملیز کی آمد شروع ہوچکی تھی۔ لیکن اِسے رش نہیں کہہ سکتے تھے۔ ساحل بہت بڑا تھا اور لوگ بہت کم۔ ہم نے تو ایک ساتھی کو مشورہ بھی دیا کہ یہ والا سمندر چپکے سے اُٹھا کر کلفٹن لے چلو اور وہاں والا خاموشی سے یہاں ڈال دو۔ کسی کو کیا پتا چلے گا؟

لیکن اگلے بندے کا جواب سن کر ہمیں کڑوے گھونٹ پینے پڑے۔ موصوف کا جواب تھا۔ ’’ایک سال کے اندر اندر اس کا بھی وہی حال ہوجائے گا جیسے اُس کا کردیا ہے۔ پھر تم کہو گے کہ اِسے واپس چھوڑ آؤ، میں بار بار یہاں نہیں آسکتا۔‘‘ ہم کیا کہتے؟ کہنے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں تھا۔

کھانا کھایا پھر ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ادا کرکے واپسی کی راہ لی۔ واپسی میں ہم نے ہنگول نیشنل پارک سے ہوتے ہوئے ہنگلاج مندر جانے کا قصد کیا۔ پاکستان میں بلوچستان کے ساحل مکران کے قریب واقع ہنگلاج وادی میں تیرتھ یاترا کے سلسلے میں ہر سال اندرون و بیرون ملک سے ہندوؤں کی بہت بڑی تعداد جمع ہوتی ہے۔ ہنگلاج برصغیر پاک و ہند کے ہندوؤں کے بڑے استھانوں میں سے ایک ہے، جو دریائے ہنگول کے دائیں کنارے پر کھیر تھر پہاڑی سلسلے کی ایک تنگ وادی میں واقع ہے۔ استھان تک پہنچنے کے لیے ہنگول نیشنل پارک میں سے گزرنا پڑتا ہے۔

یہ پارک طبعی طور پر پہاڑ، ریت کے ٹیلوں اور دریا کے ساتھ سیلابی میدان وغیرہ میں بٹا ہوا ہے۔ ہنگول ندی نیشنل پارک سے ہوکر گزرتی ہے اور سمندر میں گرنے سے پہلے ایک مدو جزر والا دہانہ بناتی ہے جو کئی ہجرت کرنے والے آبی پرندوں اور دلدلی مگر مچھوں کا مسکن ہے۔

ہنگول نیشنل پارک کے گارڈ سے بات چیت کرکے ہم اندرداخل ہوئے۔ سولہ سو پچاس (1650) مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا یہ پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے جو کہ تین اضلاع لسبیلہ، گوادر اور، اوروان پر پھیلا ہوا ہے۔ انیس سو اٹھاسی (1988) میں باقاعدہ اسے نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا اور اس کے بعد یہ پاکستان کا واحد نیشنل پارک ہے جو بیک وقت سمندر، دریا، صحرا اور پہاڑی جنگلی حیات کے تحفظ کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔

یہاں پائے جانے والی جنگلی حیات کی درست تعداد کا ابھی تک درست اندازہ نہیں لگایا جاسکا لیکن اعداد وشمار کے مطابق اس وقت ہنگول نیشنل پارک میں 3 ہزار مارخور، 15 سو کے قریب اڑیال اور تقریبا 12 سو کے قریب پہاڑی غزال موجود ہیں۔ اس کے علاوہ پائے جانے والی حیات میں سندھی چیتا، لومڑی، لگڑ بھگے، پہاڑی بکرے، سیہا، نیولے اور جنگلی بلوں کی مختلف اقسام ہیں۔

دریائے ہنگول میں پائے جانے والے مگرمچھ، موٹی زبان والی چھپکلی، وائپر اور کوبرا ناگ اور سمندری کچھوؤں کی مختلف اقسام موجود ہیں۔ پرندوں میں مستقل پائے جانے والے مختلف اقسام کے عقاب اس کے علاوہ اُلّو ہیں اور پہاڑی کوے اور نقل مکانی کرکے آنے والے پرندے جو کہ سال کا کچھ حصہ گزار کر لوٹ جاتے ہیں۔ نباتات میں تمریکس، پروسوپیز، زیز یپس اور کیکر موجود ہیں۔ یہاں چند نایاب جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ جن کی طبی حوالے سے بڑی اہمیت ہے۔ مقامی لوگ ان کے ذریعے کئی بیماریوں کا علاج دیسی طریقوں سے کرتے ہیں۔

لیکن پارک میں داخل ہونے کے باوجود ہمیں کہیں پارک ٹائپ کی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ ساتھیوں کا اصرار تھا کہ یہی ہنگول نیشنل پارک ہے۔ جتنے جانوروں کا کہا گیا، ایک بھی نظر نہ آیا۔ معلوم نہیں کہ شرم آڑے آئی یا ہمیں دیکھ کر ہمت نہیں ہوئی۔ البتہ دو سدا کے نکمے قسم کے گدھے ہمیں نظر آئے جو سر جھکائے کسی اہم میٹنگ میں مشغول تھے۔ دریائے ہنگول کی جگہ خشک تھی، معلوم نہیں کس زمانے میں وہاں پانی تھا جو اُسے دریاے ہنگول کا نام دیا گیا تھا۔

احسن دانش نے گوگل کے نقشے میں بھی ہمیں ایک پانی کی پٹی دکھائی جو بقول گوگل اور لوگوں کے دریاے ہنگول ہے، لیکن اس وقت وہ چھوئی موئی کی طرح سمٹ کر غائب ہی ہوچکا تھا۔

مندر کے دروازے پر پہنچ کر گارڈ نے ہم سے ہندو ہونے کی سند مانگی لیکن ہم نے کہا مسلمان طلبہ ہیں، تقابل ادیان کے لیے اس مندر کے دورے کے لیے آئے ہیں۔ ہماری بات سن کر وہ سمجھ گئے کہ یہ زیادہ غلط نہیں کہہ رہے۔ اس لیے اندر جانے کی اجازت مل گئی۔ دو دن قبل ہی یہاں ایک میلہ ختم ہوا تھا اور سال کا سب سے بڑا میلہ شروع ہونے میں چند ماہ باقی تھے اس لیے مندر پر سنّاٹے کا راج تھا۔

یہاں ایک غار میں کالی ماتا کا مندر ہے اور پانی کے قدرتی چشمے، کھجور اور بیر کے درخت ہیں۔ پچھلے سال لگ بھگ 30 ہزار لوگ ہنگلاج یاترا پر آئے تھے، جن میں بھارت کے یاتری بھی شامل تھے۔ منتظمین کا دعویٰ تھا کہ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد میں آمد کی وجہ صوبے میں امن و امان اور راستوں کا بہتر ہونا ہے۔

لگ بھگ ڈھائی سال قبل تعمیر ہونے والی کراچی تا گوادر کوسٹل ہائی وے نے ہنگلاج یاترا کے سفر کو بھی آسان بنا دیا ہے۔ ہندو یاتری کوسٹل ہائی وے کی تعمیر کو کالی ماتا کا کرشمہ سمجھتے ہیں۔ گزشتہ سال بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما جسونت سنگھ نے بھی اپنے دورہِ پاکستان کے دوران ہنگلاج یاترا کی تھی۔ ہندؤ پنڈت نے بتایا کہ گوادر کا جو روڈ بنا ہے یہ ماتا کا معجزہ ہے۔ پہلے تو یہ روڈ کچا تھا جس سے یاتریوں کو بہت تکلیف ہوتی تھی اور بہت کم لوگ ہنگلاج پہنچ پاتے تھے۔

ہنگلاج کے اس سالانہ بھنڈار یا میلے کا انتظام سندھ اور بلوچستان کے سرکردہ ہندوؤں کی ایک کمیٹی نجی طور پر کرتی ہے، جسے ہنگلاج شِوا منڈلی کہا جاتا ہے۔ سال 1986 میں 125 یاتری اس مندر میں آئے تھے اور اب یہ تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے۔ ہنگلاج میں یاتریوں کے قیام کے لیے صرف 4 پختہ آرام گاہیں یا مسافر خانے ہیں، جن میں بمشکل 400 لوگوں کے قیام کی گنجائش ہے۔ ہنگلاج شِوا منڈلی کچھ جگہوں پر تمبو لگا کر بھی یاتریوں کے قیام کا بندوبست کرتی ہے، لیکن یاتریوں کی اکثریت درختوں تلے یا پہاڑ کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔

یہ ایک بہت بڑا مندر تھا جس میں مختلف جگہوں پر مورتیاں مختلف ناموں سے موسوم موجود ہیں۔ ہم میں سے شاید ہی کوئی پہلے کسی مندر گیا ہو، اس لیے سب کے لیے یہ ایک نیا اور انوکھا تجربہ تھا۔ ہم پیدل اندر کی جانب بڑھتے جارہے تھے۔ آس پاس کے بورڈ اور مختلف بچاریوں سے سوال جواب کے ذریعے بہت ساری چیزیں معلوم ہوئیں۔

کالی ماتا کے مندر کے علاوہ ہنگلاج وادی اور اس کے اطراف میں 10 ایسے مقامات ہیں جہاں ہندو یاترا اور پوجا کرتے ہیں۔ ان میں ایک اہم مقام چندرگپ ہے، جو ہنگلاج سے 12 کلومیٹر دور ریگستان میں مٹی کے دو اُونچے پہاڑ ہیں جن کے دہانے نمدار مٹی اُگلتے ہیں۔ ان پہاڑوں پر پہنچ کر پوجا کرنا اس تیرتھ یاترا کا اہم حصہ ہے اور زیادہ تر مشکلات چندر گپ یاترا میں ہی ہوتی ہیں، کیونکہ وہاں جانے کے لیے یاتریوں کو کئی گھنٹے کڑکتی دھوپ میں پیدل چلنا پڑتا ہے۔

دیوی کو خوش کرنے کے لیے ظاہر ہے کشٹ تو اٹھانا ہی ہے اور کشٹ نہیں اٹھائیں گے تو ماتا کے درشن کیسے کریں گے؟ مختلف مندروں کو دیکھتے ہوئے ہم سب سے بڑے مندر کے پاس پہنچے۔ یہاں ہماری ملاقات مہاراج جے پال سے ہوئی۔ مہاراج جے پال کے بیوی بچے ٹھٹہ میں رہائش پذیر ہیں جبکہ خود وہ یہاں ڈیرا ڈال کر ہنگلاج ماتا کی سیوا کر رہے ہیں۔ قدرتی غار میں موجود ماتا کے مندر کے بارے میں مہاراج جے پال نے دعویٰ کیا کہ یہ 2 لاکھ سال پرانا ہے اور اِس کے بنانے میں انسانی ہاتھ استعمال نہیں ہوا یعنی مکمل طور پر قدرتی ہے۔

موجودہ دور میں اس مندر میں سیڑھیاں بھی بنی ہیں اور مندر کے اندرونی حصے میں ٹائل بھی لگے ہوئے ہیں اور اگر غور کیا جائے تو یہ مکمل غار بھی نہیں بلکہ ایک پہاڑی کھوہ نما ہے اور یہاں دو مورتیاں ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انسانوں نے نہیں بنائے بلکہ ماتا خود اپنے ساتھ لیکر آسمان سے اُتری تھیں۔

ایک سندور ملا ہوا بے شکلا پتھر ماتا کی نشانی کے طور پر پوجا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی دور میں سندھ کے صوفی بزرگ حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی رحمہ اللہ علیہ نے یہاں کا دورہ کیا تھا، اور انہوں نے ہی اس مندر کو ’’نانی مندر‘‘ کا نام دیا۔ یہ تو ہوا سب سے مشہور مندر لیکن اس کے علاوہ اور بھی مندر یہاں موجود ہیں جن میں گنیش دیوا مندر، کالی ماتا مندر، گرو گورکھ ناتھ دانی مندر، براہم خود اور تیر خود مندر، گرا نانک کھارو اور دیگر مندر جو کہ اسی دروازے کے اندر مختلف مقامات پر موجود ہیں ۔

سب ساتھیوں نے خوب دل کھول کر تصاویر کھینچیں۔ میلے کے وقت یقیناً یہاں خوب رونق رہتی ہوگی، لیکن اس وقت پورے ماحول پر ایک عجیب طرح کی ویرانی تھی۔ وہ مسلم زائرین جو اس مندر کو یا کسی بھی ایسے جگہ جو کہ کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ کہی جا سکے صرف ایک تاریخی حیثیت میں دیکھنے جاتے ہیں، وہ ان مقامات کے تقدس کو پامال کرکے ان کی دل آزاری کا باعث نہ بنیں اور ان جگہوں کا ویسے ہی احترام کریں جیسے اپنی مسجد کا کرتے ہیں۔

مندر کے اندر جوتوں سمیت داخل ہونا یا مندر کے احاطے میں سگریٹ نوشی کرنا بھی اسی زمرے میں آتی ہے لہذا اِس سے اجتناب کرنا چاہیے  تاکہ وہ آپ کا اور آپ کے مذہب کا احترام کریں۔ بس مندر کی سیر کے بعد ہماری واپسی کا سفر شروع ہو چکا تھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

اعظم طارق کوہستانی

اعظم طارق کوہستانی

اعظم طارق کوہستانی ان کا قلمی نام ہے۔ اصلی نام ’محمد طارق خان‘ ہے۔ نوجوان صحافی اور ادیب ہے۔ آج کل بچوں کے رسالے ’جگمگ تارے‘ کے ایڈیٹر ہیں۔ بچوں کے لیے اب تک ان کی کہانیوں پر مشتمل دو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔