کانٹے دار مقابلہ

طاہر سرور میر  ہفتہ 3 نومبر 2012
tahir.mir@expressnews.tv

[email protected]

لاہور میں سیاسی ظہرانوں، عصرانوں اور عشائیوں کا موسم آ گیا ہے۔ ہفتہ رواں میں پہلے پی ٹی آئی کی طرف سے شاہ محمود قریشی اور پھر پیپلز پارٹی کے زیر اہتمام میاں منظور وٹو کے ساتھ عصرانے سجائے گئے۔

اس نسبت سے اگر دونوں تقریبات کو نامیوں کے ناموں سے منسوب کیا جائے تو پی ٹی آئی کی دعوت کو ’’قریشانہ عصرانہ‘‘ اور پیپلز پارٹی کے بلاوے کو ’’وٹوانہ عصرانہ‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ دونوں عصرانے اگرچہ مختلف مقامات پر سجائے گئے تھے مگر ان میں مشترک بات یہ تھی کہ دونوں مقامات پر دوپہر کے کھانے کے ساتھ، ساتھ وطن عزیز میں بسنے والے عوام کے لیے انقلابی (رائیتہ سلاد)… معاف کیجیے گا… انقلابی منصوبہ جات کے اعلانات کیے گئے۔ متذکرہ دونوں مقامات پر بہت سی باتیں کی گئیں، تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے بہ زبان ِ شاہ محمود قریشی ’’بریکنگ نیوز‘‘ یہ تھی کہ مورخہ 4 نومبر کو یوتھ پالیسی کا اعلان کیا جائے گا۔

جب کہ فریق دوم جناب میاں منظور وٹو کا کہنا تھا کہ جیالوں اور اتحادیوں کے تعاون سے وہ تخت لاہور پر پیپلز پارٹی کا جھنڈا لہرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یوں تو دونوں اصحاب نے اپنی، اپنی زبان میں اپنی، اپنی سیاسی جماعت کے آیندہ دنوں کی پالیسیوں کا اعلان کیا، مگر دونوں کا مشترکہ ٹارگٹ تخت لاہور اور اس کے وارث ہی تھے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کا نوجوان طبقہ پی ٹی آئی اور عمران خان کا دم بھر رہا ہے۔ آنے والے الیکشن میں اس ملک کی یوتھ اپنے ووٹ سے سونامی لے آئے گی، اسے لیپ ٹاپ، میلوں ٹھیلوں اور گانوں سے بہکایا نہیں جا سکتا۔ وٹو صاحب نے کہا کہ وہ 1993ء میں محترمہ بینظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کے تعاون سے نون لیگ اور میاں برادران کو شکست دے چکے ہیں اور وہ یہ کرشمہ دوبارہ کرنے والے ہیں۔ وٹو صاحب نے اپنے دھیمے لہجے اور نچلے سروں میں میاں برادران کو بہت سے پیغامات دیے۔

جن کی تشریح کچھ اس طرح کی جا سکتی ہے کہ میاں برادران پیپلز پارٹی اور اتحادیوں کے اس اتحاد کو ’’قدرتی آفت‘‘ سمجھ رہے ہیں اور ان کی راتوں کی نیندیں اڑ چکی ہیں۔ اس قدرتی آفت والی ’’دھمکی‘‘ سے مجھے جوشؔ ملیح آبادی یاد آ گئے جنہوں نے اپنے رقیبوں کو یوں دھمکایا تھا کہ

نصیبِ دشمناں آفت نہ کوئی جوش آ جائے
مگر آفت تو آئے گی نصیب ِ دشمناں کب تک؟

وطن عزیز میں رائج سیاست کی ڈکشنری میں ’’قدرتی آفت‘‘ سے مراد عام انتخابات ٹائپ کا کوئی وقوعہ لیا جا سکتا ہے۔ جس کے انعقاد کے حوالے سے ہمارے بعض سابق محب جرنیلوں کی وردیوں اور سیاسی قائدین کی شیروانیوں پر کافی داغ دھبے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہمارے یہ سابق جملہ جرنیل جو صاف شفاف انتخابات کے لیے ٹرپل ون بریگیڈ کے رتھ پر جلوہ گر ہوتے رہے، وہ قوم کو 10سے 11سال فی کس کے حساب سے پڑتے رہے۔ اس کے برعکس سیاسی قائدین جن کا دورانیہ خاصا مختصر ثابت ہوتا رہا، ان کے زیر سایہ کرائے جانے والے عام انتخابات پر دھاندلی کے الزامات لگا کر انھیں رد کیا گیا اور پھر قوم تو کیا خود سیاسی رہنما بھی ان کی شکل و صورت، ہیت اور انعقاد کو بھول گئے۔ ہمارے معاشرے پر 35 برس گزر جانے کے بعد آج 2012 ء میں بھی 1977ء کے عام انتخابات کو دھاندلی قراد دینے کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔

خدا خدا کر کے قوم اس مقام تک پہنچی کہ جہاں ایک لولی لنگڑی جمہوری حکومت اپنی مدت میعاد پوری کرنے والی ہے۔ یہ حکومت جیسی بھی ہے، یہ اس کا کریڈٹ ہے کہ آیندہ قومی انتخابات جو صاف شفاف ہوں گے، اس الیکشن کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم (فخرو بھائی) ہیں۔ بات ہو رہی تھی سیاسی عصرانوں کی اور اس نسبت سے وٹو صاحب کا ذکر خیر ہو رہا تھا۔ 70ء اور پھر 77ء کے انتخابات کے بعد قومی سلامتی کے ’’کیری پیکروں‘‘ نے فیصلہ کیا کہ وطن عزیز میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص ’’ذوالفقار علی بھٹو فیکٹر‘‘ ختم کرنا ہے۔ اس سیاسی ایڈونچر کے لیے پنجاب کی دھرتی کو پاورگیم کی تجربہ گاہ بنا دیا گیا۔ اس گرینڈ گیم کا آغاز یوں تو وزیر اعظم بھٹو کی گرفتاری کی رات ہو گیا تھا مگر اس کھیل میں اہم کھلاڑی کی انٹری کچھ دیر بعد ہوئی۔

یہ جنرل ضیاء الحق کا دور تھا جب زون سی (لاہور) کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل اقبال ہوا کرتے تھے۔1997ء میں جب جنرل اقبال جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئر مین بن کر اسلام آباد جانے لگے تو انھوں نے آنے والے جنرل غلام جیلانی خان سے پنجاب کی جن چیدہ، چیدہ شخصیات کا تعارف کرایا ان میں میاں محمد شریف مرحوم سر فہرست تھے۔ یہ وہ تاریخی موقع تھا جب جنرل اقبال نے جنرل جیلانی سے میاں محمد نواز شریف کا تعارف کرایا۔ یہ تعارف اعتماد کے رشتہ میں بدلا اور گورنر جیلانی نے جواں سال نواز شریف کو اپنی کابینہ میں وزیر خرانہ کے طور پر شامل کر لیا۔ پنجاب کی وزارت خزانہ سے شروع ہونے والے سفر میں1990ء میں وزارت عظمیٰ کا سنگ میل ثابت ہوا اور نواز شریف اس ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔

پاکستان اور پھر پنجاب کی سفاک سیاست کے دریا کو کوزے میں بند کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ’’کیری پیکر‘‘ نظریاتی سیاست کا کریا کرم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ’’بزور شمشیر‘‘ (اسٹبلشمنٹ اور ایجنسی) نے سالہا سال شبانہ روز محنت سے اپنے اہداف حاصل کر لیے ہیں۔ سب سے اہم ہدف یہ ہے کہ وطن عزیز میں آڈر پر مال تیار کرنے کے مصداق افہام و تفہیم کی سیاست کو فروغ دے دیا گیا۔ ملک میں ایسے دھڑے اور انقلابی پارٹیاں بھی معرض وجود میں آ چکی ہیں جو جملہ انقلابات کا نعرہ تو لگاتی ہیں مگر قومی سلامتی سے متعلقہ لوازمات پر اٹھنے والے اخراجات اور بجٹ کو نہ چھیڑنے کی قسم کھا کر میدان میں اتری ہوئی ہیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے ساتھ ہمارے ہاں رہی سہی نظریاتی سیاست کی تجہیز و تکفین کر کے افہام و تفہیم اور ہنگ پارلیمنٹ والی جمہوریت کی بنیاد مستقل طور پر رکھ دی گئی ہے۔ یہی وہ گرینڈ پلان تھا جو اس ملک کے اصل’’ مالک مکان‘‘ طبقہ نے سوچا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو فیکٹر کو پاکستان اور پنجاب کی سیاست سے کس طرح ریزہ، ریزہ کر کے ایک شریف النفس اور تابع فرمان ’’جمہوری ٹیسٹ ٹیوب بی بی‘‘ کی ولادت مقصود تھی؟؟؟

میاں منظور وٹو کو افہام و تفہیم کا علم تھما کر پنجاب کی سیاست کے اقتدار ٹورنامنٹ کے میدان میں اتار دیا گیا ہے۔ میاں منطور وٹو 1983 ء میں اوکاڑہ ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئر مین کی حیثیت سے متعارف ہوئے اور 1993ء میں میاں نواز شریف جیسے مضبوط سیاسی حریف کو شکست دے کر وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ نواز شریف پر اس سبقت کے لیے وٹو صاحب کو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور پیپلز پارٹی کا سایہ شفقت میسر رہا تھا۔ صدر زرداری صاحب کی طرف سے ’’پنجاب کی لنکا‘‘ ڈھانے کے لیے وٹو صاحب کو بھیجنے کے فیصلے کو جوڑ توڑ کی سیاست میں سراہا جا رہا ہے۔

کیری پیکروں کا کہنا ہے کہ یہ ایسا ہی فیصلہ ہے کہ آسٹریلیا کے عظیم بلے باز گریگ چیپل کے سامنے وسیم اکرم جیسے جادوگر کو باولنگ کرانے کے لیے کہا جائے۔ میچ کانٹے دار ہو گا ایک طرف میاں نواز شریف جیسا بلے باز جو اقتدار کی گراونڈ میں سنچریاں بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دوسری طرف وٹو صاحب جن کا انداز سیاست وسیم اکرم کی طرح جادو گریوں سے مزین ہے۔ وٹو صاحب افہام و تفہیم کے یارکر سے بھی مسلح ہیں اور جوڑ توڑ کی ان سیونگ اور آوٹ سیونگ پر بھی دسترس رکھتے ہیں۔ 1993 ء کے ریکارڈ سے دیکھا جا سکتا ہے کہ وٹو صاحب جب گڈلینتھ سے گیند اٹھاتے ہیں تو میاں نواز شریف جیسا ماہر بلے باز بھی کور کے فیلڈر کو آسان کیچ دے کر اقتدار کی گراونڈ سے آوٹ ہو جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔