داعش یا عالمی طاقتوں کی پراکسی وار؟

شاہد سردار  اتوار 17 جنوری 2016

ہمارا مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ہم اقوام عالم میں عظیم تر ہیں، روئے زمین پر ہمارا ثانی نہیں ہے، ہم ناقابل شکست ہیں، ہم ہار نہیں سکتے، ہار کا لفظ ہم نے اپنی ڈکشنری سے نکال دیا ہے، ہم خود اپنی تقدیر کے کاتب ہیں۔ ہم نے اپنے نصیب میں جلی حروف میں جیت لکھ دیا ہے۔ ہم جیتنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ لگاتار تقریباً پندرہ بیس برس تک اسکواش کے کھیل میں عالمی چیمپئن تھے۔ پھر ہمیں باقی ماندہ دنیا پر ترس آگیا، ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آہستہ آہستہ ہارنا شروع کردیں اور دنیا کے دیگر ممالک کی اسکواش کے کھیل میں جوہر دکھانے کے مواقع ملیں اور ہم نے پھر یہی کیا، ہم نے اسکواش کی دنیا سے خود کو باہر کرکے ہی دم لیا۔

لہٰذا اتنا شاندار ریکارڈ رکھتے ہوئے ہمیں یا ہمارے عزیز ہم وطنوں کو ’’داعش‘‘ کی مدد تو کرنا ہی تھی، گو پہلے پہل ہماری وزارت کے دفاتر اس کی پرزور تردید کرتے رہے کہ ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں اور نہ ہی کوئی ایسا کررہا ہے لیکن پھر بھی اعتراف کرلیا گیا کہ پاکستان سے سیکڑوں نہیں صرف 100 لوگ داعش میں شامل ہوئے۔ سیالکوٹ سے 8 مبینہ ارکان کی گرفتاری اور پھر کراچی میں داعش کے 20 رکن خواتین نیٹ ورک کے انکشاف کے بعد برین واشنگ اور فنڈز جمع کرنے والی خواتین کے ایک اور گروپ کی بے نقابی عالمی افق پر یہ ثابت ہوچکی ہے کہ ہم فقیروں نے اس ’’کارخیر‘‘ میں اپنا حصہ ڈال لیا ہے۔

غیر ملکی جرائد و رسائل کے صرف اوراق پلٹتے ہی یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ متعدد جنوبی ایشیائی ممالک بشمول پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت اور مالدیپ کے نوجوانوں کو انتہا پسندوں کی مدد کرنے پر قائل کیا جاچکا ہے کہ یا تو وہ لڑنے کے لیے شام پہنچیں، یا پھر اپنے ملک میں اہداف پر حملے کریں۔ غیر ملکی میڈیا کے بعض لوگوں کو امید ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان عبوری مفاہمت اسلامی دہشت گرد گروپس کے خلاف علاقائی تعاون کو بہتر بناسکتی ہے۔ اس مفاہمت کا مظاہرہ نواز شریف اور نریندر مودی کی حالیہ ملاقات میں بھی ہوا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق پاکستان کی گلیوں میں عام آدمی کو مختلف عسکری گروپس کی برانڈنگ کے بارے میں زیادہ پرواہ نہیں۔ دہشت گردی کی تنظیمیں ہیں ان میں ’’عام آدمی‘‘ کیوں شامل ہوتا ہے؟

تو اس کا جواب یہی کڑوی کسیلی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں اکثر غریب لوگ اس لیے ’’عسکریت پسند‘‘ بن جاتے ہیں کیونکہ انھیں روزگار، خوراک، پانی، بجلی، گیس میسر نہیں، ایک ایک کمرے کے گھر میں پانچ چھ فیملیاں رہنے پر مجبور ہیں۔

ایک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بھر میں داعش کو طالبان کا جانشین بھی کہا جا رہا ہے اور خیبر پختونخوا کے حوالے سے یہ سچائی بھی آشکارا ہوچکی ہے کہ طالبان کے عسکریت پسند آج بھی حساب برابر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ماضی میں کئی پاکستانی نوجوان جنگجو القاعدہ، جو عرب جنگجوؤں کی زیر قیادت تحریک تھی اس کے وفادار بن گئے تھے اور انھوں نے افغانستان اور پاکستان دونوں جگہ طالبان گروپس کی مدد کی تھی۔

وطن عزیز کے حوالے سے یہ کتنی ہولناک بات ہے کہ دہشت گردی کے مختلف نیٹ ورک سمیت 48 کالعدم گروہ اور تنظیمیں یہاں کام کر رہی ہیں، ایسے میں داعش میں شمولیت کی ایک کسر رہتی تھی وہ بھی پوری ہوگئی۔ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ پاکستان کی تشویش افغانستان میں داعش کا زور پکڑنا ہے کیونکہ پاکستان کو زیادہ تر خطرات افغانستان میں سرگرم اور متحرک گروہوں ہی سے ہیں۔ ان کے پاکستان میں ہمدرد موجود ہیں۔ داعش کو افغان طالبان سے بڑا چیلنج درپیش ہوسکتا ہے جنھوں نے وہاں اس کے خلاف کامیابی سے مزاحمت کی اور داعش کے اثر و رسوخ کو روکے رکھا۔

داعش کے بارے میں سب سے پہلے عراق میں اور پھر شام میں اس کی موجودگی کا پتہ چلا اور پھر لیبیا اور یمن سے ہوتا ہوتا عرب ممالک میں پہنچ گیا اور پھر دہشت گردی کے واقعات اور حوالے سے دہشت گرد تنظیم داعش کی سرگرمیاں جس نے بالخصوص مغربی حمایت میں سراسیمگی کی حد تک بے یقینی پھیلا رکھی ہے اور اب کم و بیش پوری اقوام عالم اس کی زد میں ہے۔

داعش کیا ہے؟ یہ ایک سوچ ہے جو اپنی زد میں آنے والی انسانی آبادیوں پر تشدد، ہتھیار اور ایذا رسانی کی مدد سے اقتدار قائم کرنا چاہتی ہے اور پھر مفتوحہ آبادیوں یا خطوں پر اپنا ترجیحی طرز حیات مسلط کرنا چاہتی ہے۔ عورتوں کی خرید و فروخت کو جائز کاروباری سرگرمی میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ دنیا بھر میں جنگ و جدل کا بازار گرم کرنا چاہتی ہے۔ روز مرہ سرگرمیوں میں مصروف نہتے بے قصور شہریوں کو قتل کرتی ہے، فرقہ وارانہ اختلافات کو سیاست کی بنیاد بنانا چاہتی ہے۔

قوموں کے معدنی وسائل اونے پونے بیچ کر اپنی تجوریاں بھرنا چاہتی ہے۔ یہ بجا تسلیم کہ یہ تنظیم مغربی استعمار کے اشاروں پر چل رہی ہے مگر قوم یہ یقین کرنا چاہتی ہے کہ داعش کے اصولوں سے اتفاق کرنے والے عناصر کو ہماری زمین پر کھلی چھٹی نہیں ملنی چاہیے۔ مگر کیا ہم نے داعش کے سیاسی نظریات اور معاشرتی اقدار پر کوئی فکری بحث کی؟ کیا اس ملک میں رہنے والے واقعی جانتے ہیں کہ داعش کی حمایت یا مخالفت کس بنیاد پر کی جانی چاہیے؟ دراصل ہمارے بچوں، ہماری نئی نسل کی خوشیوں پر پہرہ بٹھانے والے داعش کی سوچ کے حامی ہیں۔ اسلام آباد میں داعش کا امیر کون ہے؟ کراچی میں یہ مقدس فریضہ کون نبھا رہا ہے؟ داعش کا نیٹ ورک کیسا ہے؟ خیبر ایجنسی کی فاتح اعظم وہ کون سی ہستی ہے؟ جو افغانستان میں بیٹھ کر داعش کی قیادت کر رہی ہے؟ ملک میں فتنہ فساد کی سازش کررہی ہے؟ یہ سب سوالات سوالیہ نشان اٹھاتے ہمیں نظر آرہے ہیں۔

تاریخ کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے ہمیں یہ افسوسناک تاریخی حقیقت دکھائی دیتی ہے کہ دہشت گردی نے مسلم معاشروں کے تانے بانے بکھیر کر رکھ دیے ہیں۔ ان کی تاریخی عظمت کو اپنے لوگوں کے لیے احساس تفاخر کا ذریعہ نہیں رہنے دیا اور یوں مسلم دنیا کے اقتصادی خزانوں کو غربت، مایوسی، آمریت اور انتہاپسندی کا ماخذ بنادیا ہے۔

پہلے القاعدہ، طالبان، الشباب ، بوکو حرام اور دیگر دہشت گرد تنظیموں نے مسلم دنیا کو تقریباً ڈیڑھ عشرے تک افراتفری، خون ریزی اور انتشار میں مبتلا رکھا۔ ان تنظیموں کا ابھی تک مکمل خاتمہ نہیں ہو پایا تھا کہ اب ایک نئی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) یا دولت اسلامیہ (آئی ایس) ایک بہت ہی بڑا خطرہ بن کر اسلامی دنیا میں نمودار ہوگئی ہے اور افسوس کے ساتھ یہ تحریر کرنا پڑ رہا ہے کہ اس دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ ماضی قریب کی تاریخ اور موجودہ حالات کے تناظر میں بہت سے خطرات کی نشاندہی کر رہا ہے۔ داعش سمیت دہشتگردی کے خلاف 34 اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد قائم کیا گیا ہے۔ حالانکہ مسلم دنیا کی قیادت شاید یہ اندازہ نہیں کر پا رہی کہ وہ کس طرح انجانے یا غیر ارادی طور پر ایک ہولناک اور پرتشدد عالمی کھیل میں الجھائی جا رہی ہے، ہم انجانے میں عالمی طاقتوں کی ’’پراکسی وار‘‘ تو نہیں لڑ رہے ہیں۔

اب ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو داعش سمیت مذہب کے نام پر دہشت گرد کارروائیاں کرنے والی کسی بھی تنظیم کے چنگل سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کی روشنی میں ان تنظیموں کا گمراہ ہونا واضح کیا جائے اور اس بارے میں لوگوں کی رہنمائی کی جائے کہ معاشرے کی بہتری اور ظلم اور ناانصافی کے خاتمے کا درست طریقہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔