پاکستان کی نظریاتی اساس، ریاست کا بیانیہ، دہشت گردی   (1) 

اوریا مقبول جان  پير 25 جنوری 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

جس دن یعنی 14 اگست 1947ء سے یہ مملکت خداداد پاکستان اس دنیا کے نقشے پر ابھری ہے، ٹھیک اسی دن سے ایک طبقہ اس ملک کی اساس اور بنیاد سے بغض و عناد رکھتے ہوئے اسے تمام مسائل کی جڑ سمجھتا ہے اور وہ ہمیشہ یہ کوشش کرتا رہتا ہے کہ اس ملک میں جب کبھی حالات خراب ہوں، بددیانتی عام ہو جائے، صوبائی حقوق غصب ہوں، آمریت کے سائے مسلط ہو جائیں، لٹھ مار گروہ پیدا ہوں، فرقہ وارانہ قتل و غارت شروع ہو جائے تو ایسے تمام مسائل کی وجہ صرف اور صرف پاکستان کی اساس، اس کی بنیاد اور اس کے نظریے کو قرار دیتا ہے۔

اس گروہ یا طبقے کے نزدیک برائیوں کی جڑ قرار داد مقاصد ہے جس کی وجہ سے پاکستان ایک آزاد جمہوری ریاست کے بجائے ایک مذہبی شناخت والی ریاست بن گیا ہے، جس سے لبرل سیکولر جمہوری کلچر کو فروغ نہیں ملا، اقلیتیں غیر محفوظ ہو گئی ہیں اور طالع آزما جرنیلوں نے اس کا سہارا لے کر جہادی کلچر کو فروغ دیا ہے، جس کی وجہ سے ہم آج دہشت گردی کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ ہمارے پڑوسی ہم سے ناراض ہیں، نہ ہم خود چین سے بیٹھتے ہیں اور نہ ان کو چین سے بیٹھنے دیتے ہیں۔

یہ ساری رام کہانی گزشتہ ساٹھ سالوں سے اس ملک کا لبرل، سیکولر اور ’’پروٹسٹنٹ ملا‘‘ ہمیں سنا رہا ہے۔ ان دنوں اس کا ایک نیا طریقہ اظہار ڈھونڈا گیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہماری ریاست کا بیانیہ غلط ہے، اسے تبدیل ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے بیانیے ہیں جن پر پابندی لگا دی جائے کیونکہ ان سے شدت پسندی جنم لیتی ہے۔ اس کی کوکھ سے جہادی روح پیدا ہوتی ہے اور نتیجے میں ملک کو صرف دہشت گردی ملتی ہے۔

ان لبرل سیکولر دانشوروں اور پروٹسٹنٹ مذہبی اسکالروں نے گزشتہ دو سالوں میں اس بیانیے کے نکات بھی بار بار بیان کر دیے جن پر پابندی لگانی چاہیے کیونکہ اس بیانیے کی وجہ سے دہشت گردوں کو نظریاتی اساس ملتی ہے۔ ان کے نزدیک سب سے پہلے ریاست کا بیانیہ تبدیل ہونا چاہیے اور اس کے بعد ان تمام بیانیوں پر پابندی عائد ہونی چاہیے جو اس نئے بیانیے کے مخالف ہوں۔

ریاستی بیانیہ کی تبدیلی کی ضرورت سب سے پہلے پرویز مشرف کے دور میں محسوس کی گئی اور وہ بھی اس وقت جب پاکستان نے امریکا کی گیارہ ستمبر کے بعد چھیڑے جانے والی جنگ میں ساتھ دینے کا اعلان کیا تھا۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں 54 سال بعد آنے والا پہلا بہت بڑا موڑ تھا جس میں اس ملک کی نظریاتی ٹرین کو بالکل دوسری سمت موڑ دینے کی کوشش کی گئی۔

آج پندرہ سال بعد ہم اس مقام پر کھڑے ہو چکے ہیں جہاں ہمارا معاشرہ، ملک اور ریاست ایک ایسی جنگ میں مبتلا ہیں جہاں اقتدار میں موجود مخصوص لوگ، مخصوص دانشور اور سیاسی تجزیہ کار پاکستان کی نظریاتی ٹرین کا رخ بدلنا چاہتے ہیں، ان کے پاس ریاست اور حکومت کی طاقت ہے جب کہ دوسری جانب اکثریت اس سے بے پرواہ ہے، لیکن ان پندرہ سالوں میں ایک ایسی اقلیت نے جنم لیا ہے جو ہر صورت نظریاتی اساس کو تبدیل نہیں ہونے دینا چاہتی۔ یہ وہ اقلیت ہے جو اپنے جنون میں ہر حد سے گزر جانے کو تیار ہو جاتی ہے۔ یہی وہ اقلیت ہے جو ان گروہوں کے ہتھے چڑھتی ہے جن کا مقصد اس ملک میں دہشت اور تخریب کاری ہوتا ہے اور جنھیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اور بھاری بیرونی امداد کے ذریعے قائم کیا گیا ہے۔

بیانیہ کے نفاذ کے اس شدت پسند طریقہ کار کی حامی یہ اقلیت ہے‘ لیکن وہ جو بیانیہ سے نفرت کرتے ہیں وہ یہ رٹ لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ سرے سے بیانیہ ہی بدل دو۔ انھیں اندازہ نہیں کہ بیانیہ سے روگردانی نے تو یہاں لٹھ مار گروہ پیدا کر دیے۔ اگر بیانیہ بدلنے چلے تو پھر کیا ہو گا۔ ایک صاحب نے بڑی محنت سے اس بیانیہ کے ان نکات پر پابندی لگانے کے لیے فہرست مرتب کی تو دوسرے صاحب نے ایک اور فہرست تیار کر دی جن کے مشترکہ نکات ایسے ہیں جن کے بارے میں ان کا تصور یہ ہے کہ ان پر گفتگو کرنے، لکھنے اور ترویج کرنے پر پابندی لگا دی جائے تو نہ داعش باقی رہے گی اور نہ طالبان اور نہ ہی دہشت گردی ہو گی اور نہ تخریب کاری۔

ان میں سب سے اہم ترکیب، لفظ یا تصور جس سے نفرت ابھرتی ہے وہ ’’خلافت‘‘ ہے۔ اس لفظ سے نفرت ان کے منہ اور ذہن میں جارج بش اور ٹونی بلیئر کے اس فقرے کے بعد آئی جب انھوں نے اپنے مخالفین کے بارے میں مغرب کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا ”The want Khelafa Back” (یہ تو دوبارہ خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں)۔ بیانیہ تبدیل کرنے والوں کو کون سمجھائے کہ اس برصغیر پاک و ہند میں انگریز اقتدار کے خلاف سیاسی سرگرمیوں اور سیاسی شعور کا آغاز جس تحریک سے ہوا تھا اسے تحریک خلافت کہتے ہیں۔

گاندھی نے کہا تھا کہ اگر مجھے اپنی پوری زندگی میں کسی ایک تحریک کا انتخاب کرنا پڑے تو میں تحریک خلافت کا کروں کیونکہ اس سے ہندوستان کے سیاسی شعور کا آغاز ہوا تھا۔ کیسے کیسے ہیرو اس قوم کو میسر آئے جن میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی نمایاں تھے۔ ترکی کی خلافت عثمانیہ کو امہ کی مرکزیت جان کر جو ایثار ہندوستان کے لوگوں نے کیا، اس پر آج بھی ترکی میں پاکستانیوں سے محبت پائی جاتی ہے۔ گزشتہ نوّے سالوں میں بھی کسی نے کہا کہ تصور خلافت کا ذکر کرنا ختم کرو کہ یہ مسلمانوں میں شدت پسندی پیدا کرتا ہے۔

آج بھی پوری دنیا کے اسلامی ممالک میں عوام سے سوال کیا جائے کہ تمہارے نزدیک حکمرانی کے آئیڈیل کون ہیں تو وہ خلفائے راشدین کا نام لے گا۔ چند سال پہلے جو PEW نے سروے کروایا تھا اس میں مصر، ترکی، پاکستان اور انڈونیشیا میں 80 فیصد کے لگ بھگ لوگ خلفائے راشدین کی حکومت کو اپنا آئیڈیل تصور کرتے تھے۔ ایسے میں خلافت کا ذکر ختم کرنے سے اس بیانیے کو روکنے سے کیا 20 کروڑ لوگوں ے دلوں سے خلافت کے تصور کی عزت و تکریم ختم ہو جائے گی۔ بیانیے کا دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ جمہوریت اسلام سے متصادم ہے۔ یہ ایک ایسا نکتۂ نظر ہے جس پر اس امت میں ہمیشہ دو آراء رہی ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کی مسلم امت میں سب سے توانا آواز علامہ اقبال جمہوریت کو ابلیس کی ایجاد تصور کرتے تھے اور اس سے گریز کرنے کو کہتے رہے۔

گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کار شو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید

’’طرز جمہوری سے گریز کر اور کسی پختہ کار کا غلام ہو جا کہ دو سو گدھوں کے دماغ سے انسانی فکر برآمد نہیں ہو سکتی‘‘۔ اقبال کے لاتعداد اشعار جمہوریت کو ظالمانہ، شاطرانہ اور ابلیسی نظام ثابت کرتے تھے۔ وہ یہ سب انگریز حکمرانوں کے دور میں کہتے رہے جو جمہوریت کو اپنا لگایا پودا تصور کرتے تھے۔ کسی نے ان کے بیانیہ پر یہ کہہ کر پابندی نہ لگائی کہ اس سے ریاست کی چولیں ہل جائیں گی۔ بیانیے کا اگلا تصور جس پر پابندی کی خواہش کی جاتی ہے وہ قومی ریاستوں کی نفی ہے۔ اگرچہ کہ اقبال اس پر بھی واضح ہیں۔

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

اس کے باوجود بھی قومی ریاستوں کا آغاز 1920ء کے آس پاس ہوا اور صرف ساٹھ سال کے بعد ہی پورے یورپ نے ایک کرنسی، ایک پارلیمنٹ اور ایک خطے کی بنیاد پر قومی ریاستوں کی سرحدوں کو ملیامیٹ کر دیا۔ لیکن چونکہ وہ علاقے کی بنیاد پر واپس اکٹھا ہوئے ہیں، اس لیے کسی کو کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر آپ کہیں کہ مذہب کے رشتے سے مسلمان ایک ہو جائیں تو کہیں گے کہ یہ لوگ تو خلافت واپس مانگتے ہیں۔ یہ تصور تو ایک خواب ہے ایک ایسا خواب جس میں پہلے مسلم ایک امت بنتے ہیں اور پھر پوری انسانیت ایک امت، کیا قرآن نے پوری انسانیت کو ایک امت نہیں کہا۔

اقبال نے کہا تھا جمعیت اقوام نہیں جمعیت آدم۔ اس طرح کے تصور کے امین تو پوری دنیا میں موجود ہیں۔ کمیونسٹ دو سو سال جمہوریت کو گالی دیتے رہے۔ پچھتر سال انھوں نے جمہوریت کے بغیر آدھی دنیا پر حکمرانی کی، دنیا کے تمام محنت کشوں کو بلا رنگ و نسل ایک قوم کہتے رہے۔ لیکن کارپوریٹ کلچر کے گماشتے انھیں دنیا کے امن کے لیے خطرہ بتاتے، انھیں دہشت گرد، تخریب کار اور ملک دشمن قرار دیتے، دنیا کے پچاس ملکوں میں ان کے خلاف خونریز جنگیں لڑی گئیں، ان میں ویت نام سے لے کر چلی تک سب شامل ہیں۔ ان کے بیانیے پر پابندی لگائی گئی۔ لیکن وہ آج بھی ثابت قدم ہیں۔ اس کارپوریٹ کلچر کی بنیاد اور روح سودی بینکاری ہے، کہا جاتا ہے کہ اس بیانیے کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے کہ پاکستان حکومت سود کا خاتمہ نہیں چاہتی۔ کیا یہ سچ نہیں ہے۔

حیرت ہے کہ یہ لوگ صرف دو کروڑ لوگوں کی وکالت کرتے ہیں جن میں اکثریت مجبوراً بینک کا رخ کرتے ہیں جب کہ 20 کروڑ تو ایسے ہیں جو بھول کر بھی بینک کی شکل نہیں دیکھتے۔ سود کے خلاف گفتگو ختم ہو جائے گی تو کیا گھروں سے قرآن پاک بھی اٹھا دیے جائیں گے۔ جن میں سورہ بقرہ کی یہ آیت موجود ہے کہ اگر تم سود نہ چھوڑو گے تو تمہارے لیے اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے اعلان جنگ ہے۔ کیا لوگ بیانیہ بدلنے سے ایمان بھی ترک کر دیں گے۔            (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔