نجی سیکیورٹی ایجنسیاں جرائم میں غیر معمولی اضافے کا سبب

رحمت علی رازی  اتوار 17 جنوری 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

(آخری قسط)

زیرنظر کالم کے سابق حصہ میں نجی سیکیورٹی ایجنسیوں کے داخلی ڈھانچہ اور محافظوں کے مسائل زیر بحث لائے گئے تھے۔ حصۂ موجود مستحضر ہو گا پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنیوں کے خارجی و خفی پہلوؤں کے باب میں۔ جیسا کہ اذکار ہو چکا ہے‘ پاکستان میں نجی سیکیورٹی ایجنسیوں کی تعداد لگ بھگ 1 ہزار ہے جن میں این او سی پر کام کرنیوالی300 کے قریب اور لائسنس یافتہ 200 کے جوار میں ہونگی جب کہ 250 کمپنیاں ایسی بھی ہیں جو این او سی ہونے کے باوجود گھوسٹ ایجنسیوں کے طور پر کام کر رہی ہیں‘ مگر اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ سیکڑوں کی تعداد میں ایسی ایجنسیاں بھی ملک میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جن کا سرکاری سطح پر کوئی ریکارڈ موجود نہیں‘ ان کی رجسٹریشن نہ تو سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن میں ہوئی۔

نہ وزارتِ داخلہ نے انہیں این او سی جاری کیا، نہ ہی کسی صوبہ کے ہوم ڈیپارٹمنٹ / چیف کمشنر آفس میں ان کا کوئی اندراج ہے، اس کے علاوہ ایسی بھی بہت سی حفاظتی ایجنسیاں دیکھنے میں آئی ہیں جنھوں نے کمپنی ایکٹ 1984ء کے تحت ایک کاروباری فرم کے طور پر رجسٹریشن کروا رکھی ہے مگر وہ کام سیکیورٹی فراہم کرنے کا کر رہی ہیں۔ کئی ایک ایسی بھی ہیں جو ایک این او سی پر چار چار کام انجام دے رہی ہیں۔ ایسی سیکیورٹی کمپنیاں بہرطور ایک سیکیورٹی رسک ہیں اور ان کے پنپنے کی وجہ پولیس کی مجرمانہ غفلت اور کم سے کم پیکیج میں نجی محافظ حاصل کرنیوالے شہری ہیں۔

پرائیویٹ سیکیورٹی کا کام ایک زبردست کارپوریٹ سیکٹر کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ پاکستان میں ایسی کمپنیاں بھی ہیں جنکے پاس 5 سے 10 ہزار گارڈز موجود ہیں‘ اور ایسی بھی ہیں جنکے پاس 50، 100 یا 200 گارڈز کی نفری ہے۔ بالفرض ایک ہزار کمپنی کے اوسطاً 500 گارڈز بھی شمار کیے جائیں تو یہ تعداد 5 لاکھ بنتی ہے۔ ایک عام اندازے کے مطابق یہ نفری اب ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے کیونکہ سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد پاکستان کے تمام سرکاری و غیرسرکاری تعلیمی اداروں، دفتروں اور دکانوں پر ڈے نائٹ شفٹوں میں نجی گارڈ تعینات ہیں۔ لوگوں کے گھروں پر جو محافظ متعین ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ پاکستان بھر کی پولیس اور افواج سے کہیں بڑی مسلح فورس ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے 36 اضلاع کے 637 تھانوں میں پولیس کی تعداد ایک لاکھ 80 ہزار ہے جن پر شہباز شریف کے گزشتہ 7 سالہ دورِ اقتدار میں 6 ہزار کروڑ یعنی 60 ارب روپے خرچ ہوئے جب کہ سال 2015ء کے سالانہ صوبائی بجٹ میں ان کے لیے 87 بلین روپے (اس میں ٹریفک پولیس بھی شامل ہے جن کا بجٹ شاہی پولیس سے زیادہ ہے) مختص کیے گئے ہیں۔

ایک گارڈ کا مجوزہ پیکیج 30 ہزار روپے تک ہے جو کمپنیاں کلائنٹ سے وصول کرتی ہیں۔ بوگس کمپنیاں کلائنٹ کو 15 سے 20 ہزار روپے کا پیکیج بھی دیتی ہیں جسکا نصف گارڈ کو تنخواہ کی شکل میںادا کیا جاتا ہے۔ اگر 20 ہزار روپے کے اوسط پیکیج کا حساب بھی لگایا جائے تو 5 لاکھ حفاظتی ٹھیکوں کی مد میں ماہانہ 10 ارب روپے اکٹھے ہوتے ہیں جب کہ سالانہ 120 ارب روپے کا ایک سیدھا سیدھا حساب ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ نجی محافظوں کی تعداد ایک کروڑ سے بھی بڑھ چکی ہے، اگر ہم اس کے نصف (50 لاکھ) کا مفروضہ قائم کریں تو بھی 20 ہزار کے ایوریج پیکیج پر یہ رقم 12 کھرب روپے سالانہ بنتی ہے۔ یہاں یہ وضاحت کر دیں کہ یہ تخمینہ بالفرض کی بنیاد پر موقوم ہے تاہم نجی سیکیورٹی ایجنسیوں کی اصل کمائی اس سے کہیں زیادہ ہے۔

اس پر اگر سیکیورٹی کمپنیوں کے ایسے مالکان (جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انہیں ایک گارڈ کے پیچھے ہزار بارہ سو ہی بچتے ہیں) کے اَبروجنبش میں آتے ہیں تو وہ ان کا اپنا مسئلہ ہے‘ ہمیں تو افسوس فقط یہ ہے کہ دس بارہ کھرب روپے کی آمدن پر ٹیکس صرف معدوے چند کمپنیاں ہی ادا کرتی ہیں جو ملک و قوم کے ساتھ صریحاً زیادتی ہے۔ دوسری سب سے بڑی ناانصافی یہ ہے کہ ایک کروڑ کی تعداد کو 50 لاکھ یا 25 لاکھ ظاہر کرنے کے بجائے سالہا سال سے ایجنسیوں کی تعداد میں 3 لاکھ کا عدد ہی ظاہر کیا جا رہا ہے جو ملک کی آبادی کی طرح آیندہ دس سال بعد بھی اتنا ہی ظاہر ہوتا رہیگا۔ اس اغماض کی بڑی وجہ آل پاکستان سیکیورٹی ایجنسیز ایسوسی ایشن (اپسا) ہے جسکے زیادہ تر عہدیداران ریٹائرڈ فوجی ہیں جو ذاتی سیکیورٹی ایجنسیوں کے مالک بھی ہیں۔

وہ اس سیکٹر کے اصل اعداد و شمار اکٹھے کرنے اور اس میں اصلاحات لا کر ملکی ریونیو میں اضافہ کرنے کے بجائے اپنے مفادات کو تحفظ دینے پر کمربستہ ہیں۔ بدقسمتی سے یہ ایجنسیاں اپنا نام نہاد دھندہ قانون کے رخنۂ سیاہ میں زور و شور سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس ضمن میں اس کارپوریٹ سیکٹر کو ایک انڈسٹری کے طور ضابطۂ عمل میں لانے کا کام وفاق اور صوبوں کی طرف سے مسلسل غفلت کی نذر ہوا پڑا ہے‘ پریشانی اور حیرت کی بات ہے کہ حکومتیں اس پر مسلسل مہر بلب ہیں۔ تیزی سے پھیلتی ہوئی اس حفاظتی صنعت پر حسب ِ ضابطہ نگرانی کے لیے موجودہ قانون میں متعلقہ شقیں تک داخل نہیں کی جا سکیں جس کی وجہ سے یہ سیکیورٹی ایجنسیاں ہوم ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے لاگو کی گئی تعزیر و بندش کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حسب ِ دلخواہ فوائد اٹھا رہی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ فی زمانہ نجی سیکیورٹی سیکٹر ایک جنگل کے قانون کے تحت کام کر رہا ہے تو بے جانہ ہو گا۔

لائسنس کے بغیر کام کرنیوالی ایجنسیاں تو بیشمار ہیں تاہم بوجوہ ان ایجنسیوں کے نام گنوانا مناسب نہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ ان بوگس ایجنسیوں میں چند ایک وہ بھی ہیں جنہیں پشاور آرمی پبلک اسکول حملے کے بعد اپنے اپنے صوبوں میں حکومت کی طرف سے تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کے ٹھیکے عطا کیے گئے۔ سانحہ اے پی ایس کے بعد ملک بھر کے اسکولوں کے بچے اسقدر سہمے ہوئے تھے کہ سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود اسکول جانے کو تیار نہ تھے، اسی لیے چاروں صوبوں کے سرکاری و نیم سرکاری تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی کے فول پروف اقدامات کا فیصلہ کیا گیا ۔

جس کی روشنی میں پنجاب حکومت نے بھی پرائمری، مڈل، ہائی، ہائر سیکنڈری اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے سربراہان کو حکومت کی منظور شدہ کمپنیوں کے گارڈ رکھنے کا حکم جاری کیا۔ حکومت نے اس کام کو بھی سڑکوں اور پُلوں کی طرح کا ایک ٹھیکہ ہی سمجھا اور من پسند افراد اور مقتدرہ کے سفارشیوں کو نجی سیکیورٹی کے ٹھیکے دیے گئے‘ یہ کام ہر صوبہ میں ایک ہی طرح انجام پذیر ہوا اور کسی حکومت نے یہ رَوا نہ سمجھا کہ جن کمپنیوں کو اتنے بڑے حفاظتی ٹھیکے تفویض کیے جا رہے ہیں ان کے پاس ہوم ڈیپارٹمنٹ کے منظور شدہ لائسنس بھی ہیں یا نہیں۔ یہ تو شاید کسی اسکول یا یونیورسٹی کے ہیڈ نے بھی مناسب نہ سمجھا کہ جن کمپنیوں سے انھوں نے گارڈ حاصل کیے ہیں، ان کی رجسٹریشن فائل ہی چیک کر لی جائے۔

جن چند کمپنیوں کو سیکیورٹی کے ٹھیکے فراہم کیے گئے ان سے یہ تک بھی دریافت نہ کیا گیا کہ آیا ان کے پاس مطلوبہ تعداد میں گارڈ موجود بھی ہیں؟ ا سکا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کمپنیوں نے اور متعدد کمپنیوں کو فرنچائز دیدی اور پیسے لے کر جیب میں ڈال لیے۔ جن کمپنیوں کو فرنچائز کا اتھارٹی لیٹر دیا گیا ان میں بھی زیادہ تر بوگس اور جعلی تھیں جو آج بھی اس کام میں پیش پیش ہیں۔ عام ریٹائرڈ فوجی تو ویسے ہی ڈھونڈے سے نہیں ملتے، عام پڑھے لکھے نوجوان بھی بیروزگاری کے باوجود گارڈ کی نوکری کرنے سے کتراتے ہیں‘ گویا مطلوبہ ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے ٹھیکیدار یا فرنچائزی کمپنیوں نے ایمپلائے منٹ ایجنسیوں کی خدمات حاصل کر لیں جنھوں نے 15سے 20 ہزار تنخواہ کے ساتھ رہائش اور کھانے کا لالچ دیکر اخباری اشتہاروں کے ذریعے بیروزگاروں کو بلا کر خود بھی لوٹا اور پھر کمیشن پر سیکیورٹی کمپنیوں کے حوالے کر دیا۔

بھرتی ہونے کے بعد انہیں نہ تو طے شدہ تنخواہ دی گئی‘ نہ ہی رہائش نہ کھانا۔ اصل ٹھیکیدار کمپنیوں کا یہ کنٹر یکٹ ٹھیکہ دَر ٹھیکہ دَر ٹھیکہ بھی چلا‘ اس کے باوجود تعلیمی اداروں اور دیگر دفاتر میں گارڈ فراہم کرنے کا ٹارگٹ پورا نہ ہو سکا۔ یہ ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے آج بھی بڑے شہروں کے بس اڈوں، ریلوے اسٹیشنوں، درباروں اور اسپتالوں میں سیکیورٹی کمپنیوں کے ٹاؤٹ گھوم گھوم کر مسافروں کو ڈھونڈ رہے ہیں اور انہیں بڑی بڑی تنخواہوں اور مراعات کا لالچ دیکر دفتروں میں لا کر گارڈوں کی وردیاں زیب تن کروا کروا کر بڑے دلالوں کے ہاتھ بیچ رہے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ آج محافظوں کے روپ میں کئی جرائم پیشہ افراد بھی ہمارے آس پاس بھاری اسلحہ کے ساتھ موجود کھڑے ہیں۔

مشرف دور میں سوشل میڈیا پر ایک کشمیری گارڈ کو انکشاف کرتے ہوئے دکھا یا گیا تھا کہ سیکیورٹی کے ٹھیکے حاصل کرنے کے لیے کچھ نام نہاد نجی سیکیورٹی کمپنیوں کے مالکان سرکاری و تجارتی مراکز پر بم دھماکے کروا رہے ہیں۔ زرداری دور میں اسی طرح کی ایک دو خبریں سوشل میڈیا پر ہی کسی نے شائع کیں کہ پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنیاں اپنا کاروبار وسیع کرنے کے لیے پرائیویٹ اسکولوں پر خودکش حملے کروا رہی ہیں۔ اس خبر کی صداقت کو اس لیے بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا کہ طالبان کے ڈیڑھ سو دھڑے بن چکے ہیں اور کرائے کے خودکش بمبار حاصل کرنا سیکیورٹی ایجنسیوں کے لیے مشکل کام نہیں ہے۔ چند سال قبل اسلام آباد اور کراچی میں تعلیمی اداروں پر حملے اس خبر کے بعد ہی رو پذیر ہوئے تھے۔

سانحہ اے پی ایس کے بارے میں اس نوعیت کی کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی البتہ اس واقعہ کے بعد سیکیورٹی ایجنسیوں کا کاروبار پاکستان میں اسلحے اور منشیات کے کاروبار سے بھی زیادہ بڑھ چکا ہے۔ اب ہمیں گوری کے رخسار پر تِل کا مطلب سمجھ میں آ رہا ہے کہ بڑی سیاسی اور کاروباری شخصیات کو دہشت گردوں کی طرف سے دھمکیاں کیوں موصول ہوتی ہیں۔ دو ماہ قبل جب تحریکِ انصاف پنجاب کے آرگنائزر چوہدری سرور کو ایسی ہی کچھ دھمکیاں مل رہی تھیں تو انہیں ایک پولیس افسر نے کہا جناب آپ گھبرائیں نہیں بلکہ جو سیکیورٹی کمپنی والا آپکا زیادہ پر اعتماد دوست ہے۔

اس سے سیکیورٹی گارڈ حاصل کر لیں دہشت گرد آپ کو دھمکیاں دینا بند کر دینگے۔ اس سے پہلے چوہدری سرور کے پاس سیکیورٹی محافظ تھے تو سہی مگر وہ ان کا لائسنس یافتہ اسلحہ اٹھانے والے ذاتی محافظ تھے جنہیں بلدیاتی الیکشن کے موقع پر اسی پولیس افسر نے گرفتار کر لیا ہوا تھا اور ان کا ذاتی اسلحہ بھی قبضہ میں لے لیا تھا۔ اس سیکیورٹی مافیا کے تانے بانے کہاں کہاں سے ہو کر گزرتے ہیں اس کا اندازہ اب آپ خود بھی لگا سکتے ہیں۔ بہت سی گمنام سیکیورٹی ایجنسیاں ایسی بھی ہیں جو براہِ راست دہشت گرد چلا رہے ہیں جن میں کالعدم تنظیموں کے لوگ، انڈر ورلڈ، بلیک واٹر اور داعش کے ایجنٹ شامل ہیں۔

2009ء سے 2012ء تک جب رحمان ملک وزیر داخلہ تھے بلوچستان، خیبرپختونخوا، اسلام آباد، ساؤتھ پنجاب، اندرون سندھ اور کراچی کی متعدد نئی اور نام نہاد کمپنیوں کو پبلک سیکیورٹی کے لیے این او سی جاری کیے گئے اور صوبائی حکومتوں کو ہدایات (بذریعہ فون) جاری کی گئیں کہ انہیں ہر حال میں لائسنس جاری کیے جائیں تا کہ ان کے نجی محافظ ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر قابو پانے میں معاونت کر سکیں۔ اس چارئہ کار کا اثر یہ ہوا کہ بہت سے نامعقول افراد بھی سیکیورٹی کمپنیوں کے لائسنس لینے میں کامیاب ہو گئے جنھوں نے ملک میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کی ایک نئی لہر کو جنم دیا۔

یہ 2009ء کا زمانہ تھا، اگر کوئی غور کرے تو پاکستان میں سب سے زیادہ دہشت گردانہ کارروائیاں اسی سال میں ہوئیں۔ 26 اگست 2009ء کو جنوبی وزیرستان میں محسود قبائل کے علاقے میں سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر ہونیوالے ایک حملے میں 4 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے، حملہ آوروں نے پرائیویٹ گارڈوں کی وردیاں پہن رکھی تھیں، حملہ کی ذمے داری تحریکِ طالبان نے قبول کی۔ 27 اگست 2009ء کو خاصہ دار فورس پر ہونیوالے ایک مبینہ خودکش حملے میں 26 اہلکار شہید ہوئے۔

30 اگست 2009ء کو مینگورہ شہر کے پولیس ٹریننگ سینٹر پر خودکش حملے میں 15 زیر تربیت اہلکار شہید ہوئے۔ 18 ستمبر 2009ء کو ایک کار کے ذریعے خودکش بم دھماکا ہوا جس میں 46 عام شہری شہید ہوئے۔ پھر 5 اکتوبر کو پاکستان میں اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے دفتر پر حملہ کیا گیا جس میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ 9 اکتوبر 2009ء پشاور میں خودکش حملہ میں 40 سے زیادہ شہری شہید ہوئے‘ اس سے پہلے 16 ستمبر کو یہیں ایک خودکش حملہ میں 11 عام شہری شہید ہوئے تھے‘ اسی دن بنوں میں ایک پولیس تھانے پر حملہ کیا گیا جس میں 15اہلکار شہید ہوئے۔ 10 اکتوبر 2009ء کو جی ایچ کیو پر حملہ ہوا‘ یاد رہے کہ اس سے صرف دو دن پہلے نیدرلینڈ کے سفارتخانہ کے ملازم اسلام آباد میں ممنوعہ اسلحہ اور ہینڈ گرینیڈ سمیت پکڑے گئے جنہیں بعد میں چھوڑ دیا گیا تھا‘ کیا مماثلت ہے کہ طالبان نے جی ایچ کیو پر حملہ میں یہی ممنوعہ اسلحہ اور ہینڈ گرینیڈ استعمال کیے تھے جب کہ حملہ آوروں سے بھارتی ہتھیار بھی برآمد ہوئے تھے۔

15 اکتوبر کو لاہور میں تین مختلف جگہوں (ایف آئی اے کی عمارت، بیدیاں ٹریننگ سینٹر اور مناواں پولیس ٹریننگ سینٹر) پر حملے کیے گئے جنہیں ناکام تو بنا دیا گیا تاہم 8 سیکیورٹی اہلکار اور 8 شہری اس کی نذر ہوئے۔ 15 اکتوبر 2009ء کو ہی کوہاٹ میں تھانے پر خودکش حملہ کیا گیا جس میں 11 افراد شہید اور بیسیوں زخمی ہوئے۔ 16 اکتوبر کو پشاور میں سی آئی ڈی کے مرکز اور تھانے پر کاربم دھماکے کیے گئے جس میں 12 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ 20 اکتوبر کو جنڈولہ چیک پوسٹ پر 7 اہلکاروں کو شہید کیا گیا۔

23 اکتوبر کو مہمند ایجنسی میں باراتیوں کی بس بارودی سرنگ کی نذر ہو گئی جسکے نتیجے میں 18 افراد جان سے گئے۔ 23 اکتوبر ہی کو پشاور میں دھماکا ہوا اور کامرہ میں فضائیہ کی فیکٹری کے قریب بھی خودکش دھماکا کیا گیا جس میں کم از کم 7 افراد شہید ہوئے۔ واضح رہے کہ پشاور کار بم دھماکوں سے دو روز قبل امریکا اور بھارت نے اپنے شہریوں کو پاکستان کے سفر سے گریز اور یہاں موجود شہریوں کو نقل و حرکت محدود رکھنے کی ہدایات کی تھیں۔

ہمیں حیرت ہے کہ پاکستان میں کسی بھی سانحہ سے قبل ان دونوں ممالک کی ہدایات غیر معمولی اَمر ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں ممالک کو پاکستان میں ہونے والی کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی کا پہلے ہی علم ہو جاتا ہے۔ 2 نومبر 2009ء کو خودکش حملے میں 4 فوجیوں سمیت 36 (بشمول خواتین، بچے) شہید ہوئے۔ اسی دن لاہور میں بابو صابو انٹرچینج پر قائم پولیس چوکی پر بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس میں 26 لوگ زخمی ہوئے۔ 8 نومبر کو پشاور کے نواح میں واقع متنی کے علاقہ ایزدئی میں خودکش حملہ میں علاقہ ناظم عبدالمالک سمیت 12افراد جاں بحق اور 36 زخمی ہوئے۔

9 نومبر 2009ء کو پولیس چوکی پر خودکش حملے میں 3 افراد جاں بحق ہوئے۔ 10 نومبر کو چارسدہ کے مرکزی بازار میں کار بم دھماکے میں 40 شہید اور 40 زخمی ہوئے۔ 13 نومبر کو پشاور میں حساس ادارے کے پاس خودکش حملہ میں 10 افراد کی جان گئی‘ اسی روز بکاخیل تھانے پر حملے میں 2 افراد جاں بحق ہوئے۔ 13 نومبر کو ہی پشاور میں آئی ایس آئی کے دفتر پر خودکش حملہ میں 7 اہلکاروں سمیت 10 افراد شہید ہوئے۔ اگلے روز 14 نومبر کو پشاور میں چیک پوسٹ پر حملہ ہوا جس میں 11 افراد جاں بحق اور 26 زخمی ہوئے۔ 16 نومبر کو پشاور میں پولیس اسٹیشن کے قریب مبینہ خودکش کاربم دھماکے میں 3 افراد جاں بحق اور 24 زخمی ہوئے۔ 19 نومبر کو پشاور میں ڈسٹرکٹ کورٹ کے گیٹ پر خودکش حملے میں 19 افراد ہلاک اور 40 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ 4 دسمبر 2009ء کو پریڈ گراؤنڈ راولپنڈی میں مسجد پر حملہ کر کے 40 افراد کو شہید کیا گیا جن میں 17 نمازی بھی شامل تھے۔

اسی روز ہی پشاور کے کمرشل بازار میں دھماکا کیا گیا جس میںکم از کم 2 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ یہ تو وہ کارروائیاں ہیں جن کی ذمے داری تحریکِ طالبان نے قبول کی‘ مگر اس طرح کی اور بھی متعدد دہشت گردانہ کارروائیاں ہیں جن کی طالبان کے تمام گروپوں نے تردید کی‘ جیسا کہ 20 اکتوبر 2009ء کو اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں دو خودکش حملے ہوئے جن میں متعدد طالبات شہید ہو گئیں‘ اسی نوعیت کی اور بھی اَن گنت وارداتیں ہیں جو طالبان اور دیگر ظاہری دہشت گرد گروپوں نے نہیں کیں‘ اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ پاکستان میں کچھ خفیہ گروپ بھی سرگرمِ عمل ہیں جو یہ کارروائیاں سرانجام دے رہے ہیں۔

2009ء کے واقعات ہم نے اس لیے گنوائے ہیں کہ سیکڑوں پرائیویٹ سیکیورٹی ایجنسیوں کو اسی سال اور اگلے دو سالوں میں دھڑا دھڑ لائسنس جاری کیے گئے جن میں زیادہ تر ایجنسیاں ایسی بھی ہیں جن کا مقصد لوگوں کو سیکیورٹی فراہم کرنا نہیں بلکہ کچھ اور ہی تھا۔ کچھ نجی سیکیورٹی کمپنیاں جہاں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی معاون ثابت ہوئیںوہاں کچھ ایسی بھی ہیں جو دہشت گردوں کی معاونت کرتی رہیں۔

نجی گارڈز کو دن رات کے کسی بھی پہر وردی اور بندوق کے ساتھ کہیں بھی دیکھ کر عام آدمی تو کیا پولیس والے بھی یہ شک نہیں کر سکتے کہ یہ گارڈ ہیں یا گارڈ کی کھال میں چھپے کوئی دہشت گرد۔ پشاور، کراچی اور کوئٹہ میں ایسے بہت سے گارڈ ہیں جو مسلح محافظ کے روپ میں دہشت گردی کی وارداتیں کرتے ہیں‘ انہیں دیکھ کر کسی کو شک کا گمان بھی نہیں ہوتا۔ بلوچستان کے علاوہ اور کسی بھی صوبہ کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اپنے صوبہ کی رجسٹرڈ سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانچ پڑتال کرے۔

بلوچستان میں 2009، 10ء اور 11ء میں دہشت گردی کی کئی وارداتوں کے پیچھے نجی سیکیورٹی کمپنیوں کا ہاتھ تھا‘ یہ اطلاع ملنے پر صوبائی وزیرداخلہ نے 2012ء میں صوبے میں غیر فعال50 سیکیورٹی کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کرنیکا فیصلہ کیا اور لائسنس حاصل کرنے کے بعد کام نہ کرنیوالی ان کمپنیوں کو نوٹسز بھی جاری کیے۔

محکمہ داخلہ بلوچستان نے صوبے میں پرائیویٹ کمپنیوں کا اصل ڈیٹا جمع کرنے اور کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں کام کرنیوالی سیکیورٹی کمپنیوں کی جانچ پڑتال کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے تین ماہ کے دوران تمام سیکیورٹی کمپنیوں کے دفاتر اور ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد رپورٹ تیار کی جس میں بتایا گیا کہ صوبے میں 102پرائیویٹ سیکیورٹی ایجنسیوں نے لائسنس حاصل کیے جن میں 45 کمپنیاں ایسی ہیں جنھوں نے کام ہی شروع نہیں کیا جب کہ 5 سیکیورٹی کمپنیوں نے تو دفاتر بھی کھولے تاہم ایک سال گزر جانے کے باوجود ہنوز کسی کو سیکیورٹی فراہم نہیں کی۔ رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا کہ ان کمپنیوں کے لائسنس حاصل کرنے کے اصل مقاصد کیا ہیں ان کے بارے میں معلومات حاصل کی جائینگی۔

یہ بھی اطلاعات ہیں کہ کچھ لوگوں نے یہ کاروبار بنا رکھا ہے کہ وہ لائسنس حاصل کر کے دوسروں کے ہاتھ لاکھوں روپے میں فروخت کر دیتے ہیں‘ اس طرح کے واقعات پنجاب میں عام ہیں کہ سیکیورٹی کمپنی کا اصل لائسنس کسی ریٹائرڈ جنرل، کرنل یا میجر کے نام ہے مگر چلا اسے کوئی اور رہا ہے۔ سیکیورٹی کمپنیوں کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کی رپورٹ حکومتِ بلوچستان نے وفاقی وزارتِ داخلہ کو بھجوائی تھی۔ یہ اعزاز بھی بلوچستان ہی کو حاصل ہے کہ داعش کی پاکستان میں ہزاروں افراد کی بھرتی کا انکشاف بھی اسی صوبہ نے سب سے پہلے کیا۔

2014ء میں ایک سیکرٹ انفارمیشن رپورٹ مرکزی وزارتِ داخلہ کو ارسال کی گئی جس میں کہا گیا کہ دولتِ اسلامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ہنگو میں 10 سے 12 ہزار تک کی بڑی تعداد میں اپنے حامیوں کو بھرتی کر چکی ہے‘ یہ بھی معلوم پڑا کہ اسے کچھ مذہبی تنظیموں، این جی اوز اور پرائیویٹ سیکیورٹی ایجنسیوں کی مدد حاصل ہو چکی ہے جو فنڈز لے کر مستقبل قریب میں داعش کے پراکسی کا رول ادا کر سکتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق داعش نے شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن ضربِ عضب کے جواب میں خیبرپختونخوا میں فوجی تنصیبات اور حکومتی عمارتوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے جب کہ وہ شیعہ برادری کو بھی اپنا ہدف بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

حکومتِ بلوچستان نے اپنے صوبے اور خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی کے اقدامات سخت کرنے اور لشکر ِ جھنگوی سمیت ملک بھر کے مدارس کی نگرانی کے عمل کو بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس رپورٹ پر وفاقی حکومت نے کوئی خاص توجہ نہ دی بلکہ اس کے بعد بھی پاکستان میں داعش کی موجودگی کے کئی ایک واقعات کے سامنے آنے پر بھی حکومت ہمیشہ اس سے انکار کا پہلو تلاش کرتی رہی ہے۔ اب جب کہ کالعدم تنظیموں کے کئی اہم کمانڈر دولت ِ اسلامیہ میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں اور چاروں صوبوں کی دیواروں پر داعش کی وال چاکنگ اور پمفلٹس نظر آنا شروع ہو گئے ہیں اور داعش کے بہت سے لوگ پاکستان کے مختلف شہروں سے گرفتار ہونا شروع ہوئے تو حکومت کے کانوں پر ہلکی سی جوں رینگنا شروع ہوئی ہے۔

داعش کا خطرہ اپنی جگہ پاکستان کو اصل اندیشہ بلیک واٹر سے ہے جسکے ایک ہزار ایجنٹ رحمان ملک کی معاونت سے پاکستان میں دَر آئے تھے۔ بدنامِ زمانہ امریکی نجی سیکیورٹی کمپنی بلیک واٹر کا موجودہ نام ’’زی ورلڈ وائیڈ‘‘ ہے‘ جو آجکل دُنیا بھر سے پاکستان کے لیے اُردو، پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، ہندکو اور بلتی زبان جاننے والے ایجنٹ بھرتی کر رہی ہے۔ بلیک واٹر کے موجودہ ایجنٹ روانی سے پشتو بولتے ہیں اور افغان مہاجرین کی شکل میں پاکستان بھر میں پھیل چکے ہیں۔ یہ سیکیورٹی کمپنی سی آئی اے کا گوریلا وِنگ ہے جس نے دُنیا بھر کے کریمنل اور کورٹ مارشل شدہ فوجی بھرتی کر رکھے ہیں۔

ان ایجنٹوں پر امریکا اور دُنیا کے کسی ملک میں کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا کیونکہ انہیں امریکا کی طرف سے ڈپلومیٹک پاسپورٹس جاری کیے گئے ہیں اور انہیں اے گریڈ کا سفارتی پروٹوکول حاصل ہے۔ بلیک واٹر سی آئی اے کی ہدایات پر متوازی گوریلا فوج کا خفیہ مشن انجام دیتی ہے‘ اس وقت مسلمان ممالک میں دہشت گردی کے جتنے واقعات ہو رہے ہیں ان کے پیچھے بھی بلیک واٹر کا ہاتھ ہے‘ اس تنظیم کے تمام مشن مقامی نجی سیکیورٹی ایجنسیوں اور مذہبی تنظیموں کے تعاون سے وقوع پذیر ہوتے ہیں‘ اس میں کوئی شائبہ نہیں کہ پاکستان میں بھی دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات بلیک واٹر اور ’’را‘‘ کا مشترکہ شاخسانہ ہیں جنہیں یقینا یہاں کی کچھ پرائیویٹ سیکیورٹی ایجنسیوں اور کالعدم تنظیموں کی خدمات حاصل ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی تمام رجسٹرڈ اور غیرلائسنس یافتہ سیکیورٹی ایجنسیوں کی آئی ایس آئی کے ذریعے جانچ پڑتال کروائی جائے اور جو ایجنسیاں بھی دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث پائی جائیں انہیں بلیک لسٹ کر کے ان کے مالکان پر نیشنل ایکشن پلان کے تحت سنگین غداری کے مقدمات بنائے جائیں‘ اسی صورت میں ہی دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی ہو سکتی ہے‘ اگر ان ایجنسیوں کو باریک بینی سے چیک نہ کیا گیا تو اس کی آڑ میں دہشت گردی ہوتی رہے گی‘ پھر اس پر قابو پانا بھی مشکل ہو جائے گا۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور اس سنگین مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔