جناب جسٹس میاں ثاقب نثار ٹھیک ہی تو کہتے ہیں!

رحمت علی رازی  اتوار 24 جنوری 2016
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے وژن 2025ء کی پٹاری میں بھانت بھانت کے پھنیئر مقیّد ہیں‘ وہ ہر چھ ماہ بعد اصلاحات کا ایک نیا سانپ نکال کر مداری شروع کر دیتے ہیں۔ ابھی سال ڈیڑھ سال قبل ان پر سول سروس اصلاحات کی دُھن سوار تھی اور ہم اس موضوع کے مختلف النوع زاویوں پر لکھ لکھ کر چھت سے جا لگے۔

ہم تو کیا دسیوں بیسیوں قلم آزماؤں نے سول سروس کی ڈائن کے انگ نکھارنے کے لیے اپنے اپنے رنگ پیش کیے مگر اس بدشکل چڑیل کو سون پری کا لبادہ نہ اوڑھایا جا سکا۔ حکومت کی طرف سے ڈھنڈورا تو بہت پیٹا گیا۔ کبھی فلاں محکمے کی اصلاح‘ کبھی فلاں ادارے کی تو کبھی فلاں کی مگر ہر چند ہمیں لگتا ہے کہ ہم طعامِ تازہ کے چنداں لائق نہیں‘ ہمارے نصیب میں باسی روٹیاں لکھی ہیں اور ہم ہمیشہ یہی کھاتے رہیں گے۔ اصلاحات کا راگ اتنی بار الاپا جا چکا ہے کہ اس پر کان دھرنے سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی محفل میں ہزار بار سنایا ہوا لطیفہ ہمیں رہ رہ کر سنایا جا رہا ہے۔

بار بار ریفارمز کی بات کر کے احسن اقبال اپنے بربط پیری کے بوسیدہ تار چھیڑنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شاید و باید ان میں کوئی خوابیدہ تان جاگ اٹھے۔ جب سول سروسز کی کلیں سیدھی نہ کی جا سکیں تو احسن اقبال نے وژن 2025ء کی پٹاری سے قانونی و عدالتی اصلاحات کا اژدھا نکال کر میدان میں چھوڑ دیا۔ اب کس میں اتنا دم کہ اس خوفناک بلا کو کِیل کر سِدھائے اور واپس پٹاری میں ڈالے۔ پاکستان میں عدلیہ بحالی کی تحریک نے عالمی اُفق پر خاطر خواہ اثر ڈالا۔ اس تحریک نے بیشمار ممالک کے عدالتی ڈھانچے میں ایک نئی روح پھونکی۔ ججز کی بحالی کے بعد پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ اتنی طاقتور ہو گئی کہ اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ کے درمیان قوائے قانونی کی ایک ناقابلِ دید خلیج حائل ہو گئی‘ یقینا اس عمل سے عدالتی توازن بگاڑ کا شکار ہوا۔

یہی وقت تھا کہ ماتحت عدالتوں میں اصلاحات کا انقلابی باب متعارف کروایا جاتا‘ مگر افسوس کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی عدالت کا سارا فوکس تادمِ آخر اشرافیہ کی جھاڑ پونچھ اور ازخود نوٹسز پر مرکوز رہا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت تو پرویز مشرف کی معطل کی گئی حق پرست عدلیہ کے خلاف تھی‘ اس لیے عدالتی اصلاحات ان کا تو ناپسندیدہ مضمون تھا لیکن نون لیگ نے بھی2013ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ کبھی نہ سوچا کہ اس حق پرست عدلیہ کو قانونی و عدالتی اصلاحات کا ٹاسک سونپا جائے۔

پھر جسٹس افتخار کے ریٹائر ہوتے ہی انہیں جوڈیشل ریفارمز کا خواب کیسے آ گیا؟ جو عدالتی تحریک پاکستان سے شروع ہوئی تھی مصر تک جا پہنچی‘ اور اصلاحات کی گدھی بن کر ترکی سے ہوتی ہوئی واپس پاکستانی برگد کے نیچے آن کھڑی ہوئی۔ جسٹس افتخار سے متاثر ہو کر مصر کی عدلیہ نے بھی کافی دلیرانہ فیصلے دینا شروع کر دیے جس سے مصر میں عدالتی بحران پیدا ہو گیا۔ مصر کے پارلیمان کے ایوانِ زیریں کو جب عدالت کے ایک فیصلے کے تحت تحلیل کر دیا گیا تو اس کے بعد قانون سازی کا اختیار تنہا ایوانِ بالا کو حاصل ہو گیا۔

ایوانِ زیریں میں اخوان المسلمون اور ان کی ہمنوا جماعتوں کے سب نمائندوں کو اس عدالتی حکم کے نتیجہ میں گھر جانا پڑا جنھوں نے بعد ازاں عدالتی اصلاحات کا ایک مجوزہ پیکیج ایوانِ بالا میں پیش کیا جس میں عدلیہ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی حدِ عمر 70 سال سے کم کر کے 60 سال کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ اگر یہ اصلاحاتی بل منظور ہو جاتا تو 3 ہزار سے زیادہ جج خودبخود ہی سبکدوش ہو جاتے۔ اخوان المسلمون کے برعکس مصر کے سابق صدر محمد مرسی اور اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان پر مشتمل جوڈیشل کونسل نے ملک میں جاری عدالتی بحران کے خاتمے کے لیے الگ سے مفاہمانہ اصلاحات کا عمل شروع کر رکھا تھا جسے لبرل اور سیکولر جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔

مصر کے جوڈیشل ریفارمز پروگرام کے دیکھا دیکھی 2014ء میں ترکی نے بھی عدالتی اصلاحات کے پیکیج پر ووٹنگ کروائی جسے جسٹس کمیشن کے اجلاس میں طیب اردوان نے بھی ووٹ دیا۔ ترکی کی تقلید میں نواز حکومت کو بھی خیال آیا کہ سول سروسز ریفارمز کی کھچڑی تو بہت ہو چکی کیوں نہ اب جوڈیشل ریفارمز کی پُڈنگ بنائی جائے۔ شنید ہے کہ وزارتِ منصوبہ بندی آجکل جوڈیشل ریفارمز کا نسخۂ کیمیا تیار کرنے میں مصروفِ عمل ہے کیونکہ چند ماہ قبل وزیر اعظم کی ہدایت پر عام لوگوں کے گھر کی دہلیز پر انصاف کی فراہمی اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے خاتمہ کے لیے جامع پروگرام بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

اس ضمن میں وزارتِ قانون و انصاف کو ہدایات جاری کی گئیں کہ تنازعات کے حل کے لیے عدالت کا متبادل فورم، نچلی سطح کے عدالتی نظام میں اصلاحات اور زیر التواء مقدمات کی وجوہ پر وزارت ایک جامع رپورٹ پیش کرے۔ احسن اقبال نے اپنے وژن 2025ء اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے منشور کی روشنی میں عدالتی اصلاحات پر وزارت سے ایکشن پلان طلب کیا تھا جس کی روشنی میں عدالتی اداروں سے کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جانے تھے مگر وزارتِ قانون و انصاف یہ ایکشن پلان بنانے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔

جو جامع رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی گئی اس میں بھی کوئی حیران کن اصلاحاتی تجاویز شامل نہیں تھیں۔ وزیر منصوبہ بندی تو وژن 2025ء کے تحت پاکستان کے تمام اداروں میں ریفارمز متعارف کروا کر ان سے کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن کیا کہا جائے کہ وہ اس معاملے میں بھی مطلقاً بے بس نظر آتے ہیں‘ شاید اسی بے بسی کے عالم میں انہیں یہ کہنا پڑا ’’حکومتی اداروں کو اپنی سوچ اور طرزِ عمل میں تبدیلی لانا ہو گی کیونکہ روایتی طریقے وژن 2025ء اور مسلم لیگ (ن) کے منشور سے مطابقت نہیں رکھتے‘ اس کے لیے حکومت کو اصلاحاتی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ٹائم فریم طے کرنا ہو گا‘‘۔

ہمیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب بھی کوئی وزیر کسی ایجنڈے پر بیان جاری کرتا ہے تو کہتا ہے: حکومت یہ کرے‘ حکومت وہ کرے‘ حتیٰ کہ وزیر اعظم بھی ایسی ہی بے بسی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمیں صرف یہ بتایا جائے کہ اگر وزیر اعظم بھی ایک عام آدمی جیسی جبیرہ بندی ظاہر کرینگے تو پھر حکومت کس چیز کا نام ہے۔ اگر اس لاچاری کا اظہار سرکاری اداروں کو سنا کر کیا جاتا ہے تو بلاشبہ اس سے مراد بیوروکریسی ہے جسکے سامنے حکومت بے وجوہ عاجز نظر آتی ہے۔ اگر کرنے کے کام بھی حکومت کے کرنے کے نہیں تو پھر کیا یہ کام خدائی فوجدار آ کر کرینگے؟ حکومت کے زبانی احکامات سے ادارے خود احتسابی کرنے سے تو رہے۔ زبانی کلامی نصیحت تو کسی مرغی چور پر بھی اثر نہیں کرتی‘ بڑے ڈکیتوں پر کیسے کریگی؟ اربابِ بست و کشاد کی اس بے اثر اشارہ بازی پر ایک ادبی شاہ پارہ کا حوالہ دینا واجب ہو گیا ہے۔

سعادت حسن منٹو کے افسانہ ’’وہ خط جو پوسٹ نہ کیے گئے‘‘ کے چوتھے خط (مِس ڈی سِلوا کے نام) کا ایک متعلق المضمون قطعہ ہے: ’’ایک نصیحت میری اور سن لو! شام کو تم ہر روز ٹیرس پر اکیلی جاتی ہو اور سامنے والے مکان پر ڈی کوسٹا کے بڑے لڑکے کو اشارے کرتی ہو۔ اوّل تو یہ شریف لڑکیوں کا کام نہیں‘ دوسرے یہ اشارے چربی بھرے گوشت کے مانند بھدے اور بے لذت ہوتے ہیں۔ تم جیسی موٹی لڑکیوں کو ایسی اشارہ بازی نہیں کرنی چاہیے‘ اس لیے کہ اشارہ ایک لطیف یعنی باریک اور پتلی چیز کا نام ہے۔ تمہارے اشارے اشارے نہیں ہوتے‘ ان کے لیے مجھے کوئی اور نام تلاش کرنا ہو گا۔ جس لونڈے سے تم رومان لڑانا چاہتی ہو اس کے متعلق بھی سن لو! وہ ایک آوارہ مزاج لڑکا ہے۔ اڑھائی مہینے سے کالی کھانسی میں مبتلا ہے۔

ماں باپ نے ناقابلِ اصلاح سمجھ کر اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ اس کے پاس صرف تین پتلونیں ہیں جن کو بدل بدل کر پہنتا ہے۔ ہر روز اپنی قمیض اور پتلون پر دوبارہ استری کرتا ہے تا کہ باہر کے لوگوں کی نظر میں اس کی وضع داری قائم رہے۔ مجھے ایسے آدمیوں سے سخت نفرت ہے‘‘۔ افسوں نگار کے دونوں مرکزی کردار ہمارے حاکمین و ادارہ جات کی شبیہ ہیں جن کی نفسیات و کیفیات کی افراط و تفریط کو دُور نہیں کیا جا سکتا۔ مراد یہ کہ حکومت اور سرکاری ادارے دونوں ایک دوسرے کے لیے اس درجہ بدزیب ہیں کہ ان میں رومانس کا کوئی پہلو نکالے نہیں نکلتا۔ فربہ و بے ڈول حکومت کے چربی بھرے اشارے واقعی اس قدر بھدے اور بے لذت ہیں کہ شوباز اور ناقابلِ اصلاح سرکاری اداروں پر رتی برابر اثر نہیں ڈال سکتے۔

عدالتی اصلاحات اب کوئی ڈھکا چھپا ایجنڈا نہیں رہا۔ گزشتہ سال اگست میں اس پر سینیٹ کمیٹی میں بھی سفارشات پیش ہو چکی ہیں اور بعد ازاں چیف جسٹس جناب انور ظہیر جمالی کو بھی سینیٹ میں مدعو کیا گیا جنھوں نے اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی جس پر ہم نے کالم بھی لکھا۔ چند روز قبل ’’عدلیہ کو درپیش چیلنجز‘‘ کے موضوع پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام کانفرنس میں پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے ججوں اور معروف قانون دانوں نے اپنی منفرد آرا کا اظہار کیا۔

کانفرنس کے پہلے سیشن میں قائم مقام چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے حقائق پر مبنی تلخ باتیں کیں۔ ’’ہڑتالیں ہوں یا ججوں کو جوتے مارے جائیں‘ خواتین ججوں کی تذلیل کی جائے یا عدالتوں کی تالا بندیاں ہوں انصاف کی فراہمی جاری رکھیں گے کیونکہ ہم نے انصاف دینے کی قسم کھائی ہے‘ آج عوام کا عدلیہ پر اعتبار نہیں رہا جس کی ذمے دار خود عدلیہ ہے‘ ہمیں یہ بے اعتباری ختم کرنا ہو گی‘ سول جج کی توہین پوری عدلیہ کی توہین تصور ہو گی۔ بار ایسوسی ایشنز ایسے وکلاء کا احتساب کریں جو عدلیہ کی تذلیل پر اتر آتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہیں‘ عدلیہ کے ادارے کو قائم و دائم رکھنے کے لیے ہر اقدام اٹھائیں گے‘ بہت جلد پاکستان کو ایک متوازن عدلیہ دینگے‘ ہم سلطان کے قاضی نہیں ہیں‘ قانون ہمیں اجازت نہیں دیتا کہ اپنی مرضی سے فیصلے کریں‘ ہم نئی نسل کو کچھ اچھا ہی دینگے یا اچھا چھوڑ کر جائینگے۔

جب تک ہم اپنے گھر سے احتساب شروع نہیں کرینگے دوسروں کا احتساب کیسے کر سکتے ہیں‘ نااہل، جانبدار اور کرپٹ آدمی عدلیہ کا جج نہیں بن سکتا‘ دنیا میں قانون کی بالادستی پر قائم رہنے والی قومیں اور ادارے ہی ترقی کرتے ہیں‘ عدالتی نظام میں سب سے اہم عہدہ جج کا ہے اس کی تقرری کا طریقہ کار شفاف ہونا چاہیے‘ سپریم کورٹ سے لے کر نچلی سطح تک ججوں کی تقرری کا معیار سخت کرنا پڑیگا تا کہ کوئی انگلی نہ اٹھائے‘ سپریم کورٹ کے جج اور سول جج میں کوئی فرق نہیں بلکہ نچلی سطح کے ججوں پر زیادہ ذمے داری ہوتی ہے‘ عدلیہ عوام کے بنیادی حقوق کی محافظ ہے‘ جو جج بنیادی حقوق کا تحفظ نہیں کرتا وہ مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوتا ہے‘ ازخود نوٹس کا اختیار چیف جسٹس آف پاکستان کا صوابدیدی اختیار نہیں ہونا چاہیے بلکہ سپریم کوٹ کے رولز میں مناسب ترمیم کر کے ایسا فورم قائم ہونا چاہیے جو تجویز کرے کس معاملے پر از خود نوٹس لیا جائے۔

ایسا نہیں کہ رات کو خواب آئے اور صبح ازخود نوٹس لے لیا جائے۔ میں نہیں مانتا کہ 1970ء کے بعد کسی جج نے مس کنڈکٹ نہیں کیا‘ کیا اب تک کسی جج سے کوئی غلط کام نہیں ہوا؟ کسی جج کے مس کنڈکٹ پر آخری فیصلہ 1970ء میں ہی آیا تھا‘ جج پولیس والوں کی تنزلی تو کر دیتے ہیں مگر جب خود بنیادی حقوق کو تحفظ نہیں دیتے تو ان کا احتساب بھی ہونا چاہیے‘ جب عوام کو اپنے بنیادی حقوق کی آگاہی ملے گی تو وہ ایک طاقت بن جائینگے جس کی مثال عدلیہ کی آزادی کی تحریک ہے مگر افسوس کہ ہم اس طاقت کو سنبھال نہیں پائے تبھی آج بہت سے مسائل کھڑے ہو رہے ہیں‘ ہائیکورٹ کے جج رِٹ کے دائرہ اختیار میں بہت کچھ کر دیتے ہیں جس کی آئین اور قانون اجازت نہیں دیتا‘ گزشتہ دنوں سندھ ہائیکورٹ کے جج کا ایسا ہی ایک فیصلہ دیکھ کر مجھے افسوس ہوا‘‘۔ جسٹس ثاقب نثار نے اپنے خطبہ کے ابتدائی کلمات میں جس تاسف و تکلف کا اظہار فرمایا ہے اس کا براہِ راست تعلق وکلاء گردی سے ہے۔

ہمارے ہاں ’’گردی‘‘ کے دو سابقے بہت مقبول ہیں: غنڈہ گردی اور پولیس گردی‘ اور اب تیسری اصطلاح وکیل گردی بھی کافی شہرت پذیر ہے۔ پاکستان میں کل تک اول درجہ کی بدمعاش پولیس گنی جاتی تھی جس کی بدمعاشی کو قانونی تحفظ حاصل ہے مگر اب یہ پوزیشن وکیلوں کو حاصل ہو چکی ہے جو پولیس پر بھی تشدد کرنے سے باز نہیں آتے۔ جیسے تھانے میں پولیس کا ایک ادنیٰ سا کانسٹیبل بھی وزیر اعظم سے بھی زیادہ طاقتور ہوتا ہے‘ ایسے ہی عدالتوں میں وکیل بھی خود کو ججوں سے زیادہ زور آور سمجھتے ہیں۔ آئے روز ججوں کو کمرہ ہائے عدالت میں بند کر کے باہر سے تالے لگا دینا اور من پسند فیصلے نہ دینے پر معزز جج صاحبان کو دشنام کرنا‘ خواتین ججوں کو بس اسٹاپ پر کھڑی آوارہ لڑکیوں کی طرح ڈیل کرنا اور نامناسب فقرہ بازی کرنا‘ مقررہ تاریخوں پر پیش نہ ہونا اور مقدمات کو دانستہ التواء کا شکار کرنا‘ قاضیوں کی سرزنش پر ان سے دست و گریباں ہونا اور ان پر جوتے پھینکنا‘ الغرض ہر طرح کی غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرنا وکلاء حضرات کا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔

عدالتوں میں ایسے بیشمار وکلاء ہیں جن پر درجنوں ایف آئی آر اور مقدمات ہیں مگر ان میں پیش ہونا وہ اپنی تذلیل سمجھتے ہیں۔بعض وکلاء چیمبرز جرائم کے اڈے بن چکے ہیں جہاں روزانہ پولیس کے جرائم پیشہ لوگ آ کر خطرناک مجرموں کے ساتھ ملی بھگت کرتے ہیں اور مدعیوں کو پھنسانے کے ٹاسک حاصل کرتے ہیں۔ ہمارا مشاہدہ کہتا ہے کہ ماتحت عدلیہ کے ججوں کو بدعنوان بنانے میں یہی لاء چیمبرز پیش پیش ہیں جو ہر چھوٹے بڑے مقدمے کی قیمت طے کر کے ججوں کو ان کا حصہ پہنچاتے ہیں۔ اگر کوئی جج رشوت لینے سے انکار کر دے یا با اثر وکیل کے خلاف فیصلہ سنا دے تو اسے مختلف حیلوں سے سرِعدالت ذلیل کیا جاتا ہے۔ درجہ جاتی مجسٹریٹوں سے لے کر ایڈیشنل سیشن ججوں تک وکلاء کی دھونس چلتی ہے۔

اس سے اوپر ان کا طریقہ واردات بدل جاتا ہے۔ ماتحت عدلیہ کے معدودے چند کو چھوڑ کر باقی تمام ججز ان کے ریکٹ کا حصہ بننے پر مجبور ہیں۔ ایم آئی ٹی برانچ کی مختلف فائلوں کا جائزہ لیا جائے تو عجیب و غریب داستانیں سننے کو ملتی ہیں۔ ایڈیشنل سیشن ججوں کی اکثر ججمنٹس میں سخت ابہام پایا جاتا ہے۔ قتل جیسے اہم مقدمات میں چشم دید گواہوں کی موجودگی کے باوجود ملزمان کو غیر قانونی طور پر ضمانتوں کا ریلیف دیدیا جاتا ہے اور اس کے لیے کاؤنٹر کیس کا سہارا لیا جاتا ہے۔ کئی وکلاء بار کے صدر کا وکالت نامہ ایسے مقدمات میں پیش کر دیتے ہیں‘ پھر تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کے حق میں فیصلہ نہ آئے کیونکہ سیشن جج کو بار اور بینچ کے تعلقات خوشگوار رکھنے کی مقدمے سے کہیں زیادہ فکر ہوتی ہے اور وہ بار اور بینچ کو ایک ہی گاڑی کے دو پہیے تصور کرتا ہے۔ اگر صدر بار یا اس کے آدمیوں کو ریلیف نہیں ملے گا تو وہ بہانہ تلاش کر کے ہڑتال کر دیگا‘ پریس کانفرنس کریگا اور ججوں کو پریشان کریگا۔

سیشن جج ضمانتوں کے معاملہ میں صوابدیدی اختیار کو بادشاہوں کی طرح استعمال کرتے ہیں‘ اگر یہی بات تھی تو پھر ضمانت کے اُصول وضع کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ جو ضمانتیں سپریم کورٹ تک سے بھی منظور ہونے کی اُمید نہیں ہوتی وہ بھی صوابدیدی اختیار پر دیدی جاتی ہیں اور جس کاؤنٹر ایف آئی آر کا اس میں سہارا لیا جاتا ہے وہ اکثر و بیشتر جھوٹی ہوتی ہے۔ دوسری طرف لڑائی جھگڑے کے معمولی مقدمات میں دانستہ تاخیر اور درخواستوں کے مہینوں کے التواء کے بعد ضمانت مسترد ہو جاتی ہے‘ وجہ یہ کہ ایسے مقدمات میں ’’خاص‘‘ کے بجائے ’’عام‘‘ وکیل کیے گئے ہوتے ہیں جن کا کوئی بیک گراؤنڈ نہیں ہوتا‘ اس لیے ان کے کاغذات کے ساتھ پولیس فائل ہی نہیں ہوتی (جو پولیس انہیں دیتی ہی نہیں) اور مقدمات کی سماعت التواء کا شکار کر دی جاتی ہے۔

سیشن جج کے پاس پھانسی کی سزا کا اختیار ہے مگر معمولی تفتیشی افسر اور کورٹ محرر اس کے قابو میں نہیں آتے‘ یقینا اس میں باہم ساز باز شامل ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جو چند مخصوص قسم کے وکلاء کا سیشن ججز کے ساتھ چینل ہوتا ہے انہیں فی الفور ریلیف دیدیا جاتا ہے جب کہ ایک عام وکیل کے کیس کی طرف توجہ ہی نہیں دی جاتی‘ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بے رسوخ وکلاء اور ان کے مؤکلان کو جان بوجھ کر تنگ کیا جاتا ہے۔ ایم آئی ٹی کا ریکارڈ یہ ثابت کرتا ہے کہ ماتحت عدالتوں میں چند مخصوص عناصر ہی کو ریلیف ملتا ہے۔ ایسے مقدمات کی نوعیت آئین کی نظر میں غیرقانونی ہوتی ہے اور ان میں جو ججمنٹ آتی ہے اس میں ابہام ہوتا ہے۔ ایسے مقدموں کی ججمنٹ پر کئی بار اسٹرکچر پاس کی گئی ہیں جو ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ ناتجربہ کاری کی بنیاد پر ججوں کو ٹریننگ بھی دی جا چکی ہے۔

کیس مینجمنٹ کے جدید نظام کی وجہ سے اب کسی بھی جج کا ناانصافی پر مبنی فیصلہ سسٹم کی آنکھ سے اوجھل نہیں رہ سکتا کیونکہ ایم آئی ٹی مستقل بنیادوں پر فیصلہ جات کا خود مطالعہ کرتی ہے اور اپیل کے دوران ہائیکورٹ کی جانب سے زیریں عدالتوں کے فیصلہ جات پر منظور کیے گئے اسٹرکچر کسی بھی بدعنوان جج کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دینے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ ایم آئی ٹی کی نگہداشت ایک انتظامی جج مستقل بنیادوں پر کرتا ہے اور اس کا صرف ایک ہی کام ہے عدلیہ سے کرپشن کا خاتمہ اور کارکردگی کی بنیاد پر ججز کی پروموشن۔ دعوے تو بہت ہیں کہ اب ایک ایسی عدلیہ موجود ہے جس میں کارکردگی کی بنیاد پر ججوں کو پروموشن مل رہی ہے مگر خفیہ خانوں میں دامادوں، رشتہ داروں اور دوستوں کی سفارشوں پر پروموشن کا کام جاری و ساری ہے۔ اس فرسودہ نظام کی جڑیں سول اور سیشن عدالتوں کی بنیادوں میں ہیں۔

ان عدالتوں کی تطہیر کا کام ججز بحالی تحریک کے فوراً بعد شروع ہونا چاہیے تھا جو بدقسمتی سے نہیں کیا گیا۔ وکلاء گردی کی شروعات جسٹس افتخار کے دور میں وکیلانہ خمار کیوجہ سے ہوئی مگر انھوں نے بد تہذیب وکیلوں کو از خود نوٹس کے ذریعے اس لیے سزا نہ دی کہ ان کی بحالی ان وکلاء کی مرہون منت تھی۔ ہمارا یہ خیال تھا کہ جسٹس چوہدری کے ریٹائر ہوتے ہی اعلیٰ عدلیہ اپنے پر عافیت دور میں واپس لوٹ گئی ہے مگر جسٹس میاں ثاقب نثار کی گفتگو سن کر لگتا ہے کہ حق پرست عدلیہ میں ابھی کچھ لوگ سینے میں چنگاری دبائے بیٹھے ہیں اور وقت آنے پر وہ ضرور عدالتی اصلاحات کے لیے کوئی ڈول ڈالیں گے۔ جسٹس ثاقب نثار کا یہ اعادہ کرنا کہ ’’ہم ہر مشکل صورتحال میں انصاف کی فراہمی جاری رکھیں گے کیونکہ ہم نے انصاف دینے کی قسم کھا رکھی ہے‘‘ اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان میں اب عدالتی اصلاحات کی منزل زیادہ دُور نہیں۔ ان کے بقول عدلیہ کے بگاڑ کی ذمے دار بھی خود عدلیہ ہی ہے لہٰذا اس کا سدھار بھی عدلیہ ہی کی ذمے داری ہے۔

جن منصفوں اور قانون دانوں نے ’’عدلیہ کو درپیش چیلنجز‘‘ کانفرنس میں خطاب کیا ان کی آراء بھی جسٹس ثاقب نثار کے الفاظ سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس اعجاز الاحسن نے فرمایا: ’’عدلیہ عام آدمی کی اُمید ہے‘ سائلین کے اعتماد سے ہی عدلیہ مضبوط ہوتی ہے۔ عوام کا اعتماد اس وقت بحال ہوتا ہے جب آئین اور قانون کے تحت فیصلے کیے جائیں‘ عدالتی نظام میں بار کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے‘‘۔ لاہور ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا: ’’عدلیہ دنیا کا واحد ادارہ ہے جو دلیل کی بنیاد پر طاقتور سے لے کر کمزور تک کو حق دیتا ہے‘ پاکستان میں سول جج سے لے کر اوپر تک ہر جج آزاد ہے اور کسی پر کوئی دباؤ نہیں‘ عدلیہ میں احتساب اور شفافیت لانا ہو گی‘ دیکھنا پڑیگا کہ نااہل اور بدکردار شخص جج رہ بھی سکتا ہے یا نہیں، جس کی اے سی آر میں کرپٹ لکھا ہو وہ جج کیسے رہ سکتا ہے۔

صبح جج کو جوتے مارتے ہیں اور شام کو بار کا صدر معافی مانگنے آ جاتا ہے‘ بار ایسوسی ایشن کے سربراہان کو چاہیے کہ وہ ایسے عناصر کا خود ہی احتساب کریں‘ یورپی یونین نے بھی اعتراض کیا کہ پاکستان کی ماتحت عدلیہ میں ساٹھ فیصد مقدمات وکلاء کی التواء کی درخواستوں جب کہ تیس فیصد وکلاء کی ہڑتالوں کی نذر ہو جاتے ہیں‘‘۔  بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس میر محمد نور مسکن زئی کے الفاظ تھے:  ’’بلوچستان کے حالات پسماندہ ہیں‘ بلوچستان ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں اساتذہ کے احتجاج پر نہیں بلکہ ان کی ہڑتال پر پابندی عائد کی ہے‘ اس پابندی کو بلوچستان کے حالات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے‘ سرکاری اسکولوں میں چھ ماہ کی سرکاری چھٹیاں تسلیم شدہ ہیں تین ماہ بچے تعلیمی اداروں میں نہیں آتے جب کہ بچ جانے والے تین مہینوں میں اساتذہ ہڑتال پر ہوتے ہیں‘ اگر کسی کو بلوچستان ہائیکورٹ کے اس فیصلے پر اعتراض ہے تو نظرثانی کی اپیل دائر کی جا سکتی ہے‘‘۔

سپریم کورٹ بار کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا:  ’’ماضی کی نسبت سپریم کورٹ کا موجودہ دور بہتر ہے‘ ججز کے فیصلوں سے تعصب کی بو نہیں آنی چاہیے‘ سپریم کورٹ کی طرف سے ترقی پسند فیصلے دیے جا  رہے ہیں جو خوش آیند بات ہے‘ وکلاء کو کسی جج کے سامنے اچھے سے اچھا مقدمہ ہارنے پر بھی دکھ نہیں ہوتا مگر تکلیف تب ہوتی ہے جب کسی جج کے فیصلے سے تعصب کی بو آتی ہے‘ ججز کے فیصلے آئین اور قانون کے مطابق ہونے چاہییں‘ ان سے تعصب کی بو نہیں آنی چاہیے‘ اگر جج رشوت لینے والے نہیں ہونگے تو رشوت دینے والا بھی کوئی نہیں ہو گا، اگر جج سفارش سننے والے نہیں ہونگے تو سفارش کرنیوالا بھی کوئی نہیں ہوگا‘ بنیادی آئینی حقوق کے تحفظ کی آڑ میں جعلی درخواست بازی روکنا وکلاء کا نہیں بلکہ ججز کا کام ہے‘ ججز کو چاہیے کہ وہ دیکھیں کہ مفادِ عامہ کی درخواستیں فرمائشی ہیں یا اصلی؟ عدالتوں کو سیکیورٹی کے نام پر عوام کے بنیادی حقوق کے خلاف فیصلے دینے سے گریز کرنا چاہیے‘ آئین نے ہر شہری کو اظہار کی آزادی دے رکھی ہے۔

پاکستان بار کونسل کو چاہیے کہ وہ ملک بھر کی صوبائی بار کونسلوں کی مدت پانچ سال سے کم کر کے دو سال کر دے کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ صوبائی بار کونسلیں مافیہ بن جائیں‘ ہمارا حکومت سے یہی مطالبہ ہے کہ بجٹ میں سپریم کورٹ بار کے لیے فنڈز مختص کیے جائیں۔ اگر کسی بار کے صدر نے ججز کے ساتھ بدتمیزی کرنیوالے وکیل کا تحفظ کیا تو اس کے خلاف احتجاج کیا جائے گا‘‘۔  سپریم کورٹ بار کے صدر سید علی ظفر نے روایتی اور وکیلانہ انداز اپنایا:  ’’بار اور بنچ دونوں کو ایک ساتھ کام کرنا چاہیے تا کہ وہ پاکستان کے عوام کو ان کے اصل حقوق کی فراہمی کی یقین دہانی بہتر طریقہ سے کروا سکیں‘ مقدمات کی سماعت میں غیر ضروری رکاوٹیں اور بے جا دیر کا مطلب ہے انصاف کا نہ ملنا‘ ہمیں کوئی راہ ڈھونڈنا پڑیگی جس سے مقدمات کی سماعت کے سسٹم کو بہتر بنایا جا سکے اور ہمیں ثالثی و مصالحت کی طرف بھی رجحان کرنا چاہیے‘‘۔

معروف قانون دان احمد اویس نے قانونی و عدالتی اصلاحات کا بیڑا اٹھانے کے لیے اعلیٰ عدلیہ کے علمبرداروں کا یہ کہہ کر حوصلہ بڑھایا: ’’پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے عدلیہ پر اور بھی ذمے داری بڑھ گئی ہے کہ وہ عوام کے بنیادی حقوق دلوانے میں بلا خوف و خطر کام کرے‘ جب تک ہم ایک عام آدمی کے لیے کام نہیں کرینگے تب تک ہم ترقی نہیں کر سکتے‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں عدالتی تبدیلی کی جو انقلابی لہر عدالتِ عظمیٰ میں پیدا ہوئی تھی اسے ہائیکورٹس اور ماتحت عدالتوں کی نچلی سطح تک رَو پذیر ہونا چاہیے اور یہ تبھی ممکن ہے جب وکیل گردی کے کلچر کو جڑ سے ختم کر کے بار اور بینچ کے رشتے میں اخلاقی اور تہذیبی توازن پیدا کیا جائے۔ ہم آیندہ سے عدالتی اصلاحات پر ایسی ٹھوس اور قابل عمل تجاویز دینے کی کوشش کرینگے جو آئیڈیل عدالتی نظام کی توضیع کا سبب بن سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔