میاں صاحب کی گیدڑ سنگھی

نصرت جاوید  جمعـء 2 نومبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

میاں محمد نواز شریف جب پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے تو میرے شہر لاہور سے انگریزی میں لکھنے والے ان کا بہت مذاق اُڑایا کرتے تھے۔

اپنی تحریروں کے ذریعے انھوں نے کتھیڈرل اور گورنمنٹ کالج سے تعلیم یافتہ، دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے والے ایک صنعتی گروپ کے اس ولی عہد کے بارے میں عجیب و غریب کہانیاں پھیلا دیں۔ انھیں ایک سادہ لوح شخص کی طرح پیش کیا گیا جو کتابیں تو کیا اخبار بھی نہیں پڑھتا۔ جسے انگریزی نہیں آتی۔ ایک ایسا سیاستدان جو حکمرانی کے کھیل کو افلاطون اور ارسطو جیسے فلاسفروں کے سکھائے انداز میں کھیلنا ہی نہیں جانتا۔ بس ضیاء الحق اور جیلانی جیسے جرنیلوں کی جی حضوری کرتا ہے۔

صبح اُٹھ کر گوالمنڈی کے روایتی خوش خوراکوں کی طرح سری اور زبان کے پیالے چٹ کر جاتا ہے اور دوپہر کے کھانے کے ساتھ لسی کے گلاس پیتا ہوا سو جاتا ہے۔ عصر کے قریب اُٹھتا ہے تو باقرخانی یا سموسوں کی پلیٹیں ختم کرنے کے بعد رات کے کھانے میں ملنے والی شب دیگ کا انتظار شروع کر دیتا ہے۔

بذات خود اندرون لاہور کے ایک پرانے خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود میں نواز شریف کے بارے میں 1990ء تک قطعی لاعلم رہا۔ بچپن کی یادوں کے حوالے سے بس اتنا یاد تھا کہ سرکلر روڈ پر شاہ محمد غوث کے مزار کے بعد ’’کیلوں والی سڑک‘‘ آیا کرتی تھی جس کے بائیں طرف رام کے نام پر بسائی گئی گلیاں تھیں۔ ان ہی گلیوں میں بتایا جاتا تھا کہ ’’امبرسری کشمیریوں‘‘ کا ایک خاندان رہتا تھا جن کا برف خانہ ہوا کرتا تھا اور ایک فائونڈری بھی۔ پھر وہ خاندان ماڈل ٹائون منتقل ہو گیا۔ نواز شریف کو بالکل نہ جانتے ہوئے بھی میں ان کا تمسخر اُڑانے والوں کو کبھی کبھار یاد دلانے کی کوشش کرتا کہ پنجاب جیسے صوبے کا وزیر اعلیٰ بننا اوراس عہدے پر ٹکے رہنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ میاں صاحب کے پاس یقیناً کوئی نہ کوئی ’’گیدڑ سنگھی‘‘ ہو گی جس کی وجہ سے وہ ایک نہیں دوبار اس عہدے پر نہ صرف فائز ہوئے بلکہ ٹکے بھی رہے۔ زیادہ بہتر ہے کہ ہم ان کی خوش خوراکی کا مذاق اُڑانے کے بجائے اس ’’گیدڑ سنگھی‘‘ کو تلاش کریں جو انھیں اقتدار کے قریب قریب رکھتی ہے۔

میاں صاحب 1990ء میں جب وزیر اعظم بن کر اسلام آباد آئے تو میں اپنے طور پر ان میں وہ ’’گیدڑ سنگھی‘‘ ڈھونڈنے کی کوشش کر سکتا تھا۔ مگر ان کے درباریوں نے انھیں خبردار کر رکھا تھا کہ میں صحافی نہیں جیالا ہوں۔ ان سے قربت نصیب ہی نہ ہوئی اور سچی بات ہے میں نے ان تک پہنچنے کی خاص کوشش بھی نہیں کی۔ ان کی حکومت کی چالوں اور ترجیحات کا ملک نعیم، چوہدری نثار علی خان اور مرحوم عبدالستار لالیکا جیسے کر م فرمائوں سے خوب پتہ رہتا اور ایک رپورٹر کو ان ہی چیزوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔

پھر یوں ہوا کہ 1991ء کے آخری دنوں میں مرحوم محمد خان جونیجو نے اچانک بڑی باقاعدگی کے ساتھ قومی اسمبلی میں آنا شروع کر دیا۔ ان کی باقاعدہ آمد کے ساتھ ساتھ یہ ہونا شروع ہو گیا کہ جیسے ہی سابق وزیر اعظم ایوان میں داخل ہوتے تو چند حکومتی اراکینِ اسمبلی انھیں پچھلی نشستوں پر بٹھا کر سرگوشیوں میں مصروف ہو جاتے۔ یہ سب کسی ’’گیم‘‘ کی نشانیاں تھیں۔ اِدھر اُدھر سے سن گن لی تو پتہ چلا کہ صدر غلام اسحاق خان نوازشریف سے خوش نہیں ہیں جو ان کی نظر میں اپنے عہدے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔

چونکہ وہ صدر 1990ء میں پہلے ہی ایک وزیر اعظم اور ان کی اسمبلی کو فارغ کر چکے تھے، اس لیے ان کی خواہش تھی کہ اس دفعہ ان ہائوس تبدیلی لائی جائے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ پاکستان مسلم لیگ کے اراکین اسمبلی اکٹھے ہو کر نواز شریف کی جگہ کسی اور کو وزیر اعظم بنانے پر اتفاق کر لیں۔ محمد خان جونیجو یہ کام اس لیے بھی آسانی سے سر انجام دے سکتے تھے کہ ایک مرتبہ وزیر اعظم رہ چکے تھے۔ ان کی ذات پر کرپشن کا کوئی دھبہ نہ تھا۔ ٹھنڈے مزاج کے، دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے والی شخصیت تھے۔

جب یہ باتیں چل رہی تھیں تو مجھے صدر اسحاق کے ایک بڑے تگڑے معتمد ایک تقریب میں مل گئے۔ انھیں میری انگریزی درست کرنے کا بہت شوق ہوا کرتا تھا اور میں خبریں حاصل کرنے کے چکر میں ان سے صحیح زبان سیکھنے کو ہمہ وقت تیار ہونے کی منافقت کرتا رہتا تھا۔ انھوں نے بھی جب جونیجو صاحب کے وزیر اعظم بننے کے امکانات کا اظہار کیا تو میں نے انھیں فوراََ وہ فقرہ یاد دلا دیا جو جنرل حمید گل، جتوئی صاحب کو وزیر اعظم نہ بننے کے جواز میں استعمال کیا کرتے تھے۔ میرا فقرہ سنتے ہی وہ معتمد فوراََ بولے کہ ٹھیک کہہ رہے ہو ’’پنجابی وزیر اعظم کی جگہ ان ہائوس تبدیلی کے ذریعے ایک اور پنجابی کو ہی لانا پڑے گا۔‘‘ ان کا یہ فقرہ ادا کرنے کے چند ہی دنوں بعد حامد ناصر چٹھہ کے اسلام آباد میں بنائے گئے ’’وزیر آباد ‘‘ گھر میں بڑی رونق لگنا شروع ہو گئی۔ اتفاق یہ بھی تھا کہ چٹھہ صاحب کے وزیر والے سرکاری گھر کا نمبر 10 تھا۔ چٹھہ صاحب اکثر ترنگ میں اسے 10-Downing Street کہا کرتے تھے جو برطانوی وزیر اعظم کا سرکاری گھر ہوا کرتا ہے۔

اس کے بعد کی کہانی بڑی لمبی ہے۔ اخباری کالم میں سمٹ نہ پائے گی۔ بس اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ 1992ء سے 1993ء تک صدر غلام اسحاق خان اور اس وقت کی عسکری قیادت کی چھتر چھائوں میں مرحوم محمد خان جونیجو کی پوری آشیر باد کے ساتھ حامد ناصر چٹھہ میاں محمد نواز شریف کی جگہ لینے کو تیار بیٹھے تھے۔ مگر یہ ہو نہ سکا۔ بالآخر نئے انتخابات ہوئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو دوبارہ وزیر اعظم بن گئیں۔ چٹھہ صاحب اس مرتبہ ان کے سب سے زیادہ بااثر اور قابل اعتماد اتحادی تھے۔ اسی کے بل بوتے پر وٹو صاحب پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے اور سردار آصف احمد علی وزیر خارجہ۔ پھر سب مراحل سے گزرتے ہوئے بالآخر چٹھہ صاحب بھی جنرل مشرف کی بنائی قاف لیگ میں چلے گئے۔

بدھ کو چٹھہ صاحب کی رائے ونڈ میں نواز شریف صاحب سے بڑی تفصیلی ملاقات ہوئی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس ملاقات کی وجہ سے چٹھہ صاحب اور ان کے ہم خیال آیندہ کا انتخاب شیر کے نشان کے ساتھ لڑیں گے۔ پس ثابت یہ ہوا کہ نواز شریف صاحب آیندہ انتخابات جیتنے کے لیے اب کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ یہ بات غلط ہے کہ ان کے دل میں ’’معافی کا کوئی خانہ ہی نہیں۔‘‘ کسی بھی کامیاب سیاستدان کی طرح ضرورت پڑنے پر وہ بھی ماضی کے بدترین دشمنوں کو گلے لگا کر اپنا بھائی بنا سکتے ہیں۔ مزے کی بات مگر یہ ہے کہ جب آصف علی زرداری منظور وٹو کو اپنی پارٹی کا پنجاب کے لیے صدر بناتے ہیں تو لوگوں کو بڑا’’غیر اصولی‘‘ لگتا ہے۔ لیکن نواز شریف صاحب جب چٹھہ صاحب سے مسکراتے ہوئے ملتے پائے جائیں تو کسی بھی صحافی کو ’’اصول‘‘ یاد نہیں آتے۔ میاں صاحب کی اصل ’’گیدڑ ‘‘ یہی ہے۔ مگر مجھے اس کو دریافت کرنے میں بہت دیر لگ گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔