نئے صوبوں کے مطالبات

محمد سعید آرائیں  بدھ 20 جنوری 2016

پیپلز پارٹی کے کراچی سے تعلق رکھنے والے مرکزی رہنما اور سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے کیے گئے، 20 صوبوں کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے موجودہ حالات کو نئے صوبوں کے قیام کے لیے ناموافق قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ متحدہ کی طرف سے قومی اسمبلی میں بیس صوبوں کے قیام کی تجویز کی حمایت نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ ناقابل عمل ہے جس سے مزید انتشار پھیل سکتا ہے۔

پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے پنجاب کو تقسیم کر کے سرائیکی بیلٹ کے علاقے کو جنوبی پنجاب صوبے کا نام دے کر جنوبی پنجاب صوبے کی حمایت میں بڑی تقریریں کی تھیں اور جنوبی پنجاب کے عوام کو امید ہو چلی تھی کہ پی پی کی وفاقی حکومت جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے میں مخلص ہے۔

جنوبی پنجاب کو 2008ء کے عام انتخابات میں نمایاں کامیابی ملی تھی اور سرائیکی علاقے میں پی پی کو مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں زیادہ عوامی حمایت حاصل تھی مگر جنوبی پنجاب کو نیا صوبہ بنانے کی تحریک کامیاب نہ ہو سکی کیونکہ پیپلز پارٹی خود مخلص نہیں تھی اور یہ بات صرف سیاسی فائدے کے لیے بلند کی گئی تھی، کیوں کہ سابق وزیر اعظم کو پتہ تھا کہ پنجاب اسمبلی کی اکثریتی قرارداد کی منظوری کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔

جنوبی پنجاب صوبے کی بڑھتی حمایت اور تخت لاہور کی بڑھتی ہوئی مخالفت اور پیپلز پارٹی کے اس سیاسی مطالبے کو ناکام بنانے کے لیے (ن) کی پنجاب حکومت نے اپنی اسمبلی میں یہ تجویز منظور کرائی کہ جنوبی پنجاب کے صوبے کے ساتھ ساتھ بہاولپور کی سابق ریاست کو بھی صوبے کا درجہ دیا جائے۔ اس تجویز کے بعد 2013ء میں جو عام انتخابات ہوئے ان میں پیپلز پارٹی کو جنوبی پنجاب صوبے کے مطالبے کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہوا اور اپنی پرانی نشستیں بھی نہ بچا سکی اور باقی پنجاب میں سخت ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور صرف اندرون سندھ میں ہی اکثریت حاصل کر سکی اور کراچی کے اپنے ہی علاقوں میں بھی اپنی نشستیں نہ بچا سکی اور اس کی جگہ مسلم لیگ (ن) نے کچھ کامیابی ضرور حاصل کر لی۔

پی پی دور میں صوبہ سرحد کو جب خیبر پختونخوا کا نام دیا گیا، تو اے این پی کی صوبائی حکومت نے اس کا کریڈٹ لینا چاہا حالانکہ مسلم لیگ (ن) بھی اس فیصلے میں شامل تھی، جس کی وجہ سے ہزارہ ڈویژن جو کبھی (ن) لیگ کا حامی تھا، خیبر پختون خوا کے نئے نام پر ناراض ہو گیا اور ہزارہ ڈویژن کو صوبہ بنانے کی تحریک شروع کر دی جس کا نقصان مسلم لیگ (ن) کو 2013ء کے الیکشن میں ہوا اور بعد میں ہزارہ اور جنوبی پنجاب کو صوبے بنانے کی تحریکیں ختم تو نہیں ہوئیں مگر کم ضرور ہو گئی ہیں جو کسی وقت پھر سرگرم ہو سکتی ہیں۔

فاٹا کو صوبہ بنانے یا کے پی کے میں شامل کرنے کے مطالبے شروع ہو گئے ہیں، جب کہ سندھ میں ایم کیو ایم نے چند سال قبل سندھ کو دو صوبوں میں تقسیم کرنے کا جو مطالبہ شروع کیا تھا، اس کی سندھ میں خاص طور پر بھرپور مخالفت ہوئی۔ متحدہ قومی ٹھہر ٹھہر کر یہ مطالبہ دہراتی ہے کبھی سندھ ’’ون‘‘ اور کبھی سندھ ’’ٹو‘‘ کی باتیں ہوتی ہیں اور کراچی کے متحدہ کے حامی مخصوص حلقوں کی طرف سے کبھی کراچی صوبے اور کبھی مہاجر صوبے کی بات ہوتی ہے اور اب متحدہ نے ملک میں ریفرنڈم کے ذریعے ملک میں بیس صوبے یا انتظامی یونٹ بنانے کا مطالبہ قومی اسمبلی تک پہنچایا ہے۔

ظاہر ہے کہ متحدہ کے سوا کوئی اور پارٹی اس کی حمایت نہیں کرے گی مگر متحدہ کی طرف سے سندھ کی تقسیم کا مطالبہ مستقبل میں بھی سامنے آتا رہے گا۔بلوچستان سے بھی کبھی کبھی پختون اور بلوچ علاقوں پر مشتمل دو صوبوں کا مطالبہ سامنے آتا ہے مگر کوئی بھی قومی یا قوم پرست پارٹی اس کی حمایت نہیں کر رہی اور بلوچستان میں کی جانے والی مبینہ زیادتیوں کے باعث آزاد بلوچستان کے نعرے بھی بلند ہو رہے ہیں کسی بھی ملک میں صوبوں کا قیام انتظامی طور پر عمل میں آتا ہے ، کبھی زیادتیوں اور ناانصافیوں کے خلاف علیحدہ صوبے کا مطالبہ ہوتا ہے اور ایسے مطالبات کی اہم وجوہات ضرور ہوتی ہیں۔

افغانستان جیسے چھوٹے ملک سے دوسری بڑی آبادی کے ملک بھارت تک میں بھی دیگر ملکوں کی طرح نئے صوبوں کا قیام عمل میں آیا ہے اور ضرورت کے مطابق نئے صوبے بن رہے ہیں مگر پاکستان میں ایسے مطالبے جرم، غداری، گناہ اور ملک دشمنی بنا دیے گئے ہیں اور خاص کر سندھ کی تقسیم کی شدید مخالفت سامنے آتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھی بولنے والا کوئی ایک شخص بھی سندھ کی تقسیم چاہنا تو دور کی بات سننا بھی برداشت نہیں کریگا۔

سندھ کی تقسیم کی اے این پی بھی مخالف ہے اور جے یو آئی (ف) بھی جو سندھ میں اے این پی سے زیادہ سیاسی اثر رکھتی ہے۔کراچی میں اردو، سندھی، پشتو اور پنجابی بولنے والے لاکھوں کی تعداد میں ہیں اور بلوچ بھی بہت پرانے آباد ہیں۔ سندھ میں اور خاص کر پیپلزپارٹی میں کبھی نہیں سوچا گیا کہ متحدہ سندھ کی تقسیم کے مطالبے کیوں کرنے لگی ہے، یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر پیپلز پارٹی کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اندرون سندھ پی پی کی حکومتوں میں ہی لسانی فسادات ہوئے جو سابق وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے دور میں ہوئے تھے۔

جب کہ سابق صدر آصف علی زرداری کی حکومت کے 5 سالوں میں سندھ میں نہ کبھی لسانی فساد ہوا اور نہ کبھی پی پی کی صوبائی حکومتوں کے علاوہ غوث علی شاہ، جام صادق علی، مظفر شاہ، لیاقت جتوئی اور ارباب غلام رحیم کے دور میں لسانی فساد ہوا نہ سندھ کی تقسیم کے مطالبے ہوئے حالانکہ ان سب کا تعلق اندرون سندھ سے تھا مگر وہ سب کراچی کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی پر عمل پیرا تھے مگر پی پی کی صوبائی حکومتوں کی غلط پالیسیوں، دوہرے کردار اور لسانی سیاست کے باعث سندھ کی تقسیم کے مطالبے ہونے لگتے ہیں اور پی پی کی سندھ حکومت کراچی اور حیدرآباد میں غلط تقرریاں اور لسانی بنیاد پر جو فیصلے کرتی ہے، اس سے تعصب پھیلتا ہے اور سندھ میں مستقل آباد لوگوں میں دوریاں پیدا ہو رہی ہیں، غالباً 1987ء میں سابق فوجی صدر جنرل ضیا الحق ملک کے 18 ڈویژنوں کو صوبوں کا درجہ دینا چاہتے تھے۔

جس پر اس وقت کے شکارپور ضلع سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر غوث بخش مہر نے راقم کو کراچی سے شکار پور فون کر کے کہا تھا کہ میں ان کا بیان ایک بڑے اخبار میں رپورٹ کروں کہ 18 نہیں 14 صوبے بنائے جانے چاہئیں۔نئے صوبوں کے مطالبات نہ گناہ ہے نہ جرم مگر یہ متعلقہ صوبوں کی اسمبلیوں کی منظوری سے مشروط ہے مگر موجودہ کوئی اسمبلی ایسا نہیں چاہے گی کیوں کہ ایسا ہونے سے خاص کر سندھ کی صورتحال خراب ہو سکتی ہے جو ملک و قوم کے مفاد میں نہیں، بے نظیر بھٹو بھی ڈسٹرکٹ گورنروں کے نظام کے بیان دے چکی تھیں۔

اس لیے بہتر ہو گا کہ چاروں صوبوں میں نا انصافیاں اور لسانی تفریق ختم کر کے سب سے یکساں سلوک کیا جائے یا ڈویژنوں کی سیاست پر ملک میں انتظامی با اختیار یونٹس تشکیل دے دیے جائیں جو لسانی نہ ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔