گرین مائل کے مسافر

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 20 جنوری 2016

ایک شخص جب ایک صبح سو کر اٹھتا ہے، تو اسے احساس ہو تا ہے کہ اس کے چاروں طرف ناکامی منہ پھاڑے ہنس رہی ہے، اس کا ہر کام اس کی توقع اور خواہش کے خلاف ہو چکا ہے، ہر شخص اس کا دشمن بن چکا ہے، دوست احباب، رشتے دار، اس کے ساتھ کام کرنے والے سب کے سب اس سے ناراض ہو گئے ہیں، تو اس کا ذہن ایک دم کام کرنا بند کر دیتا ہے، اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا یہ سب کچھ اچانک کیا ہو گیا ہے، کیوں ہوگیا ہے۔

اس کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں، دل کی دھڑکنیں تیز ہو چکی ہوتی ہیں۔ اسے ایسا لگتا ہے کہ اس کا سانس رک رہا ہے اور وہ زور زور سے سانس لینا شروع کر دیتا ہے، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ اس کے ساتھ ایک ہی رات میں ہو گیا ہے کیا ایک ہی رات میں اس کی زندگی کی ساری چیزیں الٹ پلٹ کے ہو کے رہ گئی ہیں کیا رات نے ایک ہی رات میں اپنا کھیل کھیل دیا ہے۔ نہیں بالکل نہیں یہ سب کچھ ایک ہی رات میں نہیں ہوا ہے اور نہ ہی رات نے ایک ہی رات میں کوئی کھیل کھیلا ہے بلکہ یہ سب کچھ اس کے کیے گئے ان لاتعداد چھوٹے اور بڑے فیصلوں کا نتیجہ ہے جو وہ اپنی زندگی میں اپنے لیے کرتا آیا ہے۔

یاد رکھیں پریشانی اور ناکامی کا دنیا میں کوئی بھی وجود نہیں ہے یہ دراصل ہمارے چھوٹے اور بڑے فیصلوں کا نتیجہ ہوتی ہیں، ہم اپنی دانست میں چھوٹے اور برے فیصلے کرتے وقت بڑی ہی ہوشیاری اور دانشمندی دکھاتے ہیں لیکن اصل میں وہ تمام کے تمام فیصلے ہمارے رقیب ثابت ہوتے ہیں اور وہ ہمیں مل کر ایسی بند گلی میں لے جاتے ہیں، جہاں سے نکلنا ناممکن ہو جاتا ہے اور پھر ہم ہوتے ہیں اور وہ بند گلی ہوتی ہے اور بند گلی بھی وہ جو اندھے کنویں کی طرح اندھیری ہوتی ہے اور ہم بند گلی میں اکڑوں بیٹھے ساری دنیا کو کوس رہے ہوتے ہیں آج ہم سب کی یہ ہی حالت ہو کے رہ گئی ہے۔

آج ہم سماجی، معاشی، سیاسی، داخلی و خارجی سطح پر مکمل ناکامی سے دوچار ہو چکے ہیں ،اسٹیفن ہاکنگ بریف ’’ہسٹری آف ٹائم‘‘ میں لکھتا ہے، وہ رات سب پر بھاری گزرتی تھی، کال کوٹھڑیوں میں ویسے ہی یاسیت منڈ لاتی رہتی تھی اور سزائے مو ت یافتہ قیدیوں کے ستے ہوئے چہرے گھمبیرتا میں مزید اضافہ کر دیتے تھے لیکن وہ رات خدا کی پناہ سانسوں میں پھندے لگا دیتی تھی اور وقت کراہتا ہوا گزرتا۔ صبح یوں لگتا تھا جیسے سب قیدیوں کو اجتماعی پھانسی دے دی گئی ہو وہ رات مردے کی واک کی رات ہوا کرتی تھی۔

اس رات صرف قیدی ہی نہیں جیلر اور سپاہی بھی قابل رحم حالت میں نظر آتے۔ واحد شخص جس کا چہر ہ سپاٹ نظر آتا تھا الیکٹرک چیئر پر بیٹھنے والا سزائے موت کا مستحق وہ قیدی ہوا کرتا تھا جس کے لیے سارا کھیل رچایا جاتا تھا وگرنہ سب کے قدم ڈگمگا تے تھے اور آنکھوں میں دھند لہراتی تھی ’’ڈیڈمین واکنگ ۔ ڈیڈ مین واکنگ۔ مردہ آ رہا ہے مر دہ آ رہا ہے‘‘ ایک سپاہی کال کوٹھڑی کی سلاخوں سے چھڑی ٹکراتے ہوئے آواز لگاتا اور جیلر سزائے موت یافتہ قیدی کو لیے پتھریلے چہرے کے ساتھ کال کوٹھڑی سے لے کر الیکٹرک چیئر تک سفر طے کرتا، چند سو قدموں کا یہ سفر ’’ گرین مائل‘‘ کہلاتا ہے ایسا سفر جو فاصلوں میں لمحوں اور اذیت میں صدیوں پر محیط ہو جاتا ہے اور ہر روز دنیا کے کتنے ہی قید خانوں میں طے کیا جاتا ہے۔

’’گرین مائل‘‘ ایک دن جیلر نے آنکھیں بند کرتے اور پیشانی مسلتے ہوئے کہا سچ تو یہ ہے کہ سبز میل کا سفر صرف وہ قیدی ہی طے نہیں کرتا، جسے سزائے موت دی جانی ہوتی ہے بلکہ ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے گرین مائل کا سفر طے کرتا ہے۔

زندگی کے آغاز سے لے کرہم قدم بہ قدم لمحہ بہ لمحہ اپنے انجام کی طرف بڑھتے ہیں، ہمارا گرین مائل چاہے 7 منٹ کا ہو یا 70 سال کا آخر موت پر ہی ختم ہو جانا ہے۔ مختصر لفظوں میں یہ ہی وقت کی کہانی ہے۔ آج ہم سب گرین مائل کے مسافر بن کے رہ گئے ہیں، اپنے اپنے قید خانوں کے وہ قید ی جو اپنے فیصلوں کی سزا کاٹ رہے ہیں، اس امید پر کہ شاید کبھی رہائی مل جائے یہ امید بھی اس لیے بے کار ہے کیونکہ ہماری امید بھی گرین مائل کی ہی مسافر ہے۔ کچھ بیماریاں لاعلاج ہوتی ہیں۔

اسی طرح کچھ لوگ بھی لاعلاج ہوتے ہیں، وہ اس لیے لاعلاج ہوتے ہیں کیونکہ ان کے فیصلے لاعلاج ہوتے ہیں ان کے فیصلے اس لیے لاعلاج ہوتے ہیں کیونکہ ان کی سو چ لاعلاج ہوتی ہے اس کا یہ مطلب ہوا کہ کوئی بھی چیز لاعلاج نہیں ہوتی۔ اس وقت تک کہ جب تک سو چ لاعلاج نہیں ہو گی۔ یعنی آپ اگر صرف اپنی سو چ کا علاج کر لیں تو پھر دنیا کی کوئی چیز بھی لاعلاج نہیں رہتی۔ آپ صرف اپنی سو چ تبدیل کر کے اپنے ارد گرد کی ہر چیز کو تبدیل کر سکتے ہیں، حتیٰ کہ آپ گرین مائل کے راستے کو بھی تبدیل کر سکتے ہیں۔

یاد رکھیں! ناکامی کا دنیا میں کوئی بھی وجود نہیں ہے آپ کو صرف ناکامی سے نپٹنے کا فن سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے یہ ہی بات دنیا کے عظیم ترین موجد ایڈیسن کی سمجھ میں آ گئی تھی۔ ایڈیسن نے بلب ایجاد کرنے کے لیے نو ہزار نو سو ننانے تجربات کیے تھے، جب وہ اپنا دس ہزارواں تجربہ کرنے لگا تو اس کے اسسٹنٹ نے سوجی ہوئی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا اور ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولا ’’سر اب کوئی امید نہیں ہے ہم اپنی تمام کوششیں کر چکے ہیں، ہم ناکام ہو چکے ہیں‘‘ ’’نہیں نہیں تم غلط سمجھے ہو‘‘ سن ہوتے ہوئے اعصاب کے باوجود ایڈیسن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی ہم ناکا م نہیں ہوئے ہمیں بلب نہ بنانے کے 9999 طریقے معلوم ہو چکے ہیں گویا ہمیں پتہ چل چکا ہے۔

ان طریقوں پر عمل کر نے سے بلب نہیں بن سکتا اگلی مرتبہ میں کوئی نیا طریقہ دریافت کر کے بلب بنانا ہو گا اگلے تجربے پر ایڈیسن بلب ایجاد کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ بالکل ایڈیسن کی طرح ہمیں بھی یہ معلوم ہو چکا ہے کہ زندگی گزارنے کے موجودہ 9999 طریقے سب کے سب ہمیں گرین مائل کی طرف لے جا رہے ہیں لیکن دس ہزارواں طریقہ وہ ہے جو ہمیں لازماًکامیابی، خوشحالی، ترقی، خوشیوں اور زندگی کی جانب لے جائے گا اور وہ طریقہ ہے ہماری موجود ہ سو چ کی تبدیلی کا۔ جسے تبدیل کر کے ہمارا شمار دنیا کے کامیاب ترین انسانوں میں ہونے لگے گا اور خوشیاں، مسرتیں، کامیابی، ترقی، خوشحالی ہمارے آنگنوں میں کھیل رہی ہونگی اور دنیا ہماری مثال دے رہی ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔