سود خوروں کے ہاتھ چڑھا یونان ؛ یوروزون سے نکال دیا جائے گا؟

انوار فطرت  اتوار 24 جنوری 2016
سرمایہ کاروں کی یونان کے حوالے سے تشویش ختم ہو گئی یوں اس کی ساکھ میں بہتری آنے لگی:فوٹو : فائل

سرمایہ کاروں کی یونان کے حوالے سے تشویش ختم ہو گئی یوں اس کی ساکھ میں بہتری آنے لگی:فوٹو : فائل

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

غالب قرض کی پیتے تو تھے لیکن عاقبت آگاہ بھی تھے لیکن یونانی لمحۂ موجود میں رہنے والے ہیں، ان کے ہاں ’’کل‘‘ کا شاید کوئی تصور نہیں ہے۔ جرمن جبھی تو ان کی بھد ا ڑاتے ہیں کہ یہ علی الصبح ہی پینے لگ جاتے ہیں۔ (بھد اڑائی گئی یونانیوں کی مگر خدا شاہد ہے کہ ’’ہم شرمائے جاتے ہیں‘‘)۔

حسین دیویوں اور دل پھینک دیوتاؤں کی سرزمین یونان1830 تک سلطنت عثمانیہ کے زیرنگیںرہی ہے۔ آزادی سے اب تک کے آدھے برس اس ملک نے مالی پریشانیوں میں گزارے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم سے پہلے یہ ایک زرعی ملک تھا، اس کے بعد یہاں صنعتی ترقی کا عمل شروع ہوا۔ یہ ہی چند برس تھے، جن کے دوران میں اس کی اقتصادی حالت کچھ بہتر رہی لیکن 1970 میں عسکری آمریت کا خاتمہ ہوا تو حالات پھر دگرگوں ہوگئے۔ 1973 سے 1993 کے برسوں میں یہاں افراطِ زر لگ بھگ 18 فی صد کی شرح سے بڑھتا رہا، جس نے عوام کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ خسارے کی معیشت سے نمٹنے کے لیے اسے بڑی شرح سود پر قرضے لینے پڑے، اس میں اس پر نادہندگی کے خدشے کی گھڑی بھی آئی۔

1981 میں یونان کو اس سب کچھ کے باوجود یورپی اقتصادی برادری یوروپین ایکونومک کمیونٹی میں قبول کر لیاگیا۔ 1990 کی دہائی میں اس نے یورپی مالیاتی یونین سے رسم و راہ رکھی اور ماستریک معاہدے (Maastrich Treaty) پر عمل درآمد کرتے ہوئے افراطِ زر اور خسارے کی شرح کو نیچے لانے میں کامیابی حاصل کرنے لگا اور ایک وقت میں اس کی کرنسی (درخما) کی قیمت یورو زون کے قریب آ گئی۔ 2002 میں یونان نے درخما کی جگہ یورو کو بطور کرنسی اختیار کیا، جس میں یورپی مرکزی بنک (Europian Central Bank) نے اس کا ساتھ دیا اور مالیاتی منڈی میں اس کا اعتماد بڑھایا۔

سرمایہ کاروں کی یونان کے حوالے سے تشویش ختم ہو گئی یوں اس کی ساکھ میں بہتری آنے لگی۔ یہ صورتِ حال مغربی ممالک کے ’عظیم مالی انتشار‘ (Great Recession) تک برقرار رہی۔ اس کی سہ ماہی مالی بڑھوتری 3.9 فی صد تک جا پہنچی۔ فی کس آمدنی 47 فی صد تک چلی۔ خوش حالی کا یہ دور 1996 سے 2006 تک جاری رہا۔

پھر حکومت تبدیل ہوئی، جس نے 2009 میں اچانک انکشاف کیا کہ 2009 میں خسارے کی شرح 6 فی صد نہیں بل کہ12.6 فی صد تھی۔ اس پر سرمایہ کار بھونچکے رہ گئے کیوںکہ انکشاف ہوا کہ ایتھنز اپنے اقتصادی احوال کے بارے میں دروغ گوئی کرتا رہا ہے، اس کے ساتھ ہی یورو کو بھی بحرانی کیفیت نے آ لیا۔ یونان کا ڈوبنا ظاہر ہے یورپی برادری اور یورپی زون کے لیے خطرے کا گروگھنٹال تھا۔

جیسا کہ سرمایہ دارانہ معیشت میں ہوتا ہے، صنم کو بھی لے ڈوبنے والے اس بانکے کو سہارا دینے کے لیے یکے بعد دیگرے 240ارب یورو یا یوں کہیے کہ 264 ارب ڈالر زر تعاون بیل آؤٹ فراہم کیاگیا اور اس پر اصراف گریزی (Austerity) کی شرط عاید کردی گئی۔ اس اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ حکومت بجٹ کے خسارے میں کمی کے اقدامات کرے، جو کٹوتیوں یا ٹیکسوں میں اضافے یا دونوں کے مجموعے پر مبنی ہوتے ہیں، حکومت کو آسٹیریٹی کے تحت اس مالیاتی تنظیم پر عمل کرنا پڑتا ہے۔

اس آسٹیریٹی نے مرے کو اور مارا۔ دوسرے بیل آؤٹ پر کچھ جان میں جان آئی ہی تھی کہ یورپ کو مالی بحران (Recession) نے آ لیا، یونان اس کا آسان ترین شکار تھا، اوروں کا تو جو ہوا سو ہوا، اس کی معیشت 25 فی صد گر گئی اور بے روزگاری کی شرح 25 فی صد سے بھی آگے۔ خالص قومی پیداوار اتنی گری کہ قرضے واپس کرنا دوبھرہوگیا۔

2015 کے انتخابات ہوئے تو یونانیوں نے بائیںبازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے سیاسی اتحاد کو آزمانے کا ارادہ کیا، نتیجے میں الیکسزژیپرس وزیراعظم بن گئے۔ نئی حکومت نے دیگر اقدامات کے علاوہ آسٹیریٹی ختم کرنا چاہی لیکن قرض خواہوں نے پنڈلی پر کاٹ کھایا، سو یونانی بنک یورپی مرکزی بنک ( ای سی پی) کے رحم و کرم پر ہی رہے۔

یہ رحم و کرم تب معطل ہوا جب یونانی قیادت نے اس امر پر ریفرنڈم کرانے کا ارادہ ظاہر کیا کہ ’کیا قوم کو قرض فراہم کرنے والے بین الاقوامی اداروں کی تجاویز قبول ہیں؟‘۔ اس پر یوروزون میں وہ غل پڑا کہ توبہ؛ یونان میں بینکاری ایک ہفتے تک معطل رہی۔ اب دونوں طرف ٹھنی ہوئی ہے۔ یونانی قیادت عوام کا نام لیتی ہے تو سودخور مرتاہے۔ وہ یونانی تجاویز کو تنکابھر گھاس تک ڈالنے کو تیار نہیں۔ رقم ڈوبنے کا اندیشہ ایک طرف اور اشتراکیت کے ایک بار پھر مقبول ہونے کا خدشہ الگ؛ لیکن خدشوں اندیشوں کی اس چہ کنم کے باوجود یونان کو ناپرساں بھی نہیں چھوڑا جا سکتا کہ یہ مرض متعدی ہے۔ ادھر یوانیوں نے اس ڈر سے کہ کہیں رہی سہی سے بھی جاتے رہیں، بنکوں سے اپنی اپنی پونجیاں نکلوانا شروع کردیں۔

بنکوں نے پھانک ہونے سے بچنے کے لیے اے ٹی ایم مشینوں کو 60 یورو روزانہ تک محدودکر دیا، اس سے زیادہ ایک دن میں نکلوانا ممکن نہ رہا۔ ریفرنڈم کے بارے میں خود ایک یونانی قائد نے خبردار کیا کہ اگر اس تجویز پر عمل ہوا تو رائے دہندگان کے پولنگ بوتھ تک پہنچنے سے پہلے ہی یونانی معیشت دھڑام سے نیچے آرہے گی کیوںکہ صاف ظاہر ہے کہ عوام کی رائے کیا ہے۔ یہ یونانی قائد خود الیکسزژیپرس تھے اور یہ تنبیہ انہوں نے وزیراعظم بننے سے پہلے دی تھی لیکن وہ تب بھی درست تھے اور اب جب اپنی اس تنبیہ کی خلاف ورزی پر اترے آئے ہیں تو اب بھی درست ہیں کیوںکہ یونان کی صورت حال کے بارے میں کوئی پیش گوئی، خواہ کتنی ہی محتاط ہو، سہل نہیں۔

یونان پر اس وقت بائیں بازو کا بنیاد پرست اتحاد ’’سائریزا‘‘ حکمران ہے۔ اس اتحاد کا نعرہ ہے ’’ہم امید کا دروازہ کھولتے ہیں‘‘۔ اس اتحاد نے یونان کو جاری بحران سے نکالنے کے لیے ایک 40 نکاتی پروگرام دیا ہے۔ جو کچھ یوں ہیں کہ 5 لاکھ یورو سے زیادہ آمدنی پر 75 فی صد انکم ٹیکس عاید کیا جائے، بڑی کمپنیوں پر ٹیکس یورپ کی اوسط سطح پر لایا جائے، بنکوں کے اخفاء کی پالیسی اور سرمائے کی بیرون ملک اڑان کو روکا جائے، کم از کم ماہانہ تنخواہیں750 یورو تک بڑھائی جائیں۔

(اس بحران میں) بے گھر ہونے والوں کو کم از کم سرکاری عمارتوں، بنکوں اور گرجا گھروں میں رہائش دی جائے، بنکوں کو قومیا کر یا سماجیا کر کارکنوں کے کنٹرول میں دیا جائے اور کالے دھن کی سرمایہ کاری فوری طور پر بند کی جائے، پارلیمان کے اراکین کی مراعات ختم کی جائیں، وزراء کو حاصل خصوصی عدالتی تحفظ ختم کیا جائے، عدالتوں کو حکومتی اراکین کے خلاف کارروائی کی اجازت دی جائے، کوسٹ گارڈز اور انسداد بغاوت کی خصوصی فورس کو فوج سے الگ کیا جائے، مظاہرین کو منتشر کرتے وقت پولیس ماسک (نقاب) اور آتشیں اسلحہ استعمال نہ کرے، پولیس کو تارکین وطن کے داخلے، منشیات اور دیگر معاشرتی مسائل سے نمٹنے کے لیے ان کے تربیتی کورس تبدیل کیے جائیں۔

سائریزا قرضوں کے دباؤ کے بارے میں جو نقطہ نظر رکھتی ہے، وہ کچھ یوں ہے کہ قومی قرضہ اپنی اولین حیثیت میں طبقاتی تعلقات کی پیداوار اور غیر انسانی ہے۔ یہ بالائی طبقے کی ٹیکس نادہندگی، سرکاری دولت کی لوٹ مار اور فوج کے بھاری بھر کم اسلحے پر بے دریغ اخراجات کا نتیجہ ہے، سائریزا تجویز پیش کرتی ہے کہ ڈٹ سروسنگ میں مہلت دی جائے اور قرضوں کی منسوخی پر مذاکرات کیے جائیں۔ چھوٹی بچتیں کرنے والوں کو سوشل انشورنس کا تحفظ فراہم کیا جائے۔

یہ یورپ میں بائیں بازو کی طرف سے دیا گیا سب سے زیادہ بنیاد پرستانہ پروگرام ہے، جس سے یورپ کا حکمران طبقہ خوف زدہ ہے، وہ اسے اشتراکی سماج کی طرف جانے والا راستہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے اگر اسے قبول کر لیا جائے تو یونان کو امدادیں فراہم کرنے والی تثلیث (یوروپی مرکزی بنک، یورپی کمیشن، آئی ایم ایف) کے خلاف طبقاتی مزاحمت آغاز ہو سکتی ہے۔ یہ پروگرام یونان کی تقدیر بدلنے کے بھرپور امکانات رکھتا ہے لیکن دو سال کے عرصے کے دوران میں سائریزا، دائیں طرف جھکنے پر مجبور ہوگیاہے۔ حال ہی میں دہریے وزیراعظم ژیپرس نے پاپائے روم سے ملاقات کی، مقصد یہ پیغام دیناتھا کہ سائریزا کوئی اشتراکی عفریت نہیں ہے۔ ایک حالیہ پول میں سائریزا نے ’نیو ڈیموکریسی‘ پر 11 فی صد کی برتری حاصل کی ہے۔

سائریزا نے مگر بعض تجاویز دی ہیں، جن میں آسٹیریٹی ختم کرنے، کم از کم ماہانہ تنخواہ 750 یورو تک بڑھانے، چھوٹے تنخواہ داروں کی آمدن پر ٹیکس چھوٹ دینے، کرسمس پر پنشنرز کا بونس بحال کرنے اور روزگار کے 3 لاکھ مواقع پیدا کرنے پر زور دیا ہے۔ واضح رہے کہ سال رواں کے وسط سے آگے تک ہر چوتھا یونانی بے روزگار تھا۔ یونان کا سب سے بڑا مربی جرمنی بھی سائریزا پر زور دے رہا ہے کہ وہ اپنے پروگرام، پالیسیاں اور تجاویز اپنی جیب میں رکھے اور جیسا ٹرائیکا کہتاہے، ویسا ہی کرے۔ وزیراعظم زیپرس کارکنوں میں مقبول ترین لیڈر ہیں، انتظار ہے کہ وہ ڈٹیں گے یا سودخوروں کی فرسودہ ’’اصلاحات‘‘ (پیوندکاری) پر آمادہ ہوتے ہیں۔

یوروپی یونین (ای یو) میں، مالیات اور تارکین وطن جیسے سیاسی نزاکتوں کے حامل معاملات پر فیصلہ سازی کی اصل قوت 28 قومی حکومتوں کے پاس ہے، جو سب کے سب اپنے ووٹروں اور ٹیکس ادا کرنے والے عوام کے زیربار ہیں۔1999 میں جب یورو متعارف ہوا، تب ہی سے اس کے زون میں تاحال شامل ہونے والے 19ممالک کے امور کا نگران یوروپین سنٹرل بنک ہے البتہ اپنے بجٹ اور ٹیکس پالیسیاں یہ ممالک خود طے کرتے ہیں۔

اس طریقۂ کار کے باعث بعض ممالک معیشتیں زوال پذیر ہیں۔ یونان کا بحران 2010 میں شروع ہوا تو اکثر بین الاقوامی بنکوں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں نے یونانی بانڈز اور دیگر اقسام کی ضمانتیں فروخت کر دیں، سو سرمایہ دارانہ توتاچشمی کے عین مطابق یونان پر کیا بنی بیتی، ان کی جانے بلا۔ یونان کا معاملہ خاصا پیچیدہ ہے وگرنہ اس کے ساتھ پرتگال، سپین اور آئرلینڈ بھی بحران کی زد پر آئے رہے لیکن انہوں نے اپنی اپنی معیشتوں کی تطہیر کی اور خود کو سرمائے کی منڈی کے لیے قابلِ قبول بنا لیا۔ اب اگر یونان نادہندہ ہوگیا اور یورو زون سے نکل گیا تو عالمی معیشت کے لیے اس کا دھچکا لہمن برادرز کی دیوالگی سے کہیں شدید ہوگا۔ انہوں اس سانحے کے لیے گریکزٹ(Grexit) کا پیشگی نام بھی تجویز کر لیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔