ہم تماشا، ہم تماشائی! شاہد رسام کی منفرد نمائش کا تذکرہ

اقبال خورشید  جمعـء 22 جنوری 2016
تازہ فن پاروں میں نوع انسانی کو درپیش تلخ حقائق اپنی ہولناکیوں کے ساتھ برہنہ نظر آتے ہیں۔ خود ہی تماشا، خود ہی تماشائی۔ عنوان ہے، ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے!

تازہ فن پاروں میں نوع انسانی کو درپیش تلخ حقائق اپنی ہولناکیوں کے ساتھ برہنہ نظر آتے ہیں۔ خود ہی تماشا، خود ہی تماشائی۔ عنوان ہے، ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے!

یہ ایک عورت کی بپتا ہے۔ ہونٹ سِلے ہوئے، آنکھوں پر پٹی۔ پا بہ زنجیر۔ البتہ کہانی میں احتجاج نہیں۔ کردار شکوہ نہیں کرتے۔ لگتا ہے، جیسے انہوں نے حالات کو قبول کرلیا ہے۔ رنگوں میں تہہ در تہہ اور بھی کئی کہانیاں ہیں۔ تخلیق کار نے علامتوں، تجریدی آہنگ اور surrealist فارم میں اُس تماشے کو منظر کیا، جو شب و روز اُس کے سامنے ہوتا ہے۔ بیل (Bull) اُن کے ہاں پدری سری معاشرے میں سرمایہ داری کے مکروہ کردار کی علامت۔ مذہبی شدت پسندی کے ساتھ ابہام کو جنم دیتے میڈیا کا کریہہ چہرہ بھی دکھائی دیتا ہے۔ پیرس سانحے کا کرب بھی ہے، جس نے پرندوں کو بے روح کردیا۔

یہ اُن 10 کہانیوں کا تذکرہ، جو کوئل آرٹ گیلری، کراچی میں مجھے سنائی دیں۔ ساحل کے پاس ایک چھوٹی سی پُرسکون عمارت، جہاں جنوری کی ایک خوش گوار شام میں نے خود کو موجود کیا، تاکہ بین الاقوامی شہرت یافتہ آرٹسٹ شاہد رسام کی رنگوں میں بیان کردہ کہانیاں سن سکوں، اور میرا وہاں ہونا قابل فہم ہے کہ اُس کے فن پارے مجھے فکشن نگاری کے نئے زاویے سُجھاتے ہیں۔ اس کی surrealist اپروچ اپنے افسانوں کے قریب معلوم ہوتی ہے، اُس کی پینٹنگز مجھے نیا نوویلا لکھنے کی تحریک دیتی ہیں۔

تازہ نمائش کے پس منظر میں ”غالب اینڈ گلزار“ نامی وہ گرینڈ سیریز، جس پر گذشتہ چند برس سے وہ کام کررہے ہیں۔ اس کے تحت اشعار غالب اور کلامِ گلزار کو ”سر رئیل ازم“ کی تکنیک میں کینوس میں سمویا۔ پینٹنگز، میورل اور مجسموں سمیت دو سو فن پارے ہیں۔ اشعار غالب کا انتخاب خود گلزار صاحب نے کیا۔ بڑے دلچسپ خطوط لکھے رسام کو۔ ویسے یہ انتخاب ان ہی کو زیب دیتا ہے۔ بہ قول شاہد رسام، یہ گلزار ہی ہیں، جنہوں نے موسیقی میں گوندھ کر ڈرامے کی شکل دے کر غالب کی شاعری کو گھر گھر پہنچایا۔ میں نے غالب کا گلزار صاحب جیسا عاشق نہیں دیکھا۔ وہ خود کو غالب کا خادم کہتے ہیں۔ اِسی باعث سوچا، عاشق اور محبوب کو ایک سیریز میں یک جا کردیا جائے۔ پھر پاک و ہند میں اردو کی ترویج اور فروغ امن کے لیے ان کا بڑا کردار ہے۔“  گلزار صاحب کے کلام سے انتخاب کا ذمہ ممتاز ادیب، شکیل عادل زادہ کے سر تھا۔

ہم نے شاہد کے فن پارے دیکھ لیے، لکھنے کو کچھ کہانیاں چُن لیں، تب ان کے ساتھ میز پر بیٹھے، باتیں ہوئیں۔ پہلے اُن کی شخصیت و فن سے متعلق آرٹ کے معروف نقاد، ڈاکٹر اکبر نقوی کی تحریر کردہ کتاب پر مبارک باد دی، جس کا دیباچہ عہد ساز مزاح نگار، مشتاق احمد یوسفی نے تحریر کیا ہے۔ نمائش کے افتتاحی روز یوسفی صاحب بھی تشریف لائے تھے، جسے شاہد نے اپنے لیے اعزاز قرار دیا۔

ہم پوچھا کیے، اس منصوبے کا خیال کیسے آیا؟ کہنے لگے، اردو شعر و ادب اوائل سے توجہ کا محور۔ مشتاق احمد یوسفی، جون ایلیا اور انور مقصود جیسے جویان علم کی صحبت میں رہے، غالب کم عمری سے مطالعے میں۔ ڈراما سیریز نے تو اُن کے عشق میں مبتلا کردیا۔ اُس کے پیش کار، گلزار سے محبت ہوگئی۔ مصوری کی دنیا میں قدم رکھنے کے کئی برس بعد جب surrealist پینٹر کی نظر سے غالب کو پڑھا، تو اس کے ہاں وہ جھلک نظر آئی جو آرٹسٹ کو لاشعور اور خواب کے درمیان رہتے ہوئے زندگی کو پینٹ کرنے کی راہ سجھاتی ہے۔ گلزار صاحب سے رابطہ کیا۔ انہیں خیال پسند آیا۔ یوں اس سلسلے کا آغاز ہوا۔

حالیہ نمائش، جو 30 جنوری تک جاری رہے گی، اُسی گرینڈ پراجیکٹ کی ایک کڑی۔ تازہ فن پاروں میں نوع انسانی کو درپیش تلخ حقائق اپنی ہولناکیوں کے ساتھ برہنہ نظر آتے ہیں۔ خود ہی تماشا، خود ہی تماشائی۔ عنوان ہے، ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے!

اس سیریز کا پاکستان کے ساتھ انڈیا میں بھی خاصا چرچا رہا۔ ٹائمز آف انڈیا، مڈ ڈے، مہاراشٹر ٹائمز، ٹی وی نائن اور این ڈی ٹی وی پر تذکرہ ہوا۔ اس کے تحت گلزار کی نظم ”انسان اور چہرے“ پر منفرد میورل بنا چکے ہیں۔ اگلے ماہ ہندوستان کی معتبر آرٹ گیلری، وی ایم ایچ میوزیم، کلکتا میں اُس سیریز کی نمائش ہوگی۔

شاہد کے مطابق آرٹ اینڈ کلچر وہ اکلوتا پُل، جو پاک و ہند کو قریب لاسکتا ہے، افہام و تفہیم کی بات ہوسکتی ہے، کیوںکہ فن کی زبان آفاقی ہوتی ہے۔

شاہد کا تخلیقی سفر طویل ۔۔۔۔۔ پاکستان، برطانیہ، دبئی، اٹلی، فرانس، بیلجیم، اسکاٹ لینڈ اور انڈیا میں 40 سے زائد ایگزیبیشنز ہوچکی ہیں۔ بیشتر سولو۔ تین کا تذکرہ اہم۔ ایک وہ، جو 2011 میں واشنگٹن ڈی سی میں، پاکستانی سفارت خانہ میں ہوئی۔ پھر ٹورنٹو میں مشہور آکسٹرا، کاؤنٹر پوائنٹ کی دھنوں پر اُنہوں نے ”لائیو“ پینٹنگ کرکے داد بٹوری۔ وہ فن پارہ 50 ہزار ڈالر میں نیلام ہوا۔ رقم زلزلہ زدگان کے لیے وقف کردی۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے تحت ان کی پینٹنگز دبئی کی مشہور گیلری، کرسٹریز میں نیلامی کے لیے پیش ہوئیں۔ کمرشل بنیادوں پر بھی خاصا کام کیا۔ پوپ فرانسس، ہلیری کلنٹن، نریندر مودی اور Hazel McCallion جیسی شخصیات کے پورٹریٹ بنائے۔ بوسٹن، ٹورنٹو، لندن، یو اے ای، ممبئی کی درس گاہوں میں لیکچرز دیے۔

مجمسہ سازی پر بھی خوب گرفت۔ گھومتا درویش، رقص زنجیر، انسان اہم ترین تخلیقات۔ کراچی کے علاوہ ٹورنٹو میں بھی اُن کا اسٹوڈیو ہے۔ شاہد رسام سے ملاقات تمام ہوئی۔ اب میں کوئل گیلری سے لوٹ رہا ہوں۔ ٹھنڈی ہوا چہرے سے ٹکرا رہی اور من میں ایک کہانی کوک رہی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

iqbal khursheed

اقبال خورشید

اقبال خورشید فکشن نگار، صحافی اور کالم نویس ہیں۔ اُن کے نوویلا ”تکون کی چوتھی جہت“ کو محمد سلیم الرحمان، ڈاکٹر حسن منظر، مستنصر حسین تارڑ اور مشرف عالم ذوقی جیسے قلم کاروں نے سراہا۔ انٹرویو نگاری اُن کااصل میدان ہے۔ کالم ”نمک کا آدمی“ کے عنوان سے روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔