آؤ جی بھر کے رو لیں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 16 جنوری 2016

سارتر نے کہا ہے زندگی چپکنے والی غلاظت ہے جو بہتے بہتے جم گئی ہے۔ جب کہ کیرک گردکہتا تھا ’’ میں کبھی بھی بچہ نہیں تھا، میں کبھی بھی جوان نہیں ہوا میں کبھی بھی زندہ نہیں رہا، میں کبھی بھی کسی انسان سے محبت نہیں کر سکا۔ زندگی کس قدرکھوکھلی اور لغو ہے کوئی کسی کو دفن کرتا ہے کوئی میت کے ساتھ جاتا ہے، کوئی قبر میں تین بیلچے مٹی کے پھینکتا ہے آخر ستر برس کی عمرکب تک ساتھ دے گی کیوں نہ اس زندگی کا فوری طور پر خاتمہ کردیاجائے کیوں نہ آدمی قبرستان میں ڈیرے ڈال دے کیوں نہ قبر میں گھس جائے۔‘‘

کہوکیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان کے 95 فیصد بے وسیلہ انسانوں کے یہ ہی احساسات وجذبات ہیں کہوکیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان کے 95 فیصد انسانوں کی، یہ ہی سوچ ہے کہو کیا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ آج 95 فیصد پاکستانی سارترکی بات سے متفق ہیں کہ زندگی چپکنے والی غلاظت ہے، آج 95 فیصد پاکستانیوں میں کوئی ایک شخص دکھا دو جو دل سے ہنستا ہو، جسے کوئی غم نہ ہو کوئی فکر نہ ہو کوئی پریشانی نہ ہو، جو چین سے سوتا ہو،خدا کے واسطے کسی ایک شخص کا نام بتادو جس کے اندرکوئی شور شور نہ مچاتا ہو۔ جس کے اندر ننگی چیخیں نہ چیختی ہوں، جو روز نہ مرتا ہو، جو روز نہ جیتا ہو، خدا کے واسطے کسی ایک شخص کا پتہ بتلا دو جو روزاپنی قبر نہ کھودتا ہو ۔

اس وقت ماتم کرنے کو دل کرتا ہے، جب محلوں میں بیٹھے اونچے اونچے تختوں پر براجمان موٹے موٹے پیٹ والے یہ کہتے ہیں کہ ملک ترقی کررہا ہے، ملک سے غربت کا خاتمہ ہورہا ہے، خوشحالی آرہی ہے، لوگوں کا سکون لوٹ رہا ہے، ارے کوئی ان اندھوں اور بہروں کو ملک کی گندی اورغلاظت سے بھری بستیاں دکھا دے، خون تھوکتے انسان دکھا دے۔

اپنے آپ کو پیٹتی بہنوں اور بیٹیوں کو دکھا دے بھوکے سوتے بچوںکو دکھا دے تڑپتی، بلکتی سسکتی ماؤں کو دکھا دے خدا را کوئی تو اٹھے جو ان اندھوں اور بہروں کو ملک کی بستیوں میں لے جائے۔انجلس کہتا ہے ’’ محل میں رہنے والے اور جھونپڑے میں رہنے والے مختلف طریقوں سے سوچتے ہیں۔‘‘ گویا جب تک جھونپڑے میں رہنے والے کو محل میں یا محل میں رہنے والے کو جھونپڑے میں نہیں رکھاجائے گا اس کے سوچنے کے انداز اور طرز احساس کو بدلا نہیں جاسکتا، اس لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے امیرو بااختیارو ، جاگیردارو تم ہم 95 فیصد انسانوںسے بالکل الگ ہو بالکل مختلف ہو تم اور ہم ایک کیسے ہوسکتے ہیں۔

جب کہ تم ہمارے غموں اور دکھوں کومحسوس ہی نہیں کرسکتے ہو تم ہمار ے جیسے کیسے ہوسکتے ہوکہ تمہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ غربت اور افلاس کس بلاکا نام ہے فاقوں کی تکلیف کیسی ہوتی ہے، بیروزگاری کاغم جسم کوکیسے کاٹتا ہے خواہشوں اورامیدوں کے قتل عام پر دل کیسے روتا ہے نہیں تم اور ہم الگ الگ ہیں تمہارا پاکستان الگ ہے ہمارا پاکستان الگ ہے ۔ تمہارے خون کا رنگ الگ ہے ہمارے خون کا رنگ الگ ہے ۔ تمہارے جسم الگ ہیں ہمارے جسم الگ ہیں ۔

میرے ملک کے اہل ثروت اگر تم کواس بات کا احساس ہوجائے کہ تم کیسی بے مصرف ، بے معنیٰ ، بے مقصد اور بے کیف زندگی گزار رہے ہو تو تم زروجواہرات وہیرے کے انبار اٹھا کرگلی میں پھینک دو، لیکن مشکل تو یہ ہی ہے کہ تمہارا یہ احساس بھی سلب ہوچکا ہے تم بے ضمیر ہو ، تمہارے نصیب میں یہ لکھا جاچکاہے کہ تم سونے کی بھاری صلیب اٹھائے اٹھائے پھرتے رہو، خواہ اس کے بوجھ تلے تمہارے کندھے شکستہ ہوجائیں تم تھک کر نڈھال ہوجاؤ ہانپتے کاپنتے پھر اٹھ کھڑے ہو اور اس صلیب سے پھر چمٹ جاؤ یہ ہی تمھارا مقدر ہے۔

جب سکندر اعظم 325 ق م میں شمالی مغربی ہندوستان میں گھوما تو وہ پنجاب میں اور اس کے آس پاس مقامی باشندوں کے ساتھ لڑائیوں کے ایک سلسلے میں الجھا اور ساری کی ساری جیت لیں لیکن وہ اس قابل نہ ہوسکا کہ اپنے سپاہیوں میں اتنا جوش وخروش پیدا کرسکے کہ وہ طاقتور شاہی نندا خاندان پر حملہ کرسکیں، جو مشرقی ہندوستان کے شہر پٹالی پترا (جواب پٹنہ کہلاتا ہے) اور جو ہندوستان کے بیشتر حصے پر حکومت کرتا تھا۔

تاہم سکندر اعظم خاموشی سے یونان واپس جانے کے لیے تیار نہ تھا اور ارسطوکے اچھے شاگردکے طورپر اس نے خاصاوقت ہندوستان کے فلسفیوں اور نظریہ سازوں (مذہبی اور سماجی ) کے ساتھ پر سکون گفتگو منعقد کرنے میں گذارا۔ ایک زیادہ پرجوش مباحثے میں دنیا کے فاتح نے جین فلسفیوں کے ایک گروہ سے پوچھا کہ وہ اس کی طرف توجہ دینے کوکیوں نظراندازکررہے ہیں،اس سوال کا جواب اس نے یہ پایا۔’’ بادشاہ سکندر ہرشخص صرف زمین کے اتنے حصے کامالک ہوسکتا ہے جتنے پر ہم کھڑے ہوئے ہیں ،آپ بھی ہم میں سے باقی سب کی طرح ایک انسان ہو سوائے اس کے کہ آپ ہر وقت مصروف رہتے ہواورکسی اچھائی کے لیے نہیں ۔

اپنے گھر سے اتنے میل ہا میل دور سفر کررہے ہو، اپنے لیے اوردوسروں کے لیے ایک پریشانی کا باعث ہو آپ جلد ہی مرجاؤ گے اورتب آپ صرف اس قدر زمین کے مالک ہوگئے جو آپ کو اپنے اندر چھپانے کے لیے کافی ہوگی۔‘‘ میرے ملک کے بااختیاروں،طاقتوروں اوراہل ثروت یہ ہی بات تمہارے سوچنے کی بھی ہے اوربار بار سو نے کی ہے لیکن کیا کریں تمہاری سوچنے کی صلاحیت بھی سلب کرلی گئی ہے۔

اس لیے تم اپنی سزاپوری کرتے رہو اورمیرے جیسے 95 فیصد لوگوں اور تو ہم کچھ کرسکتے ہیں نہیں۔ اس لیے آئیںجی بھرکے رولیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے دل ہی پھٹ جائیں، اس لیے کہ ہم بہت ضبط کرچکے ہیں بہت دکھ سہہ چکے ہیں بہت برداشت کرچکے ہیں خیال رہے ہم سب گوشت پوست کے بنے ہوئے انسان ہیں۔ پتھر یالکڑی کے نہیں جیساکہ ہومر نے کہا تھا۔ اس لیے ذہن میں رہے ہمارے دل پتھرکے بنے ہوئے نہیں ہیں۔ ہمارے احساسات سیمنٹ کے نہیں ہیں ہمارے جذبات بجری کے نہیں ہیں کہ ان پرکسی بات کا اثر نہ ہو۔ اسی لیے کہتا ہوں۔ آئیں جی بھر کر رولیں تاکہ ہماری اندرکی ساری اذیتیں ساری تپشیں آنسوؤں کے ذریعے باہر نکل آئے اور ہمارے اندرکا جلتا سمندر ٹھنڈا ہوسکے ۔

آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔