چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر

انتظار حسین  پير 18 جنوری 2016
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

اوکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے ’اردو ورثہ‘ کے عنوان سے شعروں کے انتخاب کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے۔ اردو کے نئے پرانے شاعروں کو پیش نظر رکھ کر ہر شاعر کے کلام سے ایک مختصر انتخاب کتابچہ کی صورت میں شائع کر رکھا ہے۔ ہر انتخاب 64 صفحوں پر مشتمل۔ قیمت 135 روپے۔ کتنے انتخاب محمد رضا کاظمی کی کاوش انتخاب کا حاصل ہیں لیکن لازم نہیں کہ سب انتخاب کوئی ایک صاحب ذوق ہی کرے۔

اس ذیل میں کچھ دوسرے اسمائے گرامی بھی نظر آتے ہیں۔ مثلاً پروفیسر معین الدین عقیل‘ فاطمہ حسن‘ رؤف پاریکھ‘۔ اس وقت جو کتابچے ہمارے پیش نظر ہیں‘ وہ تو انھیں صاحب نظر حضرات کے حسن انتخاب کا ثمر ہیں۔ ابتدا میں شاعر یا شاعرہ کا تعارف۔ تھوڑے حالات زندگی۔ تھوڑا ان کے شعری اوصاف کا تذکرہ۔ آگے ان کا منتخب کلام۔

اس وقت جو کتابچے ہمارے پیش نظر ہیں وہ یہ ہیں:

مومنؔ… ترتیب و انتخاب محمد رضا کاظمی
غالبؔ…ترتیب و انتخاب محمد رضا کاظمی ساحرؔلدھیانوی…ترتیب و انتخاب محمد رضاکاظمی‘

امیرؔ مینائی…ترتیب و انتخاب معین الدین عقیل
نادر کا کوروی…… ترتیب و انتخاب معین الدین عقیل

مجید لاہوری…ترتیب و انتخاب رؤف پاریکھ
پروین شاکر…ترتیب و انتخاب فاطمہ حسن

یہ سب شعرا مرحومین ہیں۔ مطلب یہ نکلا کہ جو شاعر ابھی بقید حیات ہیں وہ منتخبات کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔

لیجیے پہلے مومن کے انتخاب کلام پر نظر ڈالیے
اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا ذلیل
میں کوچہ رقیب میں بھی سر کے بل گیا
بت خانے سے نہ کعبے کو تکلیف دے مجھے
مومنؔ بس اب معاف کہ یاں جی بہل گیا
کعبہ سے جانب بت خانہ پھر آیا مومنؔ
کیا کرے جی نہ کسی طرح سے زنہار لگا
مومن دیندار نے کی بت پرستی اختیار
اک شیخِ وقت تھا سو وہ بھی برہمن ہو گیا
بت خانے کو کعبے سے چلے رشک کے مارے
مومن خضرِ راہ برہمن ہے ہمارا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا  جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
مومن یہ کیا کہا کہ ہے رسم ہنود اب
کا ہے کو لائیں گے وہ مری گور پر بسنت

اب غالبؔ کی باری ہے۔ یاں انتخاب مشکل کام ہے کہ کم و بیش پورا کلام ہی انتخاب ہے مگر پھر بھی  ؎

اب میں ہوں اور ماتم یک شہر آرزو
توڑا جو تونے آئینہ تمثال دار تھا
دلِ ہر قطرہ ہے ساز انالبحر
ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا
نہ تھا کچھ تو خدا تھا‘ کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے اُدھر ہوتا کاش کہ مکاں اپنا
لرزتا ہے مرا دل زحمت مہر درخشاں پر
میں ہوں وہ قطرہ شبنم کہ ہو خار بیاباں پر
غم ہستی کا اسدؔ کس سے ہو جُز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
ہوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ
سوائے حسرتِ تعمیر گھر میں خاک نہیں
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدؔ
عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
ہستی ہے نہ کچھ عدم ہے
آخر تو کیا ہے‘ ’اے نہیں ہے‘
رگ و پے میں جب اترے زہر غم تب دیکھئے کیا ہو
ابھی تو تلخیٔ کام و دہن کی آزمائش ہے
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے‘ کلیسا مرے اگے

مجید لاہوری کے تیر و نشتر ملاحظہ کیجیے  ؎

میلی سی اک رضائی  ٹوٹی سی چارپائی
لے جا سکے تو بھائی
یہ فیضِ عام لے جا
میرا سلام لے جا
ہر چیز کھو چکا ہوں
رفیوجی ہو چکا ہوں
یہ زندگی ہے میری
اور لالو کھیت میں اب
اک جھونپڑی ہے میری
کچھ ارمغاں نہیں ہے
جز پانداں نہیں ہے
تری ذات ہے سروری اکبری
مری بار کیوں دیر اتنی کری
تو اول تو مجھ کو وزیری دلا
وزیری نہیں تو سفیری دلا
سفیری نہیں تو مشیری دلا
’’کہ ہستم اسیرِ کمند ہوا‘‘۔
میں گنے کا رس ہوں تو فریاد اس
تو بیڑی کو چاہے لونڈر کرے
تو موٹر کلینر کو لیڈر کرے
میں مفلس ہوں تو مجھ کو زردار کر
جو زردار ہیں ان کو نادار کر
’کریما چچا‘ نے یہ مانگی دعا
تو بخشا نے آمین اس پر کہا
مجھ پہ بھی ہوں مرے خدا فضل و کرم کی بارشیں
یا مجھے مولوی بنا‘ یا مجھے تھانیدار کر
عدو سے بھی وعدے مجھے بھی دلاسے
میں حریان ہوں تو یہ کیا کر رہا ہے

امیرؔ مینائی کی ایک جھلک

قریب ہے یار‘ روزِ محشر چُھپے گا کُشتوں کا خون کیونکر
جو چپ رہے گی زبان خنجر‘ لہو پکارے گا آستیں کا
شبِ وصال بہت کم ہے آسماں سے کہو
کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا شبِ جدائی کا
امیرؔ صانع قدرت کا کھیل ہے دنیا
بنا بنا کے مٹائی ہیں صورتیں کیا کیا
امیرؔ جاتے ہو بت خانے کی زیارت کو
پڑے گا راہ میں کعبہ سلام کر لینا
عارض ترے اے گلبدن اک اِس طرف اک اُس طرف
گویا کِھلے ہیں دو چمن، اک اِس طرف اک اُس طرف
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے  زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
نہ گل ہیں نہ غنچنے نہ بوٹے نہ پتے  ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے
بنا کر دکھائے مرے درد دل نے  تہِ آسماں‘ آسماں کیسے کیسے
ہزاروں برس کی بُڑھیا یہ دنیا مگر تاکتی ہے جواں کیسے کیسے
وصل کا دن اور اتنا مختصر  دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔