خارجہ پالیسی میں تبدیلی، بڑا کریڈٹ

جاوید قاضی  ہفتہ 16 جنوری 2016
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

جنھوں نے سیاست میں اپنے سارے  پتے اس طرح سنبھال کے رکھے تھے کہ نہ سعودی عرب پر برے دن آنے ہیں اور نہ برصغیر میں امن آگے بڑھنا ہے اور نہ کبھی پاک افغان سرحد پر ہم دونوں نے مل کر دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے کام کرنا ہے۔ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں اب کے آنے والے دنوں میں اس کاروبار کے حصص بھی اس طرح گر جائیں گے، جس طرح تیل کی قیمتیں آج کل گری ہوئی ہیں۔

ہم نے ہوش کے ناخن لے لیے ہیں، کہیں شاید چپکے سے ٹریک ٹو ڈپلومیسی ہورہی ہے۔ حکمران آج ہوا کا رخ سمجھ بیٹھے ہیں اور اس بات پر تو ہماری آج کی فوجی قیادت کو بہت بڑا کریڈٹ جاتا ہے جنھوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔  سرتاج عزیز کا دو دن پہلے والا بیان واضح ثبوت تھا اس بات کا۔

توپھر لیجیے کل جلال آباد میں ہمارے قونصلیٹ پر حملہ ہوا اور وہ حملہ داعش نے قبول کیا، پھر ایک حملہ بہت دنوں بعد کوئٹہ میں بھی ہوا۔ ہم نے بھی بالآخر جیش محمد  پر ہاتھ ڈال دیا اور ان کے مدارس کو بھی سیل کرنا شروع کردیا۔ پٹھان کوٹ کے واقعے پر اتنا تعاون اور اس تیزی کے ساتھ تعاون تو شاید ہم نے ممبئی والے واقعے پر بھی نہیں کیا تھا ۔خوش آیند ہے۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی کی پاکستان پرست پالیسی کو بالآخر کابل میں اب سنا جائے گا۔ خود چائنا پاکستان کے ایسے رویے پر خوش ہے اور یوں یہ خطہ اس کی طرف گامزن ہے اور امن عام لوگوں کی زندگی میں خوشحالی لاتا ہے۔

دراصل یہ سب پاکستان میں تیزی سے بڑھتے ہوئے داعش کے خطرے کے پس منظر میں ہورہا ہے۔ ہم نے بالآخر کل پشاور میں ہنڈی کے کاروبار پر بھی چھاپہ مارا۔ بہت تیزی سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔

ہمیں سرد جنگ  نے بہت برباد کیا اور اس پر ہمارے اندر سیاسی قیادت کا کمزور ہونا، اداروں اور ان کے استحکام کا فقدان ہونا، خود آمریت کے لیے خلا پیدا کرنا تھا اور وہ خلا آمریتوں نے پُرکیا جس کے لیے دنیا میں سرد جنگ کے پس منظر میں ماحول سازگار تھا۔ روس کو اپنے حواری یعنی کرائے کے گوریلے چاہیے تھے اور امریکا کو بھی۔ ہم نے دنیا کی اس طرح کی صف بندی میں امریکا کے ساتھ کھڑا ہونا پسندکیا۔ امریکا نے پاکستان کے اندرآمریتوں سے کھڑا ہونا پسند کیا اوراس طرح پاکستان میں ادارے مضبوط نہ ہوسکے۔

آج ہماری پولیس ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بظاہر کمزور ہے۔ ہمارے قانون میں اتنی تیزی یا عمل کاری نہیں۔  کچھ  لوگ اتنے طاقت ور ہوگئے کہ ججوں پر حملے کرتے تھے۔

پاکستان کے اندر اس تیزی سے بڑھتے ہوئے خطرات پر آج تو امریکا کے صدر اوباما بھی بول پڑے۔ آج  دنیا میں جوخلیج پیدا ہوئی ہے۔ جو مسلمانوں  کے  ڈر سے پیدا ہوئی ہے، پورا یورپ اس وبا میں غلطاں ہوتا جارہا ہے۔اس نفرت کو ہوا دینے میں جتنی چالاکی سے داعش نے کام کیا ہے اتنا تو شاید القاعدہ بھی نہ کرسکی۔

یہ حقیقت اب ڈھکی چھپی نہیں کہ ایسی سوچ اور انتہا پرستی کا مضبوط گڑھ پنجاب کے اندر ہے اور اس پر کام ضرب عضب کے پہلے مرحلے میں اتنا نہیں ہوا، لیکن اب اس طرف سنجیدگی سے کام ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ کم ازکم یہ بات اب غلط ثابت ہوئی کہ مودی کا لاہور اترنا اور واجپائی کا لاہور آنا بہت مختلف زماں ومکاں کا مظہر نہیں۔ پٹھان کوٹ کوئی کارگل نہیں نہ کوئی بمبئی کا واقعہ ہے اور اس بات کا سہرا ہندوستان کی موجودہ قیادت کو بھی جاتا ہے۔

جنھوں نے پاکستان کے جیش محمد پر اٹھائے اقدام یا پٹھان کوٹ کی تحقیقات میں معاونت کو سراہا۔ اس کے باوجود کہ کل دلی میں PIA کے آفس پر کچھ ہندو شدت پسندوں نے حملہ بھی کیا۔ ہندوستان و پاکستان کے درمیان اعتمادکی فضا جو اب  پیدا ہو رہی ہے، اس کی مثال پچھلی دو دہائیوں تک نہیں مل رہی۔ اور اس بار کتنے پٹھان کوٹ یا کتنے بمبئی والے واقعات بھی کیوں نہ ہوں یہ عمل اپنی پٹڑی سے سمجھوتا ایکسپریس کی طرح نہیں اترسکتا۔

ریاست کا کسی غیر ریاست ایکٹر سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ یہ ہے وہ پاکستان جوکہ اب اپنے مستقبل میں آنکھیں ڈال کر دیکھ سکتا ہے ، مگر جو اس کے اندر اب بھی ذرا خرابی ہے وہ بحیثیت فیڈریشن اپنی سمت صحیح انداز میں نہیں بنا سکا۔ اس کے باوجود بھی کہ ہمارا آئین، ہندوستان سے زیادہ وفاقیت رکھتا ہے۔ ہماری معاشی پالیسی کے اندر بھی بہت سے مسائل ہیں۔ خصوصاً ہمارے ٹیکس کے نظام میں۔اصلاحات ناگزیر ہیں۔

تاہم اس بات پر ہم سب واضح ہیں کہ ہم چائنا سے آئی ہوئی نئی معاشی بصیرت سے ایک نئی جست  لگانے جا رہے ہیں تو ساتھ ساتھ ہم ہندوستان سے بھی بہتر سے بہتر تعلقات بڑھانے کی طرف جا رہے ہیں۔

ہندوستان کواگر پاکستان کے راستے سے سینٹرل ایشیا جانا ہے یا ایران سے گیس پائپ لائن لینی ہے تو اس میں فائدہ ہمارا ہے کہ ہم ہندوستان کو اس رسد کے اہم فریق بن جائیں گے تو خود اس بات پر چین کو بھی اعتراض نہیں۔ دراصل یہ سب چین کا پاکستان کے ذریعے مشرق وسطیٰ کے قریب ہونے کی نئی حکمت عملی  ہے ، خود چینی بصیرت کو بھی پاکستان کے اسٹریٹیجک سوچ والوں کے قریب لائی  اور ہم نے ان کی بصیرت سے کچھ سیکھا اور اس طرح ایک نئی سوچ نے جنم لیا ہے۔ برصغیر اور چائنا ایک دوسرے کے قریب آتے جارہے ہیں اور اس بات پر مغرب یا امریکا کو بھی کوئی اعتراض نہیں۔

ہم جب اپنے لوگوں کی تطہیر نہیں کریں گے تو اس کے نتائج  نہ صرف ہم کو بلکہ پوری دنیا کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ یہاں پر دینی تعلیم مفت بمع ہنر وروٹی ملتی ہے اور سیکولر تعلیم یعنی دنیوی تعلیم پیسوں سے ملتی ہے کیونکہ سرکاری اسکول بند پڑے ہیں، جہاں غریب کے بچے پڑھنے کے لیے نہیں جاسکتے کہ اب ان اسکولوں سے کوئی ڈاکٹر علامہ یا ڈاکٹر من موہن سنگھ پیدا نہیں ہوسکتا۔ اور پھر ان دینی مدارس سے… عروج طریقہ کار سے پڑھایا  جاتا ہے۔ ان مدارس جن کو غیر ملکی امداد  ملتی ہے ان کی کھپت پھر ایک سوالیہ نشان رکھتی ہے۔

ایسے کام میں ہماری دہائیاں گزری ہیں اور یہ سب اس کا پھیلاؤ ہے۔ ہم  نے سمت تو صحیح طرف کی ہے اور جب حادثہ اچانک جنم نہیں لیتے تو پھر اس صورتحال کو جو دہائیوں سے رواں تھی اچانک ایک رات میں تو ختم نہیں ہوگی۔ اس میں بھی دہائیاں لگیں گی۔ اس سارے مسئلے کی جڑ ہماری تاریخ کو مسخ کرنے میں پیوست ہے۔ ہمیں اسے جڑ کو اکھاڑنا ہوگا۔ ہم کو اپنی خارجہ پالیسی کی بنیادیں وسیع کرنی ہیں اور ان کو کسی ملک سے دشمنی پر نہیں بلکہ کاروبار، امن، سلامتی، معاشی ترقی پر رکھنا ہے ۔اسی میں ہمارا مفاد ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔