حلقۂ ارباب ذوق برنگ جدید

انتظار حسین  جمعـء 22 جنوری 2016
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

حلقہ ارباب ذوق کا سالانہ اجلاس اب کے کچھ زیادہ اہتمام سے منعقد ہوا۔ مگر کونسے حلقہ کا اجلاس۔ حلقے بھی ایک زمانے سے دو چلے آ رہے ہیں۔ خیر پہلے تو یہ تقسیم کچھ فکر و خیال کے اختلاف کے حساب سے ہوئی تھی۔ یہ پاکستان کے دو ٹکڑوں میں بٹ جانے کے بعد کا واقعہ ہے۔ سو جلد ہی حلقہ بھی دو ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ قومی سانحہ کی کیا خوب پیروی کی۔

یار و اغیار انھیں دو ناموں سے پکارنے لگے۔ حلقہ جہاں چینی برانڈ والے دانشور غالب آ چکے تھے۔ دوسرے وہ تھے جنھوں نے اس حلقے سے دامن چھڑا کر ٹی ہاؤس کے فلور سے اعلان کیا کہ اصلی حلقہ ہم ہیں۔

یہ اعلان دو ادیبوں نے مل کر کیا۔ انجم رومانی اور حبیب جالب۔ یہ دو شاعر نظریاتی اعتبار سے ایک دوسرے سے مخالف سمتوں میں کھڑے تھے مگر حبیب جالب چینی برانڈ کی مخلوق کے ہاتھوں تنگ تھا جو اٹھتے بیٹھتے اسے وہ ترمیم پسند ہونے کا طعنہ دیتے تھے۔ مشترک دشمن کے خلاف جسے وہ لونڈھیار کے ذیل میں گردانتے تھے اکٹھے ہو گئے اور اس طرح اس حلقہ کی بنیاد پڑی جسے بعد میں حلقۂ ارباب ذوق ادبی کے نام سے یاد کیا گیا اور چینی برانڈ کی شاخ حلقہ ارباب ذوق سیاسی قرار پائی۔ ضیاء الحق کی نمود سے پہلے دونوں اپنے اپنے رنگ میں پھلیں پھولیں۔ پھر جلد ہی یوں ہوا کہ غالب نے تو یہ کہا تھا کہ؎

شامتِ اعمال، صورتِ نادر گرفت
یہاں یہ ہوا کہ شامت اعمال، صورت ضیاالحق گرفت۔
دونوں ہی حلقوں پر اوس پڑگئی ۔
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے

اس کے بعد پھر کبھی حلقے کو یکجا ہو کر اپنی پرانی شکل میں واپس آنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ تقسیم در تقسیم کی بھی نوبت آ گئی۔ مبارک احمد نے اپنی دانست میں دونوں تینوں سے بالا ہو کر حلقہ ارباب ذوق کی محفل سجائی۔ مگر شیشے میں بال آیا ہوا کہیں جایا کرتا ہے۔

اب جو حلقہ میں تقسیم ہے وہ پہلے سے کہیں زیادہ گئی گزری ہے۔ اس تقسیم کی حقیقت بس اتنی ہے کہ الیکشن میں جو گروپ ہار گیا اس نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ کھڑی کر لی۔ بہرحال اس وقت تو وہ حلقہ جس کے اجلاس نئے پاک ٹی ہاؤس میں منعقد ہوئے وہ زیادہ سرگرم ہے۔

اس کے سیکریٹری امجد طفیل جانے پہچانے مختلف ادیبوں کو اس محفل میں لے آنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ یہ نقشہ سالانہ اجلاس میں خاص طور پر نظر آیا۔ ڈاکٹر خورشید رضوی جو عربی زبان و ادب کے عالم ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ تحسین فراقی جو نقاد اور محقق ہونے کے ساتھ اب مجلس ترقی ادب کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ نقاد اور اردو زبان کے مورخ تبسم کاشمیری اور اورینٹل کالج اسکول کے کس کس نقاد کا نام گنایا جائے۔ خواجہ ذکریا سے لے کر کس کا نام گنایا سب موجود تھے۔

ہاں اب تک ان دونوں ٹولیوں کا اصلی حلقۂ ارباب ذوق سے جو اب مرحوم ہو چکا ہے رشتہ مشکوک نظر آتا تھا۔ لیکن اس مرتبہ امجد طفیل نے بطور خاص اس حلقہ کو یاد کرنے کا اہتمام کیا تھا۔ ہم سے کہا کہ کچھ اس حلقہ کے طور اطوار کے بارے میں بتاؤ۔ ہم نے کہا کہ ارے ہم کیا بتائیں۔ قیام پاکستان کے بعد کا نقشہ البتہ ہم نے دیکھا ہے۔

میرا جی بمبئی سدھار چکے تھے۔ مگر میرا جی جو جدید شاعری کے بڑے ستون کی حیثیت رکھتے تھے اتنی دور رہتے ہوئے بھی حلقہ پر اپنا سایہ ڈال رہے تھے۔ موقف یہ تھا کہ ہم نے حلقہ کو کسی نظریے کے کھونٹے سے باندھ کر ہی نہیں رکھا ہے۔ یہ آزاد پلیٹ فارم ہے جس کا جو نقطۂ نظر ہے وہ اسے مبارک۔ یہاں آئے اور اپنے نقطۂ نظر کے مطابق بات کرے؎

وہ آئیں آئیں کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں

سو حلقہ کے جلسوں میں وقتاً فوقتاً ترقی پسند ادیب بھی شریک ہوتے دیکھے جاتے تھے اور جب انجمن ترقی پسند مصنفین سرکاری عتاب میں آ گئی اور اس کے جلسے بند ہو گئے تو اب باقاعدگی سے اکثر جانے مانے ترقی پسند ادیب ان جلسوں میں آتے اور گرم گفتار دیکھے جاتے تھے۔ بلکہ صفدر میر نے تو حلقہ کے نائب سیکریٹری کا عہدہ سنبھال لیا تھا اور ہاں منٹو صاحب حلقہ کے رکن تو شاید کبھی نہیں رہے تھے لیکن یہاں انھوں نے اپنے افسانے بھی سنائے اور ایک ڈرامہ بھی۔

اس واسطے سے اپنی تنک مزاجی کے باوصف اپنے پر تنقید بھی سننی پڑی۔ یہ تو حلقہ کی روایت چلی آتی تھی۔

اور ہاں گلڈ کی رونق کے بعد اعلیٰ سرکاری عہدے پر جو الطاف گوہر صاحب فائز تھے۔ حلقہ کے پرانے چاول۔ خیال آیا ہو گا کہ حلقہ کب تک اپنی درویشانہ طور پر ناز کرے گا۔ کچھ اس کی شان میں اضافہ چاہیے۔

سرکاری گرانٹ کی ایک پیش کش حلقہ کے اجلاس میں زیر بحث آئی تھی۔ حلقہ کے سیکریٹری جنرل اور مائی باپ قیوم نظر نے اس پیش کش پر ہمدردانہ غور کرنے کی دعوت دی تھی۔ کیسی ہمدردانہ۔ اس تجویز کے خلاف اتنا ہنگامہ ہوا کہ اجلاس میں کرسیاں چل گئیں۔ قیوم صاحب ایسے ناراض ہوئے کہ حلقہ سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

رائٹرز گلڈ کا ذکر آ گیا ہے تو اس کے ایک سالانہ اجلاس میں مولانا صلاح الدین احمد کے ایک خطبہ صدارت کا احوال سن لیجیے۔ جو رائٹرز کنونشن جس کے نتیجہ میں پاکستان رائٹرز گلڈ وجود میں آیا تھا اس میں ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے، کیا ترقی پسند، کیا رجعت پسند، کیا حلقیٔ سب ہی برضا و رغبت شریک ہوئے تھے۔ ماسوائے مولانا صلاح الدین اور محمد حسین عسکری کے۔ اس کے طور حلقہ کا جو سالانہ جلسہ ہوا اس میں مولانا نے چلتے چلتے رائٹرز گلڈ پر بھی تبصرہ کر ڈالا۔ کہا کہ بقول مولانا روم شاعری جزویست از پیغمبری، شاعری تو پیغمبری کا جز ہے۔ ارے کبھی پیغمبروں نے بھی گلڈ بنائے تھے۔

یہ فقرہ خوب چلا۔

تو یہ تھا حلقۂ ارباب ذوق کا رنگ روپ اب اس سے رشتہ جوڑ کر یہ حلقہ اپنا جلسہ کر رہا تھا۔ بہت رونق تھی، صبح سے شام تک جاری رہا، نشست کے بعد نشست۔ ہر نشست میں کسی مسئلہ پر بحث اور بیچ میں لنچ خیر آج تو لنچ دو تھے۔ ایک لنچ ادھر واپڈا کی بلند و بالا عمارت کی اونچی چھت پر آراستہ تھا۔ یہاں حلقہ کے جلسہ میں کچھ ایسے دانے بھی تھے جنھوں نے سوچا کہ ادبی مباحث حلقہ ارباب ذوق کے۔ مگر لنچ واپڈا کے چیئرمین صاحب والا۔ وہ اس خوشی میں کہ عطاء الحق قاسمی پی ٹی وی کے چیئرمین ہو گئے ہیں تو گنے چنے ادیب گنے چنے صحافی اس دسترخوان پر موجود تھے ؎

کام یاروں کا بقدر لب و دندان نکلا

خیر حلقہ کے لنچ میں شریک ہونے والے بھی ایسے گھاٹے میں نہیں رہے۔ اگر ادھر بالائے بام یعنی مچھلی، مکئی کی روٹی اور سرسوں کا ساگ تھا تو ادھر حلقہ میں قورمے سے بڑھ کر بریانی تھی۔ بریانی کا اپنا مقام و مرتبہ اور ذائقہ ہے۔

تو اس شان سے اس حلقہ کا اجلاس اورینٹل کالج کے بالائی ہال میں منعقد ہوا اور شام پڑے اختتام پذیر ہوا۔ آخری اجلاس کی صدارت اکرام نے کی۔ مسعود اشعر کے حصے میں درمیانی نشست کی صدارت آئی۔

تو اسے کہیے حلقۂ ارباب ذوق برنگ طرز جدید

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔