بے حیائی ترقی کی علامت ہے…

شیریں حیدر  اتوار 24 جنوری 2016
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ میرے جیسے قدامت پسند بندے کا بھی دل چاہتا ہے کہ ٹیلی وژن دیکھے، عموماً تو میں ٹیلی وژن پر خبریں وغیرہ ہی ’’سنتی‘‘ ہوں، اس دن میں نے شام کو انٹر ٹینمنٹ کا ایک چینل لگا لیا اور اسے سننے کی بجائے دیکھنے لگی، ایک وقت میں ایک سے زائد کام کرنے کی عادت کم ہی موقع دیتی ہے ٹیلی وژن دیکھنے کا۔ کوئی فضول سا پروگرام آ رہا تھا، اسے بدلا تو ایک اور اسی نوعیت کا فضول سا پروگرام… دو تین چینل بدل کر اندازہ ہوا کہ اس وقت سارے چینل اسی قسم کے پروگرام دکھا رہے تھے، کہں کوئی ہیرو ہے تو کہیں کوئی عالم دین، جو پروگرام کی کمپئیرنگ کرتے ہوئے پورے راجہ اندر بنے ہوئے ہوتے ہیں۔

بعض لوگ جو ان پروگراموں میں بیٹھ کر نئے انداز سے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں، ضروری ہے کیا کہ ہم بطور قوم بھی ہر جگہ کشکول لے کر پھرتے نظر آئیں۔ جانے کتنے کتنے گرام سونا بانٹنا، موٹر سائیکل، نقدی پانے کی خاطر عجیب و غریب حرکتیں کرتے لوگ… مداریوں جیسے کمپئیر،ان کے اشاروں پر ناچتے ، ان کی فضول جگت بازی اورفقروں کو ہنس ہنس کر برداشت کرتے ہوئے، چھوٹے چھوٹے بچے بھی اپنی سیٹوں سے اٹھ کر میزبان سے… ’’ انکل مجھے بھی ویسی گاڑی چاہیے!! ‘‘ انکل اسے گاڑی دینے کے لیے اس کے باپ کو بلوا کر اسے کوئی نہ کوئی گھٹیا کام کرنے کو کہتے ہیں اور باپ بچے کے من کے لالچ کی تسکین کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار۔

’’ ایک کھیل کے لیے کچھ خواتین چاہییں!!!‘‘ اناؤنسمنٹ ہوتی ہے، چند خواتین لپک کر پہنچتی ہیں، مزید خواتیں چاہئیں تو میزبان قطاروں کے بیچ میں سے خواتین کو نکال نکال کر لاتا ہے، کھیل شروع ہوتا ہے، ایک حجاب والی خاتون، شرمیلے سے انداز میںمائیک کے سامنے بمشکل منہ سے چند لفظ ادا کر پاتی ہے، کھیل کا اختتام ہوتا ہے، وہ جیت جاتی ہے، دونوں ہاتھ ہوا میں اٹھا کر اپنی فتح کے لیے خود ہی تالیاں بجاتی ہے، اپنے ہاتھوں سے اپنا حجاب ٹھیک کرتی ہے… موٹر سائیکل جیتا ہے کوئی چھوٹی موٹی بات تو نہیں!!! موٹر سائیکل آتا ہے، پروگرام کا میزبان اس پر بیٹھ جاتا ہے، ’’ آئیں بیٹھیں اپنے موٹر سائیکل پر!! ‘‘ خاتون ذرا سا جھجکی، ’’ آ جائیں، بہن ہیں آپ میری!! ‘‘ وہ ایک لمحہ سوچے بغیر لپک کر اپنے حال ہی میں پیدا ہو جانے والے بھائی کے پیچھے بیٹھ گئیں۔

اس کے بعد کا کھیل ایک نو دس سالہ بچی نے جیتا تو میزبان نے جوش جذبات میں اس بچی کو اٹھا لیا، اسے جیت کی خوشی میں گالوں پر کئی بوسے بھی دیے… میرا تو سارا لہو گرم ہو گیا، جانے کیسے لوگ باقاعدگی سے اور ہر روز ایسے پروگرام دیکھتے اور برداشت کرتے ہیں؟ پہلے ہمارے ہاں ڈرامے اور مارننگ شو کیا کم ’’ خدمت‘‘ کر رہے ہیں کہ اب اس نوعیت کے پروگرام فروغ پا رہے ہیں؟ ہم اپنی بچیوں اور بچوں کو بتاتے ہیں کہ کسی بھی اجنبی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ آپ کو چھوئے، اپنے ماں باپ کے سوا کوئی آپ کو بوسہ بھی دے اور یہاں کیا ہو رہا ہے، کون والدین ہیں جو یہ مناظر برداشت کرتے ہیں؟

جن معاشروں کے پروگراموں کی تقلید میں ہمارے ہاں ایسے پروگرام فروغ پا رہے ہیں وہاں لوگوں میں شعور ہے، تمیز ہے اور وہ کھیل کو کھیل کی طرح کھیلتے ہیں ، حرص اور لالچ کے مظاہرے کرتے ہوئے نہیں۔

کتنا عرصہ ٹیلی وژن پر ایک کروڑ تک کی رقم جیتنے کا ایک ہمسایہ ملک کا پروگرام چلتا رہا، میں نے جب کبھی اس پروگرام کو دیکھا،، کبھی نہ دیکھا کہ چند لاکھ یا کئی لاکھ جیتنے والی پروگرام کے کمپئیر کو لپٹ گئی ہو، جب کہ ہمارے ہاں جیتنے والیاں فرط جذبات میں لپٹ لپٹ جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں کئی چینلز پر غیر ملکی ڈراموں کی بہتات ہے، ایک ڈرامہ کافی سالوں تک چلتا رہا، اسی دوران ترکی سے ایک اتاشی کے بچے ہمارے اسکول میں داخل کروائے گئے۔

ان بچوں کی والدہ نے ایک دفعہ ایک غیر رسمی ملاقات میں بتایا کہ اس وقت ایک ترکی ڈرامہ جو کہ ہمارے ہاں دکھایا جا رہا تھا اور مقبولیت کے ریکارڈ توڑ رہا تھا، اس کی غیر اخلاقی تھیم کے باعث وہ ترکی میں دکھانا ممنوع قرار دیا گیا تھا، اندازہ کریں کہ ہمارا اخلاقی معیار کیا ہے۔ہر روز ہمسایہ ملک کے کئی ڈرامے مختلف چینلز سے دکھائے جاتے ہیں، جن میں سازشوں کے طریقے، نئی نسل کو بگاڑنے کے سارے لوازمات، ساسوں بہوؤں کی چپقلش دکھائی جاتی ہے جسے ہماری نوجوان لڑکیاں نہ صرف شوق سے دیکھتی ہیں بلکہ شادی سے پہلے وہ ان سارے ہتھیاروں سے لیس ہو جاتی ہیں جو انھوں نے سسرال جا کر استعمال کرنا ہوتے ہیں۔

رشتوں میں اعتماد پہلے دن سے ہی قائم نہیں ہوتا کیونکہ وہی ڈرامے ساسیں بھی دیکھ چکی ہوتی ہیں اور ساس بھی کبھی بہو تھی!!! اب ہمارے اپنے ڈرامے ‘شادی کے تعلقات، شادی شدہ جوڑوں میں آپس میں دھوکہ دینے کا رجحان، دکھائے جاتے ہیں، گھروں اور تعلیمی اداروں کا جو ماحول دکھایا جاتا ہے اگر وہ حقیقت میں وہی ہے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ لباس مختصر سے مختصر ہوتے جا رہے ہیں، لباس جس کا اولین مقصد جسم کی پردہ پوشی ہے، اسے چھپانا ہے۔

ماضی میں ہماری ایک حکمران جو چاہے جتنی بھی ماڈرن تھیں مگر جب وہ برسر اقتدار آئیں تو انھوں نے اپنا ظاہری حلیہ وہ رکھا کہ جیسا کسی اسلامی جمہوریہ کی سربراہ کا ہونا چاہیے، کیا انھیں کسی نے قدامت پسند کہا؟ باتیں کرنیوالے ان کے ماضی کے بارے میں جو بھی کہیں ، اس پر بحث نہیں مگر انھوں نے کسی غیر ملکی دورے میں یا اپنے ملک میں آنیوالے وفود میں سے کسی سے مصافحہ نہیں کیا، چاہے کو ئی کتنے ہی طاقتور ملک کا سربراہ کیوں نہ ہو۔ ہمارے ڈرامے اور ثقافتی پروگرام اس ملک کی بیرون ملک پہچان ہے، جسے دنیا بھر میں اس لیے دیکھتے ہیں کہ وہ گھر بیٹھے ہمارے ملک کے بارے میں جانیں، تو سوچیں کہ لوگ ہمارے بارے میں کیا جانتے ہیں!!

ہم بے مقصد آزاد روی کو ترقی سمجھ بیٹھے ہیں، اگر اس ملک کو درپیش اس خطرے کا احساس نہ کیا گیا تو یقین کریں کہ چند برسوں میں حالات مزید خراب ہوں گے۔ کیونکہ جن ممالک کی اندھی تقلید میں ہم نے اپنے منہ تھپڑ مار مار کر لال کر لیے ہیں ان ممالککا کلچر سب کے سامنے ہے۔

کیا پوچھا آپ نے؟ ؟؟ ہم کیسے ایسا کر سکتے ہیں ؟ ہم ایسے پروگراموں کو دیکھنا بند کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔