سی این جی کی قیمتیں 19نومبر تک برقرار رکھنے کا حکم، چیف جسٹس

خبر نگار خصوصی / خبر ایجنسیاں / بی بی سی  جمعـء 2 نومبر 2012
 اوگرا کا فارمولا مسترد،ڈاکٹر عاصم کے بیان کا نوٹس، قیمتوں کا فرانزک آڈٹ کرانے کا حکم،گیس کی طلب اور کھپت کے اعدادوشمار طلب۔ فوٹو: آن لائن/فائل

اوگرا کا فارمولا مسترد،ڈاکٹر عاصم کے بیان کا نوٹس، قیمتوں کا فرانزک آڈٹ کرانے کا حکم،گیس کی طلب اور کھپت کے اعدادوشمار طلب۔ فوٹو: آن لائن/فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ملک میں گیس کی طلب و کپھت اور گیس چوری روکنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیل طلب کر لی۔

اوگرا نے قیمتوں میں اضافے کا نیا فارمولا پیش کیا جسے سپریم کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے اگلی سماعت 19 نومبر تک سی این جی کی موجودہ قیمتوں کو جاری رکھنے کا حکم دیدیا، عدالت نے سوئی نادرن و سدرن گیس کمپنیوں کو قیمتوں کا فرانزک آڈٹ کرانے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ اعداد وشمار پیش کیے جائیں کہ کس شعبہ کو کتنی گیس فراہم کی جاتی ہے، عدالت نے سی این جی ایسوسی ایشن اورا سٹیشن مالکان کی مقدمہ کے فریق بننے کی درخواستیں بھی منظور کرلیں۔

جمعرات کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس جواد ایس خواجہ پر مشتمل بنچ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے متعلق مشیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین کے بیان کا سخت نوٹس لے لیا جس میں انھوں نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو میں کہا تھا کہ مافیا پٹرول قیمتوں کا مقدمہ نمٹانے نہیں دے رہا، چیف جسٹس نے کہا کوئی مافیا عدالت کو ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میرا ایمان ہے کہ ملک میں کسی مافیا کاراج نہیں ہونے دیاجائے گا، پٹرولیم پالیسی بنانا حکومت کاکام ہے عدالت کا نہیں، حکومت کو کسی نے پالیسی دینے سے نہیں روکا۔

آرٹیکل 3کے تحت عوام کا استحصال نہیں ہونا چاہیے،عوام کو استحصال سے محفوظ کر نا حکومت کی ذمے داری ہے، اوگرا عدالت کو بلند قیمتوں پر مطمئن کرے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا اوگرا حکومت کا ذیلی ادارہ نہیں بلکہ ایک خود مختیار ادارہ ہے جس کی ذمے داری تیل وگیس میں کمپنیوں کی اجارہ داری کو روکنا ہے، حکومت نے سی این جی ایسوسی ایشن سے معاہدہ کر کے نہ صرف ان کی اجارہ داری تسلیم کر لی بلکہ ان کو نوازا، حکومت نے کارٹل بنایا اور اس کی سر پرستی کی ،قانون اجارہ داری کی اجازت نہیں دیتا۔ سیکریٹری پٹرولیم نے وضاحت کرتے ہوئے کہا پٹرولیم لیوی سے متعلق کیس ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے اور ہائی کورٹ نے ایک سال سے حکم امتناعی جاری کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے پٹرولیم پالیسی التوا کا شکار ہے۔

عدالت نے مقدمے کی جلد سماعت کیلیے متعلقہ ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی ۔عدالت نے آل پاکستان سی این جی ایسو سی ایشن اور سندھ سی این جی ایسو سی ایشن کی طرف سے مقدمے میں فریق بننے کی درخواست منظور کر لی۔ سندھ سی این جی ایسو سی ایشن کے وکیل وسیم سجاد نے مقدمہ جلد سننے کی استدعا کی اور کہا اسٹیشن بند رکھنے کی صورت میں لائسنس منسوخ کر دیا جاتا ہے، انھوں نے اس کے بارے میں آرڈر جاری کرنے اور قیمتوں کے تعین کا حکم واپس لینے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔ چیف جسٹس نے کہا حکومت کو اپنی اتھارٹی قائم کرنے دی جائے، آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے وکیل حفیظ پیرزادہ نے عدالت سے استدعا کی کہ انھیں جامع جواب داخل کرنے کے لیے دو ہفتے کا وقت دیا جائے۔

چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ سی این جی اسٹیشن کے مالکان منافع ضرور کمائیں لیکن لوٹ مار نہ کریں، حکومت کی سر پرستی میں لوٹ مار سمجھ سے باہر ہے، جو گیس کمپنی کو بیس روپے فی کلو ملتی ہے وہ عوام کو 93روپے میں مل رہی تھی، گیس قومی دولت ہے اور عوام اس کے اصل مالک ہیں۔ عدالت نے سوئی نادرن اور سدرن گیس کمپنیوں سے زیادہ قیمت پر گیس کی فروخت کا جواز پیش کرنے کی ہدایت کی عدالت نے گیس نکالنے پر آنے والی لاگت اور دیگر اخراجات کی تفصیل بھی فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ عدالت نے گیس لوڈ شیڈنگ کی وجوہات بھی طلب کیں۔ آئی این پی کے مطابق سماعت کے دوران اوگرا نے سی این جی قیمتوں کا فارمولا پیش کیا۔

اوگرا نے آپریٹنگ کاسٹ ختم کرتے ہوئے پیداواری لاگت کی مد میں 5 روپے 75 پیسے وصول کرنے کی تجویز دی، اسی طرح سی این جی ا سٹیشن مالکان کا منافع بھی 11 روپے 20 پیسے سے کم کر کے 2 روپے 95 پیسے فی کلو کرنے کی بھی تجویز دی۔ بی بی سی کے مطابق اوگرا نے قیمتوں میں اضافے کا نیا فارمولہ پیش کیا جسے سپریم کورٹ نے مسترد کرتے ہوئے قیمتوں کو بر قرار رکھنے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انھوں نے اپنا کوئی جائزہ تیار نہیں کیا بلکہ اس معاملے کو اوگرا پر چھوڑا ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے سماعت کے دوران کہا کہ سی این جی ایسوسی ایشن ایک قیمتوں پر اثر انداز ہونے والا منظم گروہ بن چکا ہے اور اسے حکومت نے بنایا ہے۔ عدالت نے سماعت 19 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے حکم دیا کہ سی این جی قیمت کا فرانزک آڈٹ پندرہ روز میں کرایا جائے عدالت چاہتی ہے کہ حکومت کام کرے اور اپنی اتھارٹی منوائے،حکومت وہ ٹیکس نہیں لگا سکتی جس کی منظوری اسے حاصل نہیں، ایسا کرنا تھوڑا سا استحصال بھی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔