’’کاغذ پہ بنی دھوپ‘‘ پر ایک نظر

نسیم انجم  اتوار 24 جنوری 2016
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

سوئیڈن سے تشریف لانے والے ممتاز صحافی و شاعر مسعود قمر چند ہی دنوں میں بہت سے ان لوگوں سے متعارف ہوگئے ہیں جن سے وہ واقف نہیں تھے، دراصل بات یہ ہے کہ وہ پاکستانی اور صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد سے تعلق رکھتے ہیں، بھائی مسعود قمر گزرے ماہ و سال میں روزنامہ ’’امروز‘‘ اور ’’مساوات‘‘ سے وابستہ رہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ایک مخصوص حلقۂ احباب میں ضرور پہچانے جاتے ہیں۔

مسعود قمر کا نام اور ان کی شاعری میرے لیے بالکل اجنبی ہے، چونکہ ان سے میری ملاقات چند ہفتے قبل ہی ترقی پسندوں کی محفل میں ہوئی، انھوں نے اس موقع پر مجھے اپنا شعری مجموعہ ’’سوکھی گھاس کا نظم پڑھنے سے انکار‘‘ عنایت کیا، میں ابھی اسے پڑھتے ہوئے حیرت و استعجاب کے سمندر میں غوطہ زن تھی کہ دوسری کتاب ’’کاغذ پہ بنی دھوپ‘‘ جس کی آج تقریب رونمائی ہے، بذریعہ ڈاک موصول ہوئی، اب بیک وقت شاعری کی دو کتابیں میرے مطالعے میں تھیں، ’’کاغذ پہ بنی دھوپ‘‘ کی شاعری محض ایک شاعر کا حسن تخلیق نہیں ہے بلکہ دو ہم خیال شعرا نے طبع آزمائی کی ہے۔

مسعود قمر کے دوست حسین عابد شاعری کے میدان میں مسعود قمر کے ساتھ قدم ملا کر چلے ہیں، دونوں نے فیس بک سے مکمل طور پر استفادہ کیا۔اور پھر اسی طریقہ واردات سے ایک نظم اور پھر بہت سی نظمیں اپنے اختتام کو پہنچیں۔ ایک اور شعری مجموعہ ’’قہقہہ انسان نے ایجاد کیا‘‘۔ اس مجموعے کی تخلیق و ترتیب میں ان دونوں حضرات کے ساتھ ان کے دوست جاوید انور بھی شامل ہیں، یعنی تین شاعروں نے مل کر مصرعے تخلیق کیے، پھر مصرعے اشعار کے قالب میں ڈھلے اور اشعار نظموں اور کتاب کی صورت میں قارئین کے ہاتھوں پہنچ گئی۔

مسعود قمر کی شاعری کے مطالعہ سے بھی اس بات کا اندازہ ہوا کہ بھائی مسعود قمر کی زندگی میں دھوپ کا غلبہ زیادہ رہا ہے، شاید اسی مناسبت سے کتاب کا نام ’’کاغذ پہ بنی دھوپ‘‘ رکھا گیا، یہ ایک استعارہ ہے اور اس میں چھپی ایک کہانی ہے اور کہانی کاغذ پر ہے، کہانی بیتے دنوں کی حدت اور ماضی کے دکھوں سے آراستہ ہے، یہ شاعری عام لوگوں اور زندگی کو سرسری نگاہ سے دیکھنے والوں کے لیے بے معنی ہوسکتی ہے، لیکن اہل نظر اور اہل بصیرت کے لیے بامعنی ہے۔

مسعود قمر صحافتی ذمے داریوں کو نبھاتے ہوئے کئی بار گرفتار ہوئے، یہ دور ضیا الحق کا تھا۔ یہ سلسلہ دراز ہوتا ہی چلا گیا، تب اس عظیم اور بے مثال ہستی نے جسے ماں کہتے ہیں انھیں دیار غیر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اپنی محبت اور مامتا کے پھول نچھاور کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو راضی کر ہی لیا۔

سو یہ 1983 سے سوئیڈن میں رہائش پذیر ہیں۔ جو ایک طویل عرصہ ہے۔ مسعود قمر اور حسین عابد کی شاعری کے موضوعات بھی زندگی کی تلخیوں، ناکامیوں اور روزمرہ کے مسائل کے گرد گھومتے ہیں، لیکن انداز شاعری جداگانہ ہے منفرد لہجہ شکستہ افکار اور ادھورے خوابوں سے مزین ہے۔ نظم ’’گدلے دریا کی وراثت‘‘ میں وہ اس طرح اپنی ذہنی اذیت اور آگہی کا رخ زیبا نذر قارئین کرتے ہیں کہ:

دیوار پہ سجے
اور پرس میں رکھے آئینے میں
چہرے ایک سے نہیں ہوتے
میں نے اس کی تلاش میں
کتنے پرس اڑائے
اور کتنی دیواروں سے سر ٹکرایا
مگر وہ، آئینے اور میری نظمیں لیے، گدلے دریا میں سنگھار کرتی رہی
یہ بات مجھے سورج نے بتائی، جب اس کا عکس گدلے دریا پہ پڑا
اور وہ چٹخ گیا
کرچیاں چننے والا، کبھی آئینہ ساز نہیں بن سکتا
یہ وہ گھڑی تھی جب میں نے کوزہ گری اختیار کی
ایک اور نظم ’’دو اور پانچ کا پہاڑہ‘‘
زندگی، عمر بھر مجھے، خرچ کرتی رہی، لیکن میں
موت کے قرضوں سے اس کا حساب برابر کرتا رہا
’’پروں میں چھپا ہوا سر‘‘ یہ بھی ایک نظم کا عنوان ہے۔
بولے ہوئے لفظ سے ، پرندہ اڑ جاتا ہے
مگر اپنے چند پَر، چھوڑ جاتا ہے
جن سے لکھا جانا چاہیے، لیکن، لوگ لفظوں اور پروں کو جوڑ کر تاج بنا لیتے ہیں
کتابیں، لفظوں کے انتظار میں رہتی ہیں
اور، لوگ اس سَر کی تلاش میں
جس نے خود کو، پروں میں چھپا رکھا ہے

’’کاغذ پہ بنی دھوپ‘‘ کی شاعری رمز و کنایہ اور استعاروں پر مبنی ہے، ہر مصرعہ، ہر عنوان قاری کو حیران بھی کرتا ہے اور چونکاتا بھی ہے۔
سوکھی گھاس کا تو نظم پڑھنے سے انکار تھا لیکن میرا اقرار تھا، سو میں نے شاعری پڑھی تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ شاعر کو موت سے بہت پیار ہے اور جب یہ پیار موت کے رنگ میں رنگ گیا تب شاعری وجود میں آئی۔

مذکورہ کتاب کے موضوعات ملاحظہ فرمائیے۔ ’’میری پیدائش سے پہلے ہی‘‘، ’’قبر کی موت‘‘، ’’جنازے کی رخصتی کی اٹھان ہی اور ہوتی ہے‘‘، ’’موت کی پیدائش‘‘ غرض ایسے ہی عنوانات ہیں جو موت کا پیغام دیتے اور موت کی طرف دھکیلتے ہوئے شاعری کے قبرستان میں آنے کی دعوت دیتے ہیں، جب ہی تو ہمارے ملک کے ممتاز نقاد ڈاکٹر محمد علی صدیقی مرحوم نے شاعر اور ان کی شاعری کے بارے میں اس طرح اظہار خیال کیا ہے کہ مسعود قمر اپنی نظم ’’جڑواں بہنوں کی پیدائش‘‘ میں زندگی اور موت کے بارے میں کچھ اور ہی گل کھلاتے ہیں، یہ سوال اہم ہوجاتا ہے کہ انھیں موت کا شیدائی سمجھا جائے یا زندگی کا، پھر کون سی موت اچھی ہوسکتی ہے مکمل یا نامکمل موت۔ وہ کہتے ہیں، مکمل مرنے سے ہی خوشی حاصل ہوسکتی ہے۔

مسعود قمر کا خمیر پنجاب کے دریاؤں سے اٹھا ہے اور پنجاب کے ہر دریا کی روانی میں کسی نہ کسی سوہنی مہینوال کی داستان کی ترنگ ہے، اسی لیے میں مسعود قمر کے یہاں موت عرس (وصال) کے ہم معنی سمجھتا ہوں، جس میں محبوبہ یا محبوب کے مزار سے جلوس میں اٹھنے والی شادی کی چادر پر دھمال ہوتا ہے۔

میں تقریب پذیرائی کے موقع پر مسعود قمر کو اس دعا کے ساتھ مبارک باد پیش کرتی ہوں کہ اللہ کرے وہ یوں ہی تخلیق کے گلستان میں پھول کھلاتے رہیں۔

(تقریب تعارف کے موقع پر پڑھا ہوا مضمون)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔