ہمارا معاشرہ مررہا ہے

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 23 جنوری 2016

ہمارا معاشرہ مر رہا ہے اس لیے کہ وہ بوڑھا ہوچکا ہے، اتنا کمزور و لاغر ہوگیا ہے کہ اس میں اب کوئی سکت ہی باقی نہیں رہی ہے۔ معاشرہ انسان کی مانند ہوتا ہے جس طرح انسان کو جوان اور تندرست اور زندہ رہنے کے لیے ہوا، پانی، خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح معاشرے کو زندہ اور توانا رہنے کے لیے نئی سوچ، نئی فکر، نیا احساس، نیا خیال اور تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگر آپ نئی سوچ، نئی فکر، نیا احساس، نئے خیالات معاشرے میں آنے کے تمام دروازے اور کھڑکیاں بند کردیں گے تو رفتہ رفتہ معاشرے میں اتنی گھٹن اور حبس ہوجائے گی کہ اس کا زندہ اور توانا رہنا ناممکن ہوجائے گا اور وہ ایک روز بوڑھا ہوکر مرجائے گا۔ آپ اسے جتنا بھی مصنوعی طریقے سے زندہ رکھنے کی کوشش کریں گے آخر میں آپ کو اسے دفنانا ہی پڑے گا۔ یہ قدرت کا قانون ہے کہ دنیا کی ہر چیز وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے، اسی بدلنے میں ہی اس کی بقا ہے، اگر وہ جامد ہوجائے، ٹھہر جائے اور منجمد ہوجائے تو وہ فنا ہوجائے گی۔ ازل سے اب تک ایسا ہی ہوتا آرہا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ یاد رکھیں فطرت کا ناقابل معافی گناہ جامد پن ہے، یعنی ایک جگہ ٹھہر جانا۔

فطرت کا اصول ہے کہ جس چیز میں بھی ترقی و افزائش رک جاتی ہے، وہ تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ Gigantosaurus سو فٹ سے زیادہ لمبا اور گھر جتنا بڑا ڈائنوسار تھا، Tyrannosaurus میں دخانی انجن جتنی طاقت تھی اور اسے بے حد دہشت ناک سمجھا جاتا تھا، پردار سموسار Pterodactyl اڑنے والا اژدھا تھا۔

یہ سب قبل از تاریخ دور کی بڑی عجیب الخلقت اور نہایت ظالم مخلوق تھی، لیکن اب ان کا دنیا میں کہیں بھی وجود نہیں ہے، انھیں قدرت کی جانب سے منجمد کردیا گیا۔ انھیں نہیں معلوم کہ ان میں یہ تبدیلی کس طرح آئی، وہ ساکن و جامد کھڑے تھے، جب کہ زندگی ان کے اردگرد سے خاموشی سے گزر گئی۔ مصر، ایران، یونان اور روم قدیم کی یہ عظیم سلطنتیں اسی وقت تباہ و برباد ہوگئیں جب انھوں نے ترقی کرنا چھوڑ دی۔

زندگی کو ترقی کے راستے پر رواں دواں رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے رحجانات کو بدلتے رہیں، جب آپ اپنے رحجانات کو بدلنا چھوڑ دیتے ہیں تو سماج منجمد ہوجاتا ہے اور سماج کے تمام اندھیرے، تمام تاریکی اور تمام غم احساسات کی شکل میں لوگوں پر طاری ہوجاتے ہیں اور لوگ منجمد ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ ہی حال ہمارا ہوگیا ہے۔

جب سے ہمارا سماج منجمد ہوا ہے، اسی وقت سے لوگ بھی منجمد ہونا شروع ہوگئے۔ اسی لیے آج ہر طرف نفرت کے علم لہرا رہے ہیں، گوشت پوست کے انسان تیزاب کے انسان بن کر رہ گئے ہیں۔ آج ہمارے لوگ عقل سے نہیں بلکہ اپنے عقائد سے سوچتے اور بات کرتے ہیں۔ چاروں طرف رجعت پسندی و بنیاد پرستی کی گرم لوئیں چل رہی ہیں، رجعت پرست و بنیاد پرست معاشرے کو دیکھنے کے لیے ایسا آئینہ استعمال کررہے ہیں ۔

جس میں انسانوں کی صورتیں مسخ ہوجاتی ہیں، ایک آئینے میں ناک لمبی ہوجاتی ہے، تو دوسرے میں منہ ٹیڑھا نظر آتا ہے، اس طرح حقیقت کو بدنام کیا جارہا ہے اور وہ رجعت پسند و بنیاد پسند اپنے تصورات کے ذریعے بہت چالاکی سے اس بات کی کوشش کررہے ہیں کہ لوگوں کے دماغوں کو الجھن میں ڈالے رکھیں اور آج کے اصلی اور بنیادی سماجی مسئلوں سے ان کے دھیان کو موڑے رکھیں۔

ایلیٹ کہتا ہے ’’جب سماج میں تبدیلیاں اچھی طرح جم جاتی ہیں تو پھر ایک نئے راستے کی ضرورت پڑنے لگتی ہے‘‘۔ نئے راستے ہمیشہ شعور و ادراک کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں اور شعور و ادراک اپنے عہد کی معرفت سے حاصل ہوتا ہے۔ ہر عہد کے اپنے مخصوص رجحانات ہوتے ہیں، ان کی شناخت، واقعات اور گرفت ہی اصل کام ہوتا ہے۔

اسی لیے ایلیٹ کہتا ہے ’’ہمارا شعور و ادراک جیسے جیسے ہمارے گردوپیش کی دنیا بدلتی ہے خود بھی بدلتا رہتا ہے، مثلاً اب ہمارا شعور و ادراک وہ نہیں ہے جو چینیوں کا، ہندوؤں کا تھا، بلکہ وہ اب ویسا بھی نہیں ہے جیسا کئی سو سال قبل ہمارے آباؤاجداد کا تھا، یہ ویسا بھی نہیں ہے جیسا ہمارے اپنے باپ دادا کا تھا، بلکہ ہم خود بھی وہ شخص نہیں ہیں جو ایک سال پہلے تھے‘‘۔ آپ کسی شخص یا اشخاص کے شعور کو کچھ عرصے کے لیے تو ضرور زنجیروں میں جکڑ سکتے ہیں لیکن ہمیشہ کے لیے ایسا کرنا ناممکن ہوتا ہے۔

ایک تو یہ کہ کچھ عرصے بعد وہ زنجیریں اتنی زنگ آلود ہوچکی ہوتی ہیں کہ وہ خودبخود ٹوٹنا شروع ہوجاتی ہیں اور دوسرا یہ کہ کچھ عرصے بعد لوگ اپنے بڑھتے شعور و ادراک کی بنا پر ایک روز نہ صرف یہ کہ وہ یہ زنجیریں توڑ دیتے ہیں بلکہ وہ ان زنجیروں کو پہنانے والوں کو پہنادیتے ہیں۔

آپ پوری دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، ایک بار نہیں باربار دیکھ لیں، پوری دنیا میں ہمیشہ ہی سے ایسا ہوتا آرہا ہے، آج جو پوری دنیا کے لوگ آزاد نظر آرہے ہیں اور ان کے سماج جو ہر قسم کی نفرت، تعصب اور ہر قسم کی زنجیروں سے محفوظ نظر آرہے ہیں، ایک وقت میں وہ بھی انتہاپسندی، نفرت، تعصب کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ یاد رہے انسان کو زنجیروں میں جکڑا جاسکتا ہے لیکن شعور کو نہیں، عقل کو نہیں جکڑا جاسکتا ہے۔

رجعت پرستوں اور بنیاد پرستوں تمہاری آنکھیں کمزور ہوچکی ہیں، تمہیں کچھ نظر نہیں آرہا ہے، اور ساتھ ساتھ تمہیں کچھ سنائی بھی نہیں دے رہا ہے، اسی لیے تم ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہو۔ دیکھو، غور سے دیکھو، سنو، غور سے سنو، تمہاری پہنائی ہوئی زنجیریں ٹوٹ رہی ہیں۔ پاکستان کے لوگ آزاد ہورہے ہیں، شعور وعقل کی جیت ہورہی ہے، تم ہر جگہ سے پسپا ہورہے ہو، ہر جگہ تمہیں شکست نصیب ہورہی ہے، دیکھو، غور سے دیکھو، عقل کا سورج طلوع ہورہا ہے، اندھیرے چھٹ رہے ہیں لیکن تم کیسے دیکھ سکتے ہو، اس لیے کہ تمہیں کچھ بھی نظر نہیں آرہا ہے، تمہیں کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا ہے۔ وہ دیکھو، بوسیدہ دیواریں گررہی ہیں، دیمک زدہ سماج کی بند کھڑکیاں اور دروازے ٹوٹ رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔