جناح، گاندھی اور باچاخان

جاوید قاضی  بدھ 27 جنوری 2016
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

شاید کچھ اس طرح کے ہی بول تھے اس گانے کے جو بچپن میں اکثر ریڈیو پر آتا تھا ’’لے آئی پھر کہاں پر، قسمت ہمیں کہاں سے، یہ تو وہی جگہ ہے، گزرے تھے ہم جہاں سے‘‘۔ چار سدہ جسے چھوں اور کو کہتے ہوں، جسے انگریزی میں جنکشن بھی کہا جاتا ہے، جہاں سے بہت سے مختلف اطراف سے آتی ہوئی ریل گاڑیاں اپنی پٹری تبدیل کرتی ہوں۔

تاریخ کی ستم ظریفی تو دیکھیے 1947ء کے تقریباً 70 سال بعد آج پھر گاندھی، جناح اور باچا خان ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے۔ گاندھی کو بھی ہندو انتہا پرست نے جو گولیاں پیوست کیں، لیکن گاندھی کا اس دن دیہانت نہیں ہوا تھا، وہ امر ہوا تھا۔ جناح جو بار بار اس شہر یاراں میں مارا جاتا ہے اور جو ان کے قاتلوں کو پھانسی پہ لٹکائے وہ ہاتھ اب بھی کانپتے ہیں اور بالآخر ٹھیک اسی دن کو چنا گیا جو دن باچا خان کی برسی کا تھا، باچا خان کے نظریے کو لہولہان کیا گیا، کیا تھا اس کا نظریہ؟ وہ نظریہ عدم تشدد کا نظریہ تھا۔ جو دنیا سے رخصت ہوئے تو جا کے جلال آباد میں مدفون ہوئے تا کہ وہ اپنی کہی بات کا بھرم رکھ سکیں۔

اس مسلمان کی نماز جنازہ پر راجیو گاندھی اس طرح آئے تھے جس طرح استاد بڑے غلام علی کے جنازے پر فالج زدہ ان کا نانا، نہرو وزیر اعظم آئے تھے۔ نہرو کی وہ وصیت ان کی بیٹی اندرا نے گم کر دی جس میں اس نے کہا تھا کہ ہندو رسم و روایات کے مطابق ان کی چتا کو آگ سے نہ جلایا جائے، شمشان گھاٹ نہیں لایا جائے کہ وہ صرف ہندوؤں کے نہیں ہیں، وہ انسان ہیں بس اور سب کے ہیں اور وہ دین و مذہب وغیرہ کو نہیں مانتے۔ بیٹی کے لیے نہرو کی ایسی وصیت اور خود ان کی پارٹی کے اندر آج کی BJP ہندو پرست لوگوں کے لیے کسی دھچکے سے کم نہ تھی۔ ان کی وصیت کی تکمیل نہ ہوئی اور اس تکمیل کے تغافل میں ہندوستان آج بھی لہولہان ہے۔ آئین میں سیکولر ہے، ہم سے اس نسبت بہتر ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ وہ بحیثیت ایک سماج سیکولر نہیں ہے۔

شاہ عنایت صوفی کے پیروکار آج بھی جب خدا کو پیارے ہوتے ہیں وہ اسے رحلت نہیں کہتے، منزل کو پانا کہتے ہیں اور زندگی کو مسافر کا پلیٹ فارم پر ریل گاڑی کا انتظار کرنا کہتے ہیں، تو جب وہ اپنی منزل کی طرف چل پڑتا ہے تو اسے تدفین کرتے وقت ڈھولک بجا کے، گھنگھرو پاؤں میں پہن کر قبرستان کی طرف چل پڑتے ہیں۔

مجھے اگر کوئی کہے کہ چارسدہ کیا ہے، میں کہوں اسے کہ چارسدہ پشتو میں سیکولر کو لکھتے ہیں۔ چھوں اور بہ معنی جنکشن، جہاں ہر مسافر آتا ہے، ٹھہرتا ہے اور منزل کو چل نکلتا ہے۔ طرح طرح کے مسافر، طرح طرح کے رنگ، طرح طرح کے ان کے لباس، طرح طرح کے ان کے عقیدے، زبانیں، رنگ و نسل۔

ٹھیک بیس جنوری 2016ء کو جناح، گاندھی اور باچا خان چارسدہ تک مختلف ریل گاڑیوں سے آئے تھے، ٹھہرے تھے اور ایک دوسرے سے خفا تھے، گاندھی ہنستے، جناح چائے کی پیالی ہاتھ میں دی، جناح رنجور تھے، ہاتھ میں کپکپی آ گئی تو باچا خان نے اسے اپنے ہاتھ دیے اور اس پر سب کی آنکھوں میں نمی تھی۔

بات میں الفاظ بے معنی اور آنکھوں سے بہت کچھ کہہ رہے ہوں۔ گاندھی کے چہرے پر ہمیشہ کی طرح چبھتی ہنسی تھی تو جناح نے پھر سخت گیر آنکھوں سے جو گاندھی کو دیکھا تو گاندھی نے بھی کہہ دیا ’’ہم کو دشمن کی نگاہوں سے نہ دیکھا کیجیے، پیار ہی پیار ہیں، ہم پر بھروسہ کیجیے‘‘ مودی صاحب نے بڑی کوشش کی ولبھ بھائی پٹیل کے اس تسلسل کو تیل دینے کی، لیکن بالآخر ہندوستان بول اٹھا کہ ہم پاکستان سے پیار کرتے ہیں اور اپنے وطن سے بھی پیار کرتے ہیں۔ ایسے کئی تھے جو پاکستان سے بھی بول اٹھے کہ وہ ہندوستان سے پیار کرتے ہیں اور اپنے وطن سے بھی پیار کرتے ہیں۔

کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے

’’دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں‘‘

کی مانند کتنے مظلوم ہیں گاندھی، جناح اور باچا خان کہ اپنے ہی لوگوں میں اجنبی اجنبی۔ باچا خان کو پہلے غدار کا خطاب ملا، اور اب کی بار جناح کو پھر سے کافر کہنے کی بازگشت سنی جاتی ہے۔ اور وہاں بھی روز گاندھی کا قتل ہوتا ہے، اس کے افکار کا، اہنسا کا، عدم تشدد کا۔

اسکول کیا ہے؟ اسکول چارسدہ ہے۔ جنکشن ہے جہاں سیکولر تعلیم دی جاتی ہے، طرح طرح کے بچے آتے ہیں، طرح طرح کے ان کے رنگ و مزاح ہوتے ہیں، طرح طرح کے مضامین پڑھتے ہیں، کھیل کھیلتے ہیں اور طرح طرح کے راستوں سے گھر کو لوٹ جاتے ہیں۔

پنجاب بھی تو پانچ آبوں کو اپنے وجود سے گزار دیتا ہے، ان کا پانی پیتا ہے۔ طرح طرح کے دریاؤں سے اپنے کھیت و کھلیانوں کو آباد رکھتا ہے۔ ہر طرف روشنی جہاں ہار ہے، آتش گل ہے اور منزلیں تمام۔

جب تک ہم اس ساری کرتا دھرتا کو چھوں اور کو کے زاویے سے نہیں دیکھیں گے، تب تک یہ سب ہوتا رہے گا، اسکول اجڑتے رہیں گے، مائیں اپنے دلاروں سے دولخت ہوتی رہیں گی۔

اور جب چین کی طرف سے نئی راہیں کھل رہی ہیں، اب چین کی راہ سے گزرنا ہو گا جہاں چین کے مسلمان رہتے ہیں، کیسے چین کہے گا کہ پاکستان میں چارسدہ کی نفی ہے، پاکستان سیکولر نہ ہو، اب کی بار راستوں کے جنکشن بن رہے ہیں، ایک بہت بڑا انقلاب انفرااسٹرکچر ’’اقتصادی راہداری‘‘ کے روپ میں دہلیز پر آن کھڑا ہے، جس نے پاکستان کی کایا تبدیل کر دینی ہے۔ اب ہمیں اسٹرٹیجک ڈیپتھ کی ضرورت نہیں۔ معاشی ڈیپتھ کی ضرورت ہے۔ اپنے پڑوس میں بسے سب ممالک کی ضرورت ہے۔ وہ ہماری تاریخ کا تسلسل ہیں۔ اردو کی مادر زبان فارسی ہے اس پر ہندی کا بھی اثر ہے۔

یہ ہے وہ زمیں جہاں سنسکرت نے جنم لیا تھا۔ وہ اگر ہند ہے تو وادی سندھ ! یہ ہے سارا پاکستان۔ اپنی ہزاروں سال کی تاریخ کو اپنے وجود میں سنبھالے، اشوکا کی تہذیب کو موئن جو دڑو، ہڑپا کی تہذیب کو ریشمی راہ تک کھلتے تبت و لداخ کے بدھوں کی تہذیب کے اثر والی وادی سندھ، سکندر اعظم کی گزرگاہ والی وادی سندھ، وہ اپنے آب و تاب سے رواں ہے۔

جناح کا پاکستان ہندوستان کا دشمن نہیں اور نہ ہی گاندھی کا ہندوستان ہے، باچاخان کا پختون زاویہ پختون دیس کو گلستاں کی مانند بناتا ہے۔ وہ پختون، وہ ہندوستان اور وہ پاکستان جو باچا، گاندھی اور جناح سے کوسوں دور ہے، مسئلے کی جڑ وہاں ہے۔ وہ جن کی ڈوریاں کہیں اور جڑی ہوئی ہیں، مسئلے کی جڑ وہاں ہے، وہ جو سیکولر تعلیم کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں، عورتوں، بچوں کے حقوق نہیں مانتے مسئلے کی جڑ وہاں ہے۔

کہتے ہیں سر جان جیکب نے ایک ہی جھٹکے میں جیکب آباد میں کاروکاری کی رسم کا خاتمہ کر دیا کہ انھوں نے اپنی عورتوں کے جن کو کاری کر کے مارا جاتا تھا، ان کے گھر کے فرد کو جوان کا والد تھا، بھائی تھا، چچا تھا پھانسی پر لٹکا دیا۔ مگر پھر کیا ہوا جان جیکب تو چلے گئے اور اب کاروکاری کی رسم اسی شد و مد کے ساتھ موجود ہے۔ مغرب عرب کا بھی کچھ اسی طرح معاملہ ہے کہ پولیٹیکل Will نہیں اور جب تک اس سے منسلک ہر معاملے کو ایڈریس نہیں کیا گیا، یہ معاملہ جوں کا توں رہے گا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ فاٹا کے لوگوں کو وہ حق دیا جائے جو آئین باقی سارے پاکستان کو دیتا ہے۔ فاٹا کے اندر کارخانوں کا جال بچھانے کی ضرورت ہے۔ لیکن کارخانے وغیرہ لگانے اپنی جدا Supply & Demand کے زاویے رکھتے ہیں۔ ان تمام مدرسوں کو نیشنلائز کیا جائے جہاں خدشہ ہے کہ انتہاپرستی کی تعلیم دی جاتی ہے۔

جو آج حکومت بنا کے بیٹھے ہیں وہ خود جنرل ضیا کا تسلسل ہیں، ان سے امید کرنا کہ وہ کچھ کریں گے، وہ پیپل کے درخت سے میٹھے بیر مانگنے کے مترادف ہو گا۔ وزیر داخلہ کے متعلق یہ تاثر عام ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ انسیت رکھتے ہیں۔ ان کے لیے مسئلے کی جڑ سیکولر تعلیم ہے۔ اور وہ اس کی جڑ کو ہلا بیٹھے ہیں۔ ریاست کی گورننس کا یہ مقام ہے کہ اگر سندھ کے تعلیم کے شعبے کو دیکھا جائے تو 150 ارب اس شعبے کی بجٹ جس کے 80 فیصد اسکول بند ہیں اور اتنے ہی بچے ایسے اسکولوں میں درج نہیں ہیں۔ پانچ کروڑ کے اس صوبے میں ایک کروڑ بچے اور وہ بھی غریب والدین کے بچے بالآخر کہاں جائیں گے۔ ہو سکتا ہے وہ ان مدرسوں میں جائیں جہاں ان کے رہائش سے لے کر کھانا بھی مفت مل جاتا ہے۔

آج کے ابھرتے تضاد نے گاندھی، جناح اور باچا خان کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا ہے۔ اب ان میں جو اس زماں و مکاں کے تضاد تھے وہ نہیں رہے۔ ہمیں پورے پاکستان کو چارسدہ بنانا ہو گا۔ جہاں ہر طرف سے راستے کھلتے ہوں، کھڑکیاں، دروازے کھلتے ہوں، کہ ہوا اور روشنی کا گزر ہو۔ ہمیں اب اسی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ کھلا آسمان کھلا پاکستان۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔