کراچی دھنس رہا ہے؟

سید بابر علی  اتوار 31 جنوری 2016
بورنگ کی شرح میں اضافے سے شہرکو شدید خطرہ ۔  فوٹو : فائل

بورنگ کی شرح میں اضافے سے شہرکو شدید خطرہ ۔ فوٹو : فائل

کراچی میں پانی کی قلت بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ کراچی کے باشندوں نے اس کا حل کنویں کھود کے نکال لیا ہے۔ لیکن کنویں سے نکلنے والے پانی میں معدنیات کی تعداد زیادہ ہونے کے سبب یہ پانی نہ صرف انسانی صحت کے لیے مضر ہے بل کہ بورنگ کی شرح میں تیزی سے ہونے والے اضافے نے نظام قدرت میں بھی دخل اندازی شروع کردی ہے۔

بڑے پیمانے پر ہونے والی بورنگ نے زیرزمین پانی کی سطح میں کمی کرکے زمین کو کھوکھلا کر دیا ہے، جو کسی بھی وقت سنک ہول (زمین دھنسنے) کا سبب بن سکتے ہیں۔ کراچی میں موجود ایکوافرز (زیرزمین چٹانیں جن کی تہہ میں پانی موجود ہوتا ہے) میں پانی کی کم ہوتی شرح اور اس سے لاحق خطرات پر جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ کراچی کی زیرزمین چٹانیں چونے کے پتھر، ریت اور چکنی مٹی پر مشتمل ہیں۔

دنیا بھر میں بورنگ کے لیے نہ صرف قوانین موجود ہیں ، بل کہ ان پر سختی سے عمل درآمد بھی کیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہر ایکوافرز سے پانی کھینچنے کے لیے ایک حد مقرر کی جاتی ہے اور کوئی بھی شخص اس قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ مگر ہمارے یہاں یہ عمل پوری آزادی سے جاری ہے۔

کراچی کو اس وقت دو طرح کے خطرات لاحق ہیں، ایک یہ کہ یہاں بورنگ یا کنوؤں کی کھدائی کی شرح پاکستان کے دوسرے شہروں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ دوئم یہ کہ صنعتی شہر ہونے کی وجہ سے یہاں انڈسٹریل ویسٹ (صنعتی فضلہ) کو بھی زیادہ تر ندی نالوں یا سمندروں میں بہایا جاتا ہے۔

یہاں میں ایک بات وضح کردوں کہ ہماری زمین کے اندر موجود پانی کے بہاؤ سے چٹانوں خصوصاً چونے کے پتھر سے بنی چٹانوں کے کٹاؤ میں کئی سو سال لگتے ہیں، لیکن صنعتی فضلہ اور سیوریج کا پانی زمین میں جذب ہونے کی وجہ سے ایکوافرز میں موجود پانی تیزابی ہونا شروع ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے چونے کے پتھر سے بنی چٹانوں کے کٹاؤ یا گھُلنے کے عمل میں بہت تیزی سے اضافہ ہوجاتا ہے۔ کراچی کی زیرزمین چٹانیں چونے کے پتھر، ریت اور چکنی مٹی سے بنی ہوئی ہیں۔ پانی میں پیدا ہونے والی تیزابیت krast ٹائپوگرافی کا سبب بنتی ہے جو سنک ہول بننے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

سنک ہول ایک ارضیاتی عمل ہے، جس میں زمین اندر دھنس جاتی ہے۔ سنک ہول بننے کا عمل سطح زمین پر ظاہر ہونے سے بہت عرصے قبل شروع ہوجاتا ہے۔ ہمارے پیرو ں تلے موجود زمین درحقیقت اتنی ٹھوس نہیں ہے جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ زمین کی اندرونی سطح مٹی، چٹانوں اور معدنیات پر مشتمل ہے اور زیرزمین موجود پانی ان چٹانوں، مٹی اور معدنیات میں رستا رہتا ہے۔

بعض اوقات قدرتی اور انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں پانی کا بہاؤ تیز ہوجاتا ہے، جو زیرزمین موجود چیزوں کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے اور بہ ظاہر مضبوط نظر آنے والی اوپری سطح کسی بیرونی دباؤ کے نتیجے میں ڈھے جاتی ہے۔ سنک ہول کے بننے کا زیادہ تر عمل زیرزمین موجود ریت اور چٹانوں میں ہونے والے تغیرات کا نتیجہ ہے، تاہم دنیا کے مختلف حصوں میں زمین دھنسنے کے واقعات میں اضافے کا اہم سبب انسانی سرگرمیاں ہیں۔

زیرآب پانی کی کم سطح، بارشوں میں کمی یا مختصر مدت کے لیے بارش کا بہت زیادہ ہونا سنک ہول بننے کی قدرتی وجوہات ہیں۔ بارش کا پانی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے مرجھائے ہوئے نباتات کے ساتھ ری ایکٹ (تعامل) کرتا ہے، جس کے نتیجے میں پانی تیزابی ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ جب یہ تیزابی پانی زیرزمین موجود نفوذ پذیر چٹانوں تک پہنچتا ہے تو ان کی تہہ میں موجود پانی چونے کے پتھروں کو گھلانا شروع کردیتا ہے۔

چونے کے پتھروں کے پانی میں گھلنے کی وجہ سے وہاں خلا پیدا ہوجاتا ہے۔ چونے کی پتھروں کے گھُلنے کی وجہ سے زیرزمین پانی مزید تیزابی اور چٹانوں میں شگاف بڑھتا جاتا ہے۔ زیرزمین موجود پانی نہ صرف چونے کے پتھروں کو کیمیائی طریقے سے گھلاتا ہے، بل کہ زیرزمین پانی کی سطح میں تبدیلیاں اوپری سطح کو ملنے والی سپورٹ پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔ زمین کی اوپری سطح پر غیرمعمولی تبدیلیاں رونما ہونے کے نتیجے میں زمین سب چیزوں کو لے کر اس خلا میں دھنس جاتی ہے۔

قدرتی طور پر ہونے والی قحط سالی یا زیرآب پانی کو بہت زیادہ نکالنے کی وجہ سے چٹانوں کے شگاف خالی ہوجاتے ہیں اور یہی خلا سنک ہول کے بننے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دوسری طرف قحط سالی کے بعد ہونے والی تیز بارشیں زمین کی اوپری سطح پر بہت زیادہ دباؤ ڈال کر سنک ہول بننے کا سبب بنتی ہیں۔

سنک ہول کی تشکیل میں انسانی سرگرمیوں کا بھی بہت اہم کردار ہے۔ ڈرلنگ، کان کنی، کنسٹرکشن، پانی اور سیوریج کی ٹوٹے ہوئے پائپ، بھاری ٹریفک اور کھدائی کے گڑھوں کو مٹی سے ٹھیک طریقے سے نہ بھرنا بھی زمین کے دھنسنے کا اہم سبب ہے۔

پانی اور سیوریج کے ٹوٹے ہوئے پائپس سے رسنے والا پانی جذب ہوکر زیرزمین موجود مٹی اور چٹانوں کو گھُلا کر خلا پیدا کردیتا ہے۔ اور اُس جگہ پر پڑنے والا بھاری دباؤ زمین کے اندر دھنسنے کا سبب بنتا ہے۔ ایسے علاقے جہاں زیر زمین نمک کے ذخائر، چونے اور کاربونیٹ سے بنی چٹانیں ہوں وہاں سنک ہول بننے کے خطرات دیگر جگہوں کے برعکس زیادہ ہوتے ہیں۔

بورنگ کی وجہ سے سیچوریٹد (پانی سے لبریز) چٹانوں میں پانی کی مقدار کم ہوتی جاری ہے اور اس کی جگہ خلا پیدا ہو رہا ہے۔ اس کی مثال آپ اس طرح لے سکتے ہیں کہ ایک گلاس میں ریت بھر کر آپ اسے پانی سے لبریز کردیں تو ریت پانی کے بوجھ سے نیچے بیٹھ کر مضبوط بنیاد بنادیتی ہے، لیکن اگر آپ اس ریت میں سے موجود پانی نکال دیں تو اس کے درمیان خلا پیدا ہوجائے گا اور وہ بھُربھری ہوجائے گی۔ اس وقت یہی حال بورنگ کے نتیجے میں ایکوافرز کا ہورہا ہے۔

کثیر المنزلہ تعمیرات بھی کراچی کو سنک ہول کے خطرے سے دوچار کر رہی ہیں۔ ساحلی پٹی پر ہم سمندر کو پیچھے دھکیل کر، ریت سے بھرائی کرکے تعمیرات کر رہے ہیں۔ سمندر کے کسی بھی حصے کے خشک ہونے میں لاکھوں سال درکار ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ جمع ہونے والی ریت تہہ در تہہ جمع ہوتی ہے۔ ہم چند ہی مہینوں میں ریت بھر کے تعمیرات شروع کردیتے ہیں۔ اس طرح ریت پوری طرح کمپریس نہیں ہوپاتی اور اس میں چھوٹے چھوٹے خلا بن جاتے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں کسی ممکنہ ارضیاتی مسئلے سے بچنے کے لیے ریت بھرائی سے لے کر عمارات کی تعمیر تک کے لیے قوانین بنے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لانڈھی، کورنگی اور ڈیفنس میں آنے والے معمولی نوعیت کے زلزلے کے جھٹکے بھی ایکوافرز میں پانی کی کمی سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا نتیجہ ہیں۔

٭دنیا بھر میں زیرزمین پانی کے کم ہوتے ذخائر
دنیا بھر میں زیرزمین پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔ ناسا کے نئے سیٹلائٹ ڈیٹا کے مطابق دنیا بھر کے اربوں لوگوں کو تازہ پانی فراہم کرنے والے زیر زمین ایکوافرز (زیرزمین نفوذ پذیر چٹانیں جن کی تہہ میں پانی موجود ہوتا ہے) میں پانی کی مقدار خطرناک حد تک ختم ہوچکی ہے۔

بھارت سے چین اور امریکا سے فرانس تک موجود دنیا کے 37بڑے ایکوافرز میں سے 21ایکوافرز میں پانی اپنی آخری حد سے نیچے آچکا ہے۔ دس سال پر محیط اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ان 21میں سے 13ایکوافرز میں پانی انتباہی حد کو بھی عبور کرکے سب سے خطرناک درجے میں آچکے ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پانی کے یہ ذخائر بڑھتی ہوئی آبادی، زراعت اور کان کنی جیسی صنعتوں کی وجہ سے اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں، کیوں کہ ان سب ضروریات کے لیے پانی کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور انسانوں کا پانی کی بچت کرنے کے بجائے زیرزمین پانی پر انحصار دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔

ناسا کے واٹر Jay Famiglietti کا اس بابت کہنا ہے،’’یہ صورت حال بہت پیچیدہ ہے۔ دنیا بھر کی آبادی کے استعمال کے لیے یہ ایکوافرز 35فی صد پانی فراہم کرتے ہیں، لیکن خشک سالی کی صورت میں پانی کھینچنے کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مثال کے طور بارش کے نہ ہونے کی وجہ سے صرف کیلی فورنیا میں ایکوافرز کا 60فی صد پانی استعمال کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے دریا اور زمین کی اوپری سطح پر موجود پانی کے دیگر ذخائر (تالاب، جھیل وغیرہ) خشک ہوچکے ہیں۔

دوسری طرف انڈیا، پاکستان اور شمالی افریقا جیسے گنجان آبادی والے خطوں میں ایکوافرز کی صورت حال زیادہ خراب ہے، کیوں کہ ان خطوں میں پانی کے محدود متبادل اور قلت ان ایکوافرز کو زیادہ تیزی سے غیرمستحکم کر سکتی ہے۔‘‘ دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کے نتیجے میں پاکستان میں اوسط درجۂ حرارت میں خطرناک حد تک اضافہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

درجۂ حرارت میں اضافے کو روکنے کے لیے قبل از وقت اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ آنے والے سالوں کے دوران پاکستان میں قدرتی آفات کی شرح میں مزید اضافہ ہونے کے ساتھ خوراک، توانائی اور پانی کا شدید بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ میں اضافہ کے باعث اوسط درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے تاہم دیگر ملکوں کی نسبت پاکستان میں اوسط درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

دستاویزات کے مطابق گذشتہ 100 سال کے دوران دنیا کے اوسط درجۂ حرارت میں 0.6 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے اور اگرگر یہی سلسلہ جاری رہا تو رواں صدی کے دوران درجۂ حرارت کی اوسط شرح 1.8 سے4.0 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ سکتا ہے۔

دستاویز کے مطابق باقی دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں گزشتہ 60 سالوں کے دوران اوسط درجہ حرارت میں خطر ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق1901 سے 1956 تک دنیا میں اوسط درجہ حرارت0.6 رہا جب کہ اس دوران پاکستان میں بھی اوسط درجہ حرارت0.6 رہا۔ 1956سے 1971تک دنیا کا اوسط درجۂ حرارت 0.128 رہا، جب کہ پاکستان میں اس دوران اوسط درجۂ حرارت 0.16 رہا۔

1971سے 1981تک دنیا کا اوسط درجۂ حرارت 0.152 رہا، جب کہ پاکستان میں اس دوران 0.26 رہا۔1981 سے1991 تک دنیا کا اوسط درجۂ حرارت0.177 رہا، جب کہ پاکستان میں0.39 رہا۔1991 سے2005 تک دنیا میں اوسط درجۂ حرارت 0.333 رہا، جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان میں0.74 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔2010 سے 2039 تک دنیا کا اوسط درجۂ حرارت0.7 رہے گا، جب کہ اس دوران پاکستان میں درجۂ حرارت 1 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جائے گا۔

ملک کے اوسط درجۂ حرارت میں اس قدر تیزی سے اضافے کے باعث آئندہ سال کے دوران پاکستان میں مزید سیلاب، زلزلہ، طوفان اور شدید گرمی یا سردی ہونے کے سبب بڑے پیمانے پر تباہی کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ساتھ ہی ملک میں صاف پانی کی قلت میں خطرناک حد تک اضافہ ہو نے کا امکان ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کے نتیجے میں پاکستان کو ماحولیات اور قدرتی وسائل کے شعبے میں سالانہ 365 بلین روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق پانی کی فراہمی، سنیٹیشن اور پانی کی سپلائی کا مناسب نظام نہ ہونے کے باعث ملک کو سالانہ 112 بلین روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

انسانی سرگرمیاں جو سنک ہول بننے کا سبب بنتی ہیں:
زیرزمین پانی کو بڑی مقدار میں کھینچنا۔
بڑے رقبے پر موجود پانی کو چھوٹی جگہ پر محفوظ کرنا۔
سطح آب پر مصنوعی تالاب بنانا
پانی کے نئے کنویں کھودنا
سڑکوں اور تعمیراتی ڈھانچوں کی تعمیر کے لیے بہت زیادہ بھاری مشینری استعمال کرنا

سنک ہول کے خطرات
سنک ہول ایک خطرناک ارضیاتی تبدیلی ہے جس میں بسا اوقات زمین پوری پوری عمارتوں اور سڑکوں کو اپنے اندر سمو لیتی ہے۔ سنک ہول پانی کے معیار پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ سنک ہول بننے کے بعد زیرزمین تیزابی پانی رس کر پینے کے صاف پانی کے ذخائر میں داخل ہوسکتا ہے، جسے پینا انسانی صحت کے لیے کسی خطرے سے کم نہیں ہے۔

سنک ہول کے خطرات اُس کے بننے کی جگہ پر منحصر ہیں۔ قدرتی سنک ہول زمین کی طرح سمندر میں بھی بن سکتے ہیں۔ زمین پر بننے والے سنک ہول نہ صرف اُس علاقے کے جغرافیائی نقشے کو تبدیل کردیتے ہیں بل کہ زیرزمین پانی کے بہاؤ کا رُخ بھی تبدیل کردیتے ہیں۔

گنجان آباد علاقوں میں زمین دھنسنے سے بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہوسکتا ہے۔ کچھ سنک ہول زیرآب برساتی نالوں اور سیوریج لائن میں رساؤ کی وجہ سے بھی بنتے ہیں۔ ایسے سنک ہول بننے سے ہونے والا نقصان کئی میل طویل علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ یہ نہ صرف اطراف کی عمارتوں کی بنیاد کے لیے نُقصان دہ ہے بل کہ زمین کے اندر موجود زہریلے کیمیکل سطح زمین پر آکر پینے کے پانی کو آلودہ کرسکتے ہیں۔

سنک ہول بننے کی انتباہی علامات
درختوں یا کھمبوں کی بنیاد کے اطراف زمین کا دھنسنا یا اُن کا غیرمعمولی حد تک ایک طرف جھُک جانا۔

ایسے دروازوں یا کھڑکیوں کا مکمل طور پر بند نہ ہونا جو پہلے باقاعدگی سے بند ہوجاتی تھیں۔

بارش کے بعد ایسی جگہوں پر چھوٹے تالاب بننا جہاں پہلے کبھی پانی کھڑا نہیں ہوتا تھا۔

نباتات کا مرجھا جانا اور ان کے گرد چھوٹے دائرے بننا (ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ پودوں کو نمی فراہم کرنے والا پانی سطح کے نیچے بننے والا سنک ہول جذب کرنا شروع کردیتا ہے)

ایسے کنوؤں سے گدلا پانی نکلنا جہاں پہلے پانی شفاف تھا۔

دیواروں، فرش اور زمین کی سطح پر دراڑیں پڑنا۔ کنکریٹ بلاک کے بنے ڈھانچے میں انہیں دیکھنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ یہ اُن دراڑوں سے الگ ہوتی ہیں جو عموماً گھروں کی دیواروں میں دکھائی دیتی ہیں۔

کراچی میں پانچ منزلہ عمارت زمین میں دھنس گئی
کچھ عرصے قبل کراچی کے علاقے گلشن اقبال بلاک دس میں رہائشی عمارت اچانک چار انچ زمین میں دھنس گئی، دیواروں میں دراڑیں پڑگئیں اور عمارت ہلنے لگی، انتظامیہ نے بلڈنگ سیل کرکے عمارت گرانے کا فیصلہ کرتے ہوئے، قریبی عمارتوں کو بھی خالی کرالیا گیا ہے.

واٹر بورڈ کی جانب سے گریز
اس رپورٹ کی تیاری میں کراچی میں زیرزمین پانی کی سطح کے بارے میں جاننے کے لیے واٹر بورڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر، ٹیکنیکل ڈائریکٹر سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم متعدد فون کالز اور تعارفی ایس ایم ایس کیے جانے کے باوجود انہوں نے دوبارہ کسی قسم کے رابطے سے گریز کیا۔

کافی کوششوں کے بعد ڈپٹی مینیجنگ ڈائریکٹر ٹیکنیکل سے بات ہوئی، لیکن انہوں نے صرف اتنا کہا کہ اس حوالے سے شاید دس گیارہ سال پہلے ایک تحقیق ہوئی تھی اور مزید معلومات کے لیے بلک واٹر کے انچارج کا رابطہ نمبر دے کر اپنی جان چھڑالی۔ واٹر بورڈ کے ایک اہم ذمے دار کا کہنا ہے کہ واٹر بورڈ میں بورنگ کے حوالے سے ایک معیاری طریقہ کار (ایس اوپی) وضح کیا گیا ہے

حکومت کی جانب سے تصاویر اور نام شایع کرنے کی پابندی
اس رپورٹ کی تیاری میں جیولوجیکل سروے آف پاکستان کراچی کے اہم عہدے داروں سے ملاقات کی گئی۔ مذکورہ افسران نے نہ صرف کراچی کی ارضیاتی صورت حال کو واضح طور پر سمجھایا، بل کہ اس حوالے سے کی گئیں تحقیقی رپورٹس بھی نمائندہ ایکسپریس کو فراہم کیں، لیکن حکومت کی جانب سے بلا اجازت نام اور تصویر شایع کرنے پر پابندی کی وجہ سے ان افسران نے اپنے نام اور تصاویر شایع کرنے سے منع کردیا۔

معلومات فراہم کرنے والے افسران کا موقف بمعہ نام اور تصاویر شایع کرنے کی اجازت طلب کرنے کے لیے ڈائریکٹر جنرل، جیولوجیکل سروے آف پاکستان ڈاکٹر عمران خان کے ذاتی اور سرکاری ای میل ایڈریس پر دو سے تین بار ای میل کی گئی، لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا، جس کے سبب اس رپورٹ کو متعلقہ افسران کی شناخت ظاہر کیے بنا شایع کیا جارہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔