2015 ؛ زلزلوں کا سال

غلام محی الدین  اتوار 31 جنوری 2016
زلزلے سے پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں میں موجود بڑے برف زاروں کو کسی نقصان کی اطلاع نہیں ملی،این ڈی ایم اے ۔  فوٹو : فائل

زلزلے سے پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں میں موجود بڑے برف زاروں کو کسی نقصان کی اطلاع نہیں ملی،این ڈی ایم اے ۔ فوٹو : فائل

 اسلام آباد: زلزلوں نے تو جیسے اس خطے کا ’’گھر‘‘ ہی دیکھ لیا ہے۔ آدھی رات ابھی ادھر اور آدھی ادھر تھی اور یہ سطریں زیرِ تحریر تھیں کہ زمین جھولنے لگی۔ یہ جھٹکا شدید تھا، آ کر گذر جاتا تو بھی اس کی ہیبت کم نہ ہوتی لیکن اس کے طویل دورانیے نے ہوش اڑا کر رکھ دیے۔ ڈیڑھ منٹ زمین جھونٹے لیتی رہی، گویا پوری کائنات ہی ڈول گئی۔ خواتین تو رہیں بے چاری ایک طرف، بڑے  بڑے دل گردے والوں کے وضو ٹوٹ گئے۔

ٹی وی کی سکرین پر بھارتی وزیرِ اعظم کی آمد و رفت پر بھڑکے ہوئے مبصرین کی سٹی گم ہو گئی۔ ہم ایسے ہیں کہ اس بھوں چال کی شدت پر بھی  اتفاق نہیں کر پائے۔ کوئی کچھ بتاتا رہا اور کوئی کچھ۔ بہرحال تان اس ٹوٹی کہ6.8  اس کی شدت اور 196 میل اس کی گہرائی رہی۔ مرکز اس کا بدخشاں کے شمال میں، پاکستان، تاجکستان اور افغانستان سرحد کے قریب کوہ ہندوکش بتایا جا رہا ہے۔ جانی نقصانات الحمدللہ نہیں ہوئے البتہ کئی مقامات پر مکانوں میں دراڑیں پڑنے کی اطلاعات ہیں، جن سے مستقبل میں، (خدا نہ کرے) المیوں کا خدشہ ہے۔

26 اکتوبر 2015  کو دن کے دو بجے کا عمل تھا، سپریم کورٹ کے بینچ نمبر دو میں جہانگیر ترین اور صدیق بلوچ کے حلقہ154 کی سماعت چل رہی تھی، ٹیلی ویژن چینلز لائیو نشریات کے ذریعے لوگوں کو لمحہ لمحہ آگاہ کر رہے تھے کہ اچانک زمیں لرزنے لگی۔ سماعت کرنے والے جج صاحب نے پہلے تو  سب کو کلمہ طیبہ کا ورد کرنے کی تلقین کی لیکن جب زلزلے نے طول پکڑا تو سماعت چھوڑ کر چلے گئے۔ امریکی ذرائع کے مطابق اس زلزلے کی شدت8.1  اور گہرائی196 کلومیٹر تھی۔ اسے بھی پاکستان بھر میں محسوس کیا گیا۔ اس کا مرکز بھی افغانستان کے شمال مشرق میں کوہ ہندوکش تھا۔

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف حصوں اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں زلزلے کے شدید جھٹکوں کی وجہ سے لوگوں میں شدید خوف وہراس پھیل گیا تھا اور لوگ اپنے دفاتر اورگھروں سے نکل کر کھلے آسمان تلے کھڑے تھرتھر کانپ رہے تھے۔ ہوش سنبھلے تو عزیزواقارب کی خیریت دریافت کرنے کو فون کیے جانے لگے تو ملک بھر میں فون نیٹ ورک مصروف ہو جانے کی وجہ سے کال ملانا مشکل ہو چکا تھا۔

تھوڑی ہی دیر میں حکومت نے تمام اداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ پاکستانی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی فوج کو کسی ہدایت کا انتظار کیے بغیر متاثرہ علاقوں میں امدادی کام شروع کرنے کی ہدایت کردی اور یوں پورے ملک میں فوجی دستوں کو متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ آرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹروں کو امدادی کاموں میں حصہ لینے کے لیے متحرک کر دیا گیا تھا، تمام فوجی اسپتال بھی الرٹ کر دیے گئے۔

پاکستان میں آٹھ اکتوبر 2005  کو آزاد کشمیر اور ملک کے شمالی علاقوں میں 7.6 شدت کے زلزلے سے 70 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک اور ایک لاکھ 28 ہزار زخمی ہوئے تھے۔ جب دس سال کے وقفے کے بعد اکتوبر کے ہی مہینے میں زلزلے کے یہ ہولناک جھٹکے محسوس کیے گئے تو یوں لگا کہ اس بار جانی اور مالی نقصان 2005 سے زیادہ ہوگا کیوں کہ یہ قیامت کا منظر تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے پہلے والا زلزلہ دوبارہ آگیا ہے کیوں کہ یہ پہلے والے سے بھی زیادہ سخت اور دیر تک قائم رہا تھا، اس لیے خدشات اور اندیشے بڑھ رہے تھے۔

اونچی عمارتوں کے مکین تو اس قدر ڈر گئے تھے کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر جب تیزی کے ساتھ عمارتوں سے باہر کی طرف دوڑے تو اس افراتفری میں  بہت سے لوگ سیڑھیوں میں ہی گرپڑے اور درجنوں لفٹوں میں پھنس گئے۔ واقعی  کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ زلزلہ کب رُکے گا۔ قومی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے ترجمان احمد کمال نے چند لمحوں بعد کہا کہ نقصانات کا اندازہ لگایا جا رہا ہے، فوری طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کیا ہوا لیکن ملک بھر میں ریڈ الرٹ جاری کر دیا گیا ہے، ہم کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں اور لوگوں کو فوری ریلیف پہنچایا جائے گا۔

دوسرے دن پاکستان میں آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے این ڈی ایم اے کا کہنا تھا کہ پیر کو آنے والے زلزلے کے نتیجے میں ہلاکتوں کی  تعداد 206 تک پہنچ گئی ہے اور اب تک 1381 افراد زحمی ہیں۔ حکام کا کہنا تھا کہ زلزلے سے سب سے زیادہ نقصان خیبر پختونخوا کے ڈویژن مالاکنڈ میں ہوا تھا۔یہ ہندو کش کا پہاڑی علاقہ تھا، جو کہ ڈسٹرکٹ جرم کے جنوب مغرب میں 45 کلومیٹر دور واقع ہے۔ زلزلہ الحمدللہ  کہ زمین کی گہرائی میں تقریباً 200 کلومیٹر میں آیا تھا، یہ ہی وجہ ہے کہ سطح زمین پر اس نے زیادہ بڑی تباہی نہیں مچائی۔ اس سے قبل 2005 میں آنے والے زلزلے کا مرکز زمین کے اندر محض 15 کلومیٹر گہرائی میں تھا، اس لیے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔

دنیا بھر میں ہرسال تقریباً 20 زلزلوں کی شدت 7.0 سے زیادہ ہوتی ہے۔ نیپال کے ماہِ اپریل کے زلزلے کے مرکز کے مقابلے میں یہ زیادہ گہرائی میں تھا۔ نیپال کے زلزلے کی شدت 7.8 تھی لیکن اس کی گہرائی آٹھ کلومیٹر تھی اور دوبارہ آنے والے جھٹکوں کی شدت 7.3 تھی۔ اس زلزلے سے سب سے زیادہ سوات، اپر دیر اور لوئر دیر متاثر ہوئے۔ پاکستان کے صوبے پنجاب کے ریسکیو ذرائع کے مطابق صوبے میں زلزلے کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک اور67 زخمی ہوئے ہیں۔ فاٹا ڈیزاسٹر مینیجمنٹ کے مطابق، قبائلی علاقوں میں سب سے زیادہ ہلاکتیں اور نقصانات باجوڑ ایجنسی میں ہوئے، جہاں 26 افراد ہلاک ہوئے۔ وزیرِ اعظم کی ہدایت پر سی ڈی اے نے پانچ سراغ رساں کتے بھی خیبر پختونخوا بھیجے تھے تاکہ ملبے تلے زندہ افراد کی تلاش میں مدد مل سکے۔

اس موقع پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کو فون کیا اور زلزلے سے ہونے والے نقصان پر افسوس کا اظہار کیا اور پاکستان کو ہر ممکن تعاون کی پیش کش بھی کی لیکن پاکستان نے اس پیش کش کے جواب میں باوقار طریقے سے اپنی مدد آپ کی پالیسی پر گام زن رہنے کااعلان کیا۔

30 اکتوبر 2015 کو تباہ ہونے والے مکانات کی تعداد 25800 تک پہنچ گئی تھی، متاثرہ علاقوں میں جوں جوں راستے کھلتے جا رہے تھے، تباہی کے آثار بھی توں توں نمایاں ہو رہے تھے۔ اسی دوران آئندہ چند روز میں متاثرہ علاقوں میں بارش اور برف باری کی پیشن گوئی ہو چکی تھی۔ متاثرہ افراد کا کہنا تھا کہ بڑی تعداد میں لوگ اب بھی امدادی سامان سے محروم ہیں۔ سب سے زیادہ مکان چترال میں تباہ ہوئے تھے، جن کی تعداد 8300  تھی اور یہاں بڑی تعداد میں لوگوں تک تاحال امدادی سامان نہیں پہنچ سکا تھا۔

سردی بڑھ گئی تھی اور ایک خیمے میں آٹھ سے دس افراد کا گزارا مشکل ہوگیا تھا اور خیموں میںآگ بھی نہیں جلائی جا سکتی تھی۔ چترال میں چار ماہ پہلے ہی سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی، جس سے متاثرہ افراد اب مزید مشکلات سے دوچار ہو چکے تھے۔ ریلیف پیکیج کے تحت جاں بحق افراد کے لواحقین کے لیے چھے چھے لاکھ روپے، زخمیوں کے لیے ایک سے دو لاکھ اور گھروں کی دوبارہ تعمیر کے لیے دو دو لاکھ روپے دینے کا اعلان ہوا۔

یہ زلزلہ 2005 کے زلزلے سے مختلف کیوں تھا ؟

پاکستان میں 26 اکتوبر 2015 کو آنے والے زلزلے کو اکتوبر 2005 میں آنے والے زلزلے سے اس لیے مختلف کہا جا سکتا ہے کہ یہ اپنے جغرافیائی اثرات اور شدت سمیت کئی اعتبار سے مختلف تھا۔ آٹھ اکتوبر 2005 میں آنے والے زلزلے کی شدت رکٹر سکیل پر سات اعشاریہ چھے ریکارڈ کی گئی تھی جب کہ 26 اکتوبر 2015 کے زلزلے کی شدت سات اعشاریہ پانچ تھی۔2005 کے زلزلے کا مرکز پاکستان کے شمال مشرق میں مظفرآباد سے لگ بھگ 19 کلومیٹر دور شمال مشرق میں تھا اور اس کی گہرائی سطح زمین سے محض 26 کلومیٹر تھی جب کہ 10 برس بعد آنے والے زلزلے کا مرکز افغانستان کے شمال مشرقی صوبے بدخشاں کے ایک قصبے  سے 45 کلومیٹر شمال کی طرف تھا اور اس کی گہرائی 212 کلومیٹر تھی۔

یوں یہ زلزلہ 2005 کے زلزلے کے مقابلے میں سطح زمین سے 20 گنا زیادہ گہرائی میں تھا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس زلزلے سے تباہی  نسبتاً کم ہونے کا بڑا سبب اس کے مرکز کا زیادہ گہرائی میں ہونا تھا۔ اگر دونوں قدرتی آفتوں کا تقابل کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 2005 کے زلزلے کے نتیجے میں 75 ہزار سے زیادہ افراد جاںبحق ہوئے، جن میں پاکستان آزاد کشمیر اور صوبۂ خیبرپختونخوا میں 73 ہزار 338 اور مقبوضہ کشمیر میں 1360 اموات ہوئیں۔ 2005 کے زلزلے سے مجموعی طور پر 6 لاکھ مکانات تباہ ہوئے، 35 لاکھ کی آبادی بے گھر ہوئی اور اس کا دائرۂ اثر 30 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوا تھا۔ سب سے زیادہ عمارتیں مظفرآباد اور بالاکوٹ میں تباہ ہوئیں جبکہ آزاد کشمیر میں واقع باغ اور راولا کوٹ اور خیبر پختونخوا میں بٹگرام، ایبٹ آباد، ناران کاغان اور اسلام آباد شامل تھے۔

گلیشیئرز میں دراڑیں:

پاکستان کے شمال میں واقع پہاڑی سلسلوں میں بعض عظیم الشان برف زار (گلیشیئر) پائے جاتے ہیں، جو ملک کے لیے پانی کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے (این ڈی ایم اے) نے کہا تھا کہ اس زلزلے سے پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں میں موجود بڑے برف زاروں کو کسی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔

این ڈی ایم اے کے رکن اور ترجمان احمد کمال نے میڈیا کو بتایا تھا کہ حالیہ زلزلے کے ان گلیشیئرز پر منفی اثرات کی اطلاعات ملنے کے بعد ان کے ادارے نے محکمۂ موسمیات سے اس بارے میں رپورٹ مانگی، تو محکمے نے رپورٹ دی کہ اس زلزلے کی وجہ سے گلیشیئرز کے ٹوٹنے اور ان کے اندر بنی پانی کی جھیلیں پھٹ جانے کے خطرات تو ہو سکتے ہیں لیکن ابھی تک اس طرح کا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔ زلزلوں سے ان برف زاروں کے پگھلنے اور ٹوٹ کر ان سے بہنے والے پانی سے بعض اوقات ان کے نیچے سیلابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔

تاہم خوشقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ محکمۂ موسمیات نے واضح کیا کہ اس زلزلے کے بعد سے ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا ۔محکمے نے ان گلیشیئرز کے قریب پیشگی وارننگ جاری کرنے والے خودکار نظام نصب کر رکھے ہیں، جو ان میں آنے والی تبدیلیوں سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ محکمے کے سابق سربراہ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں اقوام متحدہ کے موجودہ مشیر ڈاکٹر قمر زمان نے کہا  تھا کہ زلزلے کے دوران گلیشیئرز کا اپنی جگہ سے سرکنا یا ان میں دراڑیں پڑنا معمول کی بات ہے لیکن اس زلزلے کے بعد اس نوعیت کے کسی بڑے واقعے کی رپورٹ موصول نہیں ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ محکمۂ موسمیات کے پاس ایسے آلات اور نظام موجود ہے کہ اسے ان گلیشیئرز میں ہونے والی تبدیلوں کی اطلاع بر وقت مل سکے    ؎

فلک زادو! بہت  اُدھم  مچاتے  ہو، مگر  سن  لو
زمیں بے چین ہوجائے تو کروٹ بھی بدلتی ہے
(انوار فطرت)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔