بدنما لاہور کے سہولت کار

اوریا مقبول جان  پير 1 فروری 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

انگریز جب برصغیر پاک و ہند پر قابض ہوئے تو انھیں ہر اس چیز سے شدید نفرت تھی جس سے مسلمانوں کے اقتدار کی شان و شوکت اور جاہ و جلال ٹپکتا ہو۔ انھوں نے ہر ایسی  عمارت کو اس طرح استعمال کرنا شروع کیا جس سے اس کی خوبصورتی اور چمک گہنا جائے۔ صرف لاہور کے شاہی قلعے میں انگریزوں کے اس نفرت بھرے عمل کے نتیجے میں تباہی کے آثار دیکھ لیں تو مسلمانوں سے ان کی شدید نفرت کا پتہ چلتا ہے۔

اسی نفرت کا نتیجہ تھا کہ ہندوؤں اور بدھوں کی اجنتا اور الورا کی غاروں سے لے کر کھجرا ہو کے مندر تک کسی مقام کو بھی انگریز نے نہیں چھیڑا البتہ مسلمانوں کے شاندار ماضی کی علامتوں کو تباہ و برباد کرنے میں پورا کردار ادا کیا۔ لاہور کے شاہی قلعہ میں دیوان عام کو اسپتال بنا دیا گیا اور شیش محل کو فوجیوں کی رہائش گاہ، قلعہ کی بیرونی دیوار جو دنیا کی سب سے بڑی ٹائل موزیک تصویر ہے، ایک کلو میٹر سے زیادہ لمبی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تیل کے گودام بنا دیے تا کہ یہ مصور دیوار تباہ و برباد ہو جائے۔ لیکن انگریز نے ترقی کے نام پر بھی مسلمانوں کی عمارتوں کے ظاہری حسن کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔

جہانگیر کا مقبرہ ایک بہت وسیع و عریض باغ میں واقعہ ہے جسے انگوری باغ کہتے تھے۔ اس میں ایک طرف آصف جاہ اور ملکہ نور جہاں کے مقابر بھی موجود ہیں۔ یہ اپنے دور کا ایک خوبصورت تفریحی مقام تھا، ہر کوئی اس باغ میں داخل ہو کر ایک جنت نظیر جگہ سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ ریلوے لائن بچھائے جانے لگی تو انگریز نے خاص طور سے اس کے بیچوں بیچ ریلوے لائن کو گزارا تا کہ اس کی خوبصورتی اور حسن تباہ ہوجائے ۔ایسی ہی حرکت تاج محل کے ساتھ بھی کی گئی اور اس کی دیوار کے بالکل ساتھ ریلوے لائن کو گزارا گیا تا کہ ٹرین کی تیز رفتار آمد و رفت سے ایک دن تاج محل زمین بوس ہو جائے گا۔

وہ تو انھیں بعد میں حیرت ہوئی کہ تاج محل کی بنیادوں کے نیچے تیس فٹ ریت بچھائی گئی تھی تا کہ زلزلے کی صورت میں اسے مکمل تحفظ حاصل ہو۔ لاہور کے شاہی قلعے میں سنگ مر مر کی دیواروں میں انگریز فوجیوں کے بدنما طریقے سے کھودے گئے اپنے نام اور پتے آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ شیش محل کے قیمتی پتھر انھوں نے چرائے اور مشہور کر دیا کہ سکھ ایسا کر گئے، حالانکہ سکھ تو وہاں رہائش پذیر تھے، وہ اسے محل کی طرح رکھتے تھے۔ انگریز کی ابتدائی حکومت ایک ایسی حکومت نظر آتی ہے جسے قدیم ورثہ یا تاریخ و تہذیب سے کوئی دلچسپی نہ ہو۔ جب وہ مسلمانوں کے ورثے کو تباہی کے کنارے پر پہنچا چکے تو پھر 1920 کے لگ بھگ محکمہ آثار قدیمہ قائم کیا گیا اور گورے اس کے رکھوالے بن گئے۔

اس محکمہ آثار قدیمہ نے بھارت اور پاکستان دونوں جگہ قدیم ورثے کو بچانے اور محدود وسائل میں رہتے ہوئے اس کا تحفظ کرنے کی کوشش کی۔ ولی اللہ خان ایک ایسا نام ہے جس نے بادشاہی مسجد لاہور کی تباہ حال کھنڈر بن چکی عمارت کو موجودہ شکل میں بحال کیا۔ ایک وزیر اعظم چاہتا تھا کہ شالامار باغ کے ایک طرف علیحدہ دروازہ بنایا جائے تا کہ وہ شاہی ضیافت میں شریک ہو، ولی اللہ خان ڈٹ گئے اور کہا یہ دروازہ میری لاش پر بنے گا۔ ولی اللہ خان اس محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ مجھے ان کی اس وراثت پر خدمت انجام دینے کا شرف 2004میں حاصل ہوا۔

لاہور پر وہ وقت آ چکا تھا جب ترقی کے دیوانے اور جدیدیت کے عاشق لاہور کی ہر  اس خوبصورتی کو مٹانا چاہتے تھے۔ پہلا معرکہ ہائی کورٹ کے ساتھ برپا ہوا۔ ہائی کورٹ لاہور کے چیف جسٹس افتخار حسین اس کی عمارت کو گرا کر نئی طرز پر تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ چیمبر میں بلا کر سیکریٹری تعمیرات کو حکم دے دیا گیا  ہے کہ گراؤ اور تعمیر کرو۔ ایسے میں میرا خط دیکھ کر ناراض ہو گئے جس میں تحریر تھا کہ آپ قانونی طور پر ایسا نہیں کر سکتے، اس خط سے ہنگامہ کھڑا ہو گیا، لاہور کے باشعور عوام مل بیٹھے، ایک تحریک شروع ہوئی، ادھر گرانے کا کام شروع ہوا اور دوسری جانب سپریم کورٹ میں جا کر فتح ہوئی۔ دوسرا معرکہ ایک جرنیل جاوید حسن کے ساتھ ہوا جو اسٹاف کالج لاہور کی عمارت کو گرا کر نئی عمارت تعمیر کرنا چاہتا تھا۔

ہائی کورٹ کے واقعے کے بعد اہل لاہور کواب حوصلہ مل چکا تھا۔ لمبی جنگ رہی اور وہ ایسا نہ کر سکا۔ شاہ دین بلڈنگ سے لے کر ٹولنٹن مارکیٹ کی عمارتوں کو بچایا۔ ایسے میں چوہدری پرویز الٰہی کی داد نہ دینا خیانت ہو گی۔ میری آخری لڑائی لکشمی بلڈنگ پر تھی۔ ان پر بہت زیادہ دباؤ تھا کیونکہ بلڈنگ پرویز مشرف کے ایک چہیتے وزیر کی تھی۔ بار بار اجلاس ہوتا۔ پرویز الٰہی مجھے قائل کرنے کی کوشش کر کے دباؤ کا بتاتے لیکن آخر کار میری بات مان لی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے بعد اور میرے ایران ٹرانسفر کے بعد بلڈنگ کا اندرونی حصہ گرا دیا گیا۔ شکر ہے سامنے کا حصہ بچ گیا۔

لاہور کے آثار قدیمہ پر پہلا حملہ اس وقت ہوا جب انتظامیہ پر سڑکیں کشادہ کرنے کا جنون سوار ہوا۔ شالا مار باغ کے فواروں تک پانی پہنچانے کے لیے مغلوں نے ایک ہائیڈرولک سسٹم بنایا تھا جو پوری دنیا کے لیے ایک حیرت کدے سے کم نہ تھا۔ شالا مار باغ پر پہلا حملہ انگریز کر گئے تھے جب انھوں نے اس کے اردگرد آباد باغات کے بیچوں بیچ سڑک نکالی تھی۔ انگریزوں کے بعد ایسی سڑکیں بنانے کا جنون پنجاب کے حکمرانوں کا خاصہ تھا۔ شالا مار باغ کی جی ٹی روڈ کی توسیع کا حکم دیا گیا اور بلڈوزروں نے ایک دن اس تاریخی ہائیڈرولک سسٹم کو مسمار کر دیا۔ شالامار باغ عالمی ورثے کی اس فہرست میں شامل تھا جسے یونیسکو مرتب کرتی ہے۔ اسے فوراً لسٹ سے خارج کر کے ایک دوسری لسٹ میں شامل کیا جسے ’’Endangered‘‘ یعنی خطرات میں گھری عمارات کی فہرست کہتے ہیں۔ جب کبھی اس کی دوبارہ شمولیت کا کیس ہم یونیسکو لے کر جاتے وہ لوگ ہمارے حکمرانوں کی حس لطیف کا مذاق اڑاتے۔

لاہور کی خوبصورتی پر دوسرا حملہ میٹروبس سے شروع ہوا اور اب اورنج ٹرین اس بدنمائی میں اضافہ کرنے جا رہی ہے۔ عوام کو سہولت پہنچانے کے لیے اس طرح کا منصوبہ پرویز الٰہی کے دور میں اپنی منصوبہ بندی کے آخری مراحل میں تھا۔ لیکن یہ ایک زیر زمین ٹرین تھی جیسا دنیا کے تمام مہذب ممالک میں ہوتی ہیں۔ اس کے کچھ حصوں میں بحیثیت ڈائریکٹر جنرل محکمۂ آثار قدیمہ اعتراض کیا تھا کہ یہ تاریخی ورثے کے لیے خطرہ ہیں۔ جنھیں بسر و چشم قبول کر لیا گیا تھا۔ لیکن چونکہ وہ منصوبہ پرویز الٰہی نے شروع کیا تھا تو یقینا بعد میں آنے والوں نے اسے جاری نہیں رکھنا تھا، اس لیے اسے ترک کر دیا گیا۔ اب اس کے مقابلے میں کچھ تو کرنا تھا ‘خواہ اس منصوبے کے بھونڈے پن سے پورے لاہور کو بدنما کر کے رکھ دیا جائے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کا بھونڈا پن اور بدنمائی ان علاقوں میں نہیں ہوتی جہاں ان ارباب اختیار کی رہائش گاہیں ہوتی ہیں۔ واپڈا کے لوگ شالا مار باغ کے سامنے سے بڑے بڑے کھمبے گزارنا چاہتے تھے، میں ڈٹ گیا، بات اوپر تک پہنچی، گورنر خالد مقبول اپنے آخری دور میں تھے۔ اجلاس میں واپڈا والوں نے ایک ایکٹ نکالا اور کہا ہم تو گورنر ہاؤس کے اندر بھی گھمبے لگا سکتے ہیں۔ میں نے کہا جس دن گورنر ہاؤس میں کھمبا لگا دو گے میں شالامار کے سامنے اجازت دے دوں گا۔ بات سنی گئی تھی۔ لیکن مجھے حیرت ہوئی جب واضح قوانین کے ہوتے ہوئے محکمہ آثار قدیمہ نے کیسے ان تاریخی عمارات کے سامنے سے اورنج ٹرین کا این او سی دے دیا۔ شاید وہ اس جھاڑ اور بے عزتی سے ڈر گئے جو نہ دینے پر ان کا مقدر ہوتی۔

یہ اورنج ٹرین گورنر ہاؤس کے اندر سے ہوتی ہوئی جی او آر ون اور پھر نہر سے نکلتی گلبرگ اور ماڈل ٹاؤن کے اوپر سفر کرتی، رائے ونڈ کے جاتی امرا کیوں نہیں جاتی۔ اسے وہی گلی محلے کیوں یاد آتے ہیں جہاں غرباء اور مساکین یا مڈل کلاس کے لوگ صدیوں سے چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہ رہے ہیں یا چھوٹا موٹا کاروبار کر رہے ہیں۔ ترقی کی اس علامت ٹرین میں کون سفر کرے گا۔ وہ مریض جس کو اسپتال میں دوا نہیں ملتی اور پرچی تھامے لوٹ رہا ہو گا، وہ مزدور جسے مزدوری نہ ملے، وہ بے روزگار جسے نوکری نہ ملے، وہ بیمار جسے صاف پانی نہیں ملتا تھا اور وہ ہیپاٹائٹس کا شکار ہو گیا۔

وہ غریب طالب علم جس کے پاس پیسے نہ تھے جس سے اعلیٰ تعلیم جاری رکھ سکے۔ وہ مظلوم جسے روز تھانے اور کچہری میں ذلیل کیا جاتا ہے۔ ایسے دکھوں سے لتھڑے ہوئے انسانوں کو لے کر ایک خوبصورت ایئرکنڈیشنڈ ٹرین جب ان علاقوں سے گزرے گی جہاں کبھی ویسے ہی غریب بستے تھے جن کا مکان اور کاروبار اس کی نذر ہو گئے تو کیسا سماں ہو گا۔ دلی شہر صرف اور صرف مسلمانوں کے عظیم ثقافتی ورثے سے بھرا پڑا ہے۔

بھارت کی متعصب ہندو بی جے پی حکومت نے جب دلی میں ماس ٹرانسٹ منصوبہ شروع کیا تو وہاں کے ڈائریکٹر جنرل آثار قدیمہ کو کہا گیا کہ بتاؤ کہیں اس ورثے کو نقصان تو نہیں پہنچے گا، یہ بدنما تو نہیں ہو جائے گا۔ اس قدر احتیاط برتی گئی کہ کہیں تاریخی عمارت کے قریب بڑا اسٹیشن نہ بنایا جائے جو اس کی شان و شوکت میں کمی کر دے۔ تاریخ لکھنے والا جب تاریخ لکھے گا تو وہ کبھی یہ فراموش نہیں کر سکے گا کہ ہم مسلمانوں کے ثقافتی ورثے کے تحفظ میں بی جے پی کی حکومت سے بھی گرے ہوئے تھے۔ ہمارے تعصبات نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا اور ہم لاہور شہر کو ایک ایسا شہر بنانے کے قابل ہو گئے جہاں کے رہنے والے حس لطیف سے عاری اور اسقدر گنوار تھے کہ اپنی ساری خوبصورتی اپنے ہاتھوں سے تباہ و برباد کر گئے۔ہم سے تودلی کے حکمران ہی بہتر تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔