کتاب عمر کا ایک اور باب ختم ہوا

اوریا مقبول جان  پير 18 جنوری 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

آج سے ٹھیک اکتیس سال اور تین ماہ قبل اٹھارہ اکتوبر 1984ء کو سول سروس کے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ (ڈی ایم جی) کے فرد کی حیثیت سے میں سول سروسز اکیڈمی میں داخل ہوا اور آج ساٹھ سال کی عمر کو پہنچنے پر میں بیورو کریسی کے خوشنما اور دلفریب شکنجے سے آزاد ہوا ہوں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر جس نے غرور و نخوت، لالچ و حرص، نشۂ حکمرانی، خوشامد و چاپلوسی، فریب، منافقت اور اس جیسے کئی خوفناک مگر مچھوں کے درمیان اس پرآشوب دریا کو عبور کرنے کی ہمت، طاقت اور استطاعت عطا کی۔

اگر اس اللہ کی نصرت میرے شامل حال نہ ہوتی تو میں شاید واپس مڑ کر اس دریا کو حسرت و یاس سے دیکھ رہا ہوتا، چند سال اس میں اور رہنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا، عمر گزرنے کا تأسف چہرے پر چھایا ہوتا، دل ملول ہوتا، لیکن کس قدر کرم ہے اس مالک ارض و سما کا کہ آج میرے دل کے کسی چھوٹے سے کونے میں بھی اس سروس میں مزید وقت گزارنے کی خواہش موجود نہیں اور نہ ہی اس سے وابستگی کو اپنے لیے افتخار کی تمنا موجود ہے۔ سب میرے اللہ کی عطا اور توفیق ہے۔ بے شک وہ بہت مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔

سول سروسز اکیڈمی کا پہلا دن بہت عجیب ہوتا ہے۔ ہر کوئی آنے والے عرصۂ اقتدار کے نشے میں مست ہوتا ہے۔ وہ جس علاقے، بستی، خاندان یا قبیلے سے بھی آیا ہو، امتحان کی کامیابی سے لے کر اکیڈمی میں داخلے تک لوگوں کے رویے نے اس میں فرعونیت کے آثار تھوڑے بہت ضرور پیدا کردیئے ہوتے ہیں۔ ادھر اکیڈمی اور اکیڈمی میں آنے والے ’’قدیم‘‘ اور ’’عظیم‘‘ بیورو کریٹ جو سول سروس کی گزشتہ دو سو سالہ اقتدار اختیار کی دنیا کے قصہ گو ہوتے ہیں، وہ زوال کا نوحہ بھی گاتے ہیں اور ماضی کی طرف لوٹ جانے کے خواب بھی دکھاتے ہیں۔

وہ سارا زمانہ یوں لگتا ہے جیسے اکیڈمی میں آنے والے یہ افراد یونان کی شہری ریاستوں کے وہ شہزادے ہیں جنھیں اصول جہانبانی سکھانے کے لیے دیگر ریاستی درباروں میں بھیجا جاتا تھا۔ ڈی ایم جی والوں کے لیے گھڑ سواری لازمی تھی۔ اس کی کیا ضرورت، لیکن کمال ہے ان کا جنہوں نے 1773ء سے سیکھا ہوا سبق آج بھی یاد رکھا ہوا ہے، بتایا گیا کہ یہ گھڑ سواری ایک تربیت ہے، یہ بتانے کے لیے کہ ایک منہ زور طاقت ور چیز پر کیسے قابو پایا جاتا ہے اور پھر وہ کس طرح ایڑی کے ہلکے سے اشارے سے سرپٹ بھاگنے لگتا ہے اور لگام کو ہلکا سا کھینچنے سے فوراً رک جاتا ہے۔

یہ سب آپ کو سمجھانے کے لیے ہے۔ آپ میں یہ حوصلہ پیدا کرنے کے لیے ہے کہ عوام کے منہ زور گھوڑے کو کیسے کنٹرول کرنا ہے۔ کون تھا جو وہاں لیکچر دینے آتا اور اس کی یادوں میں یہ فقرہ نہ گونجتا ’’میں جب ڈپٹی کمشنر تھا‘‘ انگریز کے بتائے ہوئے اس ’’منی وائسرائے‘‘ کی طاقت کا نشہ ان بیچاروں کو ساری زندگی چڑھا رہتا ہے۔ بیورو کریسی ایک ایسا طبقہ جس سے لوگ نفرت بھی کرتے ہیں لیکن اسی گروہ میں خود بھی شامل ہونے کی آرزو کرتے ہیں اور اپنی اولادوں میں بھی یہ مستقبل دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اس کی طاقت سے خوفزدہ بھی ہوتے ہیں اور اس کی شان و شوکت سے مرعوب بھی۔

لیکن کس قدر مقام شکر و سجدہ ریزی ہے کہ اس کا کرم میرے ساتھ ایسے شامل حال رہا کہ ایک دن کے لیے بھی نہ اس کی شان و شوکت مجھے بھلی لگی اور نہ ہی اس طاقت پر فخر کرنا نصیب ہوا۔ اکیڈمی ختم ہوئی تو میری تعیناتی صوبہ سندھ میں کر دی گئی۔ کہا جاتا تھا کہ حکمرانی کے مزے لوٹنے ہوں تو سندھ اور پنجاب کہ جہاں وڈیرے اور چوہدری بیورو کریسی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے صدیوں سے عوام پر حکمران ہیں۔ جنرل ضیاالحق اکیڈمی کی پاسنگ آؤٹ میں تشریف لائے۔ میں سندھ نہیں جانا چاہتا تھا کہ وہاں جانے سے مزاج میں فرعونیت کا تڑکا لگنے کا خدشہ تھا۔

بلوچستان کا قبائلی معاشرہ مجھے اچھا لگتا تھا کہ جہاں انگریز بھی بلوچوں کو عزت و تکریم دے کر حکمرانی کر سکا۔ میں نے جنرل موصوف کو اپنا ارادہ بتایا، اردگرد کھڑے مملکت خداداد پاکستان کی بیورو کریسی کے اعلیٰ ترین دماغوں کے لیے یہ حیران کن تھا، یہ تو پاگل پن ہے، ایک نے میرے کان میں کہا، بلوچستان کون جاتا ہے، دوسرے نے سرگوشی کی، ضیاالحق نے دوبارہ سوال کیا، میں نے ہاں کی، مجھے فقرہ آج بھی یاد ہے، اس بندۂ صحرائی کا نوٹیفکیشن آج ہی ہو جانا چاہیے۔

آفتاب احمد خان سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ تھے۔ انھوں نے سر ہلایا اور پھر میری تعیناتی بلوچستان ہو گئی جہاں میں نے سول سروس کے بیس سال گزارے۔ بلوچستان خود اپنی مرضی سے جانے کا یہ میرا دوسرا موقع تھا۔ 6 مارچ 1980ء کو میری جیب میں ملازمت کے دو پروانے تھے، ایک اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے ہیڈکوارٹر جنیوا میں اور دوسری بلوچستان یونیورسٹی میں لیکچرر شپ، لیکن میرے جنون کو یونیورسٹی کی ملازمت پسند تھی۔

اس لیے میں نے بلوچستان یونیورسٹی میں پڑھانے کو ترجیح دی اور انھی پانچ سالوں نے مجھے بلوچستان کے معاشرے کے خدوخال سے محبت سکھائی اور مجھے فیصلے پر مجبور کیا کہ میں سندھ کے بجائے نوکری کے بیشتر سال وہاں گزاروں۔ اسسٹنٹ کمشنر چمن، پشین اور کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر مستونگ، سبی اور چاغی، یہ وہ ذمے داریاں تھیں کہ جن کی وجہ سے مجھے اس ملک کی غریب و پسماندہ لیکن باغیرت و عزت نفس کی امین آبادی کے قریب آنے کا موقع ملا۔ میں نے مفلوک الحال بلوچ کو بھی غیرت میں مست دیکھا، دست سوال دراز کرتے ہوئے نہیں۔

بلوچ عوام کی محبتیں سمیٹنے کا جتنا موقع مجھے ملا وہ مجھ پر اللہ کا خاص کرم ہے۔ مجھے اپنی زندگی کا وہ دن نہیں بھولتا، میں ڈپٹی کمشنر چاغی تھا، میرا ٹرانسفر ہو گیا، نیا ڈپٹی کمشنر تعینات ہو گیا۔ عمومی دستور یہ ہے کہ لوگ نئے آنے والے ڈپٹی کمشنر کی استقبال کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں لیکن چاغی کے لوگ میرا تبادلہ رکوانے کے لیے ہڑتال پر چلے گئے، آر سی ڈی بائی بلاک کر دی گئی۔ اختر مینگل وزیر اعلیٰ تھے۔ حیران تھے کہ نہ میں ان کے قبیلے سے ہوں، نہ ہم زبان، پھر یہ بلوچ میرے لیے سراپا احتجاج کیوں ہیں۔ میرا تبادلہ منسوخ کر دیا گیا۔ ایسا کبھی بیوروکریسی میں ہوتا ہے۔

یہاں اللہ کے حضور سجدۂ شکر واجب نہیں۔ اظہار اور حرف اظہار تو بچپن سے اپنا اوڑھنا بچھونا رہے ہیں۔ شاعری ایک مدت سے اپنی رفیق رہی ہے۔ بات کہنے کو اظہار کا راستہ نہ ملنے تو ایک عالم حبس ذہن پر طاری ہو جاتا ہے۔ بیوروکریسی میں تو یہ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ ہر روز ایک نئے وبال کا سامنا ہوتا ہے، ایک نئی آفت سے آشنائی ملتی ہے، ایسے میں بولو نہ تو مر جاؤ۔ شاعری ساتھ دیتی رہی، 1988ء میں پہلا مجموعہ ’’قامت‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔

سوچا یہ تو ادھورا سچ ہے، اشارے میں بات  کی گئی ہے، افسانہ پہلے بھی لکھتا تھا، ٹیلی ویژن پر ڈرامہ لکھنا شروع کر دیا، کردار تو روز آنکھوں کے سامنے گھومتے تھے۔ ان کو زبان دینا تھی، بس پھر کیا تھا، روزن، گرد باد، شہرزاد، قفس اور قافلہ نام سے پانچ سیریل لکھ دیں۔ لیکن شاید اب بھی تسلی نہیں ہوتی تھی۔ یہ تو ایسا سچ ہے کرداروں کی زبان بولتا ہے، پکڑے جانے پر آپ مکر بھی سکتے ہو، دل مجبور کرتا تھا کہ واضح بات کرو، جو سوچتے ہو ہوبہو لکھو، نوکری اب اس مقام پر آ چکی تھی جب آپ صوبائی محکموں کے سربراہ لگتے ہیں۔ وہ زمانہ جب بیوروکریسی کی طاقت سے لطف اٹھانے کا دور ہوتا ہے۔

کتنے لوگ تھے جو سمجھاتے کہ جب ریٹائر ہو تو سچ بول لینا، ابھی کالم لکھنے کی کیا ضرورت ہے، ابھی نوکری کے پندرہ سال پڑے ہیں۔ مشرف کی نئی نئی آمریت تھی، بیوروکریسی پر عذاب نازل ہو چکا تھا۔ جنرل تنویر نقوی کو بیوروکریسی کی کمر توڑنے پر لگایا گیا۔ ایسے میں یہ فیصلہ کہ میں کالم لکھوں، سب کچھ کھول کھول کر بتاؤں، بہت مشکل تھا۔ لیکن ایک بار پھر میرے مالک نے حوصلہ عطا کیا۔ اس سے صرف ایک وعدہ کیا تھا جب تک لکھوں گا ہزار خوف و لالچ کے باوجود اللہ اور اس کے دھڑے کی طرف داری میں لکھوں گا۔ ان پندرہ سالوں میں مجھ پر کیا بیتی، یہ الگ کہانی ہے۔

لیکن جس کسی کو بھی اللہ کے قادر مطلق ہونے پر یقین نہیں وہ صرف میری نوکری کے یہ پندرہ سال دیکھ لے، کون کون تھا جو اقتدار کے اعلیٰ ترین مقام پر متمکن ہوئے اور میرے کالموں پر شدید خفا ہونے کے باوجود مجھے نوکری سے نہ نکال سکا۔ نوٹس، انکوائریاں چلتی رہیں، مردہ محکموں کی سربراہی ملتی رہی کہ تنگ آ جاؤں گا، لیکن میرا اللہ ان محکموں میں بھی جان ڈال دیتا تھا۔ یہ کہانی بہت طویل ہے لیکن اس کے ہر لمحے پر سجدہ شکر لازم ہے، ہر لمحہ یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ یہ صدر، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ تو کٹھ پتلیاں ہیں، اصل حاکم تو میرا اللہ ہے اور وہ میری کس شاندار طریقے سے حفاظت کرتا ہے۔ کوئی اعلان تو کرے کہ وہ اس کے دھڑے کا ہے، پھر اپنے دھڑے والوں کی نصرت وہ خود کرتا ہے۔

آج اکتیس سال اور تین ماہ بعد ایک حساب جاں سب کے سامنے رکھا ہے۔ میں نے آج تک سرکار کا کوئی پلاٹ حاصل نہیں کیا۔ میں نے یا میری کسی اولاد نے سرکار کے خزانے سے وظیفہ پر کوئی تعلیم حاصل نہیں کی۔ پورے پاکستان بلکہ دنیا بھر میں میرے پاس کوئی ذاتی گھر نہیں، بس ایک پلاٹ ہے جس پر ملنے والی پنشن سے گھر بنایا ہے، جی پی فنڈ پر سود نہیں لیا کہ اللہ کے سامنے پیش ہونے سے ڈرتا ہوں۔ آج مجھے تیس لاکھ کے قریب جی پی فنڈ کم ملے گا لیکن اللہ نے مجھے یہ خسارہ برداشت کرنے کی توفیق عطا کی ہے۔ کوئی ذاتی گاڑی نہیں ہے۔

البتہ اب پنشن کی رقم سے خرید لوں گا۔ لیکن دل بہت مطمئن ہے۔ پرسکون ہے، یہ سکون اور طمانیت اللہ کی دین ہے، عطا ہے،  فضل ہے، آپ سے درخواست ہے کہ آپ میرے لیے صرف ایک دعا کریں، وہ ایک ہی دعا ہے، حسن خاتمہ کی دعا، موت کے وقت نفس مطمئنہ کی دعا، درگزر، معافی اور مغفرت کی دعا کہ صرف میں خود ہی جانتا ہوں کہ میں کتنا گناہگار ہوں اور مجھے کتنی زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔