اصل مسائل سے چشم پوشی

رئیس فاطمہ  اتوار 17 جنوری 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

پچھلے دنوں فیس بک پر دوستی کے حوالے سے کئی خبریں گشت کرتی رہیں۔ کچھ منفی ایک آدھ مثبت۔ ایک شادی چند دن پہلے ہوئی۔ لڑکا اور لڑکی تین ماہ سے انٹرنیٹ پہ بات کر رہے تھے۔ تصاویر کا بھی تبادلہ ہو گیا تھا۔ تمام باتیں دونوں نے خود ہی طے کر لی تھیں۔ لڑکے کے والدین ہر بات سے لاعلم تھے۔ البتہ لڑکی کے والدین، بہنیں اور بھائی ہر بات میں دخیل اور ہمراز۔ پانچ بہنوں اور تین بھائیوں میں چوتھے نمبر کی صاحبزادی جن کا تعلق کراچی سے باہر کے ایک قریبی شہر سے ہے۔

انھوں نے لڑکے کو جو اپنے والدین کے اکلوتے صاحبزادے ہیں۔ انجینئر ہیں اور بہت سادہ مزاج ہیں۔ ویسے بھی اکلوتے بیٹے سیدھے ہوتے ہیں اور دوسروں کی باتوں میں بہت جلد آ جاتے ہیں۔ اس حد تک کہ فہم دینے والی ماں کو بھری دنیا میں اکیلا اور تنہا چھوڑ کر ایک طلسم میں قید ہو جاتے ہیں۔ جس کے باہر انھیں کچھ نظر نہیں آتا۔ البتہ کبھی کبھار جب اچانک سحر زدہ ماحول سے باہر نکلتے ہیں تو معافیاں بھی مانگتے ہیں۔ مائیں تو ویسے ہی اولاد سے ناراض نہیں ہوتیں، اس لیے کلیجے سے لگا لیتی ہیں۔

پھر وہ دوبارہ جب اپنی طلسمی دنیا میں داخل ہوتے ہیں تو پھر ماں باپ کی طرف مڑ کر نہیں دیکھتے، کہ اگر بیوی اور سسرال والوں کی مرضی و منشا کے خلاف والدین کی طرف مڑ کر دیکھا تو کہیں پتھر کے نہ ہو جائیں۔ یہاں بھی یہی ہوا۔ صاحبزادے نے ماں باپ کو بالکل اچانک اپنی شادی کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ انھوں نے کوئی اعتراض تو نہیں کیا البتہ صدمہ بہت ہوا کہ فرزند ارجمند نے تمام معاملات خود ہی طے کر لیے۔ بہرحال شادی ہوئی صاحبزادے کے عشق کے کئی اور کارہائے نمایاں منظر عام پہ آ گئے کہ وہ شادی کے تین ماہ بعد لڑکی کو الگ گھر لے کے دیں گے۔ جب کہ ماں باپ کا اپنا ذاتی گھر موجود ہے۔ لیکن لڑکی والوں کے اس مطالبے کو صاحبزادے نے بلا چوں و چرا مان لیا۔ اور یہ بھی کہ جب تک گھر الگ نہیں لیا جاتا اس وقت تک لڑکی ہفتے میں تین دن میکے میں رہے گی۔

اسی طرح فیس بک پر شناسائی کے بعد کچھ اور واقعات بھی سامنے آئے کہ بات انٹرنیٹ سے نکل کر نجی ملاقاتوں تک آ گئی۔ تنہائی میں ملاقاتوں کا جو بھیانک نتیجہ نکلنا تھا، وہ تو تھا ہی۔ سب ہی جانتے ہیں کہ لڑکیوں کی شادیوں کا مسئلہ بہت سنگین صورت اختیار کر گیا ہے۔ وجہ لڑکیوں کا حد سے زیادہ ڈیمانڈنگ ہونا ہے۔ یوں عمریں بڑھتی جاتی ہیں اور پھر وقت جب ریت کی طرح مٹھی سے پھسلنے لگتا ہے تو پھر کچھ معیوب طریقوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جن کی طرف میں گزشتہ کئی کالموں میں تفصیلی ذکر کر چکی ہوں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ لڑکیوں کی اس بے راہ روی کو ان کی مائیں سپورٹ کرتی ہیں جب کہ بعض ماؤں کو علم ہی نہیں ہوتا کہ صاحبزادی کیا گل کھلا رہی ہیں۔

آپ کس کو الزام دینگے؟ میڈیا کو؟ گھریلو تربیت کو؟ یا سوسائٹی کی اس سوچ کو جس میں کچھ بھی غلط نہیں ہے یعنی اپنے فائدے کے لیے آپ کسی کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ فیس بک کا نشہ میں سمجھتی ہوں کہ ایک سراب ہے۔ پچاس فیصد لوگ جعلی اکاؤنٹ بناتے ہیں، نقلی ناموں سے خود کو متعارف کرواتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر ایسی خواتین سے واقف ہوں جن کی شہرت محلے میں اچھی نہیں، ان کے جعلی ناموں سے اکاؤنٹ ہیں، سب سے زیادہ حدیثیں، اور مذہبی حوالے انھی کے اکاؤنٹ پہ نظر آتے ہیں، دیکھنے والے اور پڑھنے والے انھیں بہت پارسا اور نیک سمجھ کے Like بھی کرتے ہیں جب کہ حقیقت اس کے بالکل ہی برعکس ہوتی ہے۔

فیس بک ایک طرح کے میٹنگ کلب کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے، ساتھ ہی ایک نہایت سطحی انداز بھی اس میں در آیا ہے کہ ہر ہر پل کی تصویر اپ لوڈ کی جا رہی ہے۔ مختلف پوز، مختلف ہیئر اسٹائل اور بہت کچھ مختلف لیکن ایک ادبی طبقہ ایسا بھی ہے جو لوگوں کو آگاہی دے رہا ہے، کتابوں اور جرائد کے حوالے سے۔ اصل میں فیس بک کا مقصد یہی ہے کہ لوگوں کو مختلف حوالوں سے آگاہی دی جائے لیکن ہم دنیا کی وہ بدترین قوم ہیں جو موبائل فونز، انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع غلط مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

بڑھتی ہوئی فحاشی، بے حیائی اور اپنی اسلامی اقدار کا کریا کرم، جس طرح ٹیلی ویژن چینلز، کمپیوٹر اور موبائل فونز کے ذریعے ہو رہا ہے اس کا جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ ہم ایک نقال اور احمق قوم ہیں۔ جب وی سی آر آیا تھا تو اس پر لوگوں نے نوجوان اور نابالغ لڑکوں کو کون سی فلمیں دکھا کر پیسہ بنایا تھا، یہ سب جانتے ہیں۔ چند ماہ پہلے ایک نجی چینل نے چھوٹے شہروں میں چلنے والے نجی سینما گھروں کا پردہ چاک کیا تھا جس میں فحش فلموں کے علاوہ لڑکوں کو نشہ آور اشیا بھی مہنگے داموں فراہم کی جاتی ہیں۔

افسوس کہ ہمارے جید علما نے کبھی ان ضروری اور بنیادی باتوں کی طرف توجہ نہیں دی کہ اچھا انسان کن خصوصیات سے بنا جاتا ہے۔ پڑوسی کے حقوق کیا ہیں؟ صفائی کو نصف ایمان قرار دے کر کیوں آسانی پیدا کی گئی ہے لیکن ہر جگہ کوڑے کے ڈھیر کیوں نظر آتے ہیں؟ ہمارے مولوی صاحبان لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں لیکن کبھی نہ منشیات کے مضر اور منفی اثرات پر بات کرتے ہیں نہ لوگوں میں یہ شعور پیدا کرتے ہیں کہ اپنی خواہشات کو حد سے نہ بڑھاؤ۔ جب بیٹیوں کے رشتے آئیں تو شرافت، خاندان، تعلیم اور کردار کو اولیت دیں، ابتدا میں کوئی بھی براہ راست نہ بڑا افسر بنتا ہے، نہ مالدار تاجر، نہ سٹے باز نہ کسی ادارے کا ڈائریکٹر۔ آہستہ آہستہ انسان ترقی کرتا ہے۔

اگر محنتی ہے تو رپورٹر سے ایڈیٹر بننے میں دیر نہیں لگتی۔ نہ ہی ہمارے علما کو یہ خیال آتا ہے کہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے تشدد اور عدم برداشت کے وہ بھی ذمے دار ہیں۔ مساجد خدا کا گھر ہوتی ہیں، وہاں کوئی بھی انسان اپنے طریقے سے نماز ادا کر سکتا ہے لیکن افسوس کہ ہمارے بعض علما نے مسجدوں کو بھی اکھاڑہ بنادیا ہے۔ مختلف مسلکوں کی مساجد میں صرف انھی کے مسلک کے لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔ یہ بہت تکلیف دہ بات ہے۔

میں یہ بھی جانتی ہوں کہ میرے قارئین میں سے بھی 98% فیصد میرے ہم خیال ہوں گے۔ جو دو فی صد اختلاف کریں گے وہ ان کی محض ہٹ دھرمی ہو گی۔ اسی ضد اور ہٹ دھرمی نے دنیا بھر میں مسلمانوں کو بدنام کیا ہے۔ پوری دنیا میں اگر ہم مورد الزام ٹھہرائے جا رہے ہیں تو محض اپنی حماقتوں اور کنوئیں کے مینڈک والے رویوں کی وجہ سے۔

مجھے کہنے دیجیے کہ ہمارے کچھ علما بھی مال بنانے اور سیاست چمکانے میں لگ گئے ہیں۔ وہ اگر مخلص ہوتے، سیرت محمدی کی جامعیت کو سمجھتے تو آج اسلام کا دوسرا نام تشدد اور عدم برداشت نہ پڑتا۔ افسوس کہ مسلمان، یہاں ہیں، لیکن اصل اسلام یورپ و امریکا میں نظر آتا ہے۔ انسانوں سے ہمدردی، ضعیف العمر لوگوں کو سہولت، ہمسایوں کا خیال کسی کے آرام میں خلل نہ ڈالنا، کسی کو اپنی ذات اور رویے سے تکلیف نہ دینا تو ہمارے دین کی بنیاد رکھی۔ لیکن ان تمام باتوں پہ عمل غیر مسلم ممالک میں ہو رہا ہے۔ کاش ہمارے علما نوجوانوں کو تشدد اور مذہبی عدم برداشت کے بجائے ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کا سبق دیتے تو خودکش بمبار، داعش اور فرقہ واریت عروج پر نہ ہوتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔