بھارتی یومِ جمہوریہ، یومِ سیاہ کیوں؟

محمد حسان  بدھ 27 جنوری 2016
اہم دنوں کے موقعون پر مقبوضہ کشمیر میں بھارت کیجانب سے موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل کرنا وطیرہ بن چکا ہے تاکہ احتجاجی مظاہرے باہر کی دنیا نہ دیکھ سکے۔ فوٹو : فائل

اہم دنوں کے موقعون پر مقبوضہ کشمیر میں بھارت کیجانب سے موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل کرنا وطیرہ بن چکا ہے تاکہ احتجاجی مظاہرے باہر کی دنیا نہ دیکھ سکے۔ فوٹو : فائل

26 جنوری کے دن کو ہر سال بھارت اپنے یومِ جمہوریہ کے طور پر مناتا ہے اور اسی دن کو دنیا میں بسنے والے تمام کشمیری یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ کوئی پُرامن احتجاج کرکے مناتا ہے، کوئی اپنے جذبات کو تحریر کی صورت میں ڈھال کر مناتا ہے تو کوئی سوشل میڈیا پر اپنے دل کی بات کرکے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنان بھی انسانی بنیادوں پر اپنے کشمیری بھائیوں کا ساتھ دیتے ہیں، اور اس دن کو یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں کیونکہ تمام کشمیری اور پاکستانی کم از کم ایک بات پر 100 فیصد متفق ہیں کہ انہیں کم از کم بھارت کے ساتھ کسی بھی صورت میں رہنا نا منظور ہے۔

پتہ نہیں بھارت کس منہ کے ساتھ یہ دن مناتا ہے؟ اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتے کہتے اس کی زبان نہیں تھکتی اور ساری دنیا میں وہ اپنی اس نام نہاد جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹتا پھرتا ہے، لیکن در حقیقت وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت نہیں بلکہ دنیا کا سب سے بڑا قبضہ گروپ ہے جس نے صرف اپنے جبر و استبداد کی بنیاد پراس جنت نظیر وادیٔ کشمیر پر اپنا تسلطی پنجہ گاڑ رکھا ہے۔ کیا جمہوریت اسی کو کہتے ہیں؟ دنیا کی کس جمہوریت میں ایسا ہوتا ہے؟

اس سال بھارت کے اس نام نہاد یومِ جمہوریہ پر بھارت میں ایک 17 سالہ بچی نے اس لئے خود کشی کرلی کہ اس کے والدین اس کو گھر میں ٹوائلٹ بنا کر دینے کو تیار نہیں تھے۔ یہ ایسی جمہوریت ہے جس میں 80 فیصد لوگوں کو ٹوائلٹ کی سہولت میسر نہیں ہے لیکن وہ اپنا دفاعی بجٹ ہر سال ضرور بڑھاتا ہے، تاکہ پاکستان کا مقابلہ کرسکے اور کشمیریوں پر اپنا غاصبانہ قبضہ قائم رکھ سکے۔

اِس جمہوریت میں نہ مسلمان محفوظ ہیں، نہ سکھ نہ عیسائی اور نہ ہی کوئی اور اقلیت، ان اقلیتوں کے حقوق آئے دن مارے جا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا ایک عام سی بات ہے، ان کو مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے، بابری مسجد اور گرجا گھروں کو جلانے کے واقعات ساری دنیا جانتی ہے۔

چند دنوں پہلے ایک دلت (ایسی ذات کے لوگ جن کو ہاتھ تک نہیں لگایا جاسکتا) طالب علم جو کہ بھارتی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہا تھا، نے خود کشی کرلی کیونکہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اسے بی جے پی کے اسٹوڈنٹ ونگ کی بدمعاشی کے آگے ڈھیر ہوتے ہوئے اسکالر شپ کے پیسے دینا بند کردیئے تھے اور اسے یونیورسٹی سے معطل کردیا تھا۔

صرف زبان سے کہہ دینے سے یا کاغذات میں لکھ دینے سے کوئی ملک جمہوری نہیں ہوجاتا بلکہ اس کے لئے جمہوری اقدار کی پاسداری کرنی بھی ضروری ہوتی ہے۔ جیسا کہ آپ اسکاٹ لینڈ کی مثال لیں کہ وہاں برطانیہ کوصرف اس وجہ سے رائے شماری کروانی پڑی کیونکہ وہاں کے عوام ایسا چاہتے تھے کہ انہیں حقِ خود ارادیت دیا جائے اور برطانیہ نےعوامی جذبات کا احترام کرتے ہوئے اسکاٹ لینڈ میں ریفرنڈم کروایا، حالانکہ وہاں کی عوام کو تمام بنیادی سہولیات میسر تھیں، نہ وہاں کوئی ظلم و ستم تھا اور نہ ہی انسانی حقوق کی پامالی لیکن جمہوری اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے برطانیہ نے عوام کو ان کا حق دیا۔

اب آئیں بھارتی نام نہاد جمہوریت کی طرف کہ دنیا کی سب سے زیادہ اجتماعی قبریں بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں پائی جاتی ہیں، اور اجتماعی قبریں بھی ایسی جو لاتعداد اور ناقابلِ شناخت ہیں۔ کُنن پوشپورا جیسے خواتین کے ساتھ زیادتی، اجتماعی زیادتی و قتل کے بے شمار واقعات ریکارڈ پر موجود ہیں۔ ایک محتاط اور با وثوق اندازے کے مطابق لاپتہ کشمیریوں کی تعداد 8000 سے بھی تجاوز کرگئی ہے۔ ان لاپتہ افراد کی وجہ سے دنیا ایک نئی اصطلاح سے آشنا ہوئی جو کہ ’’آدھی بیوہ‘‘ ہے۔ ایسی کشمیری خاتون جو کہ شادی شدہ تو ہے لیکن اس کا شوہر نام نہاد جمہوریہ بھارت کی نہتے کشمیریوں کے سامنے کھڑی 7 لاکھ سے زائد فوج کے ہاتھوں لاپتہ ہے۔ اس خاتون کو نہیں معلوم کہ اس کا شوہر زندہ ہے یا مرگیا ہے۔ بیواؤں اور یتیم بچوں کی تعداد بھی ان گنت ہے کیونکہ کم و بیش 70  ہزار کشمیری اب تک بے دردی کے ساتھ قتل کئے جاچکے ہیں۔

نام نہاد جمہوری بھارت کے اپنے اندر ملکی و غیر ملکی خواتین کے ساتھ زیادتی کے بے شمار کیسز منظرِ عام پر ہیں۔ سال 2014 میں بھارت میں 34,413 زیادتی کے کیسز سامنے آئے، جس میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سرِ فہرست رہا۔ سال 2015ء میں زیادتی کے کیسز کی تعداد پچھلے سال سے تقریباً دگنی ہوگئی۔ ایک تحقیق کے مطابق بھارت میں 100 میں سے 46 زیادتی کے کیسز پولیس میں رپورٹ کئے جاتے ہیں، جن میں سے 12 کیسز میں ملزمان گرفتار ہوتے ہیں، ان میں سے 9 پر مقدمہ چلتا ہے، جن میں سے 5 کو سزا سنائی جاتی ہے اور صرف 3 کو حقیقت میں سزا دی جاتی ہے اور وہ بھی صرف ایک دن کی قید پر مشتمل ہوتی ہے۔ باقی افراد دندناتے پھرتے ہیں اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہوتا۔

پاکستان میں جب جشنِ آزادی کی سرکاری تقریبات ہوتی ہیں تو عوام شرکت کیلئے ٹوٹ کے پڑتی ہے۔ حکومت کے لئے انتظامات کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ لوگ پیدل، سائیکل پر، گاڑی پر یا کسی بھی طریقے سے تقریب میں جوش و خروش کے ساتھ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ بھارت میں یومِ جمہوریہ کے موقع پر زبردستی لوگوں کو گھروں سے نکال نکال کر گاڑیوں میں بھیڑ، بکریوں کی مانند ٹھونس کر جلسہ گاہ میں پریڈ دیکھنے کیلئے پہنچایا جاتا ہے۔ کشمیری بچوں کیلئے اسکول میں بھارتی قومی ترانے پر پرفارم کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ بھارتی اہم دنوں کے مواقع پر مقبوضہ کشمیر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل کر دی جاتی ہے تاکہ کشمیریوں کی جانب سے ہونے والے احتجاجی مظاہرے باہر کی دنیا نہ دیکھ سکے۔

اسلام آباد میں بھی ایک پاکستانی انٹرنیشنل لابنگ گروپ، یوتھ فورم فار کشمیر نے ڈی چوک پر ایک احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کیا جس میں، میں نے بھی شرکت کی۔ وہاں آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر سے بھی کچھ لوگ آئے ہوئے تھے جن سے مل کر، ان کے جذبات جان کر اور ان کی پاکستان کے ساتھ محبت دیکھ کر دلی مسرت ہوئی۔ وہاں مقبوضہ کشمیر سے آئی ہوئی ایک بہن نعرہ لگا رہی تھیں کہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ اور میں سوچ رہا تھا کہ اگر واقعی بھارت جمہوری اقدار کی پاسداری میں کشمیر میں رائے شماری کروا دے تو میں اس بہن کا یقین دیکھ کر دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ان شاء اللہ ایک دن واقعی،

’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘۔

بھارت کے یومِ جمہوریہ کے حوالے سے کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
محمد حسان

محمد حسان

بلاگر گزشتہ 12 سال سے میڈیا اور پبلک ریلیشنز کنسلٹنٹ کے طور پر ملکی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک ہیں۔ انسانی حقوق، سیاسی، معاشی اور معاشرتی موضوعات پر لکھنے کا شغف رکھتے ہیں۔ آپ انہیں ٹوئٹر اور فیس بُک پر BlackZeroPK سے سرچ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔