شمالی کوریا نے کیا صرف پُھلجھڑی چھوڑی؟

ندیم سبحان  اتوار 17 جنوری 2016
ہائیڈروجن بم کے دھماکے کا اعلان، دعوے میں کتنی حقیقت ہے ۔  فوٹو : فائل

ہائیڈروجن بم کے دھماکے کا اعلان، دعوے میں کتنی حقیقت ہے ۔ فوٹو : فائل

بدھ 6 جنوری کو صبح دس بجے چین، جاپان، اور جنوبی کوریا کے کچھ علاقے زلزلے سے لرز اٹھے ۔ ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت5.1 ریکارڈ کی گئی۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد جنوبی کوریا کے ٹیلی ویژن چینلز اعلیٰ سرکاری عہدے دار کا بیان نشر کررہے تھے جس میں زلزلے کے قدرتی ہونے پر شک کا اظہار کرتے ہوئے اسے انسانی سرگرمی کا نتیجہ قرار دیا گیا تھا۔

جنوبی کوریا کے محکمۂ موسمیات کے سربراہ نے امکان ظاہر کیا کہ5.1 شدت کا یہ زلزلہ ایٹمی دھماکے کا نتیجہ تھا۔ کچھ دیر کے بعد چینی ذرائع ابلاغ بھی حکومتی عہدے دار کا اسی قسم کا بیان نشر کررہے تھے۔ بعدازاں شمالی کوریا کے سرکاری ٹیلی ویژن پر اعلان کیا گیا کہ اس ملک نے ہائیڈروجن بم کا دھماکا کردیا ہے۔ اس اعلان کو دنیا بھر میں حیرانی اور تشویش سے سُنا گیا۔ شمالی کوریا کی جانب سے یہ چوتھا جوہری تجربہ ہے۔

ایران کے ساتھ تعلقات بہتر ہوجانے کے بعد اب شمالی کوریا امریکا کے لیے سب سے ناپسندیدہ ملک ہے۔ اسی لیے شمالی کوریا کی جانب سے ہائیڈروجن بم کے دھماکے کا اعلان ہونے کے فوری بعد اقوام متحدہ، امریکا، جنوبی کوریا، برطانیہ، جاپان اور دیگر امریکی اتحادیوں کی جانب سے فوری ردعمل سامنے آیا۔

جاپانی وزیرِاعظم شنزو آبے نے ہائیڈروجن بم کے تجربے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ شمالی کوریا کا یہ اقدام جاپان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور اس حرکت کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ جنوبی کوریا کی صدر پارک گیون ہائے کا کہنا تھا کہ یہ اشتعال دلانے والی سنگین حرکت اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شمالی کوریا کے اس اقدام کے بعد امریکا، جاپان اور جنوبی کوریا کی درخواست پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا ۔ اجلاس میں سلامتی کونسل نے ہائیڈروجن بم کے ’مبینہ‘ دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی امن کے لیے خطرہ اور سیکیوریٹی رسک قرار دیا۔ دو گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس کا اختتام اس بات پر ہوا کہ پیونگ یانگ کو ’راہ راست‘ پر لانے کے لیے ایک قرارداد کی تیاری پر فوری عمل درآمد شروع کردیا جائے، جس میں اس کے خلاف مزید اقدامات کیے جائیں۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ اقدامات کیا ہوں گے اور قرارداد کب تک لائی جائے گی۔

امریکی صدر باراک اوباما نے دشمن ملک کی جانب سے ہائیڈروجن بم کا دھماکا کرنے کے دعوے پر لب کُشائی نہیں کی۔ حالاں کہ 2006ء میں شمالی کوریا کے پہلے ایٹمی دھماکے پر اس وقت کے صدر جارج بُش نے کہا تھا کہ اگر اس (شمالی کوریا) کی بم ٹیکنالوجی دنیا میں کہیں اور پائی گئی تو اس کے لیے اسے ذمے دار ٹھہرایا جائے گا۔

تاہم امریکا کے وزیرِخارجہ جان کیری کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ شمالی کوریا کا جوہری تجربہ انتہائی اشتعال انگیز قدم اور بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ جان کیری نے اس تجربے کو اقوام متحدہ کی ایک سے زاید قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی بھی قرار دیا۔ اسی شام وائٹ ہاؤس کی جانب سے بیان جاری کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ براک اوباما نے جنوبی کوریا کے صدر اور جاپانی وزیراعظم سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے انھیں امریکی حمایت کا یقین دلایا ہے۔

چین، شمالی کوریا کا سب سے بڑا حمایتی ہے۔ مگر حالیہ جوہری تجربے کے بعد اس نے بھی اپنے پڑوسی ملک پر تنقید کی۔

امریکا کا سب سے بڑا حریف ہونے کی وجہ سے شمالی کوریا کے ایٹمی اور میزائل پروگرام کو عالمی برادری کی جانب سے تنقید کا سامنا رہا ہے۔ اس پر پابندیاں بھی عائد ہیں، مگر اپنے والد کم جونگ ال کی طرح شمالی کوریا کے موجودہ سربراہ کم جونگ اُن بھی ملک کو زیادہ سے زیادہ اسلحے سے لیس کرنے کی پالیسی پر کاربند ہیں۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ ایک جانب شمالی کوریا کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب ہائیڈروجن بم کے تجربے کی کام یابی پر شکوک و شبہات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے۔

٭تجربے کی کام یابی پر شکوک و شبہات

شمالی کوریا کی جانب سے ہائیڈروجن بم کا دھماکا کرنے کے دعوے پر ایٹمی ماہرین اور مختلف اداروں کی جانب سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے جس کے بعد یہ معاملہ متنازعہ ہوگیا ہے۔ عالمی سطح پر اب یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا شمالی کوریا کا دعویٰ درست ہے یا نہیں۔ ایٹمی ٹیکنالوجی پر دسترس رکھنے والے سائنس دانوں کی رائے کو مدنظر رکھا جائے تو پیانگ یانگ کے دعوے کی صحت مشکوک ہوجاتی ہے۔

جنوبی کوریا کے سرکاری ٹی وی سے ہائیڈروجن بم کے دھماکے کا اعلان نشر کیے جانے کے فوری بعد مختلف ممالک کے سائنس دانوں اور انٹیلی جنس اداروں نے یہ دعویٰ مسترد کردیا۔ ان کا موقف تھا کہ دھماکے شدت اتنی نہیں تھی کہ اسے ہائیڈروجن بم تسلیم کیا جاسکتا۔ جنوبی کوریا کی خفیہ ایجنسی کے مطابق اس دھماکے کی شدت 6 کلوٹن تھی، جو ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم سے بھی کم ہے۔ اگر ہائیڈروجن بم کا دھماکا ناکام ہوجاتا تو بھی اسے چلانے سے کہیں زیادہ توانائی کا اخراج ہوتا۔ چوں کہ ہائیڈروجن بم کے دھماکے کے ابتدائی مرحلے میں فشن ری ایکشن وقوع پذیر ہوتا ہے (یہ عمل ایٹم بم میں ہوتا ہے) لہٰذا یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ یہ تجربہ پہلے مرحلے کے بعد ناکام ہوگیا ہو۔

آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے نیوکلیائی پالیسی اور جوہری ہتھیاروں پر کنٹرول کے ماہر کرسپن روور نے اس موضوع پر مغربی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا،’’اس دھماکے کے نتیجے میں زلزلے سے متعلق موصول ہونے والی معلومات (سیسمک ڈیٹا) ظاہر کرتی ہیں کہ دھماکا اتنا شدید نہیں تھا جتنا ہائیڈروجن بم کی صورت میں ہونا چاہیے تھا۔ یہ بات تو یقینی ہے کہ شمالی کوریا نے ایٹمی دھماکا کیا ہے اور اگر یہ ہائیڈروجن بم تھا تو پھر یہ دوسرے مرحلے یعنی فیوژن ری ایکشن اسٹیج تک نہیں پہنچ سکا۔‘‘

امریکا میں قائم ایک سیکیوریٹی فرم کے صدر اور ایٹمی ماہر جو کرینکیون کی رائے یہ ہے،’’ممکن ہے کہ شمالی کوریا نے ’ہائبرڈ بم‘ کا تجربہ کیا ہو، جس میں عام ایٹم بم کے ساتھ ہائیڈروجن کا ہم جا (آئسوٹوپ) ملایا جاتا ہے۔ ہم جا بھی چوں کہ ہائیڈروجن ہی ہوتا ہے، لہٰذا وہ ہائیڈروجن بم کا دھماکا کرنے کا دعویٰ کرسکتے ہیں، مگر یہ فیوژن ری ایکشن پر انحصار کرنے والا ہائیڈروجن بم نہیں ہوتا ہے جو ایٹم بم سے ہزاروں گنا زیادہ تباہی پھیلاسکتا ہے۔‘‘

رینڈ کارپوریشن، امریکا کا غیرنفع بخش عالمی تھنک ٹینک ہے۔ اس ادارے سے وابستہ سینیئر دفاعی تجزیہ کار بروس بینیٹ کہتے ہیں،’’شمالی کوریا ہائیڈروجن بم چلانے میں واضح طور پر ناکام رہا۔ اگر یہ اصل ہائیڈروجن بم ہوتا ہے تو ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت سو گنا زیادہ ریکارڈ ہوتی۔‘‘

جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیؤل میں واقع آسان انسٹیٹیوٹ فار پالیسی اسٹڈیز کے نائب صدر چوئی کانگ کی رائے بھی مذکورہ ماہرین کی رائے سے مختلف نہیں:’’میں نہیں سمجھتا کہ یہ ہائیڈروجن بم کا دھماکا تھا۔ میرے خیال میں یہ ایٹم بم کا دھماکا تھا جسے وہ ہائیڈروجن بم کا نام دے رہے ہیں۔‘‘

چینی وزارت خارجہ نے اس سلسلے میں ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایٹمی دھماکے کے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ تاہم یہ بھی کہا کہ اس علاقے میں جہاں دھماکا کیا گیا ہے، تاب کاری کی سطح نارمل ہے۔ کچھ ایسی ہی بات جاپانی حکومت نے ترجمان نے کہی۔

ہائیڈروجن بم کیا ہوتا ہے؟
ہائیڈروجن بم، اس ایٹمی بم سے ایک ہزار گنا تک زیادہ طاقت وَر ہوتا ہے جس نے 1945ء میں ہیروشیما کو تباہ و برباد کردیا تھا۔ ہائیڈروجن بم کے پھٹنے سے ہونے والے دھماکے کے مرکز میں درجۂ حرارت کئی لاکھ ڈگری سیلسیئس (سورج کے درجۂ حرارت کے مساوی) تک پہنچ جاتا ہے۔ اس درجہ حرارت کی زد میں آنے والی ہر شے بُخارات میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ ایٹم بم نیوکلیئر فشن ( ایٹمی انشقاق) کی تیکنیک استعمال کرتے ہوئے تباہی پھیلاتا ہے۔ ہائیڈروجن بم میں یہ تیکنیک ابتدائی مرحلے میں استعمال ہوتی ہے اور فیوژن ری ایکشن ( عمل ایتلاف) کی ابتدا کرتی ہے اس کے نتیجے میں انتہائی وسیع مقدار میں توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔ یہ وہی عمل ہے جو سورج کی سطح پر جاری رہتا ہے۔

ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم، دونوں کی تیاری میں دھماکا خیز مواد کے طور پر تاب کار مادّہ جیسے یورینیم یا پلوٹونیم استعمال کیا جاتا ہے جو بڑے پیمانے پر مہلک تاب کاری خارج کرتا ہے۔ ایٹم بم کے مقابلے میں ہائیڈروجن بم کی ٹیکنالوجی جدید اور جامع ہے۔ ہائیڈروجن بم کی جسامت مختلف ہوسکتی ہے۔ یہ اتنا چھوٹا ہوسکتا ہے کہ بین البراعظمی میزائل کے سرے پر نصب کیا جاسکے۔

اب تک سب سے زیادہ طاقت وَر ہائیڈروجن بم کا دھماکا سابق سوویت یونین نے کیا تھا۔ 57 میگا ٹن طاقت کا حامل دھماکا قطب شمالی میں کیا گیا تھا۔ اس کے مقابلے میں ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم کی طاقت 10 سے 15 کلوٹن تھی جس نے دو لاکھ انسانوں کو لقمۂ اجل بنا دیا تھا۔ اس سے بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہائیڈروجن بم کتنے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلاسکتا ہے۔

شمالی کوریا سے قبل جن اقوام کے پاس ہائیڈروجن بم موجود ہیں یا یہ بم بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں ان میں امریکا، روس، فرانس، برطانیہ اور چین شامل ہیں۔ ممکنہ طور پر کئی اور ممالک بھی ہائیڈروجن بم بنانے کی غیراعلانیہ اہلیت رکھتے ہیں۔ امریکا نے ہائیڈروجن بم کا پہلا دھماکا یکم نومبر 1952ء کو جزائر مارشل میں کیا تھا۔
1960ء کی دہائی سے جوہری بموں کے دھماکے، تاب کاری کے اثرات کو محدود رکھنے کے لیے زیرزمین کیے جاتے ہیں۔

٭شمالی کوریا: کب، کیا؟
31 اگست 1998ء : شمالی کوریا کا چلایا گیا راکٹ جاپان کو عبور کرتا ہوا بحرالکاہل جاگرا۔ تاہم مبینہ طور پر یہ اپنے ہدف کو نشانہ نہیں بناسکا تھا۔
5 جولائی 2006ء: امریکا اور جنوبی کوریا کے مطابق شمالی کوریا نے تین درجوں پر مشتمل راکٹ فائر کیا جس کی متوقع رینج 6700 کلومیٹر تھی، مگر یہ راکٹ فضا میں بلند ہونے کے کچھ ہی دیر بعد پھٹ گیا۔ شمالی کوریا نے کبھی اس تاریخ کو راکٹ فائر کرنے کا اعتراف نہیں کیا۔
9 اکتوبر 2006ء: شمالی کوریا نے پہلا زیرزمین ایٹمی دھماکا کیا۔ اس اقدام کا سبب امریکا کی جانب سے ایٹمی جنگ کی دھمکی بتایا گیا۔
5 اپریل 2009ء: شمالی کوریا کی جانب سے مصنوعی سیارہ بردار لانگ رینج راکٹ چھوڑا گیا۔ شمالی کوریا کی جانب سے اس مشن کی کام یابی کا دعویٰ کیا گیا مگر امریکا کی نارتھ امریکن ایرواسپیس ڈیفنس کمانڈ کے مطابق یہ راکٹ تیسرے مرحلے میں پہنچ کر ناکام ہوگیا تھا، جس کا ایک ثبوت یہ تھا کہ ارضی مدار میں کوئی مصنوعی سیارہ نہیں پہنچا۔
14 اپریل 2009ء : راکٹ کی لانچ پر عالمی تنقید پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے شمالی کوریا نے ایٹمی اسلحہ تلف کرنے کے حوالے سے ہونے والے چھے فریقی مذاکرات سے علیحدگی اور ایٹمی پلانٹ پھر سے فعال کرنے کا اعلان کردیا۔
25 مئی2009ء: شمالی کوریا نے دوسرا ایٹمی دھماکا کیا۔
13 جون 2009ء: شمالی کوریا نے یورینیم کی افزودگی شروع کرنے کا اعلان کیا۔ قبل ازیں ایٹمی ہتھیاروں میں پلوٹونیم استعمال ہورہا تھا۔
11 مئی 2010ء :شمالی کوریا کی جانب سے نیوکلیئر فیوژن ری ایکشن میں کام یابی حاصل کرنے کا دعویٰ سامنے آیا جس کے بعد یہ قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ وہ مزید طاقت وَر بم بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کی جانب سے شمالی کوریا کے دعوے کی صحت پر شکوک و شبہات کا اظہار بھی کیا گیا۔
29 فروری 2012ء: امریکا سے غذائی اشیاء کے حصول کا معاہدہ ہوجانے پر شمالی امریکا نے ایٹمی اور میزائل تجربات ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔
13 اپریل 2012ء: شمالی کوریا نے مغربی ساحل سے لانگ رینج میزائل چھوڑا جو فضا میں بلند ہونے کے کچھ ہی دیر بعد ہمت ہار گیا۔ اس ناکامی کو پیونگ یانگ نے بھی تسلیم کیا۔ اس تجربے کے بعد امریکا نے غذائی اشیاء کی فراہمی کے معاہدے پر عمل درآمد منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔
12 دسمبر 2012ء : شمالی کوریا کا چھوڑا گیا لانج رینج راکٹ محض دس منٹ میں ارضی مدار میں پہنچ گیا۔ اس کی تصدیق امریکی ادارے نے بھی کی۔
13فروری2013ء: شمالی کوریا نے تیسرا ایٹمی دھماکا کردیا۔
9 مئی 2015ء: شمالی کوریا نے کہا کہ اس نے آب دوز سے ایک جدید میزائل کام یابی سے فائر کیا ہے۔ تاہم اس دعوے پر تجزیہ کاروں نے شکوک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پیونگ یانگ ابھی یہ صلاحیت حاصل نہیں کرسکا۔
10 دسمبر 2015ء: شمالی کوریا کے حکم راں کِم جونگ اُن نے ہائیڈروجن بم کا دھماکا کرنے کی اہلیت حاصل کرلینے کا اعلان کیا۔
6 جنوری 2016ء: شمالی کوریا نے اعلان کیا کہ اس نے ہائیڈروجن بم کا دھماکا کردیا ہے۔ n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔