پاک چین اقتصادی راہداری گیم چینجر ہے، اختلاف ملکی مفاد میں نہیں

احسن کامرے  پير 18 جنوری 2016
تجزیہ نگاروں کی’اقتصادی راہداری پر اپوزیشن کے تحفظات‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: فائل

تجزیہ نگاروں کی’اقتصادی راہداری پر اپوزیشن کے تحفظات‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: فائل

مغربی چین سمندر سے دوری کی وجہ سے مشرقی چین کی نسبت پسماندہ رہ گیا تھا جس طرح پاکستان کا مغربی حصہ جس میں بلوچستان، فاٹا اور خیبرپختونخوا شامل ہیں پسماندہ رہ گیا ہے۔

پسماندگی اور غربت کی وجہ سے مغربی چین میں آزادی کی تحریکیںجنم لینے لگیں اور پھر چین نے ان علاقوں کی ترقی کے لیے پاکستان کے برعکس ملٹری آپریشن کے بجائے 1978ء میں ایک طویل منصوبے کا آغاز کیا جس کے تحت وہاں ہائی ویز تعمیر کی گئیں، ریلوے لائنیں بچھائی گئیں اور سرمایہ کاروں کو مراعات بھی دی گئیں۔اس کے بعدسرمایہ کاروں نے وہاں کا رخ کیااور اب وہاں بے شمار صنعتیں لگ چکی ہیں۔ ان صنعتوں کو جو خام مال درکار ہے اس کے حصول کے لیے چین کوایک لمبا سفرطے کرنا پڑتا ہے۔

کاشغر سے شنگھائی تک کا فاصلہ پانچ ہزار کلومیٹر ہے جبکہ گوادر تک کا فاصلہ صرف دوہزار کلومیٹر ہے۔ اسی کے پیش نظرچین نے پاکستان کو گوادر بندرگاہ اورکاشغر تا گوادرکوریڈورکی تجویز دی۔ چین اس کوریڈور کے ذریعے عرب ممالک،مغربی دنیا اور وسط ایشیاء کے ساتھ منسلک ہونا چاہتا ہے۔ اس اقتصادی راہداری کے مشرقی اور مغربی دو روٹ ہیں اور اس کے روٹ کے حوالے سے ہماری سیاسی جماعتوں کے شدید اعتراضات سامنے آئے ہیں۔

وزیراعظم نے اس حوالے سے گزشتہ دنوں کل جماعتی کانفرنس میں مغربی روٹ پہلے مکمل کرنے کا فیصلہ کیا اور اس طرح چھوٹے صوبوں کے تحفظات دور کردیے گئے۔ ’’پاک چین اقتصادی راہداری پر اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف تجزیہ نگاروں اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر حسن عسکری رضوی (ماہر تعلیم و دانشور)

پاک چین اقتصادی راہدای دونوں ممالک کے لیے بہت اہم ہے۔چین کا مفاد کاشغر سے گوادر تک ہے کیونکہ گوادر اسے سمندر تک رسائی دیتا ہے اور یہ بندرگاہ مغربی چین کے قریب ہے۔چونکہ اس منصوبے کا فریق پاکستان ہے اس لیے مستقبل میں اس کا زیادہ فائدہ پاکستان کوہی ہوگا جو اچھی تبدیلی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے حالیہ اعتراضات افسوسناک ہیں لیکن اگر ان منصوبوں میں شفافیت سے کام لیا جائے تو ایسے مسائل پیدا نہیں ہوتے۔ اس منصوبے میں خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کو زیادہ اعتراضات ہیںکیونکہ وہاں سڑک کے علاوہ کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

اس راہداری کا مشرقی روٹ تقریباََ تیار ہے جو پنجاب سے گزر رہا ہے  جبکہ مغربی روٹ کا بہت سارا کام ہونے والا ہے اور اس علاقے کے اپنے مسائل ہیں ۔ اس منصوبے سے تمام علاقوں کی ترقی ہو جائے گی لیکن اصل جھگڑا اس راہداری سے منسلک منصوبوں کا ہے۔میرے نزدیک اس منصوبے کے حوالے سے وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال کنفیوژن پیدا کررہے ہیں ۔انہوں نے کوئٹہ، پشاور اور آل پارٹیز کانفرنس میں تین بڑے بیانات دیے ہیں۔

ان کی غلطی یہ ہے کہ وہ ویژن 2025ء و ترقی کے دیگر منصوبوں کو اقتصادی راہداری کے ساتھ ملا رہے ہیں جبکہ اقتصادی راہداری سے منسلک خاص منصوبوں پر کوئی بات نہیں کررہے ۔ پشاور میں احسن اقبال نے جو تقریر کی اس میں انہوں نے بھاشا ڈیم کا ذکر کردیا حالانکہ اس ڈیم کا اقتصادی راہداری منصوبے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے علاوہ چین سے جو کمپنیاں یہاں آرہی ہیںا ن سب کا تعلق اس راہداری منصوبے سے نہیں ہے۔

کچھ کمپنیاں اس سے ہٹ کر بھی سرمایہ کاری کررہی ہیں اور خاص کر پنجاب میں کیونکہ پنجاب کے وزیراعلیٰ اس حوالے سے کافی متحرک ہیں۔چین نے ابھی تک اس منصوبے کے حوالے سے بہت سی باتیں ہماری حکومت کو نہیں بتائیں اور نہ ہی ہماری حکومت نے چین سے اس بارے میں بات کی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے بارے میں گورنر سٹیٹ بینک بھی لاعلم ہیں کہ وہ کس حساب سے آئے گی۔ حکومت نے یہ منصوبہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کی وزارت کودیدیا ہے اور لوگ احسن اقبال پر اعتماد نہیں کررہے۔

46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں سے 35ارب ڈالر توانائی کے منصوبوں کے لیے ہیں۔ اس مسئلے کا بڑا آسان حل ہے، حکومت اگر بتا دے کہ اس 35ارب ڈالر میں کون کون سے منصوبے ہیں اور یہ کہاں لگائے جائیں گے تو جھگڑا ختم ہوجائے گا لیکن حکومت بتانے کو تیار نہیں ہے۔ اب وزیراعظم نے خود آگے بڑھ کر اس معاملے کو حل کرنیکی کوشش کی ہے۔ وزیراعظم نے جب چینی وفد سے ملاقات کی تو اس میں 12 توانائی کے منصوبے دکھائے گئے ہیں جوپنجاب اور سندھ میں لگنے ہیں اور یہ کوئلے سے بجلی بنانے کے پراجیکٹ ہیں۔

اس میں بلوچستان کا منصوبہ گوادر پورٹ ہے اور دو منصوبے حب میں رکھے جارہے ہیں۔ ٹیکنیکلی حب بلوچستان کا حصہ ہے لیکن حب کے منصوبے کراچی کے لیے سمجھے جاتے ہیں کیونکہ وہ کراچی کے قریب ہے۔ منصوبوں کی اس فہرست میں خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں توانائی کا کوئی منصوبہ نہیںہے۔  46ارب ڈالر کی اس سرمایہ کاری کے بارے میں یہ بھی علم نہیں ہے کہ ا س میں سے کتنی سرمایہ کاری ہے اور کتنا قرضہ ہے، اس کے علاوہ چینی بینک جو اپنی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے قرضے دے رہے ہیں اس کی ذمہ داری کس پر ہے اورا س کا سود کون ادا کرے گا۔

ان سب چیزوں کی وجہ سے ہمارے ہاں تحفظات پیدا ہورہے ہیں حکومت کو چاہیے کہ اس منصوبے کو مشترکہ مفادات کونسل میں لیجائے اور تحفظات دور کرنے کے لیے اس سے منسلک تمام منصوبوں کی لسٹ جاری کرنی چاہیے ۔ لیکن اگر یہ جھگڑا یونہی چلتا رہا تو چین کو بھی پریشانی ہوگی اور مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔اس منصوبے کی سکیورٹی کا مسئلہ فوج نے حل کردیا ہے اوراس کے لیے ایک الگ یونٹ بھی قائم کردیا گیا ہے۔

اس راہداری سے پاکستان کو ایک اور فائدہ یہ ہوگا کہ اس راہداری کو وسطی ایشیا کے ساتھ ملایا جائے گا جس سے اس کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔ چند روز قبل ایرانی وفد گوادر اور کوئٹہ گیا۔ یہ وفد ہر سال آتا ہے لیکن اب انہوں نے کہا ہے کہ وہ ایک سڑک کے ذریعے گوادر کو ایران سے منسلک کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ ایران اس وقت 74میگاواٹ بجلی گوادر اور پنجگور کو مہیا کر رہا ہے اور وہ مزید بجلی فراہم کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔

اگر15 سال بعد کے ثمرات کو دیکھا جائے تو پاکستان کا چین، وسطی ایشیا، ایران اور دیگر ممالک کے ساتھ رابطہ بڑھ جائے گا اور اس سے ہمارے معاشی مسائل خود بخود حل ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ میرے نزدیک ہمارے لیے یہ منصوبہ بہت ضروری ہے کیونکہ اس کا مستقبل بہت تابناک ہے۔ بزنس کمیونٹی کو چاہیے کہ حکومت پر دباؤڈالے تاکہ اس منصوبے پر موثر کام کیا جاسکے۔ بھارت ایشیا کا چمپئن بننا چاہتا ہے اور وہ چین کواپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔

اس منصوبے سے چین کو تجارت کے لیے ایک محفوظ راستہ مل جائے گا۔ یہاں چین کے لیے کھلا سمندر ہے اور اس علاقے میں کوئی بھی ا س سے جھگڑا نہیں کرے گا۔ اس منصوبے سے مغربی چین کی ترقی ہوگی ا ور اس سے پاک چین دوستی بھی مزید مضبوط ہوگی۔ اس منصوبے سے پاکستان ا ور چین ، دونوں کا فائدہ ہوگا اس لیے بھارت اس منصوبے کی مخالفت کررہا ہے۔  بھارت نے ہمیشہ ہماری ترقی کے منصوبوں کی مخالفت کی ہے لہٰذا ہمیں بھارت کی مخالفت سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ اس کے اعتراض کرنے سے ہماری ترقی رک سکتی ہے۔

جنرل (ر) زاہد مبشر (دفاعی تجزیہ نگار)

یہ خوش آئند بات ہے کہ پوری قوم اس منصوبے کو بنانے پر متفق ہے اور کوئی بھی اس کی مخالفت نہیں کررہا ہے۔ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اختیارات تو لینا چاہتی ہے لیکن ذمہ داری لینا نہیں چاہتی ۔اقتصادی راہداری کا مسئلہ حل کرنے کا آئینی طریقہ موجود ہے لہٰذا سوال یہ ہے کہ اس منصوبے کو مشترکہ مفادات کونسل میں کیوں نہیں لے جایا جاتا؟ خیبر پختونخوا میں اس منصوبے کی مخالفت حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ(ن) کی مقامی قیادت کو بھی اس منصوبے پر تحفظات ہیں اور اپنے صوبائی مفاد کیلئے وہاں کی ساری قیادت اکٹھی ہوگئی ہے لہٰذا اسے سنجیدگی کے ساتھ لینا چاہیے۔

میرے نزدیک صرف یہ کہہ دینا کہ یہ لوگ منصوبے کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں یا مسائل کھڑے کررہے ہیں کافی نہیں ہوگا، اس منصبوے کی کامیابی کے لیے حکومت کو ان کے تحفظات کو دور کرنے چاہیے۔اس منصوبے کے حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے، وفاق کو چاہیے کہ تمام سٹیک ہولڈرز اور سیاسی جماعتوں کو آن بورڈ لے ، تمام چیزیں تحریری طور پر سامنے لائی جائیں اور معاہدہ کرکے اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ اگر سب کا اتفاق مغربی روٹ کی پہلے تعمیر پر ہوتا ہے تو اس کی تعمیر کا آغاز کیا جائے اور مشاورت کے ساتھ اس منصوبے کو کامیاب بنایا جائے۔

بدقسمتی سے اہم منصوبوں پر پہلے فیصلہ کرلیا جاتا ہے بعدازاںا نہیںا سمبلی میں پیش کیا جاتا ہے۔ میرے نزدیک قومی معاملات کا فیصلہ اسمبلی میں ہونا چاہیے۔ افسوس ہے کہ ہم بروقت فیصلے نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہمیں مسائل کا سامنا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ نقصان کسی ایک صوبے کا نہیں بلکہ پورے ملک کا ہوگا اس لیے ہمیں دیگر صوبوں اور پسماندہ علاقوں کا احساس محرومی ختم کرنا چاہیے اور ترقی کے منصوبوں کو پسماندہ علاقوں تک پھیلانا چاہیے۔

اگر خیبرپختونخوا پہلے اپنا حصہ لینا چاہتا ہے تو اسے دے دیا جائے، اگر پنجاب کا کوئی نقصان ہوتا ہے تو اسے بڑے دل کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیونکہ اس کا منصوبے کافائدہ ملک کا فائدہ ہوگا۔ فوج نے اس منصوبے کی سکیورٹی کے لیے ایک نئی سکیورٹی ڈویژن بنائی ہے جس میں تین بریگیڈ ہوں گی اور اس ڈویژن میںفوج کے ساتھ ساتھ سویلین بھی شامل ہوں گے۔ ہمارے ملک کے سٹیک ہولڈرز اورملک کے وفادار لوگ اس منصوبے کی تکمیل چاہتے ہیں، اس منصوبے سے پورے پاکستان کو فائدہ ہوگا لہٰذاہمیں  صوبائیت سے بالاتر ہوکر یکجہتی کے ساتھ اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے ۔

ناصر سعید (نائب صدر لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)

پاکستان دشمن قوتیں اس منصوبے کے مخالف سرگرم ہوچکی ہیں اور وہ اس منصوبے کو ناکام بنانا چاہتی ہیں۔یہ باعث افسوس ہے کہ جب بھی ہمارے ملک میں کوئی بڑا منصوبہ آتا ہے تو اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری بہت اہم منصوبہ ہے لہٰذاجتنی جلدی ممکن ہوسکے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر آنا چاہیے اور اتفاق رائے سے مسئلہ حل کرنا چاہیے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ جماعتوں کے جائز اعتراضات دور کرے۔ ہمارے اندرونی اختلافات کی وجہ سے چین کو غلط پیغام جارہا ہے لہٰذا جلد از جلد معاملات حل کرکے مشترکہ علامیہ جاری کیا جائے۔

اس منصوبے کی بڑی سرمایہ کاری توانائی کے منصوبوں پرہوگی، جس سے پاکستان میں صنعت کو نئی جان ملے گی۔ یہ منصوبہ تو 2030ء میں مکمل ہوگا لیکن 2020ء تک اس کے اچھے نتائج آنا شروع ہوجائیں گے اوراس منصوبے سے نہ صرف ہماری معاشی ترقی ہوگی بلکہ بے روزگاری میں بھی کمی ہوگی اور تجارت میں اضافہ ہوگا۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ حکومت نے اس منصوبے کے حوالے سے بزنس کمیونٹی کو آن بورڈ لیا ہوا ہے اور چینی تاجر خود یہاں سرمایہ کاری کرنے آرہے ہیں۔

ڈاکٹر اعجاز بٹ ( تجزیہ نگار)

پاک چین اقتصادی راہداری طویل المیعاد منصوبہ ہے جو 2030ء میں مکمل ہوگا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں قومی مفادات کے منصوبوں پر ہمیشہ سیاست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ پنجاب تمام معاملات کو اپنے کنٹرول میںکرنا چاہتا ہے اور باقی صوبوں کو محروم کرنا چاہتا ہے۔ ہماری تاریخ کچھ ایسی رہی ہے کہ پنجاب کا کردار ہمیشہ زیادہ رہا ہے، موجودہ وزیراعظم کا تعلق بھی پنجاب سے ہے اور اس کے علاوہ  خارجی معاملات میں وزیراعلیٰ پنجاب کا کردار بڑاواضح ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبہ پورے پاکستان کا منصوبہ ہے، اس کا فائدہ پورے ملک کے عوام کو پہنچے گا اور کوئی بھی اس سے محروم نہیں رہے گا۔  46 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری میں سے 36ارب ڈالر انرجی کے منصوبوں کے لیے ہیں ، انرجی ہماری بنیادی ضرورت ہے لہٰذا اس کا فائدہ پورے ملک کو ہوگا۔بنیادی طور پر اس راہداری کو چین بنا رہا ہے لہٰذا ہمیں چینی سرمایہ کاروں کی ترجیحات کو بھی سامنے رکھنا ہے۔ ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ شاید اس سرمایہ کاری کا زیادہ حصہ سڑکیں بنانے پر خرچ ہوگا۔

مشرقی روٹ میں موٹر وے جبکہ مغربی روٹ میں سڑک بنائی جارہی ہے جس کی اہمیت موٹر وے جتنی نہیں ہے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ مشرقی روٹ کا 70فیصد تیار ہے اور وہ کافی پہلے کا بن چکا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پہلے اس روٹ کو استعمال میں لایا جارہا ہے۔ یہاں آبادی زیادہ ہے، زرخیز زمین موجود ہے اور یہاں سکیورٹی کے مسائل بھی کم ہیں ، بجلی کی ترسیل کا نظام موجود ہے اور اس کے علاوہ دیگر سہولیات بھی ہیں لہٰذا یہ سب چیزیں مشرقی روٹ کی اہمیت میں اضافہ کرتی ہیں جبکہ مغربی روٹ پسماندہ علاقہ ہے اور وہاں مسائل بھی بہت زیادہ ہیں۔

وہ علاقہ افغانستان کے ساتھ لگتا ہے، وہاں لڑائی چل رہی ہے اور اگر وہاں انرجی کے منصوبے بھی لگائے جاتے ہیں تو اس کی قیمت زیادہ ہوگی۔ سڑکیں بنانے کے لیے چین ہمیں جو پیسے دے رہا ہے وہ صرف قراقرم ہائی وے تک محدود ہے اور اس ان کا پیسہ اس روٹ کو آل سیزن روٹ بنانے پر خرچ ہورہا ہے جبکہ ہماری حکومت قرضہ لے کر مغربی روٹ بھی بنا رہی ہے اور وزیراعظم نے خود یہ کہا کہ ہم مغربی روٹ بھی بنائیں گے تاکہ وہاں بھی ترقی ہو اور یہ روٹ بھی تجارتی آمد و رفت کے لیے استعمال ہوگا۔

یہ واضح ہونا چاہیے کہ مغربی روٹ چین کی نہیں بلکہ ہماری حکومت کی زیادہ ترجیح ہے جبکہ چین کی توجہ مشرقی روٹ پر ہے جہاں اس کے سرمایہ کاروں کو وہ تمام سہولیات مل رہی ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔ ہمیں اس معاملے میں واضح ہونا چاہیے کہ اس اقتصادی راہداری کے دو روٹ مشرقی اور مغربی ہیں۔ چونکہ مشرقی روٹ 70فیصد تیار ہے اور موٹر ویز کو ہی کوریڈور سے لنک کیا جائے گا اس لیے مشرقی روٹ مکمل کر کے اس کی آمدنی سے بعدازاں مغربی روٹ بن سکے گا اور 2030ء میں جب یہ راہداری منصوبہ مکمل ہوگا تو دونوں روٹ بن چکے ہوں گے۔

میرے نزدیک بلوچستان اور سندھ کو اس منصوبے پر کوئی اعتراض کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ گوادر کے ساتھ اس منصوبے نے منسلک ہونا ہے اور اس کا فائدہ ہر حال میں بلوچستان کو پہنچنا ہے۔ چین پہلے ہی یہ کہہ چکا ہے کہ گوادر میں جو بھی سرمایہ کاری کریں گے، اس کے پرافٹ کا ایک بڑا حصہ بلوچستان کی ترقی کے لیے خرچ کریں گے۔اس کے علاوہ سندھ میں سے یہ کوریڈور گزر رہا ہے اور وہاں بندر گاہ بھی ہے۔ اب مسئلہ صرف خیبرپختونخوا کا ہے۔

وہ یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح کی موٹرویز یہاں موجود ہیں حکومت ایسی ہی موٹرویز اس روٹ کے لیے بھی بنائے اور پہلے اس روٹ کو شروع کرے اور بعدازاں مشرقی روٹ شروع کیا جائے۔ یہ واضح ہونا چاہیے کہ موٹر وے اس منصوبے میں شامل ہی نہیں ہے جبکہ مغربی روٹ کے لیے دو رویہ سڑک بھی حکومت قرضہ لے کر بنا رہی ہے تاکہ وہاں بھی ترقی ہو اور بعدازاں اس روٹ کو وسیع کیا جاسکتا ہے ۔اقتصادی راہداری میں چین کے مفادات شامل ہیں لیکن یہ پاکستان کی معیشت کی بہتری کے لیے سنہری موقع ہے، پہلی مرتبہ ہمیں اپنی سٹریٹجک لوکیشن سے فائدہ مل رہا ہے لہٰذا ہمیںا س کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔

ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ماضی میں ہمیں جن معاشی مشکلات کا سامنا رہا ہے یہ ان پر قابو پانے کا بہت اچھا موقع ہے۔ہمارے اندرونی مسائل کی وجہ سے چین نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ہمارے درمیان اتفاق نہیں ہے اور چین نے کہا کہ ہم تمام علاقوں پر توجہ دیں گے اور ہمارے نزدیک تمام علاقوں کی اہمیت برابر ہے۔ مسائل کے حل کے لیے ہمیں مناسب فورم پر  بات کرنی چاہیے اور اس معاملے کو مشترکہ مفادات کونسل میں لے جانا چاہیے۔

مشترکہ مفادات کونسل مسائل کے حل کا آئینی طریقہ ہے، اس میں چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ و وفاقی حکومت کے نمائندے بھی شامل ہوتے ہیں ۔ 18 ویں ترمیم کے بعد ہر3ماہ بعد اس کی میٹنگ کو لازمی کردیا گیا لیکن 10ماہ سے اس کی میٹنگ ہی نہیں ہوئی۔ افسوس ہے کہ آئینی طریقوں کو اپنانے کے بجائے اے پی سی کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میرے نزدیک آئینی طریقہ کار اپنانا چاہیے اور اگر اس کے بعد بھی کوئی اعتراض کرے تو پھراس کے اعتراضات غلط سمجھے جائیں گے اور وہ مسائل پیدا کرنے کوشش کررہا ہے۔

ہم اس منصوبے کے حوالے سے بے صبری کا مظاہرہ کررہے ہیں، اس منصوبے کو کالا باغ ڈیم سے تشبیہ دی جارہی ہے میرے نزدیک یہ معاملہ کالا باغ ڈیم سے مختلف ہے کیونکہ کوئی بھی اس منصوبے کے خلاف نہیں بلکہ یہاں مسئلہ کم اور زیادہ فائدے کا ہے لہٰذا سب کو جذبہ حب الوطنی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اس منصوبے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔اس منصوبے کے حوالے سے مثبت بات یہ ہے کہ فوج اس کی گارنٹر ہے، اس کی سکیورٹی کیلئے ون بریگیڈ تیار ہے لہٰذایہ منصوبہ ضرور کامیاب ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔