بارہ پردوں میں نہاں۔۔۔۔۔شرمیلا پلوٹو

غلام محی الدین  اتوار 24 جنوری 2016
جو 500 ٹن فی گھنٹے کی رفتار سے بے وزن ہو رہا ہے  ۔  فوٹو: فائل

جو 500 ٹن فی گھنٹے کی رفتار سے بے وزن ہو رہا ہے ۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: کیا واقعی، انسان نے اپنے نظام شمسی کااحاطہ کرنے میں کام یابی حاصل کرلی ہے؟ اس بات کا جواب جولائی 2015  میں اُس وقت سامنے آیا جب 3 ارب میل لمبے سفر کی مسافت کو9 سال بعد امریکی خلائی جہاز  نئے آفاق (New Horizens) نے بالآخر طے کرلیا اور پلوٹو کے قریب سے گزر کر اُس انسانی کوشش کو کام یاب کر دیا تھا، جو جنوری2006 میں شروع کی گئی تھی۔ نیو ہورائیزنز نے اس تاریخی موقع پر پلوٹو کی پہلی مرتبہ مفصل اور بہترین تصاویر اتاریں، جو زمین پر کام یابی سے موصول بھی ہوئیں۔ اب توقع کی جارہی ہے کہ ان تصاویر سے سائنس دانوں کو پلوٹو سے متعلق مزید جاننے کا موقع ملے گا۔

جب نیو ہورائزنز امریکی ریاست فلوریڈا کے کیپ کیناوِرل ایئر فورس سینٹر سے لانچ کیا گیا تھا، تو کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ یہ کوشش کب اور کیسے رنگ لائے گی؟ نیو ہورائیزنز کو نظامِ شمسی کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کے لیے ناسا نیو فرنٹیئرز پروگرام کے تحت بنایا گیا تھا اوراب اس خلائی جہاز کے پاس نہ صرف پلوٹو کے قریب ترین پہنچنے کا ریکارڈ ہے بل کہ اسے انسان کا بنایا ہوا تیز ترین خلائی جہاز بھی کہلاتا ہے۔

اس کی رفتار 16.26 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے یعنی 58,536 کلومیٹر فی گھنٹا۔  نیوکلیئر توانائی سے چلنے والا ’’نیو ہورائیزنز‘‘ اب تک بھیجی گئی خلائی گاڑیوں میں سب سے زیادہ تیز رفتار تسلیم ہو رہا ہے۔ یہ خلائی جہاز اُس دن امریکا کے ایسٹرن ڈے لائٹ ٹائم کے مطابق صبح 49،7 بجے (پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق شام 4 بج کر 50 منٹ) پلوٹو کے قریب سے گزرا، تو اُس وقت خلائی جہاز اور پلوٹو کے درمیان میں صرف ساڑھے بارا ہزار کلومیٹر کا فاصلہ باقی تھا۔

اس موقع پر اس مشن کی آپریشن مینیجر ایلس بومین کا کہنا تھا ’’مجھے یقین نہیں آرہا کہ میں یہ سب کچھ ہوتا ہوا دیکھ رہی ہوں، یہ بہت ہی حیران کن ہے کہ انسان کس طرح ان دنیاؤں تک پہنچ رہا ہے، جو کبھی خواب تھیں۔ پلوٹو کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا بہت ہی زبردست ہے‘‘۔ نیو ہورائیزنز مشن کے سربراہ محقق ایلن اسٹرن نے اسے جشن کا لمحہ قرار دیا اور کہا تھا ’’اس خلائی جہاز سے جلد ہی اتنا ڈیٹا موصول ہو گا کہ سائنس دانوں کو پلوٹو کے بارے میں نئی کتابیں لکھنی پڑیں گی، ہم نے نظامِ شمسی کی ابتدائی پڑتال مکمل کر لی ہے، جو کام صدر جان ایف کینیڈی نے 50 سال قبل شروع کیا تھا، وہ آج صدر باراک اوباما کے دور میں مکمل ہورہا ہے‘‘۔

یاد رہے، 478 کلوگرام وزنی یہ خلائی جہاز امریکا کی جان ہوپکنز یونی ورسٹی کی اپلائیڈ فزکس لیبارٹری اور ساؤتھ ویسٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے تیار کیا تھا۔ پلوٹو زمین سے4 ارب کلومیٹر سے بھی زیادہ دور ہے۔

اس کا قطر صرف 2370 کلومیٹر ہے، جس کی وجہ سے زمین پر اور زمین کے مدار میں موجود طاقت ور ترین دوربینیں بھی اس کی واضح تصاویر لینے میں ناکام تھیں۔ نیو ہورائیزنز مشن کے مقاصد میں پلوٹو کے جغرافیے، اس کے کُرۂ ہوائی (Atmosphere) اور اس کی دیگر خصوصیات پر تحقیق کرنا شامل ہے۔ نیو ہورائیزنز کی جانب سے تازہ ترین پیمائش کے مطابق پلوٹو کی پیمائش پچھلی پیمائشوں سے چار سے پانچ کلومیٹر زیادہ ہے۔ یہ خلائی جہاز اب پلوٹو اور اس کے پانچ چاندوں کی تصاویر سائنس دانوں کو ارسال کرچکا ہے۔ اس سے سائنس

دانوں کو اس بونے سیارے کے بارے میں مزید جاننے میں مدد ملے گی۔ اس کے بعد یہ پلوٹو کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ جائے گا اور نظامِ شمسی کے ایک مخصوص حصے ’’کائیپر بیلٹ‘‘ تک جا کر سائنس دانوں کو نئی معلومات فراہم کرے گا۔ اس پر نصب 7 سائنسی آلات پلوٹو کی سطح اس کی ارضیات، اس کی فضا اور اس کے 5 چاندوں کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم کریں گے۔

سیارہ پلوٹو کے بارے میں خصوصی معلومات

امریکی خلائی ادارے ناسا کو موصول ہونے والی معلومات ازحد حیران کن ہیں، وہاں سے  برفیلی سطح والی چند تصاویر ملی ہیں۔ ان تصاویر میں جو شکلیں ابھر کر سامنے آتی ہیں، سائنس دان ان کو برفیلی چوٹیاں قرار دے رہے ہیں۔تین سے بیس کلو میٹر چوڑی ان اشکال کو دیکھ کر سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ پلوٹو کے اندر سے نکلنے والی تپش اور گرمی کی وجہ سے یہ پہاڑ بنے ہوں گے تاہم انہوں نے کہا کہ خلائی گاڑی سے جب تک اس سیارے کی سطح اور اس کے نیچے موجود اجسام کے بارے میں تمام معلومات حاصل نہیں ہوجاتیں،  اُس وقت تک کچھ کہنا مشکل ہے۔

سیارے کا یہ حصہ ایک ایسے میدان کو ظاہر کررہا ہے، جس کے بارے میں آسانی سے کہنا بہت مشکل ہے۔ نیو ہورائیزنز نے جو تصاویر بھیجی ہیں، ان میں پلوٹو کے ایک چاند ’نکس‘ کی بھی تصویر شامل ہے۔ یہ چاند صرف چالیس کلو میٹر چوڑا ہے۔ پلوٹو کا سب سے بڑا چاند چارون ہے۔ سانئس دانوں کا کہنا ہے کہ پہلی مرتبہ پلوٹو کی اتنی واضح تصاویر سامنے آئی ہیں۔  پلوٹو، چوںکہ سب سے چھوٹا سیارہ ہے، اس لیے اس کی کشش ثقل دیگر سیاروں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔

سائنس دانوں نے یہ انداز بھی لگایا ہے کہ سورج کی تمازت بڑھنے سے پلوٹو کی برف پگھل رہی ہے۔ ایک اندازہ یہ لگایا گیا ہے کہ پلوٹو کی سطح پر سے ایک ہزار تا نو ہزار فٹ برف پگھل چکی ہے، جس سے اس سیارے کا حجم اور بھی کم ہوگیا ہے اور وزن میں کمی کا یہ تسلسل پانچ سو ٹن فی گھنٹے کے حساب سے جاری ہے، اس کی برف بخارات بن کر اْڑتی جا رہی ہے۔ اگر پلوٹو کے بارے میں مکمل معلومات مل جائیں، تو سمجھیے ناسا نظام شمسی کے نو سیاروں کا سفر مکمل کرلے گا۔

پلوٹو کی سطح پر پہاڑی سلسلے
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پلوٹو پر یہ پہاڑ پانی اور برف کی آمیزش سے بنے ہیں۔ شاید انہوں نے دس کروڑ سال پہلے یہ شکل اختیار کی ہو۔ یہ عمل اب بھی جاری و ساری ہے۔ نیو ہورائیزنز کے ارضیات، طبیعیات الارض اور عکس کشی کی ٹیم سے تعلق رکھنے والے جیف مور نے کہا ہے کہ یہ نظام شمسی کی سب سے کم مدت والی تہ ہے، جسے ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ ادارے کے معاون ٹیم لیڈر، جان اسپینسر کا کہنا ہے کہ یہ حالت ہمیں سوچنے پر مجبور کر رہی ہے کہ متعدد دیگر برفانی دنیاؤں میں ارضیاتی تبدیلی کا موجب وہ کیا چیز ہے؟

اِن تصاویر سے اس سیارے کی تفصیل ابھر کر سامنے آئی ہے، جو پہلے ممکن نہیں تھی۔ نیو ہورائیزنز کی ٹیم نے ایک ٹوئیٹ میں کہا تھا ’’زمین پر منتظر ٹیم کو موصول ہونے والی عکس بندی کی پہلی جھلک، آسٹریلیا کے شہر کیمبرا میں نصب خلائی اینٹینا سے موصول ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا جب خلائی گاڑی سے ریڈیو رابطہ منقطع ہوچکا تھا اور نیو ہورائیزنز کا دن بھر بیصبری اور تشویش کے ساتھ انتظار کیا جاتا رہا۔ واشنگٹن ڈی سی سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ’’جان ہوپکنز ایپلائیڈ فزکس سینٹر‘‘ میں موجود مشن کے کنٹرولرز  بے چینی سے رابطے کے منتظر تھے کیوں کہ نیو ہورائیزنز تیرہ گھنٹے پہلے پلوٹو  کے قریب سے گزر چکا تھا۔ رات گئے جب انہیں  نیو ہورائیزنز کا سگنل موصول ہوا تو ان کی جان میں جان آئی۔

خودکار نظام کی مدد سے زمین کے ساتھ رابطہ استوار کرتے ہوئے نیو ہورائزنز نے گھر (امریکا)  فون کرکے اپنا نام پتا شناخت کرتے ہوئے بتایا ’’اس کے سارے کل پرزے درست کام کر رہے ہیں‘‘۔ یہ ہیجان خیز پیغام جب موصول ہوا تو اس نے ہر طرف ایک بہجت و نشاط کی لہر دوڑا دی۔ سائنس دانوں نے سکھ کا سانس لیا، جو سارا دِن یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے رہے تھے کہ ستر کروڑ ڈالر کی لاگت سے تیار کیا گیا نیو ہورائیزنز کہیں ’کوئپر بیلٹ‘ سے اٹھنے والی کائنات کی وسیع کرنوں یا ملبے میں دب تو نہیں گیا۔ کوئپر بیلٹ کا خطہ ’’نیپچون‘‘ سے آگے کی منزل ہے، جو سیارچے نجمیہ سے مماثلت رکھنے والا جہان ہے‘‘۔

پلوٹو پر دھند
خلائی جہاز نے پلوٹو کے چاند کے ترچھے منظر کی تصویر 13 ستمبر کو زمین پر بھیجی تھی۔امریکی خلائی ادارے ناسا کے خلائی جہاز نیو ہورائیزنز سے لی جانے والی تازہ تصاویر میں پلوٹو کی زیریں سطح سے لپٹی دھند دیکھی جا سکتی ہے۔ ان تصاویر میں اس بونے سیارے پر پھیلی سخت اور ناہموار پہاڑیوں اور وادیوں کا دل فریب منظر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس دھند سے پلوٹو پر زمین جیسا ہی تبخیری عمل ہونے کے شواہد ملتے ہیں، اگرچہ وہاں کی برف زمین سے بالکل مختلف ہے۔

رواں ماہ کے اوائل میں خلائی جہاز نے معلومات بھیجنا شروع کی تھیں۔ معلومات بھیجنے کا یہ سلسلہ سال بھر جاری رہے گا۔ خلائی جہاز سے بھیجی جانے والی معلومات کے باعث سائنس دانوں کو دوبارہ اس کی مہین فضا کا تجزیہ کرنے اور دنیا کے سب سے حیرت انگیز جغرافیائی مطالعے کا موقع ملے گا۔ان تصاویر میں عقب سے سورج کی ڈرامائی انداز میں پڑنے والی روشنی کی مدد سے اس سیارے کی متنوع ساخت اور اس کی سطح سے کم از کم سو کلومیٹر اونچائی پر اس کے کرے پر پھیلی درجن بھر سے زیادہ دھند کی تہوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔

اس خلائی مشن کے سائنس دان اور ایریزونا کی لوول آبزرویٹری کے وِل گرنڈی کہتے ہیں ’’خوصورت نظارہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ زیریں سطح پر پھیلی یہ دھند کی تہیں، اس بات کا اشارہ بھی دیتی ہیں کہ پلوٹو پر بھی زمین کی طرح باقاعدہ موسم تبدیل ہوتے ہیں، دیگر مشاہدوں کے ساتھ اس تصویرسے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ وہاں پر زمین جیسا ہی عملِ تبخیر جاری ہے، جس میں منجمد نائٹروجن اور مختلف نوعیت کی نرم برف شامل ہے۔

شارلٹ کی ورجینیا یونی ور سٹی سے تعلق رکھنے والی ٹیم کے ایک رکن ایلن ہاورڈ کہتے ہیں ’’سورج کی مدھم روشنی میں کار فرما اس نظام کا تقابل زمین پر موجود برفیلی چٹانوں میں جاری تبخیری عمل سے کیا جا سکتا ہے، جہاں سمندر کا بھاپ بن کر اڑنے والا پانی، برف باری کی شکل میں دوبارہ سمندر پر بہتے ہوئی برفانی چٹانوں کا حصہ بن جاتا ہے‘‘۔

امریکی خلائی ایجنسی اس خلائی مشن کا دورانیہ آگے بڑھانے اور دُم دار ستارے 2014  MU69 کے قریب سے گزرنے کا باقاعدہ اعلان کرنے سے قبل اس منصوبے کا جائزہ لے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔