خدارا! اِس دھوکے سے نکلیے کہ قانون کے ہاتھ بڑے ہیں!

عارف رمضان جتوئی  منگل 26 جنوری 2016
قانون کے ہاتھ لمبے ہیں یہ سوچ کر گھروں سے بے خوف و خطر نکلنے والی بھولی بھالی معصوم کلیوں کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی اور ساتھ میں ان کے والدین کو بھی یقیناً بہت بڑا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

قانون کے ہاتھ لمبے ہیں یہ سوچ کر گھروں سے بے خوف و خطر نکلنے والی بھولی بھالی معصوم کلیوں کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی اور ساتھ میں ان کے والدین کو بھی یقیناً بہت بڑا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

گھر سے نکلتے ہوئے وہ بڑی گرم جوشی سے گویا ہوئی کہ ہمارے گھر ضرور آئیے گا۔ اس کا اندازِ اپنائیت کی گہرائیوں کو چھو رہا تھا۔ اس کی بات سن کر میں نے سوچنے کے انداز میں کہا، دیکھتے ہیں موقع ملا تو ضرور آئیں گے۔ یہ سب دو دن پہلے ہی کی تو بات تھی کہ اطلاع ملی، عائشہ گھر سےغائب ہے۔ دو دن ہوگئے کچھ پتا نہیں۔ یہ خبر بجلی بن کر ہم پر گری اور کچھ ہی لمحوں میں سب کچھ ختم کرگئی۔ اس وقت یوں لگا جیسے ایک زور دار دھماکے سے سب ختم ہوگیا، اور سب کچھ فنا ہوگیا ہو۔ لگا جیسے زمین ہچکولے کھانے لگی ہو۔ دماغ ماؤف ہو کر کچھ بھی سوچنے کی حالت میں نہیں تھا۔

اسکا مسکراتا، کھلکھلاتا چہرہ دماغ کی اسکرین پر گھومنے لگا۔ وہ بہت خوش رہتی تھی۔ یہ عمر ہوتی بھی خوش رہنے اور خوشیاں سمیٹنے کے لیے ہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہر وقت خود میں مگن رہتی تھی یا پھر اپنے روشن مستقبل میں گم ہوتی تھی۔ جیسے وہ کراچی کی رنگین دنیا کے سارے رنگوں کو سمیٹنا چاہتی تھی۔ مگر وہ بھول گئی تھی کہ جن روشنیوں کو وہ خود سے پرے کھڑے ہو کر دیکھتی ہے، جہاں قمقموں کا جلنا بجھنا اسے اچھا لگتا ہے وہیں تاریکی اور گھٹن بھی اپنے پر پھیلائے کھڑی ہوگی۔ اس نے ہمیشہ محبتیں بکھیرتے لوگ دیکھے تھے، مگر وہ کبھی ان انسانوں کی شکل میں درندوں سے نہیں ملی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ یہاں کچھ ایسے انسان بھی پائے جاتے ہیں جن کو جنم دینے والی خود بنت حوا بھی شرمندگی سے دنیا کو اپنا منہ دکھانے سے گریز کررہی ہوگی۔

2 روز بعد جب اطلاع ملی کہ عائشہ بے ہوشی کی حالت میں کراچی کے جناح اسپتال میں ہے اور بے سدھ ہے۔ ہوش میں نہیں یا پھر ہوش میں آنا نہیں چاہتی تھی۔ ملیر کے علاقے سے عائشہ کے اغواء سے لیکر جناح اسپتال کی ایمرجنسی تک کا یہ سفر کیسا ہے اور اس میں کون کتنی بار مرا، اس بات کا اندازہ لگانا تو کیا سوچنا بھی محال ہے۔ محض عائشہ ہی نہیں اس کے علاوہ کتنی ہی بچیاں زیادتی کا شکار ہوچکی ہیں، جو با ضمیر افراد کو جیتے جی مار دینے کے لئے کافی ہے۔

اس قسم کے واقعات ملک بھر میں تقریباً روزانہ کی بنیادوں پر پیش آرہے ہیں۔ اغواء اور اس کے بعد نیم مردہ یا مردہ حالت میں ملنا جیسے معاشرے کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ تاہم یہاں ایک بات بہت قابل غور ہے اور وہ ہے ان واقعات کے رونما ہونے کے پیچھے چھپے اسباب اور محرکات۔ اگر کچھ دیر کو ہم مذکورہ واقعات سے بالکل ہٹ کر اگر اسباب پر غور کریں تو ان سب میں ایک چیز بہت حد تک ملتی اور وہ ہے اندھا اعتبار کرنا۔

کوئی بھی لڑکی اپنی نا سمجھی کی وجہ سے کسی بھی درندہ صفت انسان کا آسانی سے شکار ہوجاتی ہے۔ کچھ بول محبت کے اور کچھ اعتبار کی باتیں معصوم، بھولی بھالی لڑکی کے لئے سپنوں کے شہزادے کا کام کرنے لگتے ہیں۔ ان جیسے واقعات کے کچھ اسباب کی اصل وجہ نام نہاد محبت بھی ہے۔ جھوٹی اور جذباتی محبت نے اب تک ہزاروں گھروں کے سکون کو برباد کیا ہے۔ کتنی ہی بھولی بھالی ناتواں جانوں کے جنازے نکالے ہیں۔

محبت کرنا جرم نہیں اور نہ ہی اسے بے پابندیوں کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ایسا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ محبت کی حقیقت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ محبت کب اور کہاں کرنی چاہیے؟ یہ نکتہ اندھی، خود غرض، تکلیف دہ محبت سے محفوظ رکھنے میں اہم ہے۔ محبت کے لئے نوجوان طبقہ کے جذبات اپنی جگہ درست اور بجا ہیں کہ محبت نہ تو وقت دیکھتی اور نہ ہی صورت یا صورتحال، بلکہ اس کا کوئی دین، ایمان اور رنگ نسل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بالکل ایسا ہی ہے تاہم ان سب جذباتی باتوں کے باوجود محبت کے لئے اینٹی بیکٹریئل کااستعمال کرنا بہت ضروری ہے، اور وہ ہے آپ کی عقل اور اپنوں سے مشاورت کرنا۔ کسی پر اعتبار کرنے اور محبت کرنے میں جلد بازی مت کریں، کیونکہ جلد بازی ہمیشہ کھائی میں گرا دیتی ہے۔

نوجوان لڑکیوں کے اغواء جیسے واقعات سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے نوجوان نسل کو کچھ چیزوں پر سختی سے عمل پیرا ہونا پڑے گا۔ عموماً ایک لڑکی کو کسی بھی آنے والے طوفان میں اس کے اپنے ہی جھونکتے ہیں۔ بعض اوقات ایک لڑکی کو دھمکیاں، محبت نامے یا دوسری کوئی ایسی پریشان کن صورتحال کا سامنا ہوتا مگر وہ اپنے سرپرست اعلیٰ، والدین، بہن بھائیوں سے شیئر نہیں کرتے، کیوںکہ ان کو دو طرح کے مسائل کا خدشہ ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ گھر والوں کا سخت ردِ عمل جس میں اس کی پڑھائی یا ملازمت چھوٹ سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ ایک بڑا فساد پیدا ہوجائے گا اور وہ اپنی وجہ سے اپنے گھر والوں کو کسی پریشانی میں مبتلا نہیں کرسکتی۔ اس کی خاموشی ایک مجبوری ہوتی ہے۔ ایسے میں والدین اور سرپرست اعلیٰ کا باکردار اور اعلیٰ اخلاق کا ہونا بہت اہم اور ضروری ہے۔ انہیں ہمیشہ یاد رکھنا ہوگا کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ایک ایسے حساس عرصے سے گذر رہے ہیں جہاں کچھ بھی ممکن ہے۔

روایتی انداز اپناتے ہوئے حکام کی جانب سے ایسے واقعات کے بعد نوٹس تو لے لیا جاتا ہے اور ساتھ ہی متاثرہ خاندانوں کو تسلی کے دو بول بھی ادا کر دئیے جاتے ہیں لیکن افسوس عملی اقدام نظر نہیں آتے۔ ایسے کتنے ہی واقعات ہیں جن میں ملزمان تک پہنچ کر بھی ان کے خلاف سخت کارروئی نہیں کی جاتی۔ بااثر ملزمان متاثرہ خاندان پر کیس واپس لینے کا دباؤ بڑھاتے ہیں اور اچانک خبر آتی ہے کہ ملزمان بے گناہ ہیں، ان کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں وغیرہ وغیرہ۔
اگر یہی ہوتا رہا تو یقیناً مجرم کبھی کٹہرے میں نہیں آسکیں گے، اور جرم بڑھتا جائے گا بلکہ وہ بڑھنا شروع ہو بھی چکا ہے۔ قانون کے ہاتھ لمبے ہیں یہ سوچ کر گھروں سے بے خوف و خطر نکلنے والی بھولی بھالی معصوم کلیوں کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی اور ساتھ میں ان کے والدین کو بھی یقیناً بہت بڑا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ خدارا! کچھ کریں کیوںکہ آنکھوں کے آنسو اب ساتھ چھوڑتے جارہے ہیں کچھ ایسے عملی اقدامات ضروری ہیں جس کے باعث یوں سسک سسک کر زندگی گذارنے کی کی نوبت نہ آئے۔

کیا آپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ایسے حادثات سے بچنے کے لیے قانون پر انحصار کرنے کے بجائے خود کچھ کرنے کی ضرورت ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
عارف رمضان جتوئی

عارف رمضان جتوئی

بلاگر ایک اخبار سے بطور سب ایڈیٹر وابستہ ہیں اور گزشتہ سات برسوں سے کالم اور بلاگ لکھ رہے ہیں جبکہ افسانہ نگاری بھی کرتے ہیں۔ کراچی کی نجی یونیورسٹی سے تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔