وزیراعظم اور وزیرمنصوبہ بندی کو مبارکباد

تنویر قیصر شاہد  پير 18 جنوری 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

مَیں جب بھی ٹی وی کی مختلف اسکرینوں اور اخبارات پر وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی جناب احسن اقبال کو گفتگو کرتے ہوئے دیکھتا سنتا اور ان کے بیانات پڑھتا ہوں تو، یادش بخیر، بے اختیار محترمہ آپا نثار فاطمہ مرحومہ کی باپردہ اور باحجاب شخصیت آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتی ہے۔ اسلام اور اسلامی پاکستان کے لیے آپا نثار فاطمہ مرحومہ کے جذبات و خیالات اور ان کی خدمات ہمیشہ یاد رہیں گی۔ واقعہ یہ ہے کہ مرحومہ نے اپنے قول و فعل سے ثابت کیا کہ پردے اور حجاب میں بھی رہ کر سیاست کی جا سکتی ہے، قومی خدمات انجام دی جا سکتی ہیں اور اعتماد کے زیور سے آراستہ ہو کر ملک کے طول و عرض کے دورے بھی کیے جا سکتے ہیں۔

جناب احسن اقبال انھی آپا نثار فاطمہ کے بلند اقبال صاحبزادے ہیں لیکن یہ اقبال اُنہیں گھر بیٹھے بٹھائے اور محض سفارش پر حاصل نہیں ہُوا۔ آج وہ جس مقام پر کھڑے ہیں، اس میں یقینا انھیں جناب نواز شریف کی بھرپور اعانت حاصل رہی ہے لیکن یہ ماننا اور تسلیم کرنا پڑے گا کہ چوہدری احسن اقبال نے اپنے قائد نواز شریف کا اعتبار اور اعتماد حاصل کرنے کے لیے پہلے تو اپنی اعلیٰ تعلیمی قابلیت کا لوہا منوایا،  پھر پارٹی کے ساتھ کمٹمنٹ کا مسلسل مظاہرہ کیا اور مشرف آمریت کے پُر آزما ایام کے دوران میاں صاحب سے کامل وفاداری بھی نبھائی۔ غیر متزلزل طور پر۔ ان تینوں عناصر میں ایک چوتھا عنصر بھی کارفرما ہے اور وہ یہ ہے کہ احسن اقبال کے بارے میں ابھی تک کوئی ثابت نہیں کر سکا کہ وہ مالی یا اخلاقی لحاظ سے کرپٹ ہیں۔

وزیر اعظم جناب نواز شریف نے احسن اقبال کو پلاننگ کمیشن ایسے اہم ترین اور حساس سرکاری شعبے کی سربراہی سونپی تو یقینا فیاضی کا یہ مظاہرہ آنکھیں بند کر کے نہیں کیا گیا تھا۔ انجینئرنگ و اقتصادیات میں ان کی اعلیٰ ڈگریاں، عملی و انتخابی سیاست میں کامیابیاں اور نواز شریف کی گزشتہ دونوں حکومتوں کے دوران ان کا وزارتی تجربہ انھیں نواز شریف اور شہباز شریف کے نہایت قریبی معتمدین کی صف میں شامل کرنے کا باعث بنا تھا۔ اب پارٹی کے اندر ہی سے ان لوگوں کے بیانات آنے رک سے گئے ہیں جنہوں نے احسن اقبال پر طنز کرتے ہوئے کبھی کہا تھا کہ یہ صاحب اگر شاہجہاں کے دَور میں ہوتے تو کبھی بھی تاج محل نہ بن سکتا تھا۔

مَیں نے احسن اقبال صاحب سے پوچھا: آپ شاہ جہاں کے دور میں ہوتے تو کیا واقعی اپنی جُز رسی کے باعث تاج محل نہ بننے دیتے؟ سن کر زور سے ہنسے اور پھر یہ کہا: ’’ہاں مَیں واقعی تاج محل نہ بننے دیتا۔ میں بادشاہ کو بہتر مشورہ دیتا اور ایسا پراجیکٹ بناتا جو کم لاگت بھی ہوتا اور اس سے لاکھوں غریب لوگ برسوں تک فوائد حاصل کرتے رہتے۔ شاہ جہاں کی بیوی بچہ جنم دیتے ہوئے فوت ہو گئیں تو بادشاہ نے اس کی یاد میں بیش قیمت پتھروں سے مقبرہ کھڑا کر دیا۔ اور اسی زمانے میں سوئیڈن کے بادشاہ کی بیگم صاحبہ کے ساتھ بھی یہی سانحہ ہوا لیکن سویڈش بادشاہ نے قیمتی پتھروں سے کوئی مقبرہ استوار نہ کیا بلکہ اپنی ملکہ کی یاد میں اپنے پورے ملک میں ایسا شاندار میڈیکل سسٹم متعارف کروایا تا کہ ڈلیوری کے وقت خواتین کم سے کم موت کے منہ میں جا سکیں۔ یہ نظام آج بھی اپنی پوری جدّت اور صحت کے ساتھ کارفرما ہے اور لاکھوں خواتین کے لیے حیاتِ نَو کا باعث بن رہا ہے۔‘‘

سچی بات یہ ہے کہ جناب احسن اقبال کی یہ بات سن کر میری تو روح جھوم اٹھی۔ عوام کی خدمت کرنے کا جذبہ ہو تو ایسا ہو۔ یہ کالم لکھنے سے پہلے بھی مَیں نے احسن اقبال صاحب کو فون کیا۔ علی الصبح تقریباً سبھی اردو اخبارات میں ایک تصویر دیکھی۔ فوٹو میں وزیر اعظم نواز شریف کُل جماعتی کانفرنس کی صدارت کرتے ہوئے یوں نظر آ رہے ہیں کہ ان کے بالکل دائیں طرف مولانا فضل الرحمن تشریف فرما ہیں تو بالکل بائیں طرف جناب حاصل بزنجو فروکش ہیں۔ سامنے اختر مینگل بیٹھے ہیں اور پرویز خٹک بھی۔ امیرِ جماعت اسلامی بھی اپنی مشہور ٹوپی میں نمایاں ہیں۔ گویا اس مجلس میں چاروں صوبوں کی ہر وہ اہم شخصیت موجود ہے جس کا ’’چین پاکستان اکنامک کوریڈور‘‘ (سی پیک) کے حوالے سے کوئی نہ کوئی تعلق ہے۔

احسن اقبال صاحب بھی وزیر اعظم صاحب کے بائیں جانب والی صف میں پانچویں نمبر پر بیٹھے نظر آ رہے ہیں۔ میڈیا نے اس تاریخی تصویر کے ساتھ قوم کو یہ خوشخبری دی ہے کہ وزیر اعظم صاحب نے چاروں صوبوں کو ’’سی پیک‘‘ کے حوالے سے پوری طرح مطمئن کر دیا ہے اور جتنے بھی اعتراضات و سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں، سب کا اطمینان بخش جواب دے دیا ہے۔ سب سے زیادہ اعتراضات جناب اخیر مینگل، محترم پرویز خٹک، مکرم سراج الحق اور حضرت مولانا فضل الرحمن کی طرف سے اٹھائے گئے تھے۔

یوں کہ اسلام آباد میں چینی سفارتخانے کو بھی، سی پیک کے حوالے سے تنازعاتی بُو محسوس کرتے ہوئے، بیان دینا پڑ گیا۔ اب نواز شریف کی درمیان داری اور مدبرانہ کردار کے بعد فریقینِ مخالف کی طرف جو خاموشی چھائی ہوئی ہے، اس سے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم کے جواب سے سب معترضین مطمئن ہو چکے ہیں، خدشات کے بادل چھَٹ گئے ہیں اور اب چینی سرمایہ کاری کے 46 ارب ڈالروں سے پورا پاکستان یکساں طور پر مستفید ہو سکے گا۔

اسی تاثر کے تحت مَیں نے وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال کو فون کرتے ہوئے کہا: ’’جناب والا، کیا اب پورے اطمینانِ قلب کے ساتھ آپ کو مبارکباد دی جا سکتی ہے کہ سارے تنازعات ختم ہو چکے؟ اور آپ کی شب و روز کی محنتیں اور کراچی، پشاور اور کوئٹہ کی بھاگ دوڑ آخر کار رنگ لے آئی ہیں؟‘‘ کہنے لگے لاریب وسیع منظر میں اتفاقِ رائے پیدا کرنے کا کریڈٹ تو جناب وزیر اعظم ہی کو جاتا ہے، وہ بڑے دنوں سے خاموش تھے اور حالات کا گہرائیوں سے جائزہ لے رہے تھے۔ چین نے بھی سی پیک (CPEC) کے حوالے سے اپنی ملفوف تشویش کا اظہار کیا تو وزیر اعظم صاحب نے فوری طور پر اے پی سی کا انعقاد کیا اور سنجیدگی و شائستگی سے متنازعہ ہوتی فضا کو ہم آہنگی اور اتفاق کی شکل میں ڈھال دیا۔

احسن اقبال صاحب کسرِ نفسی سے کام لے رہے تھے یا واقعی معنوں میں ایسا ہی ہے، یہ تو ہم نہیں جانتے لیکن پیدا ہونے والے واقعات کی موجودگی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اتفاق و اعتماد کی اس کامیابی کا سہرا یکساں طور پر نواز شریف اور احسن اقبال کے سر بندھتا ہے۔ وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی نے بڑی ہی متانت، محنت، اخلاص، قومی خدمت کے جذبے کے تحت اور پاکستان کی آنے والی نسلوں کا معاشی مستقبل روشن اور محفوظ بنانے کے لیے جو قابلِ تحسین کردار ادا کیا ہے، اسے فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ ان کی کامیابی دراصل ان پاکستان دشمن قوتوں کی بھی شکست ہے جو پاکستان میں امن دیکھنا چاہتی ہیں نہ وطنِ عزیز میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو پنپتے ہوئے دیکھ سکتی ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری پر تمام پارٹیوں کے تازہ کامل اتفاق کا ایک واضح پیغام یہ ہے کہ اب یہ قافلہ پوری یکسوئی کے ساتھ منزلِ مقصود کی طرف بڑھتا رہے گا اور کامیابی سے ہمکنار ہو گا۔ انشاء اللہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔