کچھ بلوچ نوجوانوں کے بارے میں

نصرت جاوید  جمعرات 1 نومبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

بات صرف اتنی تھی کہ عید کی چھٹیوں اور تنہائی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے، میں نے بشارت پیر کی ’’کرفیو زدہ راتیں‘‘ پڑھ ڈالی ۔ بڑے عرصے کے بعد کسی کتاب نے مجھے اتنا حیران و پریشان کر دیا اور اس کتاب کی وجہ سے اپنے ذہن میں اُٹھنے والے سوالوں کو اس کالم میں لکھ ڈالا۔

میرے اس کالم کی بڑی پذیرائی مقبوضہ کشمیر میں ہوئی۔ وہاں کے کئی نوجوان صحافیوں نے ای میلز کے ذریعے تعریف بھیجی۔ اگرچہ چند پیغامات میں یہ دُکھ بھرا طنز بھی اس فقرے کے ساتھ پہنچا کہ شکر ہے کسی پاکستانی لکھاری کو کشمیری نوجوانوں کی ایک پوری نسل کے ضایع ہو جانے کے اثرات کا احساس تو ہوا۔

عجیب اتفاق یہ بھی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے بعد مجھے سب سے زیادہ پیغامات بلوچ نوجوانوں کی طرف سے آئے۔ ان کی اکثریت نے بڑے غصہ بھرے لہجے میں بار بار جاننا چاہا کہ ’’پنجاب کے لکھنے والوں‘‘ کو بلوچ نوجوانوں سے زیادہ کشمیریوں کا غم کیوں محسوس ہوتا ہے۔ چند ایک نے تو اس شبہ کا اظہار بھی کر ڈالا کہ شاید میں نے ’’کرفیو زدہ راتیں‘‘ کسی ’’ایجنسی والے‘‘ سے اس حکم کے تحت وصول کی ہو گی کہ میں اس کتاب کی ’’مشہوری‘‘ کروں اور ’’جان کی امان‘‘ یا اپنی ’’تنخواہ‘‘ پائوں۔ ایسے پیغامات نے مجھے ایک بار پھر اس بات کا شدت سے احساس دلا دیا کہ انٹرنیٹ کی ماری اور فیس بک کی عادی ہماری نوجوان نسل نے کتابیں پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔

’’کرفیو زدہ راتیں‘‘ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں مبالغہ نہیں ہے۔ انگریزی نثر کے کلاسیکی اسلوب کے تمام اصولوں پر پورا اُترتے ہوئے بشارت پیر نے اپنی اور اپنے جیسے نوجوانوں کی کہانی اس انداز میں لکھی ہے جو رپورٹر کسی واقعے کو بیان کرنے کے لیے اختیار کیا کرتے ہیں۔ جو سامنے نظر آ رہا ہے اس کا آسان اور چھوٹے چھوٹے فقروں میں سادہ سا بیان۔ اس میں نہ شاعری ہوتی ہے اور نہ اس کو جاندار بنانے والے استعارے اور رجزیہ لحن۔ کشمیری فطرتاََ بڑے جذباتی ہوا کرتے ہیں۔ ان کے مرد بھی اپنے غموں کی بات کرتے ہوئے سر پیٹ کر آنسو بہانے میں اپنی ’’مردانگی‘‘ کو کمزور ہوتا ہوا محسوس نہیں کرتے۔

وہاں کے لکھنے والوں کو فارسی شاعری کی فصاحت اور عربی شاعری کی بلند آہنگی کو بڑے ہی مبالغہ آمیز انداز میں اپنانے اور دہرانے کی عادت ہے۔ ایسے ماحول میں ایک نوجوان کا بڑی عاجزی کے ساتھ حقائق کو سادہ ترین الفاظ میں جوں کا توں بیان کر دینا مجھے تو بہت باکمال لگا۔ یہ کتاب پڑھتے ہوئے مجھے عبداللہ حسین کی وہ نثر بھی یاد آئی جس نے ہمیں ’’اداس نسلیں‘‘ دے کر ششدر کر دیا تھا۔

مجھے طعنے دینے والے بلوچ نوجوانوں نے ’’کرفیو زدہ راتیں‘‘ پڑھی ہوتی تو سمجھ جاتے کہ بشارت پیر اپنے دُکھوں کا ذمے دار کشمیر کی آزادی کے ان ’’مجاہدوں‘‘ کو بھی ٹھہراتا ہے جنہوں نے چھوٹے سے چھوٹے گائوں میں بھی علیحدہ مسجدیں بنوائیں جہاں نماز کو صحیح عربی تلفظ میں ادا کرنے پر پورا زور لگا دیا جاتا اور ان کشمیری دہقانوں کی مذمت بھی جو نور الدین رشی اور زین صاحب جیسے صوفیائوں کی درگاہوں پر جا کر منتیں مانگتے ہیں اور مزاروں سے واپس لوٹتے ہوئے قبروں کی طرف کمر نہیں کرتے۔ میرا نہیں خیال کہ کوئی ’’ایجنسی والا‘‘ اس کتاب کو پسند کرے گا۔ اس امر کے باوجود کہ اس کتاب نے بھارت کے بہت سارے لکھنے والوں کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔

مجھے بلوچ نوجوانوں کے غم و غصہ کا پورا احساس ہے۔ اپنی بساط کے مطابق اس کا ذکر بھی کرتا رہتا ہوں۔ مگر فیض احمد فیض کی طرح آپ کو اپنی ذات، نسل اور حال سے بالا تر ہوکر دوسرے انسانوں کے ساتھ ’’درد کا رشتہ‘‘ بنانا ہوتا ہے جو فیض کی نظر میں سب سے بڑا رشتہ ہوتا ہے اور اس میں ’’جدائی‘‘ کا احساس تک نہیں ہوتا۔ خلق خدا کے ساتھ سانجھ کے رشتے بنا کر ہی ہم اپنی نہ سہی آنے والی نسلوں کی زندگیاں آسان کر سکتے ہیں۔

یہ بات بالکل درست ہے کہ پاکستان کی ریاست نے خود کو مضبوط تر کرنے کے نام پر جو پالیسیاں بنائیں ان کی تشکیل میں پنجاب کے متوسط طبقے سے اُٹھ کر عسکری اور سول انتظامیہ میں جگہ بنانے والوں کا بڑا حصہ رہا ہے۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بنا، ہمارے قبائلی علاقے وہاں کے مکینوں کے لیے جہنم بن گئے اور بلوچستان میں بھی آگ لگی ہوئی ہے۔ مگر اس حقیقت کے اعتراف کے بعد یہ کہنا بھی زیادتی ہو گی کہ پنجاب میں پیدا ہو کر اُردو یا انگریزی میں لکھنے والے سارے لوگ کسی ’’سامراجی ذہنیت‘‘ میں مبتلا ہوا کرتے ہیں۔ یقیناً چند ہی لوگ تھے مگر 1970ء میں بھی عبداللہ ملک اور حمید اختر مرحوم جیسے صحافی تھے جنہوں نے مشرقی پاکستان کے دُکھ کو اپنا ہی سمجھا۔

چند ہی روز پہلے اسد رحمٰن کا انتقال ہوا ہے۔ وہ پنجاب کے ایک ’’اشرافیہ‘‘ مانے جانے والے خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ میں انھیں کبھی نہیں ملا۔ ان کے بھائی سے پیشہ وارانہ تعلق ضرور رہا ہے۔ وہ سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس کے بیٹے تھے جو 1970ء کے ابھی تک ’’صاف، شفاف اور منصفانہ‘‘ انتخابات کروانے والے الیکشن کمیشن کے سربراہ بھی تھے۔ پنجاب کے اسی اسد رحمٰن نے ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں بلوچستان میں ہونے والے آپریشن کی زبانی کلامی نہیں، ’’چاکر خان‘‘ بن کر وہاں کے پہاڑوں میں پہنچ کر مزاحمت کی تھی۔

خود ’’بابائے بلوچستان‘‘ غوث بخش بزنجو نے بی ایم کٹی کی مرتب کردہ آپ بیتی میں اقرار کیا ہے کہ علی گڑھ سے فراغت کے بعد وہ اپنی زندگی کو عام لوگوں کی طرح خوش حال بنانے کی فکر میں اُلجھے ہوئے تھے کہ لاہور سے چھپنے والے ایک اخبار میں ’’بلوچستان کا مقدمہ‘‘ چھپنا شروع ہوا۔ وہ عزیز مگسی نے قسط وار لکھا تھا اور اس اخبار کا اس صوبے میں داخلہ ممنوع کر دیا گیا تھا۔ بزنجو مرحوم نے بلوچوں کو سیاسی شعور دینے میں اپنی ساری عمر لگا دی تو وہ مضامین کے اسی سلسلے کی وجہ سے تھی جو لاہور سے شایع ہونے والے ایک اخبار نے چھاپنے کی جرأت کی تھی۔

یقین مانیے جب اسد رحمٰن جیسے لوگوں نے بلوچستان کے دُکھ کو اپنا دُکھ بنایا تو ان دنوں اس صوبے کے عوام سے یک جہتی کا زبانی اظہار کرنا بھی لاہور کے ہر دوسرے گھر میں ’’غداری‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ آج حالات بالکل مختلف ہیں۔ سردار عطاء اللہ مینگل کا بیٹا جب سپریم کورٹ کے رو برو پیش ہونے دبئی سے اسلام آباد آ کر اسی شہر لوٹ جاتا ہے تو اس سے ملاقات کرنے پاکستان کا دو مرتبہ وزیر اعظم اور دو ہی مرتبہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ رہنے والا نواز شریف لاہور سے خود چل کر اسلام آباد آتا اور اختر مینگل سے ملتا ہے۔ عمران خان اور ان کے مداحین سونامی کے ذریعے پاکستان پرچھا جانے کو تیار بیٹھے ہیں۔

اس کے باوجود تحریک انصاف کے سربراہ نے بھی خود درخواست کر کے اختر مینگل سے ملاقات کی۔ بلوچ نوجوانوں کے دُکھ اس وقت تک ہر گز کم نہیں ہوں گے جب تک وہ اپنے غم و غصہ پر تھوڑا قابو پا کر ان کے ساتھ ’’درد کے رشتے‘‘ استوار کرنے کی خواہش کرنے والوں کو اپنا سمجھ کر گلے نہیں لگائیں گے۔ دوسری صورت میں وہی داستانِ الم ان کے لیے بھی اٹل ہے جو بشارت پیر نے کشمیری نوجوانوں کے بارے میں ’’کرفیو زدہ راتیں‘‘ میں قلم بند کی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔