پاکستان کی نظریاتی اساس، ریاست کا بیانیہ، دہشت گردی (آخری قسط)

اوریا مقبول جان  جمعرات 28 جنوری 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

کس قدر احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ بیس کروڑ لوگوں کا ایمان‘ ان کے دلوں میں دھڑکتی وہ خواہش کہ مسلمانوں کا آئیڈیل دور خلفائے راشدین کا تھا اور ویسی ہی حکومت ان کے مسائل کا حل ہے‘ مشعلوں کی طرح چمکتی اسلام کے میدان کار زار کی شمشیربکف شخصیات‘ یہ سب صرف بیانیہ بدل جانے سے خود بخود بدل جائے گا ۔

لوگ خوشحالی کے سراب کے پیچھے اسلام سے اپنی والہانہ محبت ترک کر کے ان دانشوروں‘ کالم نگاروں اور اینکر پرسنوں کی طرح سیکولر اخلاقیات‘ لبرل طرز گفتگو اور جدید سائنسی ترقی کے دلدادہ ہو جائیں گے۔ اسلام اور اس کے تصورات کے بارے میں ایسی غلط فہمیاں گزشتہ چار صدیوں سے ایسی تمام طاقتوں کے ذہنوں میں پلتی رہی ہیں جو اقتدار پر قابض ہونے کے بعد یہ تصور کر لیتے تھے کہ ریاست کا بیانیہ بدلنے اور ایسے تمام بیانیے پر پابندی لگانے جس سے اسلام یا مسلمان کا بحیثیت امت تشخص ابھرتا ہو‘ وہ اس بات میں کامیاب ہو جائیں گے اور ایک دن ضرور آ جائے گا جب لوگ بحیثیت مسلمان دنیا میں ابھرنے کا خواب دیکھنا بھی ترک کر دیں گے۔

اس امت پر افریقہ کے مغربی ساحلوں سے لے کر بحرالکاہل کے مشرقی کناروں تک چار بڑی طاقتوں نے حملے کیے‘ قبضے کیے‘ سلطنتیں قائم کیں۔ انگریز‘ ولندیزی‘ فرانسیسی اور پرتگیزی‘ یہ سب کے سب علاقے فتح کرتے اور حکومتیں قائم کرتے۔ اس دور میں اسلام کے مقابلے میں سیکولر ازم نہیں بلکہ عیسائیت کا بیانیہ تھا۔ حکومت کسی کی بھی ہو‘ بے شک فرانس اور برطانیہ آپس میں لڑتے رہیں لیکن مشنری سرگرمیوں میں تمام کی تمام نو آبادیاتی طاقتیں متفق ہوتیں۔ چرچ کا کوئی ملک‘ علاقہ‘ زبان یا نسل نہ تھی۔ وہ کسی بھی ملک کو دیکھ کر حالات کا مطالعہ کر کے ایسے پادریوں کو بھیجا کرتے جو وہاں کے عوام کو عیسائیت کی طرف مائل کرسکیں۔

اس مقصد کے لیے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب اور متعلقہ بیانیہ کا سہارا لیا جاتا۔ برصغیر میں پرتگیزیوں نے بنگال کے ہگلی  کے علاقے میں پہلا چرچ قائم کیا یہ 1599ء کی بات تھی۔ اس کے بعد انگریز آئے۔ انھوں نے پرتگیزیوں کو نکال باہر کیا لیکن چرچ‘ اس کے تعلیمی اور مشنری اداروں کو قائم رکھا۔ برصغیر میں جس پادری کو بھیجا گیا تھا وہ ایگریکلچر یعنی زراعت کا ماہر تھا تا کہ وہ یہاں کے مفلوک الحال کسانوں کو ساتھ ملائے‘ اور زراعتی خوشحالی کے ذریعے عیسائیت کو آگے بڑھائے‘ 1818ء میں پہلا Theological College قائم کیا گیا‘ یعنی عیسائیت کا مدرسہ۔ پوری مسلم دنیا کے چھ زون بنائے گئے اور ہر زون میں علیحدہ طریق کار سے عیسائی مشنریوں کو بھیجا جاتا۔

تقریباً دو سو سال بعد جب جائزہ لیا گیا کہ کتنے مسلمان عیسائی ہوئے ہیں تو ان کی تعداد چند سو بھی نہ تھی۔ پورا مغرب سٹپٹا کر رہ گیا کہ مسلمان تو لوہے کے چنے ہیں‘ ان کے سامنے ریاست کا جو بھی بیانیہ ہو‘ جتنی ترغیبات ہوں‘ یہ لوگ اپنا مذہب نہیں چھوڑتے۔ کل کسی وقت ان کے اندر پیدا ہونے والا کوئی باشعور رہنما انھیں ہمارے خلاف منظم کر سکتا ہے۔ اب حملے کا طریقہ کار بدلا گیا۔ اب بیانیہ ایسا ترتیب دیا گیا کہ جس سے اسلام کی اصل روح کو غائب کیا جائے۔ یہ بیانیہ جدید مغربی تہذیب اور سکیولر نظریات کے پیرائیے میں تیار کیا گیا۔ اس کے نزدیک ہر مسلمان کا رنگ نسل‘ زبان اور علاقے کی وجہ سے ایک ملک ہوتا ہے‘ وہی اس کی سب سے عظیم شناخت ہے۔ یہ مسلم امہ نام کا تصور ایک فریب نظر ہے‘ دھوکا ہے۔

اس فریب نظر اور دھوکے کو مستحکم بنانے کے لیے جنگ عظیم  اول کے بعد مسلمانوں کو ستاون کے قریب ملکوں میں تقسیم کیا گیا۔ 1920ء میں پاسپورٹ آیا‘ 1924ء میں ویزا ریگولیشنز۔ اور اب وطن کا بت ہر ملک میں تعظیم کے لیے کھڑا کر دیا گیا جس کی ایک عبادت اس ملک کا قومی ترانہ بنا دی گئی۔ ہر کسی نے اس بت کو دلوں میں بسایا اور اسے مسلم امت کے تصور پر فوقیت دی۔ اس تصور کے بعد دوسرا بیانیہ جہاد کا تھا‘ جو جدید مغربی تہذیب کے پروانے اپنے لیے زہر قاتل سمجھتے تھے۔ ایک مرنجا مرنج مسلمان‘ ہر قسم کے ظلم اور زیادتی کے باوجود صلح جو اور غلبے کے بجائے ہر فاتح‘ نو آبادیاتی قوت کے ساتھ مل کر اس کی سربلندی کے لیے کام کرے اور اسی طرح اپنی زندگی بھی بہتر بنائے اور دنیاوی مفادات بھی حاصل کرے۔

یہی وجہ تھی اور اسی بیانیے کا نتیجہ تھا کہ مسلم امہ میں جہاد فی سبیل اللہ کے بجائے قومی بالادستی کے لیے جنگوں کا رواج اور مرنے مارنے کا تصور عام ہو گیا۔ کسی کو انگریز کے ساتھ مل کر دلی کے لال قلعہ کو فتح کرنے میں کوئی شرم محسوس نہ ہوئی۔ جنگ عظیم اول اور دوم میں اپنے ہی مسلمانوں کو قتل کر کے‘ خانہ کعبہ پر گولیاں برسا کر اور انگریز کے یونین جیک کو لہرا کر  وکٹوریہ کراس سینے پر سجانے اور جنگ میں موت سے ہمکنار ہونے پر فخر کی روایت پڑ گئی۔

ایسے میں اس بیانیہ  کو مضبوط کرنے کے لیے دین کی تشریحات کا سہارا لیا گیا۔ اس میدان کا سب سے پہلا شہوار مرزا غلام احمد قادیانی تھا جس نے اعلان کیا کہ اس کے مسیح موعود اور مہدی موعود ہو جانے کے بعد جہاد بالسیف یعنی تلوار کے ساتھ لڑنے کا تصور ختم ہو گیا۔ جہاد کے بے شمار معانی پہنائے گئے۔

صوفیاء کی ایک نسل کو تیار کیا گیا جنہوں نے اپنے اسلاف اور بزرگان کے برعکس تاج برطانیہ سے وفاداری کو وقتی مصلحت اور دین کی دوسرے ادیان کے ساتھ ہم آہنگی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ کتنے ایسے مرشدین تھے جو اپنے مریدوں کو انگریز کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے بھیجتے رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ حق کی ایک جماعت کو دلیل اور اتمام محبت کے لیے ضرور قائم رکھتا ہے‘ اسی لیے صوفیائے کرام میں پیر صاحب پگاڑا کا انگریز کے خلاف جہاد اور ان کی پھانسی پر شہادت نے اس بیانیے کو زندہ رکھا جو مسلم امہ کا خاصہ تھا۔

یہی وہ بیانیہ تھا جس کی بنیاد پر پاکستان تخلیق ہوا۔ یہی بیانیہ مسلمانوں نے میدان بدر میں تحریر کیا تھا۔ بھائی بھائی کے مقابلے میں آن کھڑا ہوا تھا اور بیٹا باپ کے مقابلے میں۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت بھی یہی ہوا۔ ایک دادا کی اولاد محمد حسین چیمہ اور ارجن داس چیمہ دونوں علیحدہ ہو گئے۔ ایک طرح کا بھنگڑا ڈالنے والے‘ ہیر گانے والے اور ساگ اور مکئی کی روٹی کو پسند کرنے والوں نے اعلان کر دیا کہ یہ ہمارے بھائی نہیں کیونکہ یہ کلمہ طیبہ نہیں پڑھتے۔

یہ ملک پنجابی‘ سندھی‘ بلوچ اور پشتون نے مل کر نہیں بنایا بلکہ پنجابیوں نے پنجابی ہونے‘ سندھیوں نے سندھی‘ بلوچوں نے بلوچ اور پشتونوں نے پشتون ہونے سے انکار کیا تھا تو یہ ملک بنایا تھا۔ ورنہ دس لاکھ جانوں کی قربانی کے بجائے سکھوں کے ساتھ مل کر برصغیر کا سب سے خوشحال ملک پنجاب بنایا جا سکتا تھا۔

14 اگست 1947ء سے اس بیانیے کو رد کرنے اور لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے مسلمانوں میں یہ جہادی روح اور شدت پسندی نصاب تعلیم کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ پرویز مشرف نے پورے کا پورا نصاب تعلیم بدل کر رکھ دیا۔گزشتہ تیس سالوں سے ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں انگلش میڈیم اسکولوں نے سنڈریلا سے لے کر سنووائٹ تک اور الیگزینڈر سے لے کر شراب کشید کرنے کے تہواروں تک سب کچھ پڑھا ڈالا۔ اس کے باوجود بھی یہ سب کے سب حیران و ششدر ہیں کہ اس ملک سے شدت پسندی ختم کیوں نہیں ہوتی۔ کوئی مدرسوں پر الزام لگاتا ہے‘ کسی کو فوج کا دوغلا پن یاد آ جاتا ہے‘ کوئی جہاد افغانستان کو اس کا ذمے دار ٹھہراتا ہے۔

کاش یہ جانتے کہ ہر قوم کا ایک بیانیہ ہوتا ہے اور اگر اس بیانیے کے خلاف طاقتور ترین حکومتیں بھی اپنا بیانیہ نافذ کرنے کی کوشش کریں تاریخ شاہد ہے کہ شدت پسندی جنم لیتی ہے بلکہ لٹھ مار گروہ پیدا ہوتے ہیں اور آخر میں ریاست کو ہی اپنا بیانیہ بدلنا پڑتا ہے۔ ول ڈیورانٹ نے پوری انسانی تہذیب کا جائزہ اپنی مشہور کتاب ’’ہیروز آف ہسٹری‘‘ میں لیا ہے وہ کہتا ہے ’’کرائے کی فوجوں اور اطالوی نشاۃ ثانیہ کے تحت کھلی شہوانیت کا نتیجہ کلیسیا کو خبردار کر گیا اور عیسائی اخلاقیات کا غلبہ ہو گیا۔ ایلزبتھ کے انگلینڈ کی بے خطر تلذذ پسندی نے کرام ویل اور پیوریطان نے کٹر مذہبی غلبے کی راہ ہموار کر دی۔

بائرن‘ شیلے کے رومانی بیانیے اور جارج چہارم کے نشاط پرست جنسی رویے کے ردعمل کے طور پر انگلینڈ کی وکٹوریائی عوامی سماجی شائستگی‘ غالب آ گئی۔ اگر یہ مثالیں ہماری رہنمائی کر سکتی ہیں تو ہمیں توقع رکھنی چاہیے کہ ہمارے بچوں کے پوتے شدت پسند مذہبی ہوں گے‘‘۔ میں نے کسی مذہبی شدت پسند کی تحریر پیش نہیں کی‘ تاریخ کے ایک بے لاگ تجزیہ نگار کا پوری تاریخ کے مطالعہ سے ابھرنے والا نقطہ نظر پیش کیا۔

جب بھی عوام کی اکثریت کے خلاف کوئی بیانیہ ریاست نافذ کرتی ہے یقیناً اس کا نتیجہ شدت پسندی کی صورت میں نکلتا ہے۔ پاکستان میں اس کی نظریاتی اساس اور عوام کے مقبول بیانیے کے خلاف حکومت کا آزاد اور سیکولر بیانیہ پرویز مشرف نے نافذ کیا اور ہم آج تک شدت پسندی اور لٹھ مار گروہوں کے عذاب میں ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب تک عوام کا بیانیہ حکومت کا بیانیہ نہیں بنتا۔ دنیا میں امن نہیں آ سکتا۔ عوام کا بیانیہ حکومتیں نافذ کر دیں تو کسی جامعہ حفصہ‘ سوات آپریشن یا ضرب عضب کی ضرورت نہیں پڑتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔