صبر سے گیارہ ماہ انتظار کیجیے!!

تنویر قیصر شاہد  جمعرات 21 جنوری 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

سپہ سالارِ پاکستان جنرل راحیل شریف کو رواں سال، نومبر میں ریٹائر ہوجانا ہے۔ گویا اصول، قانون اور ضابطے کے مطابق ان کی ریٹائرمنٹ میں ابھی گیارہ ماہ باقی ہیں۔ کم از کم تین سو دن۔ ایک انتہائی مصروف شخص، جیسا کہ جنرل راحیل شریف ہیں، کی زندگی میں تین سو دن پلک جھپکتے گزر جاتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے بعض سیاستدان بڑی بیقراری اور بے صبری کے ساتھ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کررہے ہیں۔

کبھی ڈھکے چھپے انداز میں اور گاہے بین السطور یہ بیانات داغتے ہوئے دکھائی اور سنائی دیتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف، جو اپنے کئی اقدامات اور قومی خدمات کے باعث ملک کی مقبول اور محبوب شخصیت بن چکے ہیں، کو اپنی ملازمت میں توسیع نہیں لینی چاہیے اور اگر میاں صاحب کی حکومت انھیں ایکسٹینشن دے بھی تو جنرل صاحب کو انکار کرکے گھر تشریف لے جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر پیپلز پارٹی کے چوہدری اعتزاز احسن نے ابھی چند روز قبل ہی، پارلیمنٹ سے باہر نکلتے ہوئے، ارشاد کیا کہ جنرل راحیل شریف کی مدتِ ملازمت میں توسیع نہیں ہونی چاہیے۔

چوہدری صاحب رپورٹرز کے سامنے یہ بات تو کہہ گئے مگر شام گئے جب الیکٹرانک میڈیا نے اُن سے اِس بیان کی وضاحت مانگی تو وہ اطمینان بخش جواب دینے کی بجائے مبہم الفاظ اور بین السطور بیانئے کا سہارا لیتے ہوئے پائے گئے۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ جس روز چوہدری اعتزاز احسن نے یہ بیان داغا، اسی دن کے آس پاس ان کی پارٹی کے شریک چیئرمین نے بھی اشاراتی زبان میں فرمایا تھا کہ ہم نہ تو کسی کو اقتدار پر قبضہ کرنے دیں گے اور نہ ہی کسی کو مقدس گائے بننے دیں گے۔

جنابِ شریک چیئرمین کنایہ لہجے میں بات کرنے کے بادشاہ ہیں لیکن ان کے اشاراتی بیانات کا بھگتان ان کے پیروکاروں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ مثلاً: آنجناب ہی کے پارٹی کے ایک سندھی رہنما جناب مولا بخش چانڈیو نے بھی اگلے روز اخبار نویسوں کے روبرو یہ گُتھی سلجھانے سے تقریباً انکار کردیا کہ مقدس گائے کون ہے اور کون اقتدار پر قابض ہونا چاہتا ہے؟ ویسے پاکستان ایسے نظریاتی ملک میں مقدس گائے کوئی نہیں۔ اگر یہاں مقدس گائے کا واقعی معنوں میں کوئی تصور ہوتا تو ہر سال ہزاروں لاکھوں گائیں ذبح نہ کی جائیں۔

کسی چیف آف آرمی اسٹاف کی مدتِ ملازمت میں توسیع دینے سے پاکستان کی سیاسی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟ اگر Howard  J  Wiarda کی تحقیقی کتاب Comparative  Politics:  The  Politics  of  Asia کا مطالعہ کیا جائے تو اس سوال کا نہایت تشفی آمیز جواب ملتا ہے۔ ہمارے ہاں کسی چیف آف آرمی اسٹاف کے توسیع لینے کا معاملہ کبھی گناہ رہا ہے نہ اسے غیر آئینی قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان میں جب بھی کسی سپہ سالار نے ایکسٹینشن لی، بعض اطراف سے یقینا اس پر ناک بھوں چڑھائی گئی لیکن عوام کی طرف سے ناگواری اور ناراضی کا اظہار کم کم ہی سامنے آسکا۔

مثلاً مردِ مومن، مردِ حق جنرل ضیاء الحق وعدہ شکنی بھی کرتے رہے اور اپنی ملازمت میں ازخود توسیع بھی لیکن پاکستان کے عوام ان کی راہ میں رکاوٹ بن سکے نہ ان کی طاقت کے راستے کی دیوار۔ جنرل پرویز مشرف مقتدر ہوئے تو انھوں نے بھی اپنی ملازمت میں خود ہی ایکسٹینشن کرلی مگر پارلیمنٹ ان کا کچھ بگاڑ سکی، نہ عوام اور نہ ہی عوامی نمائندے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اگرچہ ضیاء اور مشرف کی طرح مطلق اقتدار کے سنگھا سن پر نہ بیٹھے لیکن توسیع تو انھیں بھی دی گئی۔ اور یہ توسیع کسی اور نے نہیں، چوہدری اعتزاز احسن، خورشید شاہ اور مولا بخش چانڈیو کے شریک چیئرمین کی حکومت نے عنایت فرمائی۔

جو فیصلے پیپلز پارٹی کی ’’جانباز‘‘ قیادت خود اپنی رغبت و محبت سے کر چکی ہے، اب یہی فیصلہ اگر میاں صاحب کی حکومت کسی کے حق میں کرتی ہے تو شریک چیئرمین اور ان کے رفقائے کار بھلا کیونکر جز بز ہوسکتے ہیں؟ ہماری ایک محترم و مکرم قانون دان خاتون، جو اندرون ملک اور بیرونِ ملک انسانی حقوق کی پاسداری کے حوالے سے بھی اپنا ایک منفرد تشخص رکھتی ہیں، نے بھی کہا ہے کہ ہماری بہادر افواج میں قیادت کا کوئی کال نہیں پڑا ہے، اس لیے کسی کو تازہ توسیع نہیں ملنی چاہیے تاکہ پیچھے لائن میں کھڑے حق دار تک اس کا حق پہنچ سکے۔

یہ درست ہے کہ ہماری جری اور جرأت آزما فوج میں قیادت کا کوئی کال نہیں پڑا ہے اور نومبر کے بعد کوئی دوسرا خوش بخت میرٹ پر پورا اتر کر جنرل راحیل کی جگہ سنبھال سکتا ہے لیکن ہمارے ایک سابق سپہ سالار جناب پرویز مشرف اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ ایک انٹرویو میں کہتے ہیں: ’’مانا کہ ہماری افواج میں قیادت و سیادت کا کوئی فقدان نہیں ہے لیکن جنرل راحیل شریف کی ملازمت میں توسیع نہ کی گئی تو قومی استحکام و مفادات میں اٹھے بہت سے قدم ادھورے رہ جائیں گے۔ سب کچھ تلپٹ ہوجانے کا اندیشہ اور بڑے زیاں کا خطرہ ہے۔‘‘ ممکن ہے پرویز مشرف اپنے موقف میں ٹھیک ہی ہوں۔

یہ بھی ممکن ہے ’’ضرب عضب‘‘ پر ضرب لگے۔ اس کا بھی امکان ہے کہ ملٹری کورٹس، جس نے کئی ملک دشمنوں کو سُرعت سے کیفرکردار تک پہنچایا ہے اور عوام نے اس کے فیصلوں پر اطمینان کا اظہار بھی کیا ہے، کے آگے بڑھتے ہوئے قدم رُک جائیں اور کچھ فیصلے بھی ساکت ہوجائیں۔ جاری احتساب کا دائرہ بھی سمٹ سُکڑ سکتا ہے۔ افغانستان، بھارت، داعش اور مشرق وسطیٰ کے تناظر میں (جب کہ ایران سعودیہ کشیدگی بھی عروج کو پہنچ گئی ہے) پاکستان کی سلامتی کو جو زبردست چیلنج درپیش ہیں، جنرل راحیل شریف کی نومبر میں ریٹائرمنٹ ان امور کو متاثر کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جنرل راحیل شریف کی ملازمت میں توسیع کرنے کا فیصلہ وزیراعظم نواز شریف کی میز پر پڑا ہے اور وہ عنقریب بذاتِ خود جنرل صاحب کو قائل کریں گے کہ انھیں اپنے فرائض، نومبر کے بعد بھی، جاری رکھنے چاہئیں۔ ایک اخبار نویس کا کہنا ہے: ’’2010ء میں جب پی پی پی حکومت نے جنرل پرویز کیانی کو تین سال کی ایکسٹینشن دی تو مَیں نواز شریف سے ملا۔ میاں صاحب نے اس توسیع کو پسند نہیں کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ مجھے جنرل کیانی پسند ہیں لیکن نہ تو پی پی پی کو انھیں یہ توسیع پیش کرنی چاہیے تھی اور نہ ہی کیانی صاحب کو اسے قبول کرنا چاہیے تھا۔‘‘ اگر یہ کہانی درست ہے تو سوال یہ ہے کہ وہی میاں محمد نواز شریف اب خود وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے سپہ سالار کو کیونکر اور کیسے ایکسٹینشن کا ’’تحفہ‘‘ پیش کر سکتے ہیں؟ کیا اصول و ضوابط پر یہ کمپرومائز مستحب اور مستحسن ہوگا؟ اگرچہ میاں صاحب کئی مواقع پر کھلے دل سے اور کھلے الفاظ میں جنرل راحیل شریف کی تحسین بھی کرچکے ہیں۔

اصول یہ کہتے ہیں کہ افراد نہیں، اداروں پر انحصار اور اعتبار کرنا چاہیے؛ چنانچہ لازم یہ ہے کہ افراد کی بجائے اداروں کو مضبوط کرنے کی سعی کی جائے۔ ایسے ہم وطن لاتعداد ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ اگر حکومت اتفاق کرے تو جنرل راحیل شریف کو اپنے فرائض بدستور اگلے برسوں تک بھی جاری رکھنے چاہئیں۔ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جن کی خواہش ہے کہ جنرل صاحب کو ایکسٹینشن نہیں لینی چاہیے۔

مثلاً PESA (پاکستان ایکس سروس مین ایسوسی ایشن) کے صدر لیفٹیننٹ جنرل (ر) علی قلی خان نے کراچی میں سینئر ریٹائرڈ فوجی افسروں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنرل راحیل شریف کو توسیعِ ملازمت قبول نہیں کرنی چاہیے۔ علی قلی خان نے کہا تھا: ’’وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے سپہ سالار جنرل وحید کاکڑ کو ایکسٹینشن آفر کی تو کاکڑ صاحب نے اسے یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ میرے بعد آنے والے بہتر طریقے سے میری جگہ سنبھال سکتے ہیں۔‘‘ جنرل راحیل شریف نے دہشت گردوں کے خوں آشام اور جارح عفریت کو جس طرح مردانہ وار سینگوں سے پکڑ کر زمیں بوس کیا ہے اور اس کامیاب اقدام نے عوام کے دلوں میں جذباتیت کے جو طلاطم پیدا کیے ہیں، ایکسٹینشن قبول کرتے یا نہ کرتے وقت وہ یقینا ان جذبات کو بھی پیشِ نگاہ رکھیں گے۔ اُن کا فیصلہ یقینا اپنی ذات کی بجائے اپنے ملک اور اپنے ادارے کے بہتر مفاد میں ہوگا۔ چنانچہ ہم سب کو صبر کا دامن تھام کر گیارہ مہینے انتظار کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔