الیکٹرانک میڈیا اور نجی ہوسٹل کا قیام

رئیس فاطمہ  اتوار 24 جنوری 2016
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

آج براہ راست نہایت مایوسی اور ڈپریشن کے باوجود الیکٹرانک میڈیا کے ذمے داروں اور نامور اور مقبول اینکر پرسنز سے بہت سارے لوگوں اور خود اپنی جانب سے ایک درخواست کر رہی ہوں۔ خدا نے انسان کو زمین پر اپنا نائب مقرر کیا ہے، اسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔ ہم مسلمان جس نبیؐ کی امت ہیں، ان کے نزدیک ’’بہترین اور پسندیدہ شخص وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہو‘‘۔ ’’اخلاق‘‘ ایک چھوٹا سا لفظ ہے۔ لیکن اس کی معنویت پہ غور کریں تو یہ کسی بھی انسان کے اندر کا ’’کوڈ‘‘ ہے۔

خوش مزاج اور بااخلاق انسان ہمیشہ اندر سے خدا سے ڈرتا ہے اور کہیں نہ کہیں اس کے ضمیر کے کسی گوشے میں موت کے بعد خدا کے حضور اپنے نامہ اعمال کے ساتھ پیش ہونے کا ڈر اور خوف بھی ہوتا ہے۔ میں نے زندگی میں شعور کی روشنی کے ساتھ ہی ایسے لوگوں کو قریب سے دیکھا ہے کہ جن کا ظاہری حلیہ ایک عام آدمی کا ہے، انھوں نے ماتھے رگڑ رگڑ کر نہ تو پیشانیوں پہ نشان ڈالے، نہ ہی ہر ایک کو مذہبی بنیادوں پر مطعون کیا۔ لیکن چپ چاپ لوگوں کی اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے رہے۔ اللہ نے انھیں نوازا بھی۔ لیکن افسوس کہ اب ان لوگوں کی شدید کمی ہوتی جا رہی ہے۔ قربانی کا جانور لاکھوں کا خریدا جاتا ہے اور باقاعدہ شامیانے لگا کر ان کی نمائش کی جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

لیکن آج میں الیکٹرانک میڈیا کے ذمے داروں سے یہ اپیل کرتی ہوں کہ ہمارے ملک میں خصوصاً بڑے شہروں اور خاص طور پر کراچی میں ان معمر خواتین و حضرات کے حوالے سے کچھ ایسے ٹاک شوز یا کسی اور قسم کے پروگرام ضرور کریں جو اپنے شریک حیات کی وفات کے بعد اکیلے رہ جاتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ قابل رحم وہ لوگ ہوتے ہیں، جو صاحب حیثیت اور صاحب اولاد ہونے کے باوجود یکدم تنہا اور لاوارث رہ جاتے ہیں۔ کبھی اولاد بسلسلۂ ملازمت بیرون ملک مقیم ہوتی ہے۔

کبھی اندرون ملک ہی ہوتی ہے، لیکن دوسرے شہروں میں۔ لیکن زمینی فاصلوں کے علاوہ دلوں کے فاصلے کچھ حاسد اور بدطینت لوگ ماں بیٹے کے درمیان اپنے اپنے خوفناک اور ہولناک ’’طریقوں‘‘ سے اولاد کا دل پھیر دیتے ہیں۔ کچھ نیک فطرت لوگ سب کچھ جانتے ہوئے بھی تنہا رہ جانے والے ماں یا باپ کا کھل کر ساتھ نہیں دے سکتے کہ شادیاں اگر خاندان میں ہوئی ہوتی ہیں، تو لوگ ’’پارٹی‘‘ بننا پسند نہیں کرتے کہ پہلے ہر ایک کو اپنا ذاتی مفاد عزیز ہوتا ہے۔

وہ والدین جنھوں نے حضورؐ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ناراض رشتے داروں کو منایا، ان سے ہر ممکن تعلقات استوار کیے انھیں خوش رکھنے کے لیے ان کی ہمیشہ خاطر و مدارت بھی کی، باوجود ان کے دلوں کی نفرتوں اور سازشوں کو جاننے کے اپنے اللہ اور نبیؐ کے حکم پر انھیں معاف بھی کر دیا… اور … اور مزید نیکی اور اپنی قبروں کو روشن کرنے کے لیے ان کی بیٹیوں کو اپنی بہو بھی بنا لیا… اور … بس کہانی یہیں ختم ہو گئی۔

حضرت علی کرم اللہ وجہ کا تاریخی قول مجسم ہو کر سامنے آ گیا کہ ’’جس پر احسان کرو، اس کے شر سے بچو۔‘‘ بعض خاندان اور بعض لوگ بظاہر بڑے دین دار نظر آئیں گے، کہیں نماز قضا نہ ہو جائے، روزے نہ چھوٹ جائیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ایسے ہی لوگوں کے دل سیاہ ہو جاتے ہیں۔ حسد کے سانپ ان کے دلوں میں انڈے بچے دینے لگتے ہیں۔ کوئی معافی، کوئی تدبیر ان کے دلوں سے نفرت اور اکیلے رہ جانے والے کسی ایک شریک حیات کے لیے نرم گوشہ پیدا نہیں کرتی۔

یہ اپنے مذموم پروپیگنڈے سے یک طرفہ ہر طرف اپنی نفرت کی پنیریاں لگاتے ہیں۔ بیٹے کے دل پر اپنی نفرت کی مہر لگواتے ہیں کہ ان کے پاس وہ ذرائع موجود ہیں جن کے اثر سے اکیلی ماں روتی بلکتی بیٹے سے کہتی ہے کہ ’’مجھے اپنے پاس بلالو یا روز فون پر ہی اپنی آواز سنادیا کرو‘‘ لیکن جب معصوم نیک طینت اور فرمانبردار بیٹا فون بھی اٹینڈ نہ کرے بلکہ ماں کے فون کو Rejection پہ ڈال دے تو لاچار ماں کیا کرے؟ کیا وہ خودکشی کی طرف نہیں جائے گی؟

الیکٹرانک میڈیا کو چاہیے کہ وہ ان زمینی مسائل اور سنگین حقائق کو لوگوں کے سامنے لائے۔ حکومت سے تو اب کسی بھی معاملے میں کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ میڈیا کچھ NGO اور دیگر اس معاملے میں آگے آئیں۔ اسے کمائی کا دھندہ نہ بنائیں بلکہ معقول کرائے کے عوض مطلوبہ رہائش فراہم کریں۔ ذاتی طور پر بھی لوگ ایسے ہوسٹل بنا سکتے ہیں۔ کراچی میں ایک کثیر تعداد ایسے ہوسٹل کا خیر مقدم کرے گی۔

پہلے کراچی اور تھا، اس کا اپنا ایک کلچر تھا۔ 1980ء تک لوگوں کے گھروں کی چار دیواری پانچ فٹ سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ لیکن ضیا الحق کے بعد یہ شہر، افغانیوں، ہیروئن، منشیات، ہتھیار، فحاشی، عورتوں کی دلالی، بھیک منگوں، اغوا کاروں اور بھتہ خوروں کے رحم و کرم پر ہے۔ کراچی میں پورے ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے بدنام زمانہ تشدد اور انتہاپسندوں کے لیے بڑی گنجائش ہے۔ بعض علاقے مکمل طور پر ان دہشت گردوں کے قبضے میں ہیں۔

جہاں پولیس کے اعلیٰ افسران کی آشیرواد سے یہاں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ ایسی صورت میں محلے داریاں بھی ختم ہو گئی ہیں۔ کوئی اکیلی خاتون یا مرد جو صاحب حیثیت اکیلا گھر یا فلیٹ لے کر تنہا رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ بے حسی اور خودغرضی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ برابر والے فلیٹ سے بدبو اٹھتی ہے تو پولیس کو بلوا کر دروازہ تڑوایا جاتا ہے اور اکیلے ماں یا باپ کی میت دفنانے کے بعد اولاد یا رشتے داروں کو خبر ہوتی ہے۔ پھر خالی مکان کے دس دعویدار نکل آتے ہیں۔

اس لیے ضرورت ہے کہ ترجیحی بنیادوں پر نجی اور سرکاری ٹیلی ویژن لوگوں میں شعور اجاگر کریں اور لوگوں کو نجی ہوسٹل قائم کرنے کی جانب رغبت دلائیں۔ پیسہ کمانے کے اور بھی طریقے ہیں اور لوگ ہر طرح کی بے ایمانی اور غلط کاموں سے مال بنا بھی رہے ہیں۔ لیکن اس میں اگر کچھ لوگ بجائے مکان، دکان یا فلیٹ کرائے پر دینے کے چھوٹے چھوٹے ہوسٹل تعمیر کر کے ضرورت مندوں کو ایک بڑا کمرہ دیگر سہولیات کے ساتھ معقول کرائے اور تحفظ کے ساتھ فراہم کر دیں تو ان کی آمدنی کا معقول ذریعہ بھی بن جائے گا۔ کسی کرایہ دار کے قبضے کا بھی ڈر نہ ہو گا۔

صرف خوف خدا ہو گا۔ جس سے مال میں برکت بھی ہو گی اور روز قیامت قبریں بھی روشن ہوں گی۔ لیکن یہ کام الیکٹرانک میڈیا کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ ہمیشہ نجی چینلز نے بہت سے مسائل کو حل کیا ہے۔ تو اس مسئلے پہ خاموش کیوں ہیں؟ آئیے اور اپنا حصہ ڈالیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔