کون بنے گا امریکی صدر؟ میدان پرسوں لگے گا

محمد اختر  اتوار 4 نومبر 2012
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

امریکی صدارتی الیکشن کا انعقاد پرسوں 6 نومبر کو ہورہا ہے۔

اب نتیجہ سامنے آنے والا ہے کہ تمام تر جائزوں ، تجزیات، سرویز اور پیشگوئیوں کے باوجود امریکی اقتدار کا ہما حقیقت میں کس کے سر پر بیٹھتا ہے۔ اس وقت امریکا کے موجودہ صدر بارک اوباما کاتعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے جو ،جیسا کہ نام سے ظاہر ہوتا ہے، امریکا کے اس طبقہ فکر کی نمائندگی کرتی ہے جس میں زیادہ تر روشن خیال، جمہوریت پسند اور لبرل سوچ کے حامل افراد شامل ہوتے ہیں جبکہ اوباما کے مدمقابل مٹ رومنی کاتعلق ری پبلکن پارٹی سے ہے جو کہ قدامت پسند عقابی (hawkish) سوچ رکھنے والے امریکیوں کی پارٹی سمجھی جاتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حقیقت میں یہ ان پارٹیوں کی پرانی بنیادیں ہیں اوراب ان پارٹیوں میں زیادہ فرق نہیں۔دونوں پارٹیاں سرمایہ داری نظام کی محافظ اور جمہوریت پسند ہیں اور بہت معمولی معاملات میں ان کے درمیان کوئی فرق پایا جاتا ہے جیسے ہم جنس پرستی کی شادیاں، اسقاط حمل کے قوانین اور امیگریشن کے قواعد و ضوابط میں سختی وغیرہ، جن میں ری پبلکن زیادہ سخت گیر رویہ رکھتے ہیں۔پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے مبصرین کی رائے کے مطابق اوباما یا رومنی میں سے کوئی بھی جیتے ، پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا تاہم کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ اوباما کی کامیابی کی صورت میں پاکستان کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوگا۔

ایک جنوبی ایشین تجزیہ کار فرینک فیر کے مطابق اوباما نے اپنے پہلے چار سال میں پاکستان کے لیے خاصی نرمی دکھائی لیکن اب ایسا نہیں ہوگا کیونکہ امریکی حکام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے۔بڑی تعداد میں مبصرین ان الیکشن میں سخت مقابلے کی پیشگوئی کررہے ہیں۔

تاہم رائے عامہ کے تازہ ترین جائزے کچھ اور کہتے ہیں جن کے مطابق تیسرے اور آخری مباحثے میں اوباما کی برتری اور دیگر کئی عوامل جیسے سیاہ فام اور ہسپانوی ووٹرز میں مقبولیت اور عالمی سطح پر مقبولیت کے باعث ان کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے۔مبصرین کے مطابق اوباما کی عالمی سطح پر زیادہ مقبولیت امریکی ووٹروں پر بھی بہرحال اثرانداز ہوگی۔ایک تازہ سروے کے مطابق چورانوے فیصد سیاہ فام ووٹر اوباما کے حامی ہیں۔کوئی پینیک یونیورسٹی کے جائزے کے مطابق اوباما کے دوبارہ صدر بننے کے زیادہ امکانات ہیں۔

تازہ ترین جائزے کے مطابق اوباما کو رومنی پر چار فیصد کی سبقت جبکہ خواتین ووٹرز میں انھیں رومنی پر اٹھارہ فیصد برتری حاصل ہے۔تاہم اوباما کے لیے خطرے کی گھنٹی یہ ہے کہ سفید فام ووٹروں میں ان کی مقبولیت میں کمی آئی ہے جو رومنی کی 53 فیصد سفید فام مقبولیت کے مقابلے میں 42 فیصد ہے۔ اوباما اور رومنی کے درمیان پہلے مرکزی مباحثے میں رومنی کی فتح کے بعد کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ آگے چل کر رومنی اوباما کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں لیکن دوسرے اور تیسرے مباحثے میں اوباما کی برتری کے بعد اب ان کی پوزیشن مضبوط دکھائی دیتی ہے تاہم کئی مبصرین کے مطابق اوباما اور رومنی میں سخت مقابلہ ہوگا۔بڑی تعداد میں عوام کی رائے کے مطابق اوباما اپنی پہلی مدت میں توقعات پر پورا نہیں اترسکے۔

این بی سی اور ڈبلیو ایس جے کے ایک سروے کے مطابق دونوں امیدواروں کے لیے قومی حمایت 47 فیصد ہے جبکہ رئیل کلیئر پولیٹکس کے سروے میں بھی دونوں کے درمیان سخت ترین مقابلے کی پیشگوئی کی جارہی ہے۔اگرچہ صدارتی الیکشن کے حوالے سے دس ’’فیصلہ کن‘‘ ریاستوں میں اوباما کو رومنی پر کچھ سبقت حاصل ہے جس کی وجہ سے الیکٹرل کالج (حلقہ انتخاب کنندگان) میں بھی وہ آگے نکل سکتے ہیں تاہم ان کے مدمقابل ری پبلکن امیدوار مٹ رومنی ان سے تھوڑا سا پیچھے ہیں۔

قارئین ، آپ کو ’’فیصلہ کن‘‘ ریاستوں کے بارے میں بتاتے چلیں کہ امریکی صدارتی الیکشنز کے رجحانات کے مطابق کئی امریکی ریاستوں کے بارے میں یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ ایک مخصوص جماعت کو ہی ووٹ دیں گی لیکن کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں کے لوگ کسی بھی پارٹی کو ووٹ دے سکتے ہیں لہذا ایک مرتبہ پھر صدارتی امیدواروں کا انحصار ان ریاستوں کے ووٹوں پر ہوگا جنہیں امریکی اصطلاح میں ’’سوئنگ سٹیٹس‘‘ (swing states) یا Key states یا اردو میں ’’فیصلہ کن‘‘ ریاستیںکہا جاتا ہے اور ان ریاستوں کی تعداد دس کے قریب ہے۔ یہی وہ ریاستیں جنہیں ’’الیکشن کا اصل میدان‘‘ بھی قرار دیا جاتا ہے ۔ان دس ریاستوں میں وسکونسن، ورجینیا، پنسلوینیا، اوہائیو ، شمالی کیرولینا، نیومیکسیکو، نیوہمپشائر، نواڈا، مینی سوٹا ، مشی گن، آئیوا ، فلوریڈا اور کولوریڈو شامل ہیں۔ ابتدائی انتخابی جائزوں کے مطابق الیکشن میں کانٹے دار مقابلے کی توقع ہے۔

لیکن اصل بات یہ ہے کہ آخری اطلاعات کے مطابق اوباما کو ان ریاستوں میں کسی حد تک برتری حاصل ہے جن کا ذکر اوپر کیا گیا جس کی وجہ سے ڈیموکریٹس کا حوصلہ بندھا ہوا ہے۔ان ریاستوں کے علاوہ معیشت کے مسائل اور ہسپانوی ووٹ بھی الیکشن کا نتیجہ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کریں گے۔یاد رہے کہ امریکا میں ہسپانوی باشندوں کی تعداد پانچ کروڑ ہے اور ہرسال ان میں پچاس ہزار نئے ووٹوں کا اضافہ ہوتا ہے۔اس کے علاوہ خارجہ پالیسی کے معاملات بھی ووٹروں کو متاثر کریں گے۔بہت سے لوگ اوباما کی خارجہ پالیسی سے خوش نہیں اس لیے وہ الیکشن پر اثرات مرتب کریں گے۔ لیبیا میں امریکی سفیر کرسٹوفر سٹیونز کے مظاہرین کے ہاتھوں قتل کے بعد اوباما کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔

ادھر اوہائیو میں بائیں بازو کا ادارہ سمجھے جانے والے بی پی پی نامی سروئیر ادارے کے مطابق ان سطور کی اشاعت تک گذشتہ دوہفتوں کے دوران اوہائیو ریاست میں صدر اوباما کی سبقت چار سے گھٹ کر ایک پوائنٹ رہ گئی تھی۔ یاد رہے کہ امریکی الیکشن میں اوہائیو ریاست انتہائی اہم سمجھی جاتی ہے اور یہاں پر کامیابی کامطلب مجموعی کامیابی سمجھاجاتا ہے۔تاہم اوباما کے سرکردہ منصوبہ ساز ڈیوڈ ایکسل راڈ نے اپنے ڈیموکریٹس حامیوں کی گھبراہٹ یہ کہہ کر دور کرنے کی کوشش کی کہ جو ووٹ پہلے ہی کاسٹ ہوچکے ہیں ان میں اوباما کو سبقت حاصل ہے۔ این بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈیوڈ ایکسل راڈ نے کہا کہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ فیصلہ کن ریاستوں میں ہم مخالف پارٹی سے آگے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اگر آپ ملک میں ہونے والی ابتدائی ووٹنگ کی طرف دیکھیں تو یہ بہت حد تک ہمارے حق میں ہے اور ہمارے خیال میں سرویز اور جائزوں کے مقابلے میں یہ بہتر انڈیکیٹر ہے۔

گذشتہ مہینوں میں کیے جانے والے سرویز اور جائزوں میں امریکی عوام کی اکثریت نے یقین ظاہر کیا تھاکہ صدر اوباما رومنی کے مقابلے میں درمیانے طبقے یا مڈل کلاس کے لیے زیادہ بہتر ہوں گے۔سروے میں چھیاسٹھ فیصد امریکیوں کا کہنا تھا کہ اگر رومنی ملک کے صدر بنے تو یہ امیروں کے فائدے میں ہوگا۔نسلی اور قومیتی اقلیتوں، نوجوانوں ، عورتوں اور سینئر شہریوں سے پوچھا گیا کہ کہ اقلیتوں کے لیے کون زیادہ مفید ہوگا تو اکثریت نے اوباما کے حق میں رائے دی۔

قارئین ،مبصرین کا کہنا ہے کہ چارسال قبل صدر اوباما کی فتح کی ایک بڑی وجہ نوجوانوں میں ان کی مقبولیت تھی تاہم اس بار ان کی ڈیموکریٹک پارٹی کو نوجوان ووٹروں میں جوش وجذبہ پیدا کرنے میں دشواری کا سامنا ہے جن عوامل نے نوجوانوں میں اوباما کی مقبولیت کو دھچکا لگایا ہے ان میں ملک کو درپیش اقتصادی مسائل سرفہرست ہیں کیونکہ امریکا میں تاحال غریبوں کے تناسب میں اضافہ ہورہا ہے۔گذشتہ سو اتین سال کے دوران امریکا میں بیروزگاری کی شرح آٹھ فیصد تک رہی ہے اور معیشت کو سوا آٹھ ارب کا نقصان ہوا۔ معیشت کی وجہ سے بیروزگاری بڑھی اور اب وہ لوگ بھی متاثر ہورہے ہیںجو ملازمت کررہے ہیں۔ اس لیے معیشت کا مسئلہ الیکشن میں اہم کردار ادا کرے گا۔

اس کے علاوہ اسلامی مخالف فلم نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ مذہبی رواداری کے حامل سیکولر غیرمسلموں میں بھی اوباما کی مقبولیت کو نقصان پہنچایا ہے تاہم اس تمام صورت حال کے باوجود مسلمان نوجوانوں میں ڈیموکریٹ اوباما رومنی سے زیادہ مقبول ہیں اور وہ اوباما کو ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کاکہنا ہے کہ اوباما کو اپنی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے ابھی مزید وقت ملنا چاہیے۔ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں اوراوباما حکومت کے درمیان بڑھتی ہوئی بداعتمادی پریشان کن ہے کیونکہ اسکا فائدہ آخرکار رومنی کو ہوگا۔

انھوں نے اوباما حکومت پر مسلمانوں سے تعلقات بہتر بنانے پر زور دیا۔ امریکی الیکشن میں مسلم ووٹ اگرچہ براہ راست اہم کردار ادا نہیں کرتے تاہم یہ مجموعی رائے عامہ ہموار کرنے میں بہت اہم ہوتے ہیں۔یاد رہے کہ حالیہ اسلام مخالف گستاخانہ فلم کی وجہ سے مسلم دنیا میں درجنوں لوگ ہلاک و زخمی ہوگئے اور بڑے پیمانے پر امریکا مخالف جذبات نے جنم لیا حتیٰ کہ لیبیا میں امریکی سفیر بھی مارا گیا تھا جس کو ری پبلکن پارٹی کے مٹی رومنی اور ان کے ساتھی ایک بڑا الیکشن ایشو بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔

تین مرکزی مباحثے اوران کے نتائج

امریکی الیکشن ڈے سے قبل دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان تین مرکزی مباحثے ہوتے ہیں جو براہ راست نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا میں ٹیلی کاسٹ کیے جاتے ہیں۔یہ مباحثے دونوں امیدواروں کی ریٹنگ طے کرنے کے علاوہ ووٹروں پر اثرانداز ہونے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ان مباحثوں میں دونوں امیدواروں کی کارکردگی دیکھ کر بڑی تعداد میں امریکی ووٹر یہ ذہن بناتے ہیں کہ انھیں کسے ووٹ دینا چاہیے بالخصوص ’’فیصلہ کن‘‘ دس ریاستوں میں تو یہ مباحثے بہت اثرانداز ہوتے ہیں۔

اوباما اور رومنی کے درمیان بدھ تین اکتوبر کو پہلا ٹی وی مباحثہ ڈینور شہر میں یونیورسٹی آف ڈینور میں ہوا جس میں ملک کی ڈومیسٹک پالیسیوں کو موضوع بنایا گیا۔مباحثے کے دوران مٹ رومنی نے اوباما کو تابڑ توڑ حملوں کانشانہ بنایا۔انھوں نے نہ صرف اوباما کی دہشت گردی کے خلاف پالیسی بلکہ خارجہ پالیسی اور معاشی پالیسیوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔اوباما نے رومنی کو نپے تلے انداز میں جواب دیا۔مٹ رومنی نے اوباما کی کارکردگی کو ناقص قرار دیا جبکہ اوباما نے اپنے مدمقابل کو وعدہ خلافی کامرتکب قرار دیا۔ اوباما کے بہترین دلائل اور نپے تلے جوابات کے باوجود پہلے مباحثے میںمبصرین نے رومنی کو فاتح قرار دیا۔

اوباما اور رومنی کے درمیان دوسرا مباحثہ منگل 16 اکتوبر کو نیویارک کی ہفسٹرا یونیورسٹی میں ہواجس میں مبصرین کے مطابق اوباما کا انداز جارحانہ رہا کیونکہ وہ پہلے مباحثے کا حساب برابر کرنا چاہتے تھے۔مباحثے میں شرکاء کا چناؤ اس معیار پر کیا گیا تھا کہ انھوں نے ابھی یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ وہ کس امیدوار کو ووٹ دیں گے۔ قومی معیشت، توانائی اور خارجہ اْمور پر ہونے والے دوسرے صدارتی مباحثے میں دونوں نے ایک دوسرے پر کڑی نکتہ چینی کی۔

رومنی نے اوباما پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اْنھوں نے گزشتہ چار سالوں میں بجٹ خسارہ دوگنا کر دیا ہے اپنے وعدے بھی پورے نہیں کیے۔ انھوں نے قرار دیا کہ ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں بے روزگاری کی شرح اب پانچ اعشاریہ چار فیصد ہو جائے گی جبکہ اس وقت نو لاکھ امریکی پہلے ہی بے روزگار ہیں۔ صدر اوباما کا انداز بھی انتہائی جارحانہ تھا اور جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انھوں نے اپنے اکثر وعدے پورے کیے ہیں، مگر جو پورے نہیں ہوئے اس کی وجہ ’’سعی کا فقدان‘‘ نہیں ۔انھوں نے کہا: ’’چار سال قبل میں نے وعدہ کیا تھا کہ میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کے لیے ٹیکسوں میں کٹوتی کروں گا۔ میں نے چھوٹے کاروباری طبقے پر بھی ٹیکسوں میں کٹوتی کا کہا تھا جو میں نے کیا۔

میں نے کہا تھا کہ میں عراق میں جنگ کا خاتمہ کروں گا اور میں نے کیا۔ میں نے کہا تھا کہ میں صرف اْن لوگوں پر توجہ مرکوز رکھوں گا جنہوں نے ہم پر نائن الیون کو حملہ کیا، اور ہم نے ماضی کے برعکس القاعدہ کی قیادت کا تعاقب کیا اور اْسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ کیا یہ کامیابی کم ہے۔علاوہ ازیں دونوں صدارتی امیدواروں نے مباحثے میں تارکین وطن، لیبیا میں امریکی قونصل خانے پر حملے سے متعلق اپنا اپنا موقف پیش کیا۔رومنی کا کہنا تھا کہ وہ غیر قانونی تارکین وطن کو استنثا نہیں دیں گے۔

انھوں نے قانونی طور پر امریکا آنے والوں کے لیے نظام کو بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسا طریقہ کار وضع کریں گے جس سے تارکین وطن کو یہاں آنے کے بعد قانونی مدد کی ضرورت پیش نہ آئے۔صدر اوباما نے جواب دیا کہ انھوں نے ملک میں قانونی طور پر آنے والوں کے لیے امیگریشن کے نظام کو بہتر کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کئے۔لیبیا میں امریکی قونصل خانے پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں سفیر اور تین دیگر سفارتی اہلکاروں کی ہلاکت پر رومنی نے صدر پر الزام لگایا کہ انھوں نے امریکی عوام کو یہ بتانے کے لیے کہ یہ دہشت گردوں کی کارروائی تھی، دو ہفتے لگا دیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ صدر نے اس حملے پر توجہ دینے کی بجائے اپنی انتخابی مہم جاری رکھی۔

اوباما نے کہا کہ انھوں نے بن غازی کے حملے کو اگلے ہی روز دہشت گردانہ کارروائی قرار دیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ان کی رائے میں حکومت کا کوئی بھی شخص اگر لیبیا کے معاملے پر سیاست کرے یا امریکی عوام کو گمراہ کرے تو یہ ناپسندیدہ اقدام ہے۔مبصرین نے اس مباحثے میں مجموعی طور پر اوباما کو برتر قرار دیا۔’ڈیلی بیسٹ‘ کے اینڈریو کا کہنا تھا کہ مباحثے میں صدر اوباما ہر اعتبار سے مِٹ رومنی پر چھائے رہے یعنی ٹھوس حقائق، انداز اور اسٹائل کے اعتبار سے اور متعدد تبصرہ نگاروں نے اِس سے اتفاق کیا۔ اِسی طرح، ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے تجزیہ نگار ایذرا کلائین کہتے ہیں کہ پہلے مباحثے میں مِٹ رومنی کی برتری کی حد میری توقعات سے زیادہ تھی۔ لیکن، دوسرے مباحثے میں مسٹر اوباما کی کامیابی تو متوقع تھی ہی،لیکن یہ کامیابی اِس سے بھی کہیں زیادہ تھی۔

اخبار کے سیاسی نامہ نگار جیف گرین فیلڈ کا کہنا تھا کہ اگر پہلے صدارتی مباحثے میں مسٹر اوباما کی کارکردگی اتنی ہی اچھی ہوتی تو اِس انتخاب کا فیصلہ جب ہی ہوگیا ہوتا۔’’فلاڈیلفیا انکوائرر‘‘ کہتا ہے کہ اِس مباحثے کے آغاز ہی سے صدر اوباما نے مسٹر رومنی کے کاروباری ریکارڈ کو ہدف ِ تنقید بنایا اور کہا کہ مسٹر رومنی کامنصوبہ پانچ نکاتی نہیں، بلکہ ایک نکاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ، معاشرے کے سب سے اوپری طبقے کے لیے خصوصی فوائد ہوں۔’نیو یارک ٹائمز ‘ نے دوسرے مباحثے میں صدر اوباما کی بہتر کارکردگی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ صدر نے بڑے مؤثر انداز میں اِس بات کی وضاحت کردی کہ اْنھوں نے کس طرح ملک میں اقتصادی نمو کے عمل کا دوبارہ آغاز کیا۔

دونوں امیدواروں کے درمیان تیسرا اور آخری مباحثہ 22 اکتوبر کو فلوریڈا ریاست کے شہر بوکاریٹن میں ہوا اور اس میں بھی مبصرین نے اوباما کو برتر قرار دیا۔ مباحثے میں ایران کے ایٹمی پروگرام ، شام میں خانہ جنگی ، دفاعی اخراجات ، چین، افغانستان اور پاکستان سمیت امریکی خارجہ پالیسی کے دیگر امور پر گرما گرم بحث ہوئی۔نوے منٹ کے اس مباحثے میں رومنی نے اوباما کی گذشتہ چار سالہ حکومت کے دوران پریشان کن واقعات کی نشاندہی کی جیسے شام میں تیس ہزار ہلاکتیں، لیبیا میں امریکی سفارت کاروں کی ہلاکت، ایران کی ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے میں کامیابی کی طرف پیش رفت شامل ہیں۔انھوں نے الزام لگایا کہ اوباما مسلم شدت پسندی پر قابو پانے میں ناکام ہوگئے۔

اوباما نے اس کے جواب میں کہا کہ انھوں نے عراق کے بجائے افغانستان پرتوجہ مرکوز کی اور القاعدہ کو منتشر کرنے کے علاوہ پاکستان میں اسامہ بن لادن کو ٹھکانے لگایا۔اس طرح افغانستان سے امریکی فوجیں نکالنے کی طرف پیش قدمی کی۔انھوں نے اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل پر حملہ ہوا تو امریکا اسرائیل کی مدد کرے گا۔دونوں امیدواروں نے اتقاق کیا کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے سے روکنا ہوگا۔بحث کے دوران رومنی نے اوباما کی جن خارجہ امور کی کمزوریوں کو نشانہ بنایا، اوباما نے ان کا دفاع کیا۔دونوں امیدواروں نے پاکستان پر ڈرون حملوں کی حمایت کی۔ بحث کے بعد دونوں کیمپوں کی طرف سے جیت کے دعوے کیے گئے تاہم مبصرین نے اس مقابلے میں بھی اوباما کو برتر قرار دیا۔امید کی جارہی ہے کہ اس مباحثے کے الیکشن پر، جو کہ پرسوں 6 نومبر کو ہورہے ہیں، اہم اثرات مرتب ہوں گے۔

انتخابی مہم میں جھوٹ اور بے شرمی کے نئے ریکارڈ

انتخابی مہم میں امیدواروں کا زور حقائق سے زیادہ اِس بات پر ہوتا ہے کہ اْن کے پیغام میں کتنی تاثیر ہے لیکن مبصرین کے مطابق اب انتخابی مہم چلانے والے وہ باتیں بھی علی الاعلان کہتے ہیں جن کے بارے میں پہلے وہ محض سوچتے تھے اورانھیں اپنے تک محدود رکھتے تھے۔ امریکا کے معتبر اخبار ’یو ایس اے ٹوڈے‘ نے اپنے اداریے میں لکھا کہ بالعموم یہ مہمیں دیانتداری کا نمونہ نہیں ہوتیں لیکن رواں سال تو انتخابی مہم میں جھوٹ ، بے شرمی اور غلط بیانی کے نئے ریکارڈ قائم کیے گئے۔اداریے میں کہا گیا کہ حقائق کو توڑنا مروڑنا تو ہے ہی بددیانتی لیکن جب ان سے اس پر سوال کیا جاتا ہے تو وہ جس ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ اور بھی مضحکہ خیز ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر مِٹ رومنی کے ایک اشتہار کے تجزیے سے اْس کے مفروضے کی غلطی پکڑی گئی تو ایک ریپبلکن رکن کانگریس پیٹر کنگ نے سی این این پر مؤقف اختیار کیا کہ ہمیں اس کی پرواہ نہیں کہ حقائق تلاش کرنے والے کیا دریافت کرتے ہیں۔ اوباما کی انتخابی مہم کے بارے میں بھی اداریے میں لکھا گیا ہے کہ وہ اتنے بھدے خطوط پر تو نہیں چلائی گئی تاہم البتہ اس کا وطیرہ بھی یہی ہے کہ حقائق کی کوئی پرواہ مت کرو۔ اخبار کے مطابق ،حقائق کی تفتیش صحافی کرتے ہیں لیکن اْن پر تعصب برتنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔غیر جانبدار ’پیو انسٹی ٹیوٹ ‘ کے صدر اینڈریو کوہوٹ کہتے ہیں کہ دانشمندی کی بات یہ ہوگی کہ مختلف جائزوں کے مجموعے پر توجہ مرکوز کی جائے اور رْجحان کا تعین کیا جائے۔

امریکا کے صدارتی الیکشن کا طریقہ کار

امریکی صدارتی انتخاب کئی مراحل میں ہوتے ہیں۔ابتدائی مرحلہ دونوں بڑی پارٹیوں یعنی ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے اپنے اپنے صدارتی اور نائب صدارتی امیدواروں کی نامزدگی ہوتی ہے۔اس کے لیے دونوں بڑی پارٹیوں کے ہر چار سال بعد اجلاس ہوتے ہیں جنہیں ’’ ری پبلکن قومی کنونشن‘‘ اور ’’ڈیموکریٹک قومی کنونشن ‘‘کہا جاتا ہے۔نامزدگی کے لیے پارٹی ارکان امیدواروں میں سے ایک امیدوار کو چنتے ہیں جو کہ صدارتی ا لیکشن میں پارٹی کا سرکاری امیدوار ہوتا ہے اور پارٹی کی جانب سے صدارتی الیکشن میں حصہ لیتا ہے۔

امریکی انتخابات میں نامزدگی کا عمل بشمول پرائمری الیکشن اور نامزدگی کنونشن آئین کے پابند نہیں بلکہ ان کو ریاستوں اور سیاسی جماعتوں نے خود ہی وضع کررکھا ہے۔یہ بھی بالواسطہ انتخابات کے ذریعے عمل پذیر ہوتے ہیں جس کے تحت ووٹرز متعلقہ سیاسی جماعت کے نامزدگی کنونشن میں ڈیلی گیٹس کا چنائو کرتے ہیں جو آگے چل کر اپنی پارٹی کے صدارتی امیدوار کو نامزد کرتے ہیں۔

امریکا کے صدر اور نائب صدر چار سال کی مدت کے لیے منتخب ہوتے ہیں لہذا ان کا انتخاب ہر چار سال بعد بالواسطہ یا ان ڈائریکٹ طریقے سے ہوتا ہے۔الیکشن ڈے کے موقع پر امریکی شہری پاپولر ووٹ کے ذریعے امریکی الیکٹرل کالج کے ارکان (حلقہ انتخاب کنندگان)کا چنائو کرتے ہیں اور پھر یہ ارکان براہ راست امریکی صدر اور نائب صدر کو چنتے ہیں۔نیا امریکی صدر اگلے سال بیس جنوری کو اقتدار سنبھالتا ہے۔صدارتی الیکشن کے ساتھ ہی دیگر وفاقی ، ریاستی اور مقامی انتخابات بھی ہوتے ہیں۔

انتخابی عمل وفاقی اور ریاستی قوانین کے مطابق چلتا ہے۔ہر ریاست کے لیے الیکٹرل کالج کے انتخاب کنندگان کی ایک تعداد مختص ہوتی ہے جبکہ واشنگٹن ڈی سی کو اتنے ہی انتخاب کنندگان الاٹ کیے جاتے ہیں جتنے کہ سب سے چھوٹی ریاست کے لیے مختص ہوتے ہیں۔ امریکی علاقہ جات کو الیکٹرل کالج میں کوئی نمائندگی نہیں دی جاتی۔امریکی کانگرس کے ایوان نمائندگان میں نشستوں کی کُل تعداد 435 جبکہ سینٹ میں 100 ہے جبکہ ڈی سی ایریا کی تین نشستیں ہیں۔ اس طرح یہ ٹوٹل 538 ہیں لہذا الیکٹرز یا حلقہ انتخاب کنندگان کی تعداد بھی 538 ہوتی ہے جو آگے چل کر صدر اورنائب صدر کا چنائو کرتے ہیں۔

امریکی آئین کے مطابق ہرریاستی قانون ساز کے لیے انتخاب کنندگان کو چننے کا مخصوص طریقہ ہوتا ہے چنانچہ الیکشن ڈے کے موقع پر براہ راست وفاقی حکومت کے بجائے مختلف ریاستوں کی جانب سے پاپولر ووٹ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔منتخب ہونے کے بعد الیکٹرز (انتخاب کنندگان) اپنی مرضی سے کسی بھی صدارتی اور نائب صدارتی امیدوار کو ووٹ دے سکتے ہیں لیکن وہ عام طور پر اپنی پارٹی کے نامزد کردہ امیدواروں کو ہی ووٹ دیتے ہیں جس کی تصدیق بعدازاں اوائل جنوری میں کانگرس کی جانب سے کی جاتی ہے جو انتخاب کنندگان کے لیے حتمی جج کا درجہ رکھتی ہے۔بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ الیکٹرز بے وفائی کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنی مخالف پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دیں۔

ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے رویوں میں فرق

مبصرین کے مطابق امریکا کی ری پبلکن پارٹی عقابی اور قدامت پسند نظریات رکھنے والے امریکیوں کی نمائندگی کرتی ہے اوران میں زیادہ مقبول سمجھی جاتی ہے اوراس پارٹی کا ریکارڈ رہا ہے کہ یہ جب بھی اقتدار میں آئی ، اس نے توسیع پسندانہ اور متشدد پالیسیوں کو آگے بڑھایا۔یہ پارٹی اسلام اور اسلامی دنیا کے لیے بھی سخت رویہ رکھتی ہے۔ زیادہ دور نہ جائیں تو اس کا اندازہ ریگن اور بش کے ادوار میں لگایا جاسکتا ہے۔ریگن نے ’’سٹار وار‘‘ جیسی توسیع پسند پالیسیاں مرتب کیں اور افغانستان میں امریکی جنگ کو آگے بڑھایا۔

وہاں پر انھوں نے سرمایہ داری نظام کے تحفظ کے لیے اسلامی جنگجوئوں کو استعمال کیا اور ان کی مدد سے افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دی لیکن بعدازاں امریکا کی کامیابی کے بعد انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا اوریوں یہ جنگجو پاکستان کے لیے درد سر بن گئے۔ ان کے بعد ری پبلکن پارٹی کے ہی جارج بش سینئر نے عراق پر حملہ کیا اور بمباری کرکے لاکھوں عراقیوں کی جان لے لی۔پھر ان کے بیٹے اور ری پبلکن پارٹی کے ہی جارج بش جونیئر نے 11ستمبر حملوں کی آڑ میں افغانستان اور عراق پر حملہ کیا۔ری پبلکن پارٹی کے ادوار میں پاکستان کے خلاف بھی سخت پالیسیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔

یہ ری پبلکن سینٹر لیری پریسلر ہی تھے جنہوں نے پاکستان کے خلاف ’’پریسلر ترمیم‘‘ کو سپانسر کیا جس کے تحت پاکستان کی معاشی اور فوجی امداد پر پابندی عائد کی گئی تھی جسے بعدازاں ڈیموکریٹک صدر بل کلنٹن نے بحال کیا۔اس طرح ان صدور سے بہت پہلے امریکی تاریخ کی بھیانک ترین ویت نام جنگ کا آغاز بھی اس دور میں ہوا جب ری پبلکن آئزن ہاور امریکا کے منصب صدارت پر فائز تھے۔ ری پبلکن پارٹی کو زیادہ پرو اسرائیل بھی کہا جاتاہے اور یہ علی الاعلان اسرائیل کی حمایت کرتی ہے۔ری پبلکن پارٹی اپنے عقابی اور قدامت پسند نظریات کے باعث ہمیشہ توسیع پسند ، متشدد اور انٹی اسلام ثابت ہوتی ہے۔

اس کے مقابلے میں ڈیموکریٹک پارٹی جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے زیادہ جمہوریت پسند، روادار اور آزاد خیال پارٹی ہے اور اس کے ادوار میں عالمی معاملات کو فوجی کے بجائے زیادہ تر جمہوری، سفارتی اور سیاسی طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ پارٹی پاکستان اوراسلام کے لیے اس طرح منفی رویہ نہیں رکھتی جو کہ ری پبلکن پارٹی کا دستور سمجھا جاتا ہے تاہم بعض اوقات اسے بھی امریکی اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر سخت گیر اور عالمی سطح پر ناپسندیدہ فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔مبصرین کے مطابق بظاہر جمہوریت پسند اور زیادہ لبرل ہونے کے باوجود ڈیموکریٹک پارٹی امریکی مفادات اور سرمایہ داری نظام کے تحفظ میں ری پبلکن پارٹی سے کم نہیں۔

رومنی صدر بنے تو امریکا عالمی معاملات میں مزید الجھے گا

اگرچہ کہا جارہا ہے کہ موجودہ الیکشن میں بارک اوباما کی پوزیشن مٹ رومنی سے مضبوط ہے لیکن سیاست میں کوئی بھی چیز حرف آخر نہیں۔دونوں کے درمیان فرق زیادہ نہیں اور بازی پلٹتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔ یہ امر بعیدازقیاس نہیں کہ کب اچانک امریکی ووٹروں کا موڈ بدل جائے اور ان پر قدامت پرست یا عقابی امریکی سوچ غالب آجائے یعنی وہ پاپولر ووٹ میں ری پبلکن پارٹی پر ٹھپہ لگا دیں۔

اسرائیل اور یہودیوں میں بہتر پوزیشن رکھنے کی وجہ سے کچھ بعید نہیں کہ اوباما کی جگہ امریکا کا اگلا صدر ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والا مٹ رومنی ہو جو جارج بش کے عقابی رجحانات کے مطابق پْرتشدد پالیسیوں کو آگے بڑھائے۔مٹ رومنی کے بارے میں ایک بات تو خاصے یقین کے ساتھ کہی جارہی ہے کہ وہ اوباما سے زیادہ پرو اسرائیل اور انٹی ایران ہوں گے۔رومنی کی خارجہ پالیسی کے یہی دو پہلو دنیا کے لیے خاصے ہنگامہ خیز ثابت ہوسکتے ہیں۔

اپنی مہم کے دوران وہ کئی بار ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کرچکے ہیں۔اسرائیل کے بارے میں ان کا واضح طورپر کہنا ہے کہ وہ اس کی حمایت میں اضافہ کریں گے۔کئی عرب ممالک میں حکومتوں کی پرتشدد تبدیلی اور عوامی انقلاب جسے مغربی دنیا نے ذومعنی انداز میں ’’عرب سپرنگ‘‘(بہار عرب) کا نام دیا، سے فائدہ اٹھانے کے حوالے سے ان کے خیالات دنیا سے ڈھکے چھپے نہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ مٹ رومنی جس طرح اوباما کی خارجہ پالیسی کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں اور جس طرح عراق سے فوج واپس بلانے اور مشرق وسطیٰ میں ’’بہار عرب‘‘ سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہنے کو وہ تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں ، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا کا صدر منتخب ہونے کی صورت میں وہ اس حوالے سے اگر یوٹرن نہیں تو بڑے پیمانے پر پالیسیوں میں تبدیلی ضرور لائیں گے۔ تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ مٹ رومنی محض ’’ری پبلکن عقاب‘‘ بننے کا دکھاوا کررہے ہیں اور حقیقت میں صدر بننے کے بعد ان کی خارجہ پالیسی اوباما سے زیادہ مختلف نہیں ہوگی۔

لیکسنگٹن میں ورجینیا ملٹری انسٹی ٹیوٹ میں خطاب کرتے ہوئے رومنی نے جس طرح اوباما کی خارجہ پالیسی اور عراق سے فوج واپس بلانے اور عرب سپرنگ سے خاطرخواہ فائدہ نہ اٹھانے کو تنقید کانشانہ بنایا ، اس کو مبصرین کی جانب سے خاصی اہمیت دی جارہی ہے۔مبصرین نے اس تقریر سے رومنی کی خارجہ پالیسی کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے قرار دیا کہ رومنی کے صدر بننے کی صورت میں امکان دکھائی دیتا ہے کہ امریکا عالمی معاملات میں مزید الجھے گا جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔مبصرین کے مطابق رومنی عرب اسرائیل معاملات ، عراق جنگ ، القاعدہ طالبان کے خلاف جنگ اور افغانستان کے معاملات میں اور زیادہ الجھنے کا رجحان رکھتے ہیں اور یہ رجحان کیا گل کھلائے گا ، اس بارے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

مٹ رومنی کا مختصر پروفائل

صدر اوباما کے مدمقابل صدارتی امیدوار مٹ رومنی کا پورا نام ولارڈ مٹ رومنی ہے۔ وہ 12مارچ 1947ء کو پیدا ہوئے۔ سیاست سے ان کا تعلق آبائی ہے اور ان کے والد مشی گن ریاست کے گورنر رہے۔مٹ رومنی نے سیاست میں آنے سے پہلے بزنس کا مزہ چکھا۔ بعدازاں وہ 2003ء سے2007ء تک میساچسٹس ریاست کے گورنر رہے۔ری پبلکن پارٹی نے خاصے ووٹوں سے انہیں 2012 ء کے الیکشن کے لیے اپنا صدارتی امیدوار بنایا۔ مٹ رومنی کے والدین کا نام لینور اور جارج ڈبلیو رومنی ہے۔ مٹ رومنی بلومزفیلڈ ہلز مشی گن میں پلے بڑھے۔ساٹھ کے عشرے میں مورمن مشنری کے طور پر انھوں نے اڑھائی سال کا عرصہ فرانس میں گذارا۔

1969ء میں ان کی این ڈیویز سے شادی ہوئی جن سے ان کے پانچ بچے ہیں۔1971ء میں انھوں نے برگہیم ینگ یونیورسٹی سے بی اے کیا اور 1975ء میں جیورس ڈاکٹر اور ایم بی اے کی مشترکہ ڈگری حاصل کی۔اس کے بعد انھوں نے بائن اینڈ کمپنی میں ملازمت کی اوراس کے سی ای او رہے۔ انھوں نے کمپنی کو مالی بحران سے نکالا۔

1984ء میں بائن کیپیٹل کے نام سے اپنی کمپنی قائم کی اور اسے کامیابیوں کی منزل پر لے جاتے ہوئے اسے ملک کی چند بڑی کمپنیوں میں سے ایک بنا دیا۔2012ء سے پہلے اپنی مختلف سیاسی مہموں میں انھوں نے اپنی کمپنی کا بہت سا پیسہ لگایا۔رومنی نے 2008ء میں بھی ری پبلکن پارٹی کی صدارتی نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش کی۔جون 2011ء میں انھوں نے دوبارہ ری پبلکن صدارتی نامزدگی حاصل کرنے کے لیے اپنے امیدوار ہونے کااعلان کیا اور مطلوبہ تعداد میں پرائمریز اور کاسس کو جیت کر اپنی امیدواری کو پکا کر لیا۔ 28اگست 2012ء میں پارٹی کنونشن میں ڈیلی گیٹس نے انہیں اپنا امیدوار بنانے کا باضابطہ اعلان کردیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔