Just Shut UP!!

شیریں حیدر  اتوار 31 جنوری 2016
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

جانے کتنے ہی برس پہلے کی بات ہے کہ جب ہم لندن میں تھے، میرے شوہر وہاں سفارت خانے میں تعینات تھے، کوئی بھی تقریب ہوتی تو ہم اس کا حصہ ہوتے تھے، اس میں ملک کی ان اہم شخصیات کے اعزاز میں ظہرانے اور عشائیے بھی ہوتے تھے جو سرکاری خرچے پر ، سرکاری دوروں کی آڑ میں نجی دوروں پر ہوتے، ( ملکی اخبارات کہتے کہ سرکار اہم سرکاری دورے پر لندن گئے ہیں اور سرکار وہاں کے مہنگے ترین اسپتالوں میں اپنا علاج کرواتے اور مہنگے ترین اسٹورز  پر خریداری کرتے ) محافل موسیقی بھی ہوتیں اور سب سے اہم ہمارے مختلف قومی دنوں کی تقریبات ہوتیں۔

ان میں سب سے اہم عشائیہ یوم پاکستان کے موقع پر  ہوتا تھا۔ اس عشائیے میں پاکستان کے سفارت خانے کے علاوہ وہاں پرآباد  مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوتے تھے جو پاکستان سے باہر بیٹھے کسی نہ کسی طرح ملک کو فائدہ پہنچا رہے ہیں اور اس کے علاوہ کچھ برطانوی سیاسی شخصیات ہوتیں اور دوسرے سفارت خانوں سے سیکڑوں کی تعداد میں لوگ بھی۔میں نے اس قیام کے دوران جانا کہ دوسرے ممالک سے نہ صرف مرد حضرات کو بلکہ ان کی بیگمات کو بھی ملک سے brief کر کے بھیجا جاتا تھا کہ انھیں بیرون ملک اپنے شوہر کے فرائض منصبی میں کس طرح ان کا ساتھ دینا ہے، جب کہ ہماری خواتین فقط وہاں اپنے گھروں کے مسائل ہی بمشکل نمٹا پاتی ہیں اور باقی وقت میں خریداری پر زور ہوتا ہے۔

اس کا اندازہ مجھے بارہا ہوا جب بھی کبھی کسی ہندوستانی سفارت کار کی بیوی سے آمنا سامنا اور گفتگو ہوتی۔ خواتین کے بڑے گروپ میں کھڑے ہوئے ان کی خواتین ممکنہ حد تک  ہم پاکستانی خواتین کے قریب ہوتیں اور اردو میں بات کرنا شروع کر دیتیں، پہلی بار ایسے ہی کسی موقع پر جب میں نے بھی اس کی اردو کا جواب بڑی خوش دلی اور گرم جوشی سے دیا یہ سوچ کر کہ پردیس میں کوئی ہم زبان ملا تو اس نے فوراً فائدہ اٹھایا اور باقی خواتین کو بتایا کہ دیکھیں… ہم سب ایک جیسے ہیں، دیکھنے میں اور ہماری زبان بھی ایک ہے!! میں نے دو قومی نظرئیے کے بخیے ادھڑتے ہوئے دیکھے تو دل ہی دل میں  شرمندہ ہوئی اور اس کے بعد تہیہ کر لیا کہ ایسی کسی تقریب میں اردو میں جواب نہیں دیا جائے گا۔

اس زمانے کے ہندوستانی ملٹری اتاشی، بریگیڈئر راکیش کی بیوی شوبھا کا ہماری جس خاتون سے بھی رابطہ ہوتا، جہاں وہ ہمارے بیچ کھڑی ہوتی، اس کے سوالات تفتیشی انداز کے ہوتے، مثلًا، وہ آپ کے ہیں نا ایک جنرل … ان کی بیوی کا فلاں نام ہے، وہ آج کل کہاں پر ہوتے ہیں؟ وجہ پوچھنے پر وہ کہتی کہ وہ میری بہت اچھی دوست ہے، ارے بھئی دوست ہے تو آپ کو علم ہونا چاہیے نا!! اصل میں رابطہ ٹوٹ گیا چند مہینوں سے، جواب آتا۔ کبھی پوچھتیں… وہ ہیں نا آپ کے سیالکوٹ کے کور کمانڈر… کسی خاتون کے منہ سے غلطی سے نکل گیا، سیالکوٹ میں تو کور نہیں ہے، وہ تو گوجرانوالہ کور کے ماتحت آتا ہے۔

ذرا سی وضاحت سے انھیں ان کے سوال کا جواب مل جاتا۔ میں یہ ہر گز نہیں کہہ رہی کہ انڈیا کی ساری انٹیلی جنس ایجنسی کا دارومدار ان خواتین کے ذریعے حاصل کی گئی معلومات پر ہے، مگر ان کا طریقہ کار اور اپنی باقی خواتین کی بے وقوفیاں بتا رہی ہوں، یوں بھی وہ دور ایسا تھا کہ جب الیکٹرانک اور سوشل میڈیا اتنا ترقی یافتہ اور ’’باخبر‘‘ نہ تھا، نہ ہی اخبارات یا ٹیلی وژن پر کوئی بھی خبر فوج کے بارے میں چلانے کی اجازت تھی، کیونکہ یہ ایک ادارہ تھا جس کا اپنا کام تھا اور انھیں اپنے کام سے کام تھا۔وقت کے ساتھ ہمارے میڈیا کو آزادی ایک  فوجی حکمران ہی کے ہاتھوں ملی اور ایسی آزادی کہ جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں۔ آپ مجھے بتائیں کہ کیا دنیا کے کسی ملک میں فوج کے بارے میں عام لوگوں کو اتنی معلومات ہیں جتنی کہ ہمارے ملک میں ہیں۔

امریکا جیسے ملک میں بھی لوگوں کو شاید فوج کے عہدوں کے نام بھی نہیں آتے ہوں گے نہ ہی فوج اپنے معمول کے کاموں سے ہٹ کرفرائض کے لیے بلائی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں فوج کے بارے میں ہر طرح کی افواہیں اور ہوائیاں گردش کرتی ہیں اور کوئی میڈیا کا منہ بند کرنے والا نہیں ہوتا، جب کسی بھی مشکل کا سامنا ہوتا ہے تو حکومت بے بسی سے فوج کی طرف دیکھتی ہے، کوئی عمارت گر جائے، کہیں آگ لگ جائے۔

سیلاب یا  زلزلہ کے متاثرین، بھوت اسکول ہوں یا تاجروں سے ٹیکسوں کی وصولی، مہاجرین کی آباد کاری ہو یا واپڈا  کے میٹروں کی چیکنگ، انتخابات ہوں یا دھرنے… سب فوج کی طرف یتیم نظروں سے دیکھتے ہیں اور جہاں ملک کے حالات اتنے خراب ہو جائیں کہ فوج کی مداخلت کے بغیر چارہ نہ ہو، وہاں چیخ چیخ کر فوج کو بلایا جاتا ہے اور فوج کے اقتدار سنبھالتے ہی موضوع گفتگو  تبدیل ہو جاتا ہے اور فوج کو ملک میں ہر مسئلے کا باعث کہنا شروع ہوجاتے ہیں۔فوج میں ترقیاں، تقرریاں ، تبادلے اور ریٹائرمنٹ معمول کے معاملات ہیں اور اپنے نظام  کے تحت چلتے رہتے ہیں، معمول کی کور کمانڈرز کانفرنس کو  بھی ہمارا میڈیا اس طرح پیش کرتا ہے جیسے ملک میں ہنگامی حالت نافذ ہونے والی ہو۔ ترقیوں اور تبادلوں کی خبروں کو بریکنگ نیوز کے طور پر گھنٹوں چلایا جاتا ہے۔

چاہے دنیا ایک  گاؤں کی طرح بن چکی ہے، بے شک دنیا بھر کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس انتہائی جدید طریقے موجود ہیں کہ ایک دوسرے کے فوجی اڈوں، مختلف عہدے داران اور فوج کی تعیناتی کے بارے میں تمام معلومات مل جاتی ہیں مگر ہمارے نظام میں میڈیا کی ’’ باخبری ‘‘ کے باعث جو سقم موجود ہے اس کے باعث ہمارے دشمن ملکوں کی سیکیورٹی ایجنسیوںکے کارکن ناجائز تنخواہ لے رہے ہیں کیونکہ  جو کام ہمارے دشمنوں کو ہمارے لیے کرنا ہے وہ ہمارا  اپنا میڈیا خود کر دیتا ہے۔حال ہی میں جو بحث چل رہی تھی کہ آیا آرمی چیف کو اپنی مدت ملازمت میں توسیع لینا چاہیے یا کہ نہیں… وہ توسیع لیں گے یا نہیں… وہ فلاں فلاں کام اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ بھی فلاں آرمی چیف کی طرح اپنی مدت ملازمت میں توسیع چاہتے ہیں، انھوں نے دہشت گردی کے خلاف آپریشن کا دائرہ بڑھا دیا ہے۔

انھوں نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کا کام اسی لیے شروع کر دیا ہے، ان کے دور میں ملک میں امن وامان کی صورت حال بہتر ہوئی ہے، ان کے وزیر اعظم کے ساتھ حالیہ دوروں میں ممکن ہے کہ ان کی مدت ملازمت میں توسیع کی بات ہوئی ہو، وزیر اعظم انھیں توسیع دینا چاہتے ہیں… نہیں دینا چاہتے ہیں…وہ خود توسیع لینا چاہتے ہیں یا کہ نہیں!!!

صورت حال اس طرح دھندلی بنا دی گئی کہ چند دن قبل آرمی چیف کا بیان بریکنگ نیوز کے طور پر چلا کہ انھوں نے وضاحت کر دی ہے کہ وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہتے… چلو جی میڈیا کو تو ’’ڈز ڈز‘‘ کر کے چلانے کے لیے ایک اور بریکنگ نیوز مل گئی، دو دن تک اس خبر کو خوب رگڑا گیا، فلاں نے آرمی چیف کے فیصلے کا خیر مقدم کیا، فلاں نے مخالفت… ایک سابقہ آرمی چیف اور ملک کے صدر کے انٹرویو کو درجنوں بار چلایا گیا۔

جنھوں نے اپنا موقف پیش کیا کہ آرمی چیف کو ایکسٹینشن لے لینی چاہیے تھی!! ممبران اسمبلی، مختلف وزراء، فلاں وکیل، فلاں سیاستدان… کوئی ان کے موقف کی حمایت کر رہا ہے کوئی مخالفت۔فوج کے بارے میں کس طرح اس ملک میں میڈیا کو خبریں گھسیٹنے کی اجازت مل جاتی ہے، ہم تو کوشش کرتے ہیں کہ اپنے قلم کا منہ بند ہی رکھیں اور فوج کے بارے میں کوئی ایک لفظ بھی ایسا سرزد نہ ہوجائے جو  کہ بے احتیاطی کے زمرے میں آتا ہو، مگر اس میڈیا کا منہ بند کرنے والا کوئی نہیں؟

انھیں حکم زباں بندی دینا کیا  اتنا مشکل کام ہے؟ کیوں میڈیا پر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کو لے کر اتنا hype پیدا کر دیا جائے کہ انھیں اپنی مقررہ مدت ملازمت سے ساڑھے دس ماہ پہلے اپنی ’’ صفائی‘‘ پیش کرنا پڑے؟ ایک بہت بڑی مہربانی ہو گی اگر حالیہ چیف صاحب جاتے جاتے اس ملک کے ایک اہم اور شفاف ادارے پر ایک احسان کر جائیں۔ حکم جاری کریں کہ فوج کے اندرونی معاملات کے بارے میں کوئی خبر چلانے کی اجازت نہیں ہو گی، ہاں اگر فوج اپنے  فرائض سے ہٹ جائے اور ملکی سیاست کے معاملات میں خواہ مخواہ مداخلت کرے تو پھر آپ خبریں چلائیں، جن معاملات کا تعلق فوج کی اندرونی سیکیورٹی سے ہے ایسی خبروں کو آئی ایس پی آر میڈیا کو سرے سے جاری نہ کرے، یعنی تقرریاں ،تبدیلیاں اور ترقیاں۔

چیف صاحب کو تو وضاحتی بیان کے ذریعے اپنی صفائی پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی، ان کا میڈیا کو صرف Just Shut Up!! کہہ دینا کافی تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔