ادب کے پردے میں

تنویر قیصر شاہد  جمعرات 28 جنوری 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

بورس پاسترناک روس کے بین الاقوامی شہرت یافتہ ادیب اور شاعر تھے۔ ان کے ناول ’’ڈاکٹر ژوا گو‘‘ نے انھیں عالمی ادب میں انمٹ نشان بخشا ہے۔ یہی ناول انھیں ادب کا نوبل دینے کا باعث بنا۔ بورس پاسترناک نے لٹریچر کی Definition بیان کرتے ہوئے ایک بار کہا تھا: ’’غیر معمولی باتوں کو سادہ الفاظ میں بیان کرنا اور معمولی انسانوں کے اندر سے غیر معمولی حقیقتیں تلاش کرکے قارئین کے سامنے پیش کرنے کا نام لٹریچر ہے۔‘‘ میرے سامنے پاکستان کے معروف سرکاری ادبی جریدے ’’ماہِ نَو‘‘ کا تازہ شمارہ (جنوری 2016ء) پڑا ہے، مَیں نے اسے لفط لفظ پڑھا بھی ہے، اور مَیں سوچ رہا ہوں کہ ادب یا لٹریچر کی جو تعریف بورس پاسترناک نے کی تھی، آیا یہ تازہ شمارہ اس کسوٹی پر پورا اترتا بھی ہے یا نہیں؟

’’ماہِ نَو‘‘ کے نگرانِ اعلیٰ جناب محمد سلیم بیگ ہیں جو وزارتِ اطلاعات کے ایک اہم شعبے (DEMP) کے ڈائریکٹر جنرل بھی ہیں۔ تازہ شمارے کی مجلسِ ادارت میں محترم شبیہ حسن، محترمہ صائمہ بٹ اور محترمہ مریم شاہین کے اسمائے گرامی نظر آرہے ہیں۔ بانوقدسیہ، مستنصر حسین تارڑ، انتظار حسین، ظفر اقبال، یونس جاوید، اصغر ندیم سید، فخر زمان، ڈاکٹر فتح محمد ملک، ڈاکٹر صغریٰ صدف، بشریٰ رحمن، شعیب بن عزیز اور خالد شریف وغیرہ کی دلکش اور دلکشا تحریروں سے زیرِ نظر شمارہ سجایا اور سنوارا گیا ہے۔ سرکاری جرائد جس یبوست اور بددلی سے شایع کیے جاتے ہیں، ماہِ نَو کا تازہ شمارہ ان قباحتوں سے محفوظ ہے۔

اس کے سارے رنگ و آہنگ جاذبِ قلب و نظر محسوس ہوتے ہیں۔ گلیزنگ پیپر اور چہار رنگی شاندار اشاعت نے اس کی کشش اور جاذبیت میں اضافہ کرکے واقعی معنوں میں اسے ’’ماہِ نَو‘‘ بنا دیا ہے۔ ہماری بڑی مشہور اور پاپولر ادیبہ بانوقدسیہ نے اپنے آرٹیکل میں، اپنی والدہ صاحبہ اور اپنے بھائی کے بارے میں باتیں سنا کر ہمیں تو حیران ہی کردیا ہے۔

انھوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ اشفاق احمد خان کی ایک ہمشیرہ آپا فرحت نے جدوجہدِ پاکستان میں بھرپور عملی حصہ لیا تھا۔ تقسیمِ ہند کے اولین دنوں اور ہجرت کے عذابوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں: ’’اشفاق صاحب کا ہیرو گاندھی نہیں تھا۔ وہ کبھی کبھی سوال کرتے کہ مہاتما گاندھی تو فلسفہ عدم تشدد کے پیروکار تھے مگر پھر وہ مسلمانوں پر ہندوؤں کے مظالم اور تشدد پر خاموش کیوں رہے؟ کشمیر پر بھارتی فوج نے لشکر کشی کیوں کی؟ یہ بھی لکھتی ہیں: ’’افواہ، گمان اور شک تو مشرقی معاشرے کا ضمیر ہیں۔ ہم لوگ ان ہی تینوں جذبوں کے تحت اخبار بینی کا شوق پالتے ہیں اور چسکے لیتے ہیں۔‘‘ یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ میری والدہ نے (گورداسپور سے پاکستان میں ہجرت کے بعد) ملتان میں تیس مربعے زمین الاٹ کروا لی تھی اور ان کے بھائی نے سات مربعے۔

’’ماہِ نَو‘‘ کے زیرِ نظر شمارے میں سفر نامہ نگار اور ناول نویس مستنصر حسین تارڑ کا جو مضمون نیویارک کے بارے میں شایع کیا گیا، وہ ادب کے نئے قارئین کے لیے یقینا دلچسپی اور معلومات کا باعث ہوگا لیکن راقم الحروف کے لیے اس میں دلکشی اور نئے پَن کا کوئی بھی عنصر مفقود ہے۔ وجہ غالباً یہ ہے کہ نیویارک اور سینٹرل پارک کا چپہ چپہ مَیں نے خود دیکھ رکھا ہے۔ تارڑ صاحب نے بات کو جس طرح پھیلا کر پیش کیا ہے، وہ بار بار کھلتا ہے۔ اپنے صاحبزادے (سلجوق) کا ذکر بھی بے جا سا لگتا ہے۔

ناول نگار اور ’’ایکسپریس‘‘ کے کالم نویس انتظار حسین کا ’’اکہ گم، ٹم ٹم حاضر‘‘ خوب ہے۔ گئے دنوں کا سراغ لگانے اور یاد آفرینی کی خوبصورت کاوش و کوشش۔ ہجرت کے وقت ہندوستان میں چھوڑے گئے اپنے آبائی گھر، گلیوں اور چوباروں کا ذکر۔ ہاپوڑ کے رہائشی بابائے اردو مولوی عبدالحق کا ذکر اور یہ دلفریب جملہ: ’’شش اور گُرو کا ناتا ایسا ہوتا ہے کہ کتنا ہی سمے بِیت جائے اور دنیا کتنی ہی بدل جائے، وہ ناتا نہیں ٹوٹتا۔‘‘ انھوں نے میرٹھ کے کمپنی باغ کا پُر بہار ذکر کرکے ہمیں اے حمید کی ان تحریروں کی یاد پھر شدت سے تازہ کر دی ہے جن میں وہ امرتسر اور لاہور کے کمپنی باغوں کا ذکر بڑے ہی والہانہ انداز میں کرتے ہوئے ہمیں خوابوں میں لے جایا کرتے تھے۔

ہمارے عہد کے ایک باکمال شاعر جناب ظفر اقبال نے اس شمارے میں اپنے مضمون ’’بسیار گوئی سے ہٹ دھرمی تک‘‘ میں ان معترضین کو نہایت طنزیہ پیرائے میں مسکت جواب دیا ہے جن کا ہمیشہ یہ اعتراض رہا ہے کہ ظفر اقبال بسیار گو ہیں۔ کہتے ہیں: ’’میرے فرمے سے شعر نکلتا ہی تب ہے جب وہ میرے معیار تک پہنچ جاتا ہے۔

بصورتِ دیگر اپنی تشکیل کے دوران ہی مسترد اور ختم ہوجاتا ہے۔‘‘ یہ بھی کہتے ہیں: ’’مَیں اپنی شاعری میں ایک ورائٹی دینے کی کوشش کرتا ہوں اور مَیں نے ہمیشہ پامال راستوں سے بچ کر چلنے کی کوشش کی ہے۔ جب مَیں چلتے چلتے تھک جاؤں گا تو خود ہی ٹھہر جاؤں گا۔ لوگوں کو اس بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔‘‘ وہ نقادوں اور نقص نگاروں کو خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مَیں مسلسل سیٹیاں بجانے والوں سے بدکنے والا نہیں: ’’اگر ہوتا تو کب کا بھاگ لیا ہوتا۔‘‘ اردو ادب کے استاد اور مشہور ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید نے کلامِ اقبال کے بعض اشعار کو ڈرامے کے Prisim میں دیکھنے کی منفرد اور غالباً پہلی قابلِ تحسین کوشش کی ہے۔

اس شمارے کی ایک قابلِ ذکر انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس میں ہر لکھاری کی تصویر کے ساتھ چار پانچ سطری تعارف بھی دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے ’’ماہِ نَو‘‘ کے کسی بھی شمارے میں یہ اسلوب کہیں بھی نظر نہیں آتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جریدے کے مرتبین نے محنت اور دلچسپی سے کام لیا اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی سے احتراز کیا ہے۔

پنجابی زبان و ادب کی معروف شخصیت جناب فخر زمان نے اردو کے عالمی شہرت یافتہ ناول نگار عبداللہ حسین مرحوم سے وابستہ دلکشا یادوں کا بادبان کھولا ہے۔ مداح اور ممدوح دونوں کا تعلق گجرات سے ہے۔ عبداللہ حسین کی وفات کے بعد بہت کچھ لکھا گیا ہے اور آیندہ بھی لکھا جاتا رہے گا لیکن ’’ماہِ نَو‘‘ کے تازہ شمارے میں فخر زمان کا یہ آرٹیکل اپنی حیثیت میں معتبر ترین قرار دیا جائے گا کہ یہ باتیں محض شنیدہ نہیں بلکہ دیدہ ہیں اور فخر زمان صاحب کے براہ راست مشاہدات کا جزوِ ناگزیر۔ انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ عبداللہ حسین نے اپنے مشہور ناول ’’نادار لوگ‘‘ کے بعض حصے اسلام آباد میں بروئے کار ’’اکادمی ادبیات‘‘ کے ’’رائیٹرز ہاؤس‘‘ میں خصوصی قیام کے دوران مکمل کیے تھے۔ یہ قیام فخر زمان کی بدولت عمل میں آیا تھا۔

فخر صاحب نے یہ بھی بتایا ہے کہ وہ عبداللہ حسین کو اپنے ساتھ چین اور بھارت جانے والے پاکستانی ادبی وفد میں بھی لے کر گئے تھے اور یوں وفد کی وقعت اور اعتبار میں اضافہ ہوا تھا۔ بقول فخر زمان، عبداللہ حسین اپنے پنجابی ہونے پر فخر کرتے تھے اور شدید خواہش رکھتے تھے کہ کاش وہ پنجابی میں بھی لکھتے۔ یہ مضمون بڑی محبت اور اپنائیت کے ساتھ قلم بند کیا گیا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ عبداللہ حسین پر لکھا گیا یہ مضمون بہت سے لوگ پڑھنا پسند کریں گے۔ دانشور اور نقاد ڈاکٹر فتح محمد ملک کا آرٹیکل ’’ڈاکٹر تاثیر کی ترقی پسند پاکستانیت‘‘ زیرِ نظر شمارے کا خاص الخاص تحفہ ہے۔

پنجاب کے ایک سابق گورنر سلمان تاثیر کے والدِ گرامی ایم ڈی تاثیر کی پاکستان اور پاکستانیت سے محبت کے لازوال جذبوں کا ذکر سامنے لایا گیا ہے۔ ڈاکٹر فتح صاحب نے اس مضمون میں ہمیں یہ بتا کر حیران ہی تو کردیا ہے کہ اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کے بانی سید سجاد ظہیر کشمیر پر بھارتی قبضے کے زبردست حامی تھے اور مقبوضہ کشمیر پر اور بھارتی فوجی یلغار کی حمایت میں اپنے رسالے ’’نیازمانہ‘‘ میں یہاں تک لکھ دیا ’’ہر ایمان دار آدمی کو کشمیر پر بھارتی تسلط کو خوش دلی سے قبول کرلینا چاہیے۔‘‘ افسوس ہے بھئی۔ سجاد ظہیر کی ادبی زندگی کا یہ تاریک اور بے ادب پہلو کم از کم میری نظروں سے پہلی بار گزرا ہے۔ مختصراً عرض ہے کہ ’’ماہِ نَو‘‘ کا جنوری 2016ء کا یہ شمارہ ایسے ہی اچھے اچھے اور دلچسپ تحقیقاتی، ادبی اور تنقیدی مضامین کے ساتھ شایع ہوا ہے۔ یقینا اس شاندار کاوش پر اس کے نگرانِ اعلیٰ جناب محمد سلیم بیگ کو شاباش ملنی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔