سانحہ چارسدہ، دہشت گردی کے خاتمے کیلئے قومی ایکشن پلان پر بلاامتیاز عملدرآمد کرنا ہوگا!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 25 جنوری 2016
 باچاخان یونیورسٹی سانحہ کے حوالے سے پشاور میں منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: سمیر رازق/ایکسپریس

 باچاخان یونیورسٹی سانحہ کے حوالے سے پشاور میں منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: سمیر رازق/ایکسپریس

سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے بعد جس طرح ملک کی سیاسی وعسکری قیادت یکجا ہوئی ،قومی ایکشن پلان بنا ،فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایاگیا اور پہلے ہی سے جاری آپریشن ضرب عضب میں مزید تیزی آگئی، ان کاروائیوں کے نتیجہ میں یہ امید قائم ہوگئی تھی کہ اب ایسا کوئی سانحہ نہیں ہوگا،اب کسی ماں کی گود نہیں اجڑے گی اور اب کسی باپ کو اپنے کاندھوں پرپھولوں جیسے بچوں اور جوانوں کے لاشے اٹھانا نہیں پڑیں گے۔

ان کاروائیوں کے نتیجہ میں امن قائم تو ہوا لیکن پھر اچانک پشاور کے تعلیمی اداروں پر دہشت گردوں کے حملوں کی افواہیں تواتر کے ساتھ گردش کرنے لگیں ،ان لمحات میں والدین ، بچوں کو یہ تسلی اور دلاسے دینے میں مصروف رہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا کہ اچانک ایک اور افسوسناک سانحہ ہوگیا۔چند روز قبل،عدم تشددکے فلسفے کے داعی باچاخان کی برسی کے دن، ان کے نام سے منسوب چارسدہ میں واقع باچاخان یونیورسٹی پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔

چار دہشت گرد باچاخان یونیورسٹی میں داخل ہوئے، انہوں نے خون کی ہولی کھیلناشروع کر دی اورکچھ ہی لمحوں میں کئی ماؤں کے لال خون میں نہا گئے۔ اس سانحہ کے بعد ایک مرتبہ پھر قوم غم میں مبتلا ہے اور کئی سوالات ذہنوں میں جنم لے رہے ہیں کہ یہ سانحہ کیوں پیش آیا؟اس کے کیا عوامل تھے اور مستقبل میں ایسے سانحات کی روک تھام کے لیے کیا جاسکتاہے ؟’’سانحہ باچاخان یونیورسٹی‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم پشاور‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو مدعو کیا گیا۔ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

مظفر سید ایڈووکیٹ ( وزیر خزانہ خیبرپختونخوا)

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تمام لوگ ایک پیج پر ہیں اورسب ہی امن چاہتے ہیں۔ اس افسوسناک سانحہ پر کسی ایک کو مورد الزام ٹھہرانایا کسی ادارے کو ٹارگٹ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ میرے نزدیک ایسا کرنے سے قومی وحدت کو نقصان پہنچے گا۔پاکستان کی دنیا میں ایک حیثیت ہے۔ ہم نے جنرل (ر) پرویز مشرف کی لاجسٹک سپورٹ پالیسی کی مخالفت کی تھی جو امریکا کو افغانستان کے حوالے سے فراہم کی جارہی تھی اوراسی پالیسی کی وجہ سے یہ سارا نقصان ہوا ہے۔ افغانستان میں مذہبی قوتوں نے ایسا کوئی فتویٰ نہیں دیا کہ پاکستان کے لوگ افغانستان جاکر جہاد کریں اس لیے ہمیں اس معاملہ سے دور رہنا چاہیے تھا۔ جہاں تک روس کے خلاف جہاد کا تعلق تھا تو اس وقت یہ ملکی دفاع کا معاملہ تھا اور یہ بات بڑی واضح ہے کہ سوویت یونین گرم پانیوں تک پہنچنے کا خواب دیکھ رہا تھا جسے روکا گیا۔

باچاخان بڑے سیاسی لیڈر تھے اور سیاسی حلقوں میں ان کا ایک مقام ہے ۔ ان کی برسی کے موقع پریونیورسٹی میں مشاعرے کا اہتمام کیاجارہا تھا، چاہیے تو یہ تھا کہ اس کے انعقاد پر یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے سکیورٹی مانگی جاتی لیکن یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا موقف تھا کہ یہ ایونٹ ایسا نہیں کہ جس کے لیے غیر معمولی درکار ہو لہٰذا انھیں سکیورٹی کی کوئی ضرورت نہیںلیکن جب سکیورٹی خدشات تھے تو پھر سکیورٹی صورت حال پر بات بھی ہونی چاہیے تھی اور اس سلسلے میں انتظامات بھی ضروری تھے اس لیے اس واقعہ کو صوبائی حکومت کی کوتاہی یا کمزوری قرار نہیں دیا جاسکتا ۔جو طلباء،اساتذہ اورسکیورٹی اہلکار سانحہ باچاخان یونیورسٹی چارسدہ میں شہید ہوئے ہیں ہم انھیں کبھی بھی نہیں بھلاسکتے۔

پروفیسر حامد حسین شہید نے اپنی جان کی قربانی دیتے ہوئے طلباء کی حفاظت کی، ان کی جگہ کوئی بھی ہوتا اس کا یہی جذبہ ہوتااور وہ ان کی طرح اپنی جان پر کھیل جاتا۔ اس واقعہ کے فوراًبعد صوبائی کابینہ کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیاگیا کہ اس طرح کے خطرات سے نمٹنے کے لیے تمام تر وسائل استعمال کیے جائیں گے لیکن صوبائی حکومت کے وسائل محدود ہیں۔ مرکزی حکومت، صوبائی حکومت کو مجموعی قومی وسائل کا جو ایک فیصدرقم دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے دے رہی ہے، اس میں اضافہ کرکے پانچ فیصد کیاجائے اور بیرون دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے جو فنڈز آرہے ہیں وہ بھی خیبرپختونخوا کو منتقل کیے جائیں کیونکہ ہم فرنٹ لائن پر رہتے ہوئے دہشت گردی کا مقابلہ کررہے ہیں۔

صوبائی حکومت نے آرمی پبلک سکول کے واقعہ کے حوالے سے بھی معمول کے طریقہ کار سے ہٹ کر فوری طور پر تمام تر مالی وسائل فراہم کیے اور اب باچاخان یونیورسٹی سانحہ کے حوالے سے بھی اسی طرح وسائل فراہم کیے جارہے ہیںبلکہ ہم نے شہداء کے ورثاء کو امدادی چیکوں کی ادائیگی بھی شروع کر دی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ایف سی کی وہ پلاٹونیں جو اسلام آباد اور دیگر صوبوں میں خدمات انجام دے رہی ہیں فوری طور پر خیبرپختونخوا کو واپس کی جائیں۔ ہم اس حوالے سے عدالت اس لیے نہیں جارہے کہ قومی ایکشن پلان کسی عدالتی فیصلہ کے تحت نہیں بلکہ اتفاق رائے سے تشکیل دیا گیا، اس لیے ایف سی کی صوبے کو واپسی بھی اتفاق رائے ہی سے ہونی چاہیے۔

دہشت گردی کے حوالے سے اس جنگ کو مدارس پر مسلط نہ کیا جائے لیکن کچھ لوگ مدارس کے حوالے سے معاملات کو ہوادے رہے ہیں جن کا اپنا ایجنڈا ہوگا۔ اگر صرف مدارس کی بات ہے تو پھر ڈمہ ڈولا میں شہید ہونے والے 82بچوں کا کیاقصورتھا،ان کا خون کس کے سر ہے اور وہ کونسی دہشت گردی تھی؟ دنیا کو دکھاوے کی بات الگ ہے لیکن دہشت گردی سے متعلق سرگرمیوں کا تعلق مدارس اور مذہب سے جوڑنا کسی بھی طور مناسب نہیں ہے۔ مساجد ہوں یا تعلیمی ادارے ان پر حملے بیرونی دنیا کی سازش کا حصہ ہے ۔ ہم فیڈریشن کے قائل ہیں اور مضبوط مرکز کے ساتھ مضبوط صوبے بھی دیکھنا چاہتے ہیں جس کے لیے قومی وحدت کی ضرورت ہے۔

شوکت علی یوسفزئی (رہنما تحریک انصاف ورکن صوبائی اسمبلی)

صوبہ کے حالات گزشتہ کئی سالوں سے اچھے نہیں کیونکہ افغانستان کے ساتھ جڑی سرحد کھلی ہوئی ہے اورپچاس ہزار سے زائد لوگ روزانہ یہاں آتے ،جاتے رہتے ہیں۔ فاٹا جو مرکز کے کنٹرول میں ہے وہاں کی صورت حال اچھی نہیں ،نہ تو وہاں ترقی ہوئی ہے اور نہ ہی تعلیم وصحت کے ادارے ہیںجبکہ انفراسٹرکچر بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ وہاں روزگار کے مواقع بھی نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہاں کے لوگ روزگار کے لیے افغانستان کی جانب دیکھتے ہیں ۔ خیبرپختونخوا، عالمی دہشت گردی کے نشانے پر ہے ۔ میرے نزدیک جب تک اس دہشت گردی کی جڑیں ختم نہیں کی جائیں گی، حکومت چاہے کسی بھی جماعت کی ہو حالات بہتر نہیں ہوںگے۔

دیکھنا یہ ہے کہ اس دہشت گردی میں کون ملوث ہے ،کون اس کی فنڈنگ کررہا ہے؟ بھارت ، دہشت گردی کی کاروائیوں کے لیے فنڈنگ کر رہا ہے اور افغانستان کی سرزمین اس مقصد کے لیے استعمال کی جارہی ہے لہٰذا جب تک خارجہ پالیسی تبدیل نہیں کی جاتی تب تک مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ خیبرپختونخوا پورے ملک کی جنگ لڑرہا ہے، اگر اس صوبے میں امن ہوگا تو پورے ملک میں امن قائم ہوگا ورنہ خدانخواستہ یہ جنگ پورے ملک میں پھیل جائے گی ۔ مرکزی حکومت کو صرف ایک فیصد پر اکتفاء نہیں کرنا چاہیے بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے خیبر پختونخوا کے فنڈز میں اضافہ کرنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ یہاں کے لوگ مزید کتنی قربانیاں دیں گے؟

باچاخان یونیورسٹی کے حوالے سے جہاں تک سکیورٹی الرٹ کا تعلق ہے تو یہ واضح رہے کہ ہمیں روزانہ سینکڑوں الرٹ ملتے ہیں تاہم چارسدہ کے حوالے سے الرٹ یونیورسٹی نہیں بلکہ عدالتوں کے حوالے سے ملا تھا۔ اس صوبے میں68 ہزار تعلیمی ادارے ہیں اور اتنی ہی تعداد میں پولیس اہلکار لہٰذا ایسے حالات میں تعلیمی اداروں کو کتنے سکیورٹی اہلکار فراہم کیے جاسکتے ہیں اور خود کش حملہ آور کو کیسے روکا جاسکتاہے۔ باچاخان یونیورسٹی میں دہشت گرد دھند کا فائدہ اٹھاکر داخل ہوئے اور بزدلانہ کارروائی کی۔ تعلیمی ادارے ان کے لیے سافٹ ٹارگٹ ہیں اس لیے اب سکولوں اور تعلیمی اداروں کے ساتھ مل بیٹھ کر نئی سکیورٹی حکمت عملی وضع کی جائے گی۔

اس ضمن میں مرکز سے بھی بات کی جائے گی کیونکہ پاک ،افغان بارڈر کا زیادہ حصہ بلوچستان کے ساتھ ملا ہوا ہے جبکہ یہاں کے قبائلی علاقہ جات کے ساتھ تھوڑا علاقہ ہے جس کی مکمل سکیورٹی ہونی چاہیے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا ملک ہوگا جہاں لوگ بغیر ویزے کے داخل ہوتے ہوں لیکن ہمارے ملک میں ایسا ہوتا ہے اور افغانستان کے لوگ روزانہ بغیر ویزے کے یہاں آتے، جاتے رہتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ انہیں ریگولرائز کرنے کے لیے کارڈ جاری کیے جائیں تاکہ طورخم بارڈر پر ان کا ڈیٹا موجود ہو جبکہ فاٹا اور بندوبستی علاقوں کی سرحد پر ایف سی موجود ہونی چاہیے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ایف سی کی 70 پلاٹونیں اسلام آباد اور ملک کے دیگر حصوں میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔

اگر مرکز کو اایف سی کی ضرورت ہے تو وہ اپنے لیے مزید بھرتی کرلے لیکن ہمیں ہماری ایف سی واپس کی جائے تاکہ ہمارے حفاظتی انتظامات درست کیے جاسکیں۔ مرکز نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت ایک ہزار پولیس اہلکار بھرتی کرنے کا اعلان کیاتھا لیکن ابھی تک بھرتیاں نہیں ہوئیں تاہم نیشنل ایکشن پلان پر عمل ہورہاہے اور یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے 19 ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا اورانھیں سزائیں بھی ہوئیں۔

گزشتہ چودہ سالوں سے یہاں دہشت گردی جاری ہے لیکن پولیس کو دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی تربیت فراہم کرنے کا کوئی انتظام نہیں تھا تاہم اب ان کے لیے دو سکول قائم کیے گئے ہیں اور ان کی تربیت شروع کردی گئی ہے۔ پولیس کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے وسائل کی کوئی کمی نہیں اور انھیں درکار تمام تر وسائل فراہم کیے جارہے ہیں۔ میرے نزدیک دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ مرکزی حکومت کو چاہیے کہ صوبہ کو بجلی منافع کے 120 ارب کی ادائیگی کرے،یہاں پر تیل وگیس کے ذخائر موجود ہیں لیکن اس کے باوجود ہم مشکلات کا شکار ہیںلہٰذا مرکز کو ہمیں وسائل فراہم کرنے چاہئیں تاکہ ہماری مشکلات کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔

 ناصر موسیٰ زئی (صوبائی سیکرٹری اطلاعات مسلم لیگ (ن))

دہشت گردی عالمی مسئلہ ہے اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی کسی نہ کسی سطح پر دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں حکمرانوں کی کوشش سے دہشت گردی پر قابو پانے کے حوالے سے موثر اقدامات کے باعث 2013ء کے مقابلے میں ایسے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے۔ آپریشن ضرب عضب بھی دہشت گردی کے خاتمے کی ہی ایک کڑی ہے اور اب دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے ذریعے کئی علاقوں کو سکیورٹی کے لحاظ سے کلیئر کر لیا گیا ہے۔ باچا خان یونیورسٹی کے سانحہ نے پھر قوم کو اس سوچ میں مبتلا کر دیا ہے کہ اگر یہ واقعات نہ رکے تو قوم کا مستقبل بالکل تباہ ہو سکتا ہے۔

دہشت گردوں کی جانب سے اب جن بچوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے اس نے پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سکیورٹی کے حوالے سے وفاق کااہم کردار ہے تاہم یہاں صوبائی حکومت سے غفلت ہوئی ہے۔ انہوں نے خفیہ معلومات کے تبادلے میں آنے والے الرٹ کو سنجیدگی سے نہیں لیا کیونکہ 14 دسمبر کو پہلا سکیورٹی الرٹ جبکہ جنوری میں دو الرٹ آئے۔ چارسدہ یونیورسٹی سانحہ ہو یا چیک پوسٹ حملہ اگر صوبائی حکومت پہلے سکیورٹی الرٹ پرسنجیدگی سے اقدامات کر لیتی تو یہ سانحہ نہ ہوتا۔ باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں تقریب سے پہلے کوئی پولیس یا دیگر سکیورٹی اہلکار تعینات نہیں تھے۔ اگر موثر سکیورٹی اقدامات کیے جاتے تو اس سانحہ کو روکا جا سکتا تھا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ حکومت 64 ہزار سکولوں پر پولیس تعینات کرے لیکن جب کسی جگہ کے حوالے سے دھمکی آتی ہے تو پھر اس پر توجہ دینی چاہیے۔

مرکز جو اس وقت دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب جنگ لڑ رہا ہے تو زیادہ فنڈز اس جنگ پر استعمال ہو رہے ہیں ۔ اس وقت دہشت گردی کا ناسور صرف ایک صوبے میں نہیں بلکہ پورے ملک میں موجود ہے جس کے لیے صوبائی حکومت تب اعتراض کر سکتی ہے کہ جب باقی دیگر صوبوں کو تو حصہ مل رہا ہو لیکن خیبر پختونخوا کو نظر انداز کیا جارہا ہو۔ خیبر پختونخوا حکومت کو اس صورتحال پر وفاق کو تحسین دینا چاہیے کہ اس کے اقدامات سے کم از کم طالبان کا زور ٹوٹ گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صوبائی حکومت کو خفیہ معلومات کے تبادلے کے حوالے سے الرٹ اور ان پر اقدامات کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ ہمیںالزام تراشی کے بجائے اداروں کو مضبوط کر کے دہشت گردی سمیت تمام مسائل کاحل نکالنا چاہیے۔

 مولاناشجاع الملک (جنرل سیکرٹری جمعیت علماء اسلام(ف) خیبرپختونخوا)

عالمی منظر نامہ بدل رہا ہے اور عالمی طاقتیں خود کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لئے کمزور ممالک کواپنا دست نگر بنانے کی پالیسی پر کاربند ہیں،جس کے تحت دنیا کے 60فیصد وسائل رکھنے والے مسلم ممالک کو تختہ مشق بنایا گیا ہے۔ یہی طاقتیں اپنے مفادات کی جنگ دوسروں کے میدانوں پر لڑ رہی ہیں، افغانستان کے میدان پر امریکا نے روس کو شکست سے دو چار کرکے دنیا کی تھانیداری کا تاج اپنے سر سجا لیااس کے ساتھ ہی چار عشروں سے افغانستان کی سرزمین پر بھڑکائی جانے والی آگ کے شعلوں نے پاکستان کے تن کو بھی جھلسائے رکھا لیکن بالآخر چین اور روس نے پھر سے امریکا کو آنکھیں دکھانی شروع کر دی ہیں۔

ادھر مشرق وسطیٰ میں ایک نئی گیم شروع کی گئی، فی الحال شام اس کا مرکز و محور ہے، فرقہ ورانہ منافرت کو ہوا دیتے ہوئے امت مسلمہ میں دراڑ پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ایسے میں سعودی عرب ایران تنازع اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔عالمی استعماری قوتیں تیسری عالمی جنگ کی شروعات کے لئے پرعزم ہیں اس بار امت مسلمہ کااس جنگ کے لئے بطورایندھن انتخاب کیا گیاہے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان اور خطے کے لئے گیم چینجر منصوبہ بھی اغیار کی آنکھوں میں کھٹک رہاہے۔ اگر پاکستان کی داخلی صورت حال کی بات کی جائے تو یہاں بھی صورتحال اطمینان بخش قرار نہیں دی جا سکتی۔

سانحہ اے پی ایس کے بعداگرچہ قوم یک سو ہوئی اور دہشت گردی کے اس ناسور کو جڑ سے پھینکنے کے عزم کے ساتھ عملی اقدامات بھی اٹھائے گئے لیکن اب بھی کئی سوالات تشنہ ہیں۔ اس سلسلے میں سیاسی و مذہبی رہنماؤں سمیت سول سوسائٹی، قومی ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد چاہتی ہے۔ میرے نزدیک دہشت گردی کے حوالے سے مدارس کو بدنام کرنے کی روش کو ترک کرنا ہوگا،اس وقت ملک میں تیس ہزارمدارس رجسٹرڈہیں،ان مدارس کی اپنی تنظیمیں ہیں اگرپھر بھی کوئی مسئلہ ہے تو ان کی انتظامیہ سے بات کرنی چاہیے۔

اصل بات یہ ہے کہ یہ جنگ صرف او ر صرف ڈالروں کی جنگ ہے جس میں بے گناہ عوام کومروایاجارہاہے۔ اس کی اصل وجوہات تک پہنچے بغیر اس پر قابو پانا ممکن نہیں اور اگر حکومت چاہے تو ابھی یہ ناسورختم ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے خارجہ پالیسی کو ازسرنومرتب کرکے پارلیمنٹ میں پیش کیاجانا ضروری ہے۔اس کے علاوہ چھوٹے صوبوں کی محرومیوں کاازالہ کرنا چاہیے مگربدقسمتی سے ایسانہیں ہورہاہے۔ اب چین کے ذمہ داروں کویہ باورکروایاگیاہے کہ اقتصادی راہداری کامغربی روٹ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر دوسوسالوں میں بھی نہیں بن سکتاجو وفاق کو توڑنے کی باتیں ہیں۔میرے نزدیک جب تک تمام طبقات کی محرومیاں ختم نہیں ہوں گی تب تک مسائل یونہی رہیں گے۔

مشتاق احمد خان (امیرجماعت اسلامی خیبرپختونخوا)

میں باچا خان یونیورسٹی کے شہدأ کے بلند درجات اور زخمیوں کی صحت یابی کیلئے دعاگو ہوں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس خطے کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کردے اور یہاں امن قائم ہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خیبر پختونخوا فرنٹ لائن صوبے کا کردار ادا کررہا ہے جبکہ زیادہ ترقربانیاں یہاں کے لوگوں نے دی ہیں۔ اگر ہم گزشتہ ایک ماہ پر نظر دوڑائیں تو اس میں 140قیمتی جانیں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھی ہیں۔ ان انسانیت سوز واقعات کے لئے مذمت کا لفظ بھی اب کوئی معنی نہیں رکھتا، یہ مسلسل واقعات انسانیت کے دامن پر بدنما داغ ہیں اور ایسا کسی بھی مہذب یامعاشرے میں نہیں ہوتا۔

سانحہ باچا خان یونیورسٹی، سانحہ آرمی پبلک سکول کے ٹھیک ایک سال، ایک ماہ اور چار دن بعد رونما ہوا جو ہمارے بچوں سے قلم اورکتاب چھیننے کی ناکام کوشش ہے۔ اب دہشت گردوں نے آسان ہدف کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے اور انہوں نے ہمارے مستقبل پر وار کیا ہے۔ دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ اب ہمارے ہاتھ بھی اپنے جگر گوشوں کی لاشیں اٹھا اٹھاکر تھک چکے ہیں جبکہ آنکھوں میں آنسو بھی خشک ہوچکے ہیں‘ اب یہ انسانیت سوز فعل بند ہونا چاہیے جس کے لئے ہمیں بحیثیت قوم متحد ہوکر سکیورٹی فورسز کے ہاتھ مضبوط کرکے مقابلہ کرنا ہوگا۔

یہ واقعہ اندرونی نہیں بلکہ بیرونی ہے‘ اس حوالے سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے افغان صدر اشرف غنی‘ چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے جنرل جان کیمبل کو الگ الگ ٹیلی فون کئے اور انہیں باچا خان یونیورسٹی پر ہونیوالے دہشت گرد حملے کی تحقیقات کے بارے میں آگاہ کیا جس کے لیے اس میں سابق افغان انٹیلی جنس چیف رحمت اللہ نبیل کے ملوث ہونے پر بھی بات چیت ہوئی‘جسے انڈین قونصلیٹ کی جانب سے مددملی۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان نے پٹھان کوٹ واقع پر کمیٹی بھی بنائی، ریاستی ادارے بھی حرکت میں آئے لیکن وہاں کے ایک وزیر کی جانب سے دھمکی آمیز بیان نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنادیا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان نے اس کی دھمکی کو سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن باچا خان یونیورسٹی واقعہ میں بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایک دن قبل سکیورٹی فورسز کی جانب سے یونیورسٹی کی سکیورٹی کو ناقص قرار دیا جانے کے باوجود 57 گارڈز میں سے صرف 6 کی موجودگی نااہلی کا ثبوت ہے ۔ اگر ڈیوٹی پر مامور گارڈز، پروفیسر اور چند طلباء نے حملہ آوروں کو روکا نہ ہوتا تو بہت زیادہ انسانی جانیں ضائع ہونے کا احتمال تھا۔ اسی طرح یہ بات بھی قابل گرفت ہوسکتی ہے کہ موجودہ حالات میں ایک تعلیمی ادارے میں سیاسی سرگرمیاں کیا معنی رکھتی ہیں۔ بے شک باچا خان بہت بڑے لیڈر تھے اور عدم تشدد فلسفہ کے روداد بھی تھے لیکن تعلیمی جامعات میں سیاسی سرگرمیوں سے مثبت اشارے نہیں ملتے۔

بہر حال اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس مسئلے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے آگے بڑھنا ہوگا اور اس مسئلے کی بنیادی وجہ تلاش کرکے اسے ختم کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جب تک ہم اس مسئلے کی جڑتک نہیں پہنچیں گے اس وقت تک ہماری تمام کوششیں بے ثمر ثابت ہوں گی۔ ہمیں فوری طور پر اس مقصد کے لئے قلیل المدت اور طویل المدت منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ اس ضمن میںاگر قومی ایکشن پلان پر کسی قسم کے تحفظات پائے جاتے ہوں تو ان پر فوراً عملدرآمد کے ذریعے دور کیا جاسکتاہے لہٰذا ریاست‘ ریاستی اداروں‘ سیاسی پارٹیوں اور قوم کو یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

ضلعی‘ صوبائی و وفاقی حکومتوں اور اداروں کو سکیورٹی کے حوالے سے نظام کو موثر بنانے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اسی طرح طویل المدت منصوبے کے تحت ہمیں یہاں کے نوجوانوں کوروزگارکے مواقع دینے چاہیے تاکہ وہ منفی سرگرمیوں کی جانب راغب نہ ہوسکیں۔اسی طرح فاٹاکے مستقبل کے بارے میں گومگوکی کیفیت سے نکلناہوگا اور وہاں کے عوام کو ان کے بنیادی حقوق دینے چاہئیں۔یہ ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف میٹرو بنتی ہے جبکہ دوسری جانب لوگ بھوک اورپیاس سے بلک رہے ہیں، ایسی صورتحال میںمحرومیاں بڑھتی ہیں۔اس لیے فاٹاکے عوام کو بنیادی حقوق دے کرانہیںقومی دھارے میں لانا ہوگا۔اس کے علاوہ افغانستان کے ساتھ سرحدکو محفوظ بنانا چاہیے اور اس ضمن میں وفاق کو پہل کرنا ہوگی۔

شگفتہ ملک (جائنٹ سیکرٹری عوامی نیشنل پارٹی)

دہشت گردوں کا یہ حملہ صرف باچا خان یونیورسٹی پر نہیں بلکہ یہ امن اور علم کی روشنی پھیلانے اور عدم تشدد کے فلسفے کی بات کرنے والی ہستی پر حملہ تھا۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ باچا خان یونیورسٹی سانحہ دراصل صوبائی حکومت کی ناکامی ہے اور حکومت کو اسے تسلیم کرنا چاہیے۔ یونیورسٹی میں مشاعرے کا وقت صبح گیارہ بجے کا تھا جب کہ اس حملے کا آغاز صبح آٹھ بجے کیا گیا۔ صوبائی حکومت کو چارسدہ میں دہشت گردوں کی کارروائی کی پہلے سے اطلاع تھی اسی طرح نادرا اورجمرودچیک پوسٹ پر دہشت گردی واقعات کے بھی باقاعدہ الرٹ صوبائی حکومت کوجاری کیے گئے تھے اور ان سے سکیورٹی اداروں کی خفیہ اطلاعات کا تبادلہ بھی کیا جارہا تھا تاہم اس کے باوجود بھی ایساواقعہ رونماہونا کوتاہی ہے۔

حکومت کی جانب سے سکیورٹی اقدامات کی صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک الرٹ پر تعلیمی اداروں کو بند کرنا پڑا جس کے لیے تعلیمی اداروں کو بار بار بند کرنے کے تو اقدامات کئے گئے لیکن باقی صورت حال کو بہتر نہیں بنایا جا سکالہٰذا اب وزیراعلیٰ کو بھی ایسے معاملات میں سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ حکومت کا باچا خان یونیورسٹی کے حوالے سے سکیورٹی اقدامات کا دعویٰ ہے کہ یونیورسٹی میں 57 سکیورٹی گارڈز کو تعینات کیا گیا تھا لیکن حقیقت میں اس وقت ڈیوٹی پر صرف چار یا پانچ سکیورٹی گارڈز موجود تھے، جنہوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر قوم کے مستقبل کو بچایا جبکہ پولیس تو بعد میں آئی تھی۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے پالیسی سمیت تعلیمی نصاب پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ نیشنل ایکشن پلان جو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا تھا حکومت نے اس پر کس حد تک عمل درآمد کیا ہے۔ افسوس ہے کہ ماسوائے ایک نکتے کے ،ایجنڈے میں شامل 19 نکات پر کچھ نہ ہو سکا۔ اب حکومت کو آل پارٹیز کانفرنس طلب کر کے مشترکہ طور پر لائحہ عمل بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

بدقسمتی سے اس وقت صوبائی اور وفاقی حکومت کی بھی آپس میں کوآرڈینیشن نہیں بلکہ صرف ایک دوسرے پر الزامات لگائے جارہے ہیں لہٰذااگر مل کر اقدامات کئے جائیں تو دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑا جا سکتا ہے۔ اس وقت ہمیں ملک میں امن قائم کرنے کے لیے بہت سے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کو بلا امتیاز پورے ملک وسعت دینا ہوگی اور جہاں جہاں ان کی کمین گاہیں ہیں ان کا خاتمہ کیا جانا چاہیے۔ پنجاب میں دہشت گردوں کے مبینہ ٹھکانے قائم ہیں اور وہاں کی خواتین داعش میں جا کر شمولیت اختیار کر رہی ہیں اس تمام صورتحال کو بھی دیکھنا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔