ہمیں سوچنا پڑے گا

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 27 جنوری 2016

آپ کوئی کام کرنا چاہتے ہیں یا تو پھر نہیں کرنا چاہتے۔ ان دونوں کیفیتوں کے درمیان کوئی بھی تیسری کیفیت نہیں ہوتی ہے یعنی ایسا کبھی نہیں ہوتا ہے کہ آپ کا آدھا وہ کام جس کو آپ کرنا چاہتے ہیں ہو جائے اور آدھا وہ کام جو آپ کرنا نہیں چاہتے ہیں، نہ ہو۔ دراصل بیچ کی کیفیت نہ چاہنے میں ہی شمار ہوتی ہے، اس کیفیت میں آپ کا دل چاہ رہا ہوتا ہے کہ کام نہ ہو لیکن آپ بیرونی دباؤ کی وجہ سے کام کرنے لگ جاتے ہیں، اسے فیصلہ نہ کر سکنے کا سرطان کہتے ہیں۔

اس سرطان میں انسان دل اور دماغ کی کشکمش کے درمیان پستا رہتا ہے اور آخر میں بالکل ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔ آج ہم سب اسی موڑ پر کھڑے ہوئے ہیں، لاشیں اٹھا اٹھا کر ہمارے کندھے شکستہ ہو چکے ہیں، رو رو کر ہماری آنکھیں بنجر ہو چکی ہیں لیکن ہم اب تک کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں کہ ہم اپنے دشمن سے کس طرح نمٹیں؟ ہماری عسکری قیادت اور عوام ایک طرف کھڑے ہیں، اس یقین و اعتماد کے ساتھ کہ ہمیں اپنے دشمن کا نہ صرف مقابلہ کرنا ہے بلکہ اسے ختم کرنا ہے جب کہ ہماری سیاسی و مذہبی قیادت کی اکثریت دوسری طرف کھڑی دل و دما غ کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔

اس لڑائی اور اب تک فیصلہ نہ کر سکنے کی وجہ سے ملک کے 20 کروڑ انسان تیزی کے ساتھ ڈپریشن کے اندھے کنویں کی طرف دوڑے جا رہے ہیں۔ یاد رکھیں، ماہرین نفسیات کے مطابق ڈپریشن اور پریشانی دماغ کو کمزور کر دیتی ہے اور وہ رفتہ رفتہ اپنی سوچنے کی صلاحیت کھونے لگتا ہے۔

اگر ہماری سیاسی و مذہبی قیادت اس بات کا انتظار کر رہی ہے تو پھر اور بات ہے۔سر ونسٹن چرچل نے کہا تھا ’’مستقبل کے بارے میں شکست پسندی جرم ہے، کچھ زیادہ کرنے میں اتنے خطرات نہیں ہوتے جتنے کہ کم کرنے میں ہوتے ہیں‘‘ جب کہ نینسن نے کہا تھا ’’ضروری ہے کہ زندگی کے بڑے معاملوں میں پسپائی کے لیے راستہ نہ چھوڑا جائے، ہمیں پیچھے چھوڑے ہوئے وہ تمام پل تباہ کر دینے چاہئیں جو ہمیں پرانی پالیسی اور پرانے نظام کی طرف لے جائیں، اس لیے کہ دونوں ہی نہایت فضول ناکامیاں ہیں‘‘۔ ہمیں سوچنا پڑیگا اس عہد میں جب ایٹم توڑا جا چکا ہے، چاند کے گرد چکر لگا لیا گیا ہے۔

اسے مسخر کیا جا چکا ہے، بیماریوں پر قابو پا لیا گیا ہے، دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک دہشتگردی، انتہا پسندی کو شکست سے دوچار کر چکے ہیں اور ترقی، کامیابی، خوشحالی، مساوات کی سڑکوں پر تیزی سے دوڑے جا رہے ہیں۔ کیا ہمارے لیے یہ اتنا مشکل معاملہ ہے کہ اسے دور کا سہانا خواب ہی رہنا چاہیے؟ اس کا جواب ہاں میں دینے کا مطلب انسان کے مستقبل سے مایوس ہو جانا ہے، ہمارے فیصلہ نہ کر سکنے کے سرطان میں مبتلا لوگوں اور رجعت و بنیاد پرستوں کے بوسیدہ اور فرسودہ فقرے صرف شکست خوردہ پسپائی کا بہانہ فراہم کر رہے ہیں۔ آج ہماری حیران اور زخمی انسانیت کو ہمارے فیصلوں کا انتظار ہے، وہ ہمارے حوصلوں، ہمت کی منتظر ہے، وہ ہمارے اٹھ کھڑے ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔

یاد رکھو آگ کی آنکھیں نہیں ہوتی ہیں، جب وہ پھیلتی ہے تو سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے، ایسا ناممکن ہے کہ وہ کسی کو بخش دے، کسی کو معاف کر دے۔ تباہی اور بربادی دل نہیں رکھتی کہ انھیں دوست اور دشمن کی پہچان ہو اور نہ ہی بارود کا ذہن ہوتا ہے کہ اسے معلوم ہو کہ اسے کہاں پھٹنا ہے اور کہاں سے اسے بچنا ہے۔ مجھے ’’کرک‘‘ کا ایک اسکاٹش پادری باربار یاد آ رہا ہے جسے ایک عرصے کی قحط سالی کے بعد جب مکئی کی فصلیں مرجھا رہی تھیں، کسانوں نے اس سے درخواست کی کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ کچھ بارش کر دے۔

پادری نے ہڑبڑا کر جواب دیا، نہیں نہیں جب تک مشرق کی ہوا چل رہی ہے میں ایسا نہیں کر سکتا‘‘۔آئیے ذرا سوچیے، آخر آپ بھی کب تک اس پادری کی طرح مغرب کی ہوا کا انتظار کرتے رہیں گے؟ کیا اس وقت تک جب تک تمام طالبعلم مر چکے ہونگے؟ کیا اس وقت تک جب تک تم تمام مائیں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکی ہوں گی؟ کیا اس وقت تک جب تک تمام عبادت گاہیں مسمار ہو چکی ہوں گی؟ کیا اس وقت تک تم اپنے تمام پیاروں کو دفنا چکے ہو گے، کیا اس وقت تک جب تک زخمی انسانیت دم توڑ چکی ہو گی، کیا اس وقت تک جب تک تمام صوفیوں کے مزارات مٹ چکے ہونگے؟ کیا تم یہ سب کچھ ہونے کا انتظار کر رہے ہو۔

کیا ابھی ایسا کچھ باقی ہے ہونے کو جس کے تم منتظر ہو۔ اگر کوئی فیصلہ نہ کرنا چاہتا ہو تو ان کو ان کی ایسی حالت میں رہنے دو۔ آؤ ہم جو فیصلہ کر چکے ہیں اٹھیں، اپنے لیے، اپنے پیاروں کے لیے، اپنے ننھے ننھے طالبعلموں کے لیے، اپنی ماؤں اور بہنوں اور بیٹیوں کے لیے۔ مشہور امریکی موسیقار مائیکل جونز کچھ سال پہلے تک ایک معمولی ہوٹل میں آرکسٹرا بجانے کا کام کرتا تھا، اگرچہ اس نے اپنا ذاتی میوزک بھی تیار کر رکھا تھا لیکن وہ دوسروں کے سامنے بہت کم اپنا میوزک بجاتا تھا، وہ اکثر اوقات مشہور امریکی گلوکاروں کے مشہور گانوں کی دھنیں بجاتا رہتا تھا۔

ایک دن وہ حسب معمول میوزک بجانے میں مصروف تھا کہ ایک بوڑھا شخص اس کے پاس آیا اور کرسی قریب گھسیٹ کر بیٹھ کر بڑے انہماک سے میوزک سننے لگا، بوڑھے کے اس طرح توجہ دینے سے مائیکل کنفیوز ہو گیا اور فوراً گانا بدل لیا، بوڑھے نے انتہائی مہربان انداز میں اشارے سے اسے وہی گانا جاری رکھنے کی درخواست کی لیکن مائیکل نے اس بار ایک نیا گانا بجانا شروع کر دیا۔ بوڑھے نے کہا ’’وہی پہلے والا بجاؤ‘‘۔ ’’وہ اتنا اچھا نہیں ہے، یہ نئی فلم کا گانا ہے آپ کو پسند آئیگا‘‘۔ ’’اونہہ وہی پہلے والا پلیز‘‘ بوڑھے نے اصرار کیا، مائیکل گانے پہ گانا بجاتا رہا لیکن اس پہلے والے گانے سے کتراتا رہا، اچانک بوڑھے نے اسے ٹوکا اور کہا وہ میوزک جو تم پہلے بجا رہے تھے کس فلم کا ہے؟

’’وہ کسی فلم کا گیت نہیں بلکہ میری اپنی بنائی ہوئی دھن ہے‘‘ مائیکل نے جھجھکتے ہوئے قدرے شرمساری سے کہا۔ ’’واہ کیا کمال کا میوزک ہے لیکن میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ تم اتنے شرمندہ کیوں ہو رہے ہو، میں تمہارے پاس مشہور فلموں کے گانے سننے نہیں آیا تھا بلکہ تمہارے ذاتی گانے کے میوزک نے ہی مجھے تمہاری طرف کھنچے چلے آنے پر مجبور کیا‘‘۔ تعریف سننے کے بعد بھی مائیکل کو لگا جیسے یہ بوڑھا محض اس کا دل رکھنے کے لیے اس کے کام کو سراہ رہا ہے ’’لیکن وہ تو بہت عام سا گیت ہے اور میں نے بے خیالی میں بجانا شروع کر دیا تھا، میں نہیں سمجھتا کہ وہ اتنا اچھا ہے کہ اسے سب کے سامنے بجایا جائے‘‘ مائیکل نے ہچکچاتے ہوئے کہا، اس لمحے بوڑھے نے بڑے مضبوط، پروقار اور جادوئی لہجے میں مائیکل کی گہری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ’’اگر تم خود اپنا گانا نہیں گاؤ گے تو پھر کون گائے گا‘‘۔ میرے دوستو، بھائیو ’’اگر تم خود اپنی لڑائی نہیں لڑو گے، تو پھر کون لڑے گا؟‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔